ابان سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نوجوان علقمہ نامی تھا بڑا عبادت گزار تھا، بکثرت صدقہ کرتا تھا اچانک وہ سخت بیمار ہوا، اس کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میرا خاوند نزع کے عالم میں ہے میں نے سوچا کہ آپ کو اطلاع کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال، حضرت علی، حضرت سلمان اور عمار رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ علقمہ کی خیریت معلوم کرو یہ حضرات وہاں پہنچے اور اسے لا الہ الا اللہ پڑھنے کی تلقین کی مگر علقمہ کی زبان نہ چل سکی قریب المرگ ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت بلال رضی اللہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں بھیجا کہ اس کے حالات سے آپ کو اطلاع دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس کے والدین زندہ ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ والد تو فوت ہو چکا ہے البتہ بوڑھی ماں زندہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال علقمہ کی والدہ کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہو کہ اگر وہ چل سکتی ہے تو میرے پاس آئے ورنہ انتظار کرے میں اس کے پاس جاتا ہوں۔ بلال رضی اللہ عنہ نے جا کر پیغام پہنچایا تو کہنے لگی، میری جان آپ پر قربان میرا حق ہے کہ خدمت عالیہ میں حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، سلام عرض کیا آپ نے سلام کا جواب دیا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: سچ سچ بتا اگر تو نہیں بتائے گی تو مجھے وحی سے معلوم ہو جائے گا، یہ بتاؤ علقمہ کیا عمل کرتا تھا کہنے لگی اتنی نماز پڑھتا تھا، اتنے روزے رکھتا تھا اور جو درہم پاس ہوتے صدقہ کر دیتا تھا نہ ان کا وزن معلوم ہوتا نہ شمار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تیرے ساتھ اس کا کیا معاملہ تھا، کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں اس سے ناراض ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیوں ؟ کہنے لگی وہ میری بجائے اپنی بیوی کو ترجیح دیتا اور میری نافرمانی کرتا تھا اس کا کہنا مانتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ماں کی ناراضگی نے اس کی زبان کو کلمہ شہادت سے روک رکھا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا : بہت سی لکڑیاں جمع کرو کہ میں اسے آگ میں جلا دو، بڑھیا کہنے لگی یا رسول الله ! کیا میرے لخت جگر کو میرے سامنے جلائیں گے مجھے کیسے برداشت ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے علقمہ کی ماں ! اللہ تعالیٰ کا عذاب اس آگ سے کہیں زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ اگر تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیں، تو تو اس سے راضی ہو جا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اسے نماز اور صدقہ فائدہ نہیں دے گا جب تک تو اس پر ناراض رہی۔ بڑھیا دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے کی یا رسول اللہ ! میں آسمان والے خدا کو، آپ کو، حاضرین مجلس کو گواہ بناتی ہوں کہ میں علقمہ سے راضی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال ذرا جا کر دیکھو علقمہ لا الہ الا اللہ پڑھنے لگا ہے، ممکن ہے اس کی ماں نے میری شرم کی وجہ سے ایسا کیا ہو اور دل سے نہ کہا ہو۔ بلال دروازے پر پہنچے تو علقمہ کو لا الہ الا اللہ پڑھتے سنا، اندر جا کر بتانے لگے کہ علقمہ سے والدہ کی ناراضی نے اس کی زبان کو شہادت توحید سے روک رکھا تھا اور اس کی رضامندی سے زبان کو جاری کر دیا۔ چنانچہ علقمہ اسی دن فوت ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس کے غسل اور کفن کا انتظام کیا، نماز جنازہ پڑھائی، پھر قبر کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : اے مہاجرین و انصار ! جو تم اپنی بیوی کو اپنی والدہ پر ترجیح دیتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور اس کے فرائض و نوافل کچھ بھی قبول نہیں ہوتے۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ موضوع۔
من گھڑت روایت ہے۔
[الفوائد المحموعه فى الأحاديث الضعيفه والموضوعه۔ كتاب الادب 686/38، رواه العقلي عن عبدالله بن ابي اوفي فى اضعفاء461/3]
اس قصے کا دارومدار فائد بن عبدالرحمن ابوا لورقاء العطاء پر ہے اور یہ متروک اور کذاب ہے۔ [ابن جوزي فى الموضوعات 87/3]
ابن جوزی کہتے ہیں : یہ قصہ ثابت نہیں ہے۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں : فائد راوی متروک۔
یحییٰ کہتے ہیں : لیس بشیء۔ یہ کچھ نہیں۔
ابن حبان کہتے ہیں : یہ قابل حجت نہیں۔
عقیلی کہتے ہیں : اس کی روایت کی کوئی متابعت نہیں کرتا۔
ابوحاتم کہتے ہیں : فائد راوی ذاہب الحدیث ہے۔ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔
نیز اس کی سند میں داؤد بن ابراہیم ہے ابوحاتم کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے۔