توسل غیر شرعی شرک کا ایک چور دروازہ ہے
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

توسل غیر شرعی

توسل کا معنی:

’’وسیلہ‘‘ کے معنی ہیں ذریعہ تقرب۔
المنجد.

’’لغات القرآن‘‘ میں ہے کہ ’’خطیب‘‘ اور ’’رازی‘‘ رحمہم اللہ کے نزدیک ’’وسیلہ‘‘ کا معنی ہے قرب کا ذریعہ، قریب کر دینے والا ۔
لغات القرآن، جلد ششم، لفظ ’’الوسيله‘‘.

امام راغب اصفہانیؒ رقم طراز ہیں:

’’الوسیلہ‘‘ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں۔ قرآن میں ہے:

(وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ)

” اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو۔“

در حقیقت توسل الی اللہ علم و عبادت اور مکارم شریعت کی بجا آوری سے طریقہ الہی کی محافظت کرنے کا نام ہے، اور یہی معنی ” تقرب الی اللہ کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو ’’واسل‘‘ کہا جاتا ہے۔
مفردات القرآن، لفظ ’’الوسيله‘‘.

جميع مفسرین نے آیت کریمہ (( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ)) (المائده : ٣٥) میں ’’وسیلہ‘‘ سے اطاعت و عبادت مراد لی ہے۔

مثلاً ابن جریر طبری اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں رقم کرتے ہیں:

((وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ يَقُولُ: وَاطْلُبُوا الْقُرْبَةَ إِلَيْهِ بِالْعَمَلِ بِمَا یرضیہ))
تفسیر طبری ٠٥٦٦/٤

((وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ))

کا معنی ہے ہر اُس ذریعہ کے طالب رہو جس سے تم اللہ کا قرب حاصل کر سکو، اور اس کی رضا کو پہنچ سکو ۔

اور ابن کثیرؒ نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

(( أَى تَقَرَّبُوا إِلَيْهِ بِطَاعَتِهِ وَالْعَمَلِ بِمَا يُرْضِيهِ))
تفسير ابن كثير ٢/ ٥٣٥، بتحقيق عبدالرزاق مهدی۔

’’یعنی (وسیلہ کا معنی ہے کہ) تم اطاعت (فرمانبرداری) کر کے اللہ عزوجل کا قرب حاصل کرو۔“

علامہ آلوسی حنفیؒ تحریر فرماتے ہیں:

((الْوَسِيْلَةُ هِيَ فَعِيْلَةٌ بِمَعْنَى مَا يُتَوَسَّلُ بِهِ وَيُتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ من فعل الطَّاعَاتِ وَتَرْكِ الْمَعَاصِي .))
تفسير روح المعاني ١٢٤/٤۔

’’یعنی ’’وسیلہ‘‘ ، ’’فعیلہ‘‘ کے وزن پر ہے، اس کے معنی ہیں اطاعت (فرمانبرداری) کر کے اور گناہوں کو چھوڑ کر اللہ عزوجل کا قرب حاصل کرنا ۔“

وسیلہ کی جائز صورتیں :

جائز اور مشروع توسل کی بھی چند اقسام ہیں، جن کا بیان ذیل کی سطور میں آئے گا۔

توسل باسماء الله وصفاتہ:

اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی اور پاکیزہ صفات کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کرنا، جیسا کہ اللہ عز و جل نے ہمیں حکم دیا ہے:

(وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎)

(الأعراف : ۱۸۰)

’’اللہ کے بہت ہی اچھے نام ہیں، پس تم لوگ انہی ناموں کے ذریعہ پکارو، اور ان لوگوں سے برطرف ہو جاؤ جو اس کے ناموں کو بگاڑتے ہیں (اس کے غلط معنی بیان کرتے ہیں) اور انہیں عنقریب ان کے کیے کی سزادی جائے گی ۔‘‘

توسل بتوحید اللہ تعالیٰ:

جیسا کہ سیدنا یونسؑ نے کیا تھا کہ انہیں مچھلی نے نگل لیا، تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے، پھر دعا کی:

(لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ)

(الانبياء: ۸۷)

تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو تمام عیوب سے پاک ہے، میں یقیناً قصور وار تھا۔

توسل بالاعمال الصالحه والايمان الصالح:

بارگاہ الہیٰ میں قرب یا رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے ایمان صالح اور نیک اعمال بھی جائز اور مشروع وسیلہ ہو سکتے ہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کو ملاحظہ کیجئے گا کہ مومنین نے ایمان صالح کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر کے مغفرت کی درخواست کی ہے۔

(رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ)

(آل عمران : ۱۹۳)

’’اے ہمارے رب! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان لانے کے لیے پکار رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے لوگو! تم اپنے رب پر ایمان لے آؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! تو ہمارے گناہوں کو معاف کردے، اور ہماری خطاؤں سے درگز رفرما، اور دنیا سے ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ اُٹھا۔‘‘

اور جیسا کہ ان تین لوگوں کے متعلق حدیث پاک میں آیا ہے جن پر چٹان کھسک آئی تھی اور ان کی غار کا دروازہ بند ہو گیا تھا، وہ نکل نہیں پا رہے تھے لہذا انہوں نے نیک اعمال کا توسل اختیار کیا، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے ان سے چٹان کو کھسکا دیا اور وہ اس سے نکل آئے۔
صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب حديث الغار، رقم: ٣٤٦٥ صحيح مسلم، کتاب الرقاق، باب قصة أصحاب الغار الثلاثة، والتوسل بصالح الأعمال، رقم: ٢٧٤٣۔

اس حدیث کے تحت مولانا صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں :

’’معلوم ہوا کہ نیک اعمال کے وسیلے سے دعا کرنی جائز ہے تا ہم توسل بالذات، ایک بدعی عمل ہے جس سے اجتناب کیا جائے ، کیونکہ ایک تو اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ دوسرے، یہ خیر القرون کے تعامل کے خلاف ہے ۔‘‘
رياض الصالحين ۳۹/۱، طبع دار السلام.

اپنی کمزوری اور حاجت کے اختیار کے ذریعہ توسل :

جیسا کہ سیدنا ایوبؑ نے کہا تھا:

(أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ)

(الأنبياء : ۸۳)

’’مجھے تکلیف دہ بیماری لاحق ہو گئی ہے، اور تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ اللہ لکھتے ہیں:

’’اسمائے حسنیٰ اور صفات الہیٰ کے واسطے سے اللہ کے حضور دعا اور گریہ زاری سے مصیبت دور ہوتی ہے، اور دنیا کی مصیبت و تکلیف اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ بندہ اپنے رب کی نگاہ میں ذلیل و بد بخت ہے، اور ایمان و اخلاص کے ساتھ صبر کرنے سے اللہ تعالی پہلے سے کئی گنا زیادہ دیتا ہے ۔
رحمٰن، ص: ٩٣٦.

توسل بالدعاء:

انبیاء وصلحاء کی زندگی میں ان سے دعا کرانا اور ان کی شفاعت کو بارگاہ الہی میں وسیلہ ٹھہرانا بھی درست اور جائز ہے، جیسا کہ صحابہ کرامؓ کیا کرتے تھے کہ جب خشک سالی آتی تو وہ نبی کریم ﷺ کے چچا مکرم سیدنا عباسؓ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ ان کے لئے دعا کرتے تھے ۔
صحیح بخاری، کتاب الاستسقاء، رقم: ۱۰۱۰، کتاب فضائل أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، رقم: ۳۷۱۰.

توسل باعتراف المعاصي :

جیسا کہ موسیٰؑ نے کیا:

(قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي)

(القصص : ١٦)

’’بولے کہ اے میرے رب! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، اس لئے تو مجھے معاف کر دے۔‘‘

شرکیہ توسل:

مندرجہ بالا سطور میں مذکور جائز اور مشروع توسل کے علاوہ جو بھی طریقہ توسل اختیار کیا جائے گا وہ غیر شرعی ، بدعی اور شرک ہوگا، مثلاً مردوں سے دعا اور سفارش اور رسول اللہ ﷺ کے عالی رتبہ کے ذریعہ توسل وغیرہ ، یاد رہے کہ غیر شرعی ، بدی اور شرکیہ توسل کی بھی متعدد اقسام ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

توسل بالاموات:

’’توسل بالاموات‘‘ یعنی مردوں سے مانگنا، اُن سے سفارش طلب کرنا اور انہیں وسیلہ ٹھہرانا اس لیے جائز نہیں کہ مردہ دعا پر قدرت نہیں رکھتا ہے، جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں رکھتا تھا ۔ علامہ الشیخ سلیمان بن محمان توسل کی بحث کرتے ہوئے رقم کرتے ہیں کہ :

(( فَإِنَّ التَّوَسُّلَ بِالنَّبِيَّ فِي عُرْفِ الصَّحَابَةِ هُوَ التَّوَسُّلَ بِدُعَائِهِ وَكَذَلِكَ لَمَّا تَوَسَّلَ عُمَرُ بِالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِنَّمَا هُوَ بِدُعَائِهِ لقوله قُم يَا عَبَّاسُ فَادْعُ اللهَ وَكَفَول مُعَاوِيَةَ لِيَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْجُرَشِى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قُم يَا يَزِيدُ فَادْعُ اللَّهَ وَلَيْسَ هَذَا تَوَسُّلًا بِالذَّوَاتِ لأن التَّوَسُّلَ بِالدَّوَاتِ لَمْ يَرِدُ إِلَّا بِلَفْظِ غَيْرِ ثَابِتٍ لَا يَصِحُ، والتَّوَسُّلُ بِالْأَعْمَالِ قَدْ ثَبَتَ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ الصَّحِيحَةِ .))
البيات المبدي، ص: ۱۱۳ بحواله تسكين الصدور، ص: ٤٢٦-٠٤٢٧

’’حضرات صحابہ کرامؓ کے عرف میں توسل بالنبی ﷺ ، توسل بالدعاء ہی تھا (یعنی آپ ﷺ سے دعا کرانا ، اور اسی طرح جب سیدنا عمرؓ نے سیدنا عباسؓ سے توسل کیا تو اُن سے دعا کروائی، اور فرمایا کہ اے عباسؓ ! آپ کھڑے ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اور اسی طرح سیدنا معاویہؓ نے سیدنا یزید بن الاسود الجرشیؓ سے فرمایا تھا کہ اے یزید! کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور یہ توسل بالذوات نہیں، کیونکہ توسل بالذوات کے بارے میں کوئی صحیح لفظ ثابت نہیں اور توسل بالا عمال کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت صحیحہ سے ثابت ہے۔“

علامہ انور شاہ کشمیری بھی دعائے عباسؓ سے استقاء کے واقعہ سے یہی ثابت کرتے ہیں کہ اس واقعہ سے عرف صحابہ اور توسل سلف پر تو روشنی پڑتی ہے، مگر تو سل متأخرین جو بالذوات یا بالاموات یا غائبانہ ہوتا ہے، اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے توسل معبود ثابت ہوتا ہے۔

((قوله ’’اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسُّلَ بِنَبِيْنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘ لَيْسَ فِيهِ التَّوَسلَ الْمَعْهُودَ الَّذِي يَكُونُ بِالْغَائِبِ حَتَّى قَد لا يكون بـ شُعُورٌ أَصَلا ، بَلْ فِيهِ تَوَكَّلُ السَّلَفِ وَهُوَ أَن يُقَدَّمَ رَجُلًا ذَا وَجَاهَةٍ عند الله تَعَالَى وَيَأْمُرُهُ أَن يَدْعُولَهُم ثُمَّ يَحِيلُ عَلَيْهِ فِي دُعَائِهِ كَمَا فُعِلَ بِعَبَّاس رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ كَانَ فِيْهِ تَوَكَّلُ الْمُتَأَخَرِينَ لَمَّا احْتَاجُوا بِاذْهَابِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَعَهُمُ ، وَلَكَفَى لَهُمُ التَّوَسُّلُ بِنَيْهِمْ بَعْدَ وَفَاتِهِ أَيضاً .))
فيض الباري ٢/ ٣٧٩.

’’سیدنا عمرؓ کے اس قول ’’اللهم … الخ‘‘ سے وہ معہود توسل مراد نہیں جو غائب سے کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو اس کا بالکل شعور بھی نہیں ہوتا، بلکہ اس حدیث میں سلف کے توسل کا ذکر ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی ایسے آدمی کو آگے کیا جائے جو اللہ کے نزدیک صالح ہو، اور اس سے التجا کی جائے کہ وہ ان کے لئے دعا کرے، پھر اس کا اپنی دعا میں حوالہ دیا جائے ، جیسا کہ سیدنا عباسؓ سے کیا گیا، اور اگر اس سے متاخرین کا توسل مراد ہوتا تو سیدنا عباس کو ساتھ لے جانے کی ان کو ضرورت ہی کیا تھی۔ ان کے لئے بس یہی کافی تھا کہ وہ اپنے نبی ﷺ کے ساتھ ان کی وفات کے بعد بھی توسل کر لیتے ۔ (جیسا کہ آپ کی زندگی میں کیا کرتے تھے۔)‘‘

علامہ انور شاہ کاشمیری در اصل اس عبارت میں ان لوگوں کا رد کر رہے ہیں جنہوں نے آیت ’’وسیلہ‘‘ اور واقعہ ’’استقاء‘‘ سے ’’وسیلہ بالذوات‘‘ پر باطل استدلال کیا ہے، اور عبارت اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے، مگر بقول بعض

تیرا ہی جی نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں

اسی واقعہ استقاء کو نقل کرنے کے بعد علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی (۱۲۶/۴) میں رقم طراز ہیں:

((فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ التَّوَسَّلُ بِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ بَعْدَ الْتِقَالِهِ مِنْ هَذِهِ الدَّارِ لَما عَدَلُوا إِلَى غَيْرِهِ ، بَلْ كَانُوا يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَتَوَكَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَاسْقِنَا .))

’’اسی لئے اگر آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے ساتھ تو سل جائز ہوتا تو وہ آپ کے سوا کسی اور کی طرف رجوع نہ کرتے ، بلکہ یونہی کہتے کہ اے اللہ ! ہم اپنے پیغمبر کو تیرے سامنے وسیلہ لائے ہیں تو ہم کو بارش عطا فرما۔‘‘

اور پھر اسی مقام پر لکھتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے استشفاع کے معاملے میں آپ کی حیات و ممات کا برا بر ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں۔

((وَتَسَاوِي حَالَتِي حَيَاتِهِ وَوَفَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الشَّأْنِ مُحْتَاجٌ إِلَى نَصِّ وَلَعَلَّ النَّصَّ عَلَى خِلَافِهِ.)) انتهىٰ.

’’اور اس مسئلہ (استشفاع ) میں آپ ﷺ کی حالت حیات اور حالت ممات کا برابر ہونا نص کا محتاج ہے، اور شاید نص اس کے خلاف پر دلالت کرتی ہو۔“

مزید لکھتے ہیں:

((وَأَمَّا إِذَا كَانَ الْمَطْلُوبُ مِنه مَيْتًا أَوْ غَالِبًا فَلَا يَسْتَرِيبُ عَالِمٌ أَنَّهُ غَيْرُ جَائِرٌ ، وَأَنَّهُ مِنَ الْبَدَعِ الَّتِي لَمْ يَفْعَلُهَا أَحَدٌ مِنَ السَّلَفِ.))
روح المعاني ١٢٥/٤.

’’یعنی میت اور غائب شخص سے دعا کرانے کے ناجائز ہونے میں کسی بھی عالم کو شک نہیں ہے، اور یہ ایسی بدعت ہے جس کا ارتکاب سلف سے کسی نے بھی نہیں کیا۔

اور لکھتے ہیں:

(( وَلَمْ يَرِدُ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَىٰ عَنْهُمْ – وَهُمُ أَحْرَصُ الْخَلْقِ عَلَى كُلِّ خَيرُ – أَنَّهُ طَلَبَ مِنْ مَّيْتٍ شَيْئًا . ))
روح المعانى ١٢٥/٤.

’’یعنی صحابہؓ سے بڑھ کر ثواب کا حریص اور کون حریص ہوسکتا ہے، لیکن کسی صحابی سے بھی منقول نہیں ہے کہ انہوں نے صاحب قبر سے کچھ مانگا ہو۔“

توسل بجاہ النبی ﷺ وبحرمتہ النبی ﷺ:

ائمہ دین کے نزدیک یہ بھی مشروع و مسنون نہیں ہے، چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

((وَلَمْ يَعْهَدِ التَّوَسَّلَ بِالْجَاهِ وَالْحُرْمَةِ أَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَةِؓ))

’’اور نبی کریم ﷺ کے جاہ و حرمت سے وسیلہ پکڑنا کسی ایک صحابیؓ سے بھی ثابت نہیں .‘‘

(( وَجَعَلَ مِنَ الْأَقْسَامِ الْغَيْرِ الْمَشْرُوعَ قَوْلَ الْقَائِلَ اللَّهُمَّ أَسْتَلْكَ بِجَاهِ فَلَانٍ ….. فَإِنَّهُ لَمْ يُرْوَ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ السَّلَفِ أَنَّهُ دَعَا كَذَالِكَ ))

’’وسیلے کی غیر مشروع قسموں میں ایک قسم قائل کا یہ قول بھی ہے کہ الہی ! میں تجھے سے بجاہ فلاں دعا کرتا ہوں ، بلا شک و شبہ سلف (صالحین) میں سے کسی ایک سے بھی ایسا منقول نہیں کہ انہوں نے اس طرح دعا کی ہو۔‘‘

((وَمَا يَذْكُرُ بَعْضُ الْعَامَّةِ مِنْ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتْ لَكُمْ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى حَاجَةً فَاسْأَلُو اللَّهَ تَعَالَى بِجَاهِي فَإِنَّ جَاهِي عِندَ اللهِ الْعَظِيمِ لَمْ يَرُوهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَلَا هُوَ شَيْءٌ فِي كُتُبِ الْحَدِيثِ .))
روح المعاني، أيضًا تفسير آيت ’’الوسيلة‘‘.

اور جو بعض عوام کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

((إِذَا كَانَتْ لَكُمْ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى حَاجَةً فَاسْتَلُوا اللَّهَ تَعَالَى بِجَاهِي فَإِن جَاهِي عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ))

’’کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی حاجت ہو تو میرے جاہ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ عنداللہ میرا رتبہ ہے۔“

اسے کسی اہل علم نے روایت نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کی کتابوں میں اس کا نام و نشان موجود ہے۔

توسل بالذوات :

’’وسیلہ‘‘ کی ایک صورت جو مشرکین مکہ میں رائج تھی جس نے عیسائیوں میں کفارہ کی صورت اختیار کی ناجائز ہے، قرآن کریم میں اس کی بار ہا مذمت کی گئی ہے ، مگر افسوس کہ خود قرآن کے ماننے والوں نے توسل کے مسئلہ کو کفارہ مسیح کے مرادف سمجھ رکھا ہے، اور انبیاء و صلحاء کی شفاعت کو اس قدر وسیع مانا گیا ہے کہ اللہ کے عدل و انصاف، تعادل میزان اور جزا و سزا کے قانون کی نفی لازم آتی ہے، جس طرح عیسائی کفارہ مسیح پر ایمان لانے کے بعد امتثال امر سے غافل اور پرسش اعمال سے بے پرواہ ہو چکے ہیں اسی طرح نام نہاد مسلمان شفاعت کے غلط تصور اور صلحاء کی ذات کو وسیلہ ٹھہرا لینے کے بعد اطاعت الہی اور مجازات عمل سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ہیں، قرآن کریم نے اس قسم کے وسائل کی نہایت رعب دار الفاظ میں نفی کر دی ہے، اور قیامت کے دن ایسے تمام اسباب منقطع ہو جانے کا اعلان کر دیا ہے، جن سے لوگوں کی باطل آرزوئیں وابستہ ہوتی ہیں۔ فرمایا:

(‏ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ)

(البقرة : ٤٨)

’’اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا، اور نہ کسی کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی، اور نہ ہی کوئی معاوضہ لیا جائے گا ، اور نہ ان کی مدد کی جائے گی ۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

(إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ)

(البقرة : ١٦٦)

’’جب پیشوا لوگ اپنی اتباع کرنے والوں سے اظہار برأت کر دیں گے، اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اور تمام ہی اسباب و وسائل ختم ہو جائیں گے۔

ایک اور مقام پر فرمایا کہ جن کو تم اپنے لیے وسیلہ سمجھتے ہو وہ تو خود اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ کون سا ان میں سے قریب تر ہے۔

(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمُ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرَ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا ،اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗؕ-اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا)

(بني إسرائيل : ٥٧٠٥٦)

’’آپ کہہ دیجئے کہ تم اُن کو پکار و جنہیں اللہ کے سوا تم نے اپنا معبود سمجھ رکھا ہے، وہ نہ تمہاری تکلیف دور کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، اور نہ ہی اُسے بدل ڈالنے کی، جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ تو خود ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں، کہ کون اس کے زیادہ قریب ہو جائے ، اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہیں، اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بے شک آپ کے رب کا عذاب ایسا ہے جس سے ڈرا جاتا ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر ان لوگوں کو ڈرایا ہے جو اللہ کو خالق، رازق اور مربی ماننے کے بعد کسی کو شفیع، واسط، وسیلہ اور تقرب بارگاہ الہی کا ذریعہ جان کر اللہ کی الوہیت میں شریک کرتے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ اللہ کی حکومت کے پہلو بہ پہلو نہ ان کی حکومت ہے، نہ اس کی حکومت میں ان کی کچھ شرکت ہے، نہ مخلوقات میں سے کوئی اس کا مددگار ہے نہ پشت پناہ، اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ماسوائے اس سے دلوں کا رشتہ بالکل کاٹ دیا، نہ رغبت جائز رکھی نہ رہبت، نه عبادت، نه استعانت نہ تو کل اور نہ توسل، غرض کوئی چیز باقی نہیں رکھی ، جس میں شرک کا ادنیٰ شائبہ بھی موجود ہو۔

(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ)

(سبا: ۲۲)

’’اے میرے نبی ! آپ مشرکوں سے کہیے کہ جنہیں تم اللہ کے سوا معبود بنا بیٹھے ہو انہیں پکا رو تو سہی، وہ تو آسمانوں اور زمین میں ایک ذرہ کے برابر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں، اور نہ ان دونوں کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہے، اور نہ ان لوگوں میں سے کوئی اس کا مددگار ہے۔‘‘

البتہ ایک شفاعت باقی رکھی ہے، مگر اس کے بارے میں بھی صاف اور واضح فرما دیا:

(وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗؕ)

(سبا : ٢٣)

’’اور نہ اس کے نزدیک سفارش کام آئے گی ،سوائے اس شخص کے جس کے لئے وہ سفارش کی اجازت دے گا۔‘‘

علامہ ابن قیمؒ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

(( وَقَدْ قَطَعَ اللهُ الْأَسْبَابَ الَّتِي يَتَعَلَّقُ بِهَا الْمُشْرِكُونَ جَمِيعَهَا فَالْمُشْرِكُ إِنَّمَا يَتَّخِذُ مَعْبُودَهُ كَمَا يَحْصِلُ لَهُ مِنَ النَّفْعِ ، وَالنَّفَعُ لَا يَكُونُ إِلَّا مِمَّنْ فِيهِ حَصْلَةٌ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَ : إِمَّا مَالِكُ مِمَّا يُرِيدُ عَابِدُهُ مِنْهُ ، فَإِنْ لَمْ يَكُن مَالِكًا كَانَ شَرِيكًا لِلْمَالِكِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُن شَرِيكًا لَهُ كَانَ مُعِيْنًا لَهُ وَظَهِيرًا ، فَإِن لَمْ يَكُن مُعِينًا وَلَا ظَهِيرًا كَانَ شَفِيعًا عِنْدَهُ . فَنَفَى اللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمَرَاتِبَ الْأَرْبَعَ نَفْيًا مرتبهُ مُنتَقِلًا مِنَ الأعلى إلى الأذني ، فَتَقَى الْمِلْكَ وَالشَّرُكَةَ وَالْمُظَاهَرَةَ ، وَالشَّفَاعَةَ الَّتِي يَطْلُبُهَا الْمُشْرِكُ ، وَأَثْبَتَ شَفَاعَةٌ لَا نَصِيبَ فِيهَا لِمُشْرِك ، وَهِيَ الشَّفَاعَةُ بِإِذْنِهِ . ))
فتح المجيد، ص : ١٧٩.

’’یعنی اس آیت کریمہ میں ان تمام بنیادوں کو ڈھا دیا گیا ہے جن پر مشرکین کے اعتقادات کی عمارت قائم تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ مشرک صرف حصول منفعت کے لئے ہی شرک کرتا ہے اور کوئی شخص اس وقت تک نفع نہیں دے سکتا جب تک کہ اس میں ان صفات اربعہ میں سے کوئی وصف موجود نہ ہو، یا تو وہ خود اس چیز کا مالک ہو جو اس سے مانگی جاتی ہے، یا اس سے کم یعنی وہ مالک کا شریک ہو، یا اس سے بھی کم کہ وہ مالک کا معین و مددگار ہو، یا اس سے بھی کمتر یعنی وہ مالک کے ہاں سفارش ہی کر سکتا ہو، پس اللہ تعالیٰ نے ان سب مراتب کی نفی کردی، نہ کسی کا ملک ہے، نہ شرکت کا مظاہرہ ہے اور نہ سفارشی ، البتہ ایک شفاعت کو بحال رکھا ہے جو اللہ تعالی کے اذن سے ہوگی ، اس میں مشرک کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے، وہ صرف اہل توحید کے لئے ہو سکتی ہے۔‘‘

وَفِي هَذَا كَفَايَةٌ لِمَنْ لَهُ دِرَايَةٌ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے