حدیث سیدنا جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ
ترک رفع یدین کے سلسلے میں اکثر ایک روایت دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے جسے حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ نے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
پہلی حدیث :
سیدنا جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أدناب خيل شمس ، أسكنوا فى الصلاة .»
[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 968 .]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: میں تمھیں شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ نماز میں سکون اختیار کیا کرو۔“
الجواب:
(1) محدثین کرام رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سلام کے باب میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کا رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی صحابہ کرام نماز میں بوقت سلام ہاتھوں کو اٹھاتے تھے۔ جیسا کہ ”صحیح مسلم“ ہی میں اس کے ساتھ جابر رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث میں صراحت ہے۔
دوسری حدیث:
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر سلام پھیرتے تو کہتے: ”السلام علیکم و رحمۃ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ“ اور آپ نے دونوں طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«علام تؤمون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ إنما يكفي احدكم أن يضع يده على فخذه، ثم يسلم على أخيه من على يمينه وشماله .»
[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 970]
” اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اس طرح اشارے کیوں کرتے ہو گو یا کہ وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ تمہیں صرف یہ کافی ہے کہ اپنی رانوں پر ہاتھ رکھ کر دائیں بائیں سلام پھیر دو۔“
تیسری حدیث:
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر ” السلام علیکم و رحمتہ اللہ“ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے، یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے ”السلام علیکم ورحمتہ اللہ “کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔“
[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 971.]
مولانا تقی عثمانی حنفی لکھتے ہیں: ” بعض حنفیہ نے صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ کی مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے:
«قال خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس أسكنوا فى الصلاة .»
یہ حدیث سنداً صحیح ہے لیکن اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص الحبیر میں امام بخاری کا یہ قول نقل کیا ہے:
« من احتج بحديث جابر بن سمرة على منع الرفع عند الركوع فليس له حق من العلم .»
”جو شخص جابر بن سمرہ کی حدیث کو منع رفع الیدین پر دلیل بناتا ہے اس کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہے۔“
اس لیے کہ یہ حدیث رفع الیدین عند السلام متعلق ہے نہ کہ عند الرکوع سے۔
چنانچہ صحیح مسلم ہی میں اس روایت کا دوسرا طریق عبداللہ بن القبطیہ سے مروی ہے جس میں یہ تصریح ہے کہ یہ حدیث رفع الیدین عند السلام سے متعلق ہے۔
«عن عبيد الله بن القبطية عن جابر بن سمرة قال: كنا إذا صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: السلام عليكم ورحمة الله . السلام عليكم ورحمة الله وأشار بيده إلى الجانبين فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم علام تؤمون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس إنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه من على يمينه وشماله .»
اس صراحت کے بعد حضرت جابر بن سمرہ کی حدیث کو رفع الیدین عند الرکوع کی ممانعت پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔
حافظ زیلعی نے” نصب الرایتہ“ میں امام بخاری کے اس اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی ہے، اور فرمایا ہے کہ ابن القبطیہ کا طریق رفع الیدین عند السلام سے متعلق ہے اور باقی طرق ہر قسم کے رفع یدین سے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جن طرق میں رفع الیدین عند السلام کی تصریح نہیں ہے ان میں” اسکنوا فی الصلاۃ“ کا جملہ مروی ہے جب کہ ابن القبطية کے طریق میں یہ جملہ موجود نہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم نماز کے کسی درمیانی رفع یدین سے متعلق ہے رفع یدین عند السلام سے نہیں کیوں کہ سلام کے وقت جو عمل کیا جائے وہ خروج من الصلوۃ عمل ہے۔” اسکنوا فی الصلاۃ“ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے کیوں کہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت کی جو تصریح موجود ہے اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عند السلام ہی سے متعلق ہے اور دونوں حدیثوں کو الگ الگ قرار دینا جب کہ دونوں کا راوی بھی ایک ہے اور متن بھی قریب قریب ہے، بعد سے خالی نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ حدیث ایک ہی ہے اور رفع عند السلام سے متعلق ہے۔
ابن القبطیہ کا طریق مفصل ہے اور دوسرا طریق مختصر و مجمل۔ لہذا دوسرے طریق کو پہلے طریق پر ہی محمول کرنا چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے اس حدیث کو حنفیہ کے دلائل میں ذکر نہیں کیا۔
[درس ترمذي ، ص: 37۔ 35، جلد نمبر 2 طبع مكتبه دارالعلوم كراچي۔]
الجواب:
(2) شیخ الہند محمود حسن دیوبندی فرماتے ہیں:
” باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارہ میں۔۔۔۔ “
[الورد الشذى، ص: 63، جامع سيد اصغر حسين صاحب تقارير شيخ الهند، ص: 65 ، ترتيب: عبدالحفيظ بلياوي.]
الجواب:
(3) امام نووی رحمہ اللہ ”المجموع“ میں فرماتے ہیں: جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لینا عجیب بات اور سنت سے جہالت کی قبیح قسم ہے۔ کیوں کہ یہ حدیث رکوع کو جاتے اور اٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں، بلکہ تشہد میں سلام کے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جن کو محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں، اس کے بعد امام نووی امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیوں کہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے۔ اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیوں کہ یہ معروف ومشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور عید کا رفع الیدین بھی منع ہو جاتا مگر اس میں خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں: پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ نے نہیں کہی ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾
[24-النور:63]
”پس ان لوگوں کو جو نبی کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ انہیں کوئی فتنہ یا دردناک عذاب پہنچے۔ “ خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت عند الرکوع رفع یدین کے بارہ میں نہیں ہے۔ لہذا بر وئے انصاف اس سے استدلال درست نہیں۔
الجواب:
(4) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح تشبیہ دینا گستاخی اور نہایت گھناؤنا عمل ہے۔ اگر رفع الیدین شریر گھوڑوں کی دموں سے مشابہ ہے تو پھر تکبیر تحریمہ، وتروں اور تکبیرات عیدین و جنازہ کے وقت رفع الیدین کرنے کو کیا کہیں گے؟ یاد رہے کہ جو شخص رفع الیدین ایسی محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین سنت کو شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دیتا ہے، وہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تو اور کیا ہے؟
اس روایت سے متعلق مزید تحقیق کے لیئے ملاحظہ کریں اس مضمون میں پیش کردہ دلیل نمبر دو۔