جواب:
اس دعاکی کوئی اصل نہیں ، بلکہ اس موقع پر مخصوص دعا کرنا بدعت اور مکروہ فعل ہے ۔ دعا یہ ہے:
سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالقُدْرَةِ وَالكِبْرِيَاءِ وَالجَبَرُوتِ ، سُبْحَانَ المَلِكِ الحَيِّ الَّذِي لا يَمُوتُ ، سُبُوحٌ قُدُّوسٌ رَّبُّ المَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ ، لَا إِلهَ إِلَّا الله نَسْتَغْفِرُ الله نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَنَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ .
[فتاوي شامي: ٥٢٢/١]
دینی امور میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اذن اور اجازت ضروری ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور ائمہ دین ہرگز ایسا نہیں کرتے تھے ۔
علامہ ابن الحاج رحمہ الله (737ھ) لکھتے ہیں:
وَيَنْبَغِي لَهُ أَن يَتَجَنَّبَ مَا أَحْدَثُوهُ مِنَ الذِّكْرِ بَعْدَ كُلِّ تَسْلِيمَتَيْنِ مِنْ صَلَاةِ التَّرَاوِيحَ وَمِنْ رَّفْعِ أَصْوَاتِهِمْ بِذَالِكَ وَالمَشْي عَلى صَوْتٍ وَّاحِدٍ فَإِنَّ ذَالِكَ كُلَّهُ مِنَ البدع وَكَذَالِكَ يُنهى عَنْ قَوْلِ المُؤَدِّن بَعْدَ ذِكْرهِم بَعْدَ التَّسْلِيمَتَين مِنْ صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ: الصَّلَاةَ يَرْحَمُكُمْ اللهُ ، فَإِنَّهُ مُحْدَثْ أَيْضًا وَالْحَدَثُ فِي الدِّينِ مَمْنُوعٌ وَخَيْرُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ الْخُلَفَاءِ بَعْدَهُ ثُمَّ الصَّحَابَةِ رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ وَلَمْ يُذْكَرْ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ السَّلَفِ فِعْلُ ذَالِكَ فَيَسَعُنَا مَا وَسِعَهُمْ .
بعض اہل بدعت نے تراویح کی ہر چار رکعات کے بعد مخصوص ذکر اور اسے به آواز بلند مل کر ایک ہی دھن سے ادا کرنا شروع کر دیا ہے ، مسلمان کو اس سے مجتنب رہنا چاہیے ، کیوں کہ یہ سب بدعات وخرافات ہیں ۔ اسی طرح نماز تراویح ہی کی چار رکعات کے بعد مؤذن کا الصَّلَاةَ يَرْحَمُكُمُ الله کہنا بھی بدعت ہے اور دین میں بدعت کا اجر احرام ہے ۔ ہدایت تو محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل سکتی ہے ، پھر خلفائے راشدین سے ، پھر جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ۔ اسلاف میں سے کسی سے ایسا کرنا قطعاً ثابت نہیں ، لہٰذا جو دین انہوں نے اپنا یا ہمیں وہی کافی ہے ۔“
[المدخل: ٢٩٤/٢ ، وفي نسخة: ٤٤٣/١]