إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
در حقیقت غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ ﴿١٥﴾ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿١٦﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٧﴾
(87-الأعلى:14تا 17)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا ، پس نماز پڑھی ۔ بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے ۔“
حدیث 1
«عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ليس الغنى عن كثرة رضي الله العرض ولكن الغنى غنى النفس»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب الغنى عنى النفس، رقم: 6446.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو نگری کثرت مال کا نام نہیں بلکہ دل کی (مال و دولت سے) بے نیازی کا نام ہے۔“
طویل خواہشات انسان کو آخرت سے غافل کر دیتی ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا﴾
(25-الفرقان:43)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنالیا ہے؟ کیا پھر آپ اس کے ذمہ دار بنتے ہیں۔“
حدیث 2
«وعن على بن أبى طالب رضی اللہ عنہ قال: إنما أخشى عليكم اثنين: طول الأمل واتباع الهوى، فإن طول الأمل ينسى الآخرة ، وإن اتباع الهوى يصد عن الحق»
شرح السنة، كتاب الرقاق، باب طول الأمل والحرص، ص: 286.
”اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں: مجھے تمھارے بارے میں دو باتوں کا ڈر ہے، طویل اُمیدیں اور خواہشاتِ نفس کی پیروی۔ طویل اُمیدیں انسان کو آخرت سے غافل کر دیتی ہیں اور خواہشات نفس کی پیروی حق بات کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ “
مال کے بڑھنے سے انسان کی خواہشات بھی بڑھنے لگتی ہیں
حدیث 3
«وعن ابن عباس رضى الله عنه يقول: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول : لو كان لابن آدم واديان من مال لابتغى ثاليا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب ويتوب الله على من تاب»
صحیح بخاری کتاب الرقاق، رقم: 6438.
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی آرزو کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھر سکتی سوائے مٹی (قبر) کے، اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں جو ( مال و دولت کی حرص چھوڑ کر ) اس کی طرف رجوع کرے۔ “
انسان کی لمبی امیدیں اور خواہشات
حدیث 4
«وعن عبد الله بن الزبير رضى الله عنه قال: يا أيها الناس إن النبى صلى الله عليه وسلم كان يقول: لو أن ابن آدم أعطي واديا ملا من ذهب أحب إليه ثانيا ، ولو أعطي ثانيا ، أحب إليه ثالثا ، ولا يسد جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم : 6438 ۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
” اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اے لوگو! بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے: ابن آدم کو اگر سونے سے بھرا ہوا ایک جنگل دے دیا جائے تو دوسرے جنگل کی خواہش کرے گا۔ اگر اسے دوسرا سونے سے بھرا جنگل دے دیا جائے تو وہ تیسرے کی خواہش کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ تو (قبر کی) مٹی ہی بھرتی ہے اور جان رکھو! اللہ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں (جو مال کی ہوس چھوڑ کر) اللہ کی طرف رجوع کرے۔ “
حرام مال آخرت میں سراسر باعث و بال ہوگا
حدیث 5
«وعن القاسم بن مخيمرة رحمه الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من اكتسب مالا من مأثم، فوصل به رحمه ، أو تصدق به ، أو أنفقه فى سبيل الله ، جمع ذلك كله جمعا ، فقذف به فى جهنم»
الترغيب والترهيب للالباني رقم : 1721 .
”اور حضرت قاسم بن مخیمرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس آدمی نے حرام طریقے سے مال کمایا اور اس کے ساتھ صلہ رحمی کی یا صدقہ و خیرات کیا یا فی سبیل اللہ خرچ کیا، ان سب نیکیوں کو جمع کیا جائے گا اور حرام کمانے والے کے ساتھ ان نیکیوں کو بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ “
دنیا کا میٹھا مال آخرت میں کڑوا ثابت ہوگا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ﴿٨٨﴾ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴿٨٩﴾
(26-الشعراء:88، 89)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جس دن نہ مال کوئی نفع دے گا اور نہ ہی اولا د۔ الا یہ کہ کوئی اللہ کے پاس (شرک و بدعت سے پاک) صحیح سالم دل کے ساتھ حاضر ہو۔“
حدیث 6
«وعن أبى مالك الأشعري رضى الله عنه أنه لما حضرته الوفاة قال: يا معشر الأشعريين ليبلع الشاهد الغائب، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: حلوة الدنيا مرة الآخرة، ومرة الدنيا حلوة الآخرة»
المستدرك للحاكم، كتاب الزهد : 331/2۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو اپنے قبیلہ اشعری کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہنے لگے : موجود لوگ میری بات غیر حاضر لوگوں تک پہنچادیں۔ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے: دنیا کی مٹھاس آخرت کی کڑواہٹ اور دنیا کی کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے۔“
طالب دنیا مسلسل پریشان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ ﴾
(42-الشورى:20)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور جو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے ہم اس میں سے کچھ دے دیں گے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔“
حدیث 7
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كانت الآخرة همه جعل الله غناه فى قلبه ، وجمع له شمله ، وأتته الدنيا وهى راغمة ، ومن كانت الدنيا همه جعل الله فقره بين عينيه ، وفرق عليه شمله، ولم يأته من الدنيا إلا ما قدرله»
سنن الترمذی، ابواب صفة القيامة : 2465 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 949، 950.
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے آخرت کو اپنا مقصد حیات بنالیا اللہ اس کے دل کوغنی بنا دیتا ہے اور اس کے سارے مسائل سمیٹ دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس نے دنیا کو اپنا مقصد حیات بنا لیا، اللہ اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے فقر رکھ دیتا ہے (اس کی آنکھیں مال سے کبھی نہیں بھرتیں ) اور اس کے سارے مسائل بکھیر دیتا ہے اور دنیا بھی اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جتنی اس کے مقدر میں لکھی ہے۔ “
مال و دولت کے بارے میں ہر انسان دھو کے میں مبتلا ہے
حدیث 8
«وعن عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الله أيكم مال وارثه أحب إليه من ماله؟ قالوا: يا رسول الله! ما منا أحد إلا ماله أحب إليه ، قال: فإن ماله ما قدم ، ومال وارثه ما أخر»
صحیح بخاری کتاب الرقاق، رقم : 6442.
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے اپنے مال کے بجائے دوسروں کا مال پسند ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہم میں ایسا تو کوئی بھی نہیں، ہر ایک کو اس اپنا مال ہی پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے (آخرت کے لیے) بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا وہ تو اس کے وارثوں کا مال ہے۔ “
اللہ کی نافرمانی میں مال کو خرچ کرنے کی مذمت
حدیث 9
«وعن أبى كبشة الأنماري رضى الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أحدثكم حديثا فاحفظوه، فقال إنما الدنيا لأربعة نفر، عبد رزقه الله مالا وعلما ، فهو يتقى فيه ربه ويصل فيه رحمه ، ويعلم لله فيه حقا، فهذا بأفضل المنازل وعبد رزقه الله علما ولم يرزقه مالا فهو صادق النية يقول: لو أن لي مالا لعملت بعمل فلان ، فهو بنيته فأجرهما سواء – وعبد رزقه الله مالا ولم يرزقه علما فهو يخبط فى ماله بغير علم ، لا يتقي فيه ربه ولا يصل فيه رحمه، ولا يعلم لله فيه حقا، فهذا بأخبث المنازل وعبد لم يرزقه الله مالا ولا علما ، فهو يقول: لو أن لى مالا لعملت فيه بعمل فلان ، فهو فهو بنيته فوزرهما سواء»
سنن الترمذی، ابواب الذهد ، رقم : 2325 ، سنن ابن ماجه ، رقم : 4228 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو کبثہ انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: (لوگو!) میں تم سے ایک بات کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا میں چار قسم کے لوگ ہیں:
[1] پہلا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم دونوں سے نواز رکھا ہے اور وہ مال کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے ڈرتا ہے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور مال میں اللہ کا حق جانتا ہے ( زکوۃ اور صدقہ وخیرات کرتا ہے )، یہ آدمی درجات میں سب سے اعلیٰ ہے۔
[2] دوسرا وہ آدمی ہے جسے اللہ نے علم عطا فرمایا لیکن مال عطا نہیں فرمایا، اور وہ نیک نیتی سے کہتا ہے: اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی فلاں آدمی کی طرح خرچ کرتا۔ پس وہ اپنی نیت کا ثواب پائے گا اور دونوں آدمیوں کا ثواب ایک جتنا ہوگا۔
[3] تیسرا آدمی وہ ہے جسے اللہ نے مال دیا ہے لیکن علم نہیں دیا اور وہ اپنے مال کو بغیر علم کے تباہ کر رہا ہے۔ مال کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا اور مال کے ذریعے صلہ رحمی نہیں کرتا اور مال میں اللہ کا حق نہیں جانتا۔ یہ تیسرا آدمی بدترین درجوں میں ہے۔
[4] چوتھا آدمی وہ ہے کہ اللہ نے اسے مال دیا ہے نہ علم دیا ہے۔ وہ یہ تمنا کرتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں کی طرح خوب لٹاتا، یہ چوتھا آدمی بھی اپنی نیت کا گناہ سمیٹے گا اور دونوں کا گناہ برابر ہوگا۔“
دنیا کے پیچھے بھاگنا فاقہ لاتا ہے
حدیث 10
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله يقول: يا ابن آدم تفرع لعبادتي أملا صدرك غنى ، وأسد فقرك ، وإلا تفعل ملات يديك شغلا ولم أسد فقرك»
صحیح ابن حبان، رقم : 2477 كنز العمال، رقم : 43022۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو اپنے آپ کو میری عبادت کے لیے فارغ کرلے، میں تیرا سینہ بھر دوں گا اور تیرا فقر و فاقہ دور کر دوں گا لیکن اگر تو اپنے آپ کو میری عبادت کے لیے فارغ نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے دھندوں میں پھنسا دوں گا اور تیرا فقر و فاقہ دور نہیں کروں گا۔ “
حدیث 11
«وعن زيد بن ثابت قال: سمعت رسول الله يقول: من كانت الدنيا همه ، فرق الله عليه أمره، وجعل فقره بين عينيه، ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له، ومن كانت الآخرة نيته ، جمع الله له أمره، وجعل غناه فى قلبه ، وأتته الدنيا وهى راغمة»
سنن ابن ماجه كتاب الزهد، رقم : 4105 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 950.
”اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے دنیا کو اپنا مقصد حیات بنالیا، اللہ اس کے سارے کام بکھیر دے گا اور اسے فقر و فاقہ میں مبتلا کر دے گا اور دنیا اسے ملے گی اتنی ہی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہے اور جس نے (ہر معاملے میں) آخرت کا ارادہ کیا، اللہ اس کے سارے کام درست فرما دے گا اور اس کے دل کوغنی کر دے گا اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی۔ “
دنیا کے مال کی ہوس انسان کو ہلاک کر دیتی ہے
حدیث 12
«وعن أبى سعيد رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أكثر ما أخاف عليكم ما يخرج الله لكم من بركات الأرض ، قيل: وما بركات الأرض؟ قال: زهرة الدنيا، فقال له رجل: هل يأتى الخير بالشر؟ فصمت النبى صلى الله عليه وسلم حتى ظننا أنه ينزل عليه ثم جعل يمسح عن جبينه فقال: أين السائل؟ قال: أنا ، قال أبو سعيد: لقد حمدناه حين طلع ذلك ، قال: لا يأتى الخير ، إلا بالخير إن هذا المال خضرة حلوة، وإن كل ما أنبت الربيع يقتل حبطا أو يلم إلا آكلة الخضرة ، أكلت حتى إذا امتدت خاصرناها استقبلت الشمس فاجترت وثلطت وبالت ثم عادت فأكلت ، وإن هذا المال حلوة من أخذه بحقه ووضعه فى حقه فنعم المعونه هو، ومن أخذه بغير حقه كان كالذي يأكل ولا يشبع»
صحیح بخاری کتاب الرقاق ، رقم : 6427.
”اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر زمین کی ان نعمتوں کا ہے جو اللہ تمھارے لیے زمین سے نکالے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! زمین کی نعمتوں سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا کی خوش حالی۔ ایک آدمی نے عرض کی کہ کیا خیر سے برائی بھی آتی ہے؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے (حتی کہ ) پھر ہم نے محسوس کیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی مبارک سے پسینہ صاف کیا اور فرمایا: سوال کرنے والا کدھر ہے؟ آدمی نے عرض کی کہ میں ہوں، یارسول اللہ ! سید نا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر ہمیں اس آدمی پر رشک کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بھلائی سے تو بھلائی ہی آتی ہے لیکن یہ دنیا کا مال ( بظاہر ) بڑا سر سبز اور میٹھا لگتا ہے جیسے موسم بہار کی فصل ہری بھری اور خوبصورت ہوتی ہے لیکن وہ (ضرورت سے زیادہ کھانے والے جانور کو بد ہضمی کر کے ) مار ڈالتی ہے یا مرنے کے قریب کر دیتی ہے، سوائے اس جانور کے جو (اعتدال کے ساتھ ) کھائے اور جیسے ہی اس کا پیٹ بھر جائے تو دھوپ میں چلا جائے، جگالی کرے، نرم پاخانہ کرے اور پیشاب کرے (اور ہضم ہونے کے بعد ) دوبارہ چرے (تو وہ جانور ہلاک نہیں ہوگا)۔ پس یاد رکھو! یہ دنیا کا مال (بظاہر ) بہت میٹھا ہے، لیکن جس نے اسے جائز طریقے سے حاصل کیا اور جائز جگہ پر خرچ کیا۔ اس کے لیے یہ مال ثواب کمانے کا بہترین ذریعہ ہے اور جس نے یہ مال ناجائز طریقے سے کمایا اس کی مثال ایسی ہے جو کھاتا ہے اور اس کا پیٹ نہیں بھرتا ( وہ ہلاک ہوتا ہے)۔“
دنیا کا مال اکٹھا کرنے میں زندگی بسر کرنے والا بے وقوف ہے
حدیث 13
«وعن عائشة ر قالت: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : الدنيا دار من لا دار له، ومال من لا مال له، ولها يجمع من لا عقل لہ»
مسند احمد : 71/6 ، شعب الإيمان للبيهقي : 537/7، رقم : 10638 ، الترغيب والترهيب : 4753/4۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح الإسناد قرار دیا ہے۔
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا اس کا گھر ہے جس کا ( آخرت میں) کوئی گھر نہیں، اور دنیا کا مال اس کا مال ہے جس کا ( آخرت میں) کوئی مال نہیں۔ دنیا کا مال وہی جمع کرتا ہے جو بے عقل ہے۔ “
مال اور منصب کا لالچ آدمی کے دین اور ایمان کو تباہ کر دیتا ہے
حدیث 14
«وعن ابن كعب بن مالك الأنصاري رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما ذنبان جائعان أرسلا فى غنم بأفسد لها من حرص المرء على المال والشرف لدينه»
سنن الترمذی، ابواب الزهد ، رقم : 2376 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بکریوں کے ریوڑ میں (چھوڑے گئے ) دو بھوکے بھیڑیے اتنا جانی نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور منصب کی حرص اور لالچ رکھنے والا آدمی دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔ “
دنیا کی محبت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾
(63-المنافقون:9)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارہ
اٹھانے والے ہیں۔ “
حدیث 15
«وعن عبد الله رضى الله عنه قال: سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم يقول: من جعل الهموم هما واحدا هم المعاد، كفاه الله هم دنياه ، ومن تشعبت به الهموم فى أحوال الدنيا، لم يبال الله فى أى أوديتها هلك»
سنن ابن ماجه ، کتاب الزهد، رقم: 4106 ، المشكاة، رقم : 263۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے تمھارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے: جس نے سارے غموں کو ایک غم میں سمو دیا یعنی آخرت کا۔ اللہ اس کے دنیا کے غم اپنے ذمہ لے لے گا اور جو دنیا کے غموں میں مبتلا رہے گا تو اللہ کوکوئی پرواہ نہیں وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔ “
اللہ تعالیٰ گم نام متقی آدمی سے محبت کرتے ہیں
حدیث 16
«وعن سعد بن أبى وقاص رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي»
صحیح مسلم، کتاب الزاهد، رقم: 2965.
”اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے: بے شک اللہ متقی ، غنی اور گم نام رہنے والے بندے سے محبت کرتے ہیں۔ “
ریا کار عالم جنت سے محروم
حدیث 17
«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله : من تعلم علما مما يبتغى به وجه الله ، لا يتعلمه إلا ليصيب به عرضا من الدنيا لم يجد عرف الجنة يوم القيامة»
سنن ابن ماجه ، كتاب السنة، رقم : 252۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے وہ علم حاصل کیا جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو ( وہ درست ہے ) لیکن جو اسے دنیاوی مفادات کے لیے حاصل کرے وہ جنت کی خوشبو نہیں پاسکے گا۔ “
ریا کاری اعمال کو برباد کر دیتی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا﴾
(4-النساء:38)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور ایسے لوگ ( بھی اللہ کو پسند نہیں ) جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اور جس شخص کا ساتھی شیطان ہو تو وہ بہت برا ساتھی ہے۔“
حدیث 18
«وعن ثوبان رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال: لأعلمن أقواما من أمتي يأتون يوم القيامة بحسنات أمثال جبال تهامة بيضا ، فيجعلها الله عزوجل هباء منشورا ، قال ثوبان: يا رسول الله صفهم لنا ، جلهم لنا ، أن لا نكون منهم ونحن لا نعلم ، قال: أما إنهم إخوانكم ومن جلدتكم ويأخذون من الليل كما تأخذون، ولكنهم أقوام إذا خلوا بمحارم الله انتهكوها»
سنن ابن ماجه ، كتاب الزهد، رقم : 4245 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 505.
”اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنی اُمت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے روز سفید تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے۔ اللہ عز وجل انھیں غبار بنا کر اڑا دیں گے۔ سید نا ثو بان رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ان کی نشانی واضح فرما دیں تا کہ ہم لاشعوری طور پر کہیں ان میں شامل نہ ہو جائیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: آگاہ رہو وہ تمھارے جیسے جسم و جان والے تمھارے ہی بھائی بند ہوں گے اور راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے جس طرح تم کرتے ہو، لیکن ان کا حال یہ ہوگا کہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کریں گے۔ “
تواضع کی فضیلت
حدیث 19
«عن عبد الله بن عمر رضى الله عنه قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم : أى الناس أفضل؟ قال: كل محموم القلب صدوق النسان ، قالوا: صدوق اللسان نعرفه ، فما محموم القلب؟ قال: هو التقى النقي ، لا إثم فيه ولا بغي ولا غل ولا حسد»
سنن ابن ماجه ، كتاب السنة، رقم : 4219 ، سلسلة الصحيحة ، رقم : 948.
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ کون سا آدمی سب سے اچھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر مخموم دل اور سچی زبان والا آدمی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ سچی زبان والا تو ہمیں معلوم ہے۔ مخموم القلب سے کیا مراد ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: متقی اور پاک صاف دل، جس میں کوئی گناہ نہ ہو، نہ فخر نہ کینہ ہو، نہ حسد “
آباء و اجداد کی بڑائی پر فخر کرنے کی مذمت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ﴾
(7-الأعراف:88)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اس کی قوم میں سے جو سردار تکبر کرتے تھے انھوں نے کہا: اے شعیب ! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے ضرور نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ گے۔ شعیب نے کہا: کیا (ہم تمھارے دین میں آجائیں ) اگر چہ ہم (اس سے) کراہت کرتے ہیں؟“
حدیث 20
«وعن أبى هريرة و عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لينتهين أقوام يفتخرون بآبائهم الذين ماتوا ، إنما هم فحم جهنم، أو ليكونن اهون على الله من الجعل الذى يدهده الخراء بأنفه ، إن الله اذهب عنكم عبية الجاهلية وفخرها بالآباء ، إنما هو مؤمن تقي أو فاجر شقي ، الناس كلهم بنو آدم وآدم خلق من التراب»
سنن الترمذی ، کتاب المناقب، رقم : 3955 ۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگ فوت شدہ آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں وہ جہنم کا کوئلہ ہیں ورنہ اللہ کے آگے اس گندے گوبر کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے جو اپنی ناک سے گندگی دور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تم سے زمانہ جاہلیت کی نخوت اور آباؤ اجداد پر فخر کرنے کے عیب کو تم سے دور کر چکا ہے، اب یا تو آدمی مومن اور متقی ہے یا پھر فاجر اور شقی ہے (یاد رکھو!) سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ “
متکبر آدمی جنت سے محروم
حدیث 21
«وعن عبد الله رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا يدخل النار من كان فى قلبه مثقال ذرة من إيمان ولا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر فقال الرجل: يارسول الله! إن الرجل ليحب أن يكون ثوبه حسنا ونعله حسنا، فقال: إن الله جميل يحب الجمال، الكبر من بطر الحق وغمص الناس»
صحيح ابن حبان ، كتاب الزينة: 280/12۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا، ایک آدمی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ایک آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، اس کے جوتے اچھے ہوں تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر یہ ہے کہ آدمی حق بات کو ٹھکرادے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔ “
نیکی والی لمبی عمر کی فضیلت
حدیث 22
«عن أم الفضل رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم دخل على العباس وهو يشتكي، فتمنى الموت ، فقال: يا عباس! يا عم رسول الله صلى الله عليه وسلم ! لا تتمن الموت ، إن كنت محسنا تزداد إحسانا إلى إحسانك، وإن كنت مسينا ، فإن توخر تستعتب من إساء تك خير لك ، لا تتمن الموت»
مسند احمد : 339/6 ، معجم کبیر طبرانی : 28/25 ، مجمع الزوائد : 202/10، رقم: 17541 ، الترغيب والترهيب ، كتاب التوبة والزهد، رقم : 3396 ۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحيح الإسناد کہا ہے۔
” اور حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی بیماری میں عیادت کے لیے تشریف لائے تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ موت کی تمنا کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا! موت کی تمنا نہ کرو۔ اگر تم نیکو کار ہو تو عمر کی زیادتی تمھاری نیکیوں میں اضافے کا باعث بنے گی اور یہ تمھارے لیے بہتر ہوگا اور اگر تمھارا شمار گناہ گاروں میں ہے تو تجھے اپنے گناہوں سے تو بہ کرنے کے لیے مہلت مل جائے گی اور وہ بھی تمھارے حق میں بہتر ہے لہذا موت کی تمنا نہ کرو۔ “
گھر، بیوی اور خادم امیری کی نشانی
حدیث 23
«وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضى الله عنه وساله رجل فقال: له عبد الله صلى الله عليه وسلم الك امرأة تأوي إليها؟ قال: نعم قال: ألك مسكن تسكنه؟ قال: نعم قال: فأنت من الأغنياء ، قال: فإن لي خادما ، قال: فانت من الملوك»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم: 2979 ۔
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ب رضی اللہ عنہ سے کسی آدمی نے (فضیلت جتلانے کے لیے) پوچھا کہ کیا ہم فقرائے مہاجرین میں سے نہیں ہیں؟ سید نا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا تیری بیوی ہے جس کے ساتھ تم رہتے ہو؟ آدمی کہنے لگا: ہاں! بیوی تو ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا کیا تمھارے پاس رہنے کے لیے گھر ہے؟ آدمی کہنے لگا ، ہاں ! گھر بھی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: تم اغنیاء میں سے ہو ( فقراء میں سے نہیں)، آدمی نے کہا میرے پاس تو ایک نوکر بھی ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اچھا! پھر تو تمھارا شمار بادشاہوں میں ہوتا ہے۔ “
اچھی صحت بھی ضروریات زندگی میں سے ہے
حدیث 24
«وعن رجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم قال: كنا فى مجلس فجاء النبى صلى الله عليه وسلم وعلى رأسه أثر ماء فقال له بعضنا: نراك اليوم طيب النفس فقال: أجل والحمد لله ، ثم أفاض القوم فى ذكر الغنى فقال: لا بأس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى وطيب النفس من النعيم»
سنن ابن ماجه كتاب التجارات، رقم : 2141 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 174 .
”اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ اکٹھے بیٹھے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر پانی کے آثار تھے ہم میں سے کسی نے عرض کی کہ آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مسرور دیکھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں ! آج میں واقعی بہت مسرور ہوں۔ پھر لوگ آپس میں سرمایہ داری کا ذکر کرنے لگے ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تقویٰ کے ساتھ سرمایہ داری میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ متقی کے لیے صحت سرمایہ داری سے بھی بہتر چیز ہے اور طبیعت کا مسرور ہونا بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ “
زندہ رہنے کے لیے دو ٹائم کی روٹی اور تن کا کپڑا کافی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾
(102-التكاثر:1، 2)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”تمھیں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص نے غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم نے قبرستان جا دیکھے۔ “
حدیث 25
«وعن عبد الله بن الشخير رضى الله عنه قال: أتيت النبى صلى الله عليه وسلم وهو يقرأ ﴿الهكم التكاثر﴾ ، قال: يقول ابن آدم : مالي ، مالي ، قال وهل لك يا ابن آدم من مالك إلا ما أكلت فأفنيت ، أو لبست فابليت، أو تصدقت فامضيت»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم: 2950۔
”اور حضرت عبداللہ بن مخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت سوره الهكم التكاثر کی تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال ، میرا مال! اے ابن آدم! تیرا مال اس سے زیادہ کیا ہے کہ جو تو نے کھا لیا وہ ختم ہو گیا جو تو نے پہن لیا وہ بوسیدہ ہو گیا اور جو صدقہ کیا وہ بچا لیا۔ “
زندہ رہنے کے لیے خادم اور سواری کا گھوڑا کافی ہے
حدیث 26
«وعن سمرة بن سهم رضى الله عنه رجل من قومه قال: نزلت على أبى هاشم بن عتبة رضى الله عنه ، وهو طعين ، فأتاه معاوية يعوده – فبكى أبو هاشم رضى الله عنه ، فقال معاوية رضى الله عنه ما يبكيك؟ أى خال: أوجع يشترك أم على الدنيا؟ فقد ذهب صفوها؟ قال: على كل لا، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلى عهدا، وددت أني كنت تبعته – قال: إنك لعلك تدرك أموالا تقسم بين أقوام ، وإنما يكفيك من ذلك خادم ومركب فى سبيل الله فأدركت ، فجمعت»
سنن ابن ماجه ، كتاب الزهد، رقم: 4103 ، المشكاة، رقم : 5185 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت سمرہ بن سہم رضی اللہ عنہ جو ابو ہاشم کی قوم سے ہیں، سے روایت کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گیا، جو نیزہ لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو ہاشم بھی ان کی عیادت کے لیے آگئے ، سیدنا ابو ہاشم رضی اللہ عنہ رونے لگے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ماموں جان! آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا درد کی تکلیف ہے یا دنیا سے جانے کا رنج ہے۔ (حالانکہ ) زندگی کا بہترین حصہ تو بیت چکا ہے؟ سیدنا ابو ہاشم رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ دونوں باتیں نہیں، اصل بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، کاش! میں اس عہد پر پوراتر تا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: تیرے سامنے مال آئے گا جو لوگوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس مال میں سے تیرے لیے ایک خادم اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ایک سواری کافی ہوگی (اس سے زیادہ نہ لینا) ۔ لیکن افسوس جب میں نے مال پایا تو اس سے زیادہ جمع کر لیا۔“
تندرستی اور اہل وعیال کی سلامتی بہترین اثاثہ
حدیث 27
«وعن سلمة بن عبيد الله بن محصن الأنصاري رضى الله عنه عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أصبح منكم معافى فى جسده ، آمنا فى سربه، عنده قوت يومه فكأنما حيزت له الدنيا»
سنن ابن ماجه، کتاب الزهد ، رقم : 4141 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2318.
”اور حضرت سلمہ بن عبید اللہ بن محصن انصاری رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبح تندرست اٹھے اور اپنے اہل وعیال میں امن میسر ہو اور اس کے پاس ایک دن کی ضرورت کے مطابق روزی بھی ہو تو گویا اس کے لیے ساری دنیا اکٹھی کر دی گئی ۔ “
دنیا کے بیٹے نہ بنو، آخرت کے بیٹے بنو
حدیث 28
«وعن على رضی اللہ عنہ قال: ارتحلت الدنيا مدبرة، وارتحلت الآخرة مقبلة ولكل واحدة منهما بنون ، فكونوا من أبناء الآخرة، ولا تكونوا من أبناء الدنيا فإن اليوم عمل ولا حساب، وغدا حساب ولا عمل»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب فى العمل وطوله، معلقاً.
” اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دنیا پیٹھ پھیر کر رخصت ہو رہی ہے اور آخرت سامنے سے بھاگی چلی آرہی ہے اور دونوں کے الگ الگ بیٹے ہیں۔ تم آخرت کے بیٹے بنو، دنیا کے بیٹے نہ بنو! اس لیے کہ آج عمل کا وقت ہے، حساب کتاب کا نہیں اور کل حساب کتاب کا وقت ہوگا، عمل کا نہیں۔ “
عارضی زندگی سے محبت ابدی زندگی کا خسارہ ثابت ہوگی
حدیث 29
«وعن أبى موسى الأشعري رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أحب دنياه أضر بآخرته ومن أحب آخرته أضر دنياه، فآثروا ما يبقى على ما يفنى»
مسند احمد : 412/4۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے۔
”اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو آدمی دنیا سے محبت کرے گا، وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے گا اور جو آدمی آخرت سے محبت کرے گا وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچائے گا لہذا باقی رہنے والی زندگی کو عارضی زندگی پر ترجیح دو۔ “
دنیا کی ساری دولت دنیا و آخرت کے مقابلہ میں حقیر ہے
حدیث 30
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يجاء بالكافر يوم القيامة فيقال له: أرأيت لو كان لك ملء الأرض ذهبا أكنت تفتدى به؟ فيقول: نعم ، فيقال له: قد كنت سئلت ما هو أيسر من ذلك»
صحیح بخاری کتاب الرقاق، رقم : 6538.
” اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز ایک کافر کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے کہ بتاؤ اگر تمھارے پاس زمین کے (وزن کے ) برابر سونا ہوتو جہنم سے اپنی جان بچانے کے لیے دے دو گے۔ کافر کہے گا کہ ہاں ! دے دوں گا۔ تب اسے کہا جائے گا کہ (دنیا میں ) تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا گیا تھا (جس کا تو نے انکار کر دیا) ۔ “
دنیا پرستوں کی مذمت
حدیث 31
«وعن مرداس بن الأسلمي رضی اللہ عنہ قال: قال النبى صلی اللہ علیہ وسلم يذهب الصالحون الأول فالاول وتبقى جفالة كحفالة الشعير او التمر ، لا يباليهم الله بالة»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم : 6434.
”اور حضرت مرد اس بن اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: نیک لوگ ایک ایک کر کے (دنیا سے) رخصت ہو جائیں گے اور باقی (دنیا دار ) جو کہ بھوسے یا کھجور کے کچرے کی طرح کے لوگ رہ جائیں گے، ان کی اللہ تعالیٰ کو ذرہ برابر پرواہ نہیں ہوگی۔ “
اللہ کے نزدیک یہ دنیا مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا﴾
(4-النساء:77)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے : دنیا کا فائدہ تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے اس شخص کے لیے جس نے پر ہیز گاری اختیار کی اور تم پر کھجور کی گٹھلی کے دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
حدیث 32
«وعن سهل بن سعد رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لو كانت الدنيا تعدل عند الله جناح بعوضة ما سقى كافرا منها شربة ماء»
سنن الترمذى، كتاب صفة جهنم واهلها، رقم : 2320 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 940 .
”اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کا پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتے۔ “
حدیث 33
«وعن النعمان بن بشير رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما من عبد ولا امة إلا وله ثلاثة أخلاء ، فخليل يقول: أنا معك فخد ما شئت ودع ما شئت، فذلك ماله، وخليل يقول: أنا معك فإذا أتيت باب الملك تركتك، فذلك خدمه وأهله، وخليل يقول: أنا معك حيث دخلت وحيث خرجت ، فذلك عمله»
الترغيب والترهيب : 171/4 ، مجمع الزوائد : 250/10 ، رقم : 17844۔ یہ روایت حسن درجہ کی ہے۔
”اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر مرد اور عورت کے تین دوست ہیں۔ پہلا دوست کہتا ہے کہ میں دنیا میں تیرے ساتھ ہوں، جو کچھ چاہے لے لے اور جو چاہے چھوڑ دے، یہ اس کا مال ہے۔ دوسرا دوست وہ ہے جو اسے کہتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں لیکن جب تو فرشتے کے دروازے (موت) پر پہنچے گا تو میں تمھیں چھوڑ دوں گا، یہ دوست اس کے خادم اور اہل وعیال ہیں۔ تیسرا دوست کہتا ہے کہ میں (مستقل) تیرے ساتھ ہوں، جہاں کہیں بھی تو آئے یا جائے اور یہ اس کا عمل ہے۔“
دنیا کی زندگی عارضی اور آخرت کی زندگی ابدی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾
(29-العنكبوت:64)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور بلاشبہ دار آخرت ( کی زندگی ) ہی (اصل) زندگی ہے، کاش! لوگ جانتے ہوتے۔“
حدیث 34
«وعن سهل بر سعد الساعدي رضی اللہ عنہ قال: كنا مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فى الخندق وهو يحفر ونحن ننقل التراب ويمر بنا وقال: اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة فاغفر للأنصار للمهاجره»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم : 6414 .
”اور حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق میں ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ مٹی کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر نگاہ ڈالی اور یہ شعر پڑھا: یا اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی ہے، انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ “
آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حیثیت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ﴾
(13-الرعد:26)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کی نسبت (حقیر ) متاع ہی تو ہے۔“
حدیث 35
«وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بالسوق والناس كنفته فمر بجدي اسك ميت ، فتناوله فأخذ بأذنه ثم قال: أيكم يحب أن هذا له بدرهم؟ فقالوا: ما نحب أنه لنا بشيء وما نصنع به؟ قال: أتحبون أنه لكم؟ قالوا: والله لو كان حيا كان عيبا فيه لأنه اسك، فكيف وهو ميت؟ فقال: فوالله للدنيا اهون على الله من هذا عليكم»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم: 2957.
”اور حضرت جابر (عبد اللہ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بازار میں جا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں طرف لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے کان والے بھیڑ کے مردہ بچے کے پاس سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کان پکڑا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کرتا ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! ہم تو اسے ایک پائی میں بھی خریدنا پسند نہیں کرتے اور اسے خرید کر کیا کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں (کسی بھی طرح) ملے؟ لوگوں نے عرض کی کہ واللہ ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تب بھی یہ عیب والا تھا کہ اس کے کان چھوٹے ہیں، مردہ حالت میں اسے کون لے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! جس طرح یہ مردار تمھارے نزدیک حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ “
اس زندگی کا اعتبار نہیں
حدیث 36
«وعن ابن عمر رضى الله عنه يقول: إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء . وخذ من صحتك لمرضك ومن حياتك لموتك»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: 6416 .
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب شام کر لو تو صبح کا انتظار مت کرو ( شاید صبح سے پہلے ہی موت آجائے ) اور جب صبح کر لو تو شام کا انتظار کرو (ممکن ہے شام سے پہلے ہی موت آجائے ) اور تند درستی کے دوران بیماری کے لیے تیار رہو اور زندگی میں موت کا سامان تیار کرو۔ “
دنیا کا مال و دولت اور اہل وعیال سب عارضی چیزیں ہیں
حدیث 37
«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يتبع الميت ثلاثة ، فيرجع اثنان ويبقى واحد ، يتبعه أهله وماله وعمله فيرجع اهله وماله ويبقى عمله»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم : 2960.
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں، دو واپس پلٹ آتی ہیں، ایک باقی رہ جاتی ہے۔ میت کے گھر والے اور اس کا مال اور اس کا عمل تینوں میت کے ساتھ جاتے ہیں، اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس پلٹ آتے ہیں اور باقی صرف عمل رہ جاتا ہے۔ “
حدیث 38
«وعن ابن عباس رضى الله عنه ، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس : الصحة والفراع»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم : 6412.
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی اکثریت دھو کے میں پڑی ہے ( کہ یہ ہمیشہ حاصل رہیں گی ) صحت اور فراغت ۔ “
حدیث 39
«وعنه صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله لرجل وهو يعظه: اغتنم خمسا قبل خمس شبابك قبل هرمك ، وصحتك قبل سقمك ، وعنانك قبل فقرك ، وفراغك قبل شغلك ، وحياتك قبل موتك»
مستدرك حاكم : 306/4 ، الترغيب والترهيب : 251/4 ، شرح السنة : 182/5۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو:
[1] بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ۔
[2] بیماری سے پہلے صحت کو ۔
[3] غربت سے پہلے امیری کو۔
[4] مصروفیت سے پہلے فرصت کو ۔
[5] موت سے پہلے ۔
زندگی کو ۔“
حدیث 40
«وعن أبى هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: الدنيا ملعونة ، ملعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه ، أو عالما أو متعلما»
سنن ابن ماجه ابواب الزهد رقم : 4112 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2797۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے وہ ملعون ہے سوائے اللہ کے ذکر کے اور جس سے وہ محبت کرے یا علم سیکھنے والے یا عالم کے۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين