بیوی کا انتخاب کیسے کریں؟
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

مسلمان خانوادے کی بنیاد رکھتے وقت خاوند کے لیے بہترین بیوی اور بیوی کے لیے بہترین خاوند کا انتخاب عمل میں لانا چاہیے۔ کیونکہ حسن انتخاب اور مکمل تحقیق و تدقیق کامیاب ازدواجی زندگی کے اہم ارکان اور ایک نئے خاندان کی نیو رکھتے وقت انتہائی قابل اعتبار بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام نے بیوی یا خاوند کے انتخاب پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور ایک مضبوط عمارت اور محکم ساخت کے حامل خوشحال خاندان اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے بہت سارے قواعد وضوابط وضع کیے ہیں۔
اسلام اس قدر ظاہری شکل و شباہت کو اہمیت نہیں دیتا جس قدر وہ انسان کے جوہر، پاک طینتی، دل اور عقیدے کی صفائی ستھرائی اور عمل کی اصلاح پر زور دیتا ہے۔
ایک امیر آدمی کا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: یہ اس لائق ہے کہ اس کے ساتھ نکا ح کیا جائے، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے، اگر گفتگو کرے تو بڑی توجہ سے اس کو سنا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس دورانیے میں ایک غریب مسلمان کا گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ تو بےچارا اس قدر خستہ حال ہے کہ اگر پیغام نکاح بھیجے تو کوئی اس کے ساتھ شدی نہ کرے، اگر سفارش کرے تو کوئی اسے قبول نہ کرے اور اگر کوئی بات کرے تو کوئی اس کی طرف دھیان ہی نہ دے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یہ اس جیسے زمین بھر لوگوں سے بہتر ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5091]
اس طرح نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو تعلیم دی کہ شخص، جو ان کی نظروں میں حقیر ہے، اس جیسے لاتعداد لوگوں سے بہتر اور افضل ہے جو ان کے دل میں اس قدر محتر م اور صاحب جلال ہے۔ ان دونوں کے درمیان فرق کا معیار تقوی اور نیک اعمال کا میزان ہے نہ کہ ظاہری شان و شکوہ، مال و جاہ اور عزت و اقدار۔۔۔۔ !

دیندار کے انتخاب کی اہمیت:

بیوی پسند کرنے کے لیے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شاندار ضوابط مقرر کیے ہیں ان کے مطابق دیندار کو بے دین پر ترجیح دینی چاہیے۔ جیسا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”عورت کے ساتھ چار باتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے: دولت، حسب ونسب، حسن و جمال اور دینداری۔ تم دیندار کو حاصل کرنا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5090 صحيح مسلم، برقم 1466]
آدمی کے لیے بیوی کا انتخاب کرتے وقت اصل معیار تو دینداری اور پرہیزگاری ہی ہے، لیکن اگر بیوی صاحب ثروت ہو تو خاوند اس کی رضا مندی سے اس کی دولت سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اگر دو عورتیں دینداری میں برابر ہوں (اگر موازنے کا امکان ہو) تو خوبصورت قابل ترجیح ہوگی لیکن ایک خوبرو مگر بے دین عورت کو دیندار مگر عام کی شکل و صورت والی عورت پر ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔
میاں اور بیوی کے اہل خانہ کو شادی شروع کرنے سے پہلے اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے بہترین شریک حیات تلاش کرنا چاہیے، پھر اس کے دین، اخلاق اور نفسیاتی حالات کے متعلق مکمل چھان بین اور اطمینان حاصل کر لینا چاہیے۔ ابتدا ہی میں حسن انتخاب اور صاف گوئی، چاہے اس کا نتیجہ شادی نہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہو، شادی کے بعد اور بالآخر ناکامی سے کہیں بہتر ہے۔
جس طرح پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اسلام یہی چاہتا ہے کہ بیوی دیندار، شریفانہ اصل اور نیک مومن خاندان کے ساتھ تعلق رکھتی ہو۔ کیونکہ عورت کا کردار اور اخلاق ایسے ماحول سے شدید متاثر ہوتا ہے جس کی گود میں اس نے تربیت پائی ہو۔ اسی طرح اس کی اولاد بھی موروثی طور پر اس کے بہت سارے اخلاق اور عادات کو اپنا لیتی ہے، اس لیے صاحب دین اور حامل اخلاقی بیوی کا انتخاب ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی اولاد کو اعلی اخلاق، عمدہ کردار، مثالی اقدار اور قابل رشک طور اطوار سکھائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اپنے نطفوں کے لیے قابل لیاقت (شریک سفر) منتخب کرو، قابل اور باصلاحیت کے ساتھ شادی کرو اور ایسے ہی (اپنی بیٹیوں، بہنوں کے لیے) منتخب کرو۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 1968 السلسلة الصحيحة، برقم 10761]
اگر عورت دینی معاملات میں جاہل لیکن خوبرو ہو تو اس کی آزمائش بڑی سخت ہوتی ہے، کیونکہ خاوند کا اسے چھوڑنا دشوار اور اس کی جدائی پر صبر کرنا محال ہوتا ہے۔ اس کا حال اس شخص کی طرح کا ہوتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے رسول خدا ! میری ایک بیوی ہے جو کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو۔“ وہ کہنے لگا: میں اس سے پیار کرتا ہوں اور اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اسے روکے رکھو“ [سنن النسائي 1770/6]
امام ابن کثیر نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کی اس بات سے کہ ”وہ کسی کا ہاتھ نہیں جھٹکتی“ یہ مراد ہے کہ وہ بڑی فیاض ہے جو کسی سائل کو منع نہیں کرتی۔ یہ بھی کہا گیا ہے نہ اس کی طبیعت کسی ہاتھ لگانے والے کو روکنا پسند نہیں کرتی۔ یہ نہیں کہ کبھی ایسا ہوا ہو اور وہ بدکار ہو، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم برگز ایسی عورت کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ ایسی حالت میں اس کا خاوند دیوث اور بےحمیت ہوگا، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سخت وعید صادر ہوئی ہے، لیکن اس کی طبیعت میں خلوت میں کسی کے ساتھ مزاحمت یا مخالفت کا عنصر نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے اس کو طلاق دینے کا حکم دیا۔ جب اس نے کہا کہ وہ اس کے ساتھ محبت کرتا ہے تو آپ نے اسے رکھنے کی اجازت دے دی، کیونکہ اس کی محبت سچی اور حقیقی تھی، جبکہ برائی کا صرف امکان تھا، لہٰذا خیالی ضرر کے خوف سے فوری ضرر کا ارتکاب نہیں کرنا چاہے۔ [تفسير ابن كثير: 1322/4]
اسلام میں انتخاب اور پسند کرنے کی بنیاد عقیدے کی سلامتی اور درستی پر رکھی جاتی ہے اور جمال سے پہلے اخلاق کا اعتبار کیا جاتا ہے، اسی لیے دین فطرت نے میاں یا بیوی کا انتخاب کرتے وقت دینداری اور خدا خوفی کو بطور شرط اول اختیار کرنے کی نصیحت اور تلقین کی ہے، کیونکہ یہ خوشحال اور مستحکم خاندان کا مضبوط ترین ستون ہے۔
حسن و جمال اگر دینی، اخلاقی اور خوف خدا کے مضبوط حصار میں نہ ہو تو وہ خاندانی بربا دی اور اولاد کو لگنے والی عار اور شنار کے نتائج سے بے پرواہ فحاشی کی دلدل میں پھنس کر عزت و شرف کو داؤ پر بھی لگا سکتا ہے۔ نیک بیوی دین میں معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے:
”جسے اللہ تعالیٰ نے نیک بیوی عطا کر دی تو گویا اس نے اس کی نصف دین میں معاونت فراہم کر دی، باقی نصف کے با رستے میں وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔“ [مستدرک حاكم 161/2، السلسلة الصحيحة، رقم الحديث 265]
اور فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’ دنیا سامان لذت ہے اور دنیا کا بہترین سامان نیک عورت ہے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 114671]
اس کے باوجود کہ اسلام نے ازدواجی اصلاح، سعادت اور ثبات کے لیے دین کو بطور اساس اور شرط اول مقدم رکھتا ہے لیکن خوش شکل اور خوب روئی بھی مطلو ب ہے، اس سے پاکدامنی حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ طبیعت عموماً بدصورتی سے بھاگتی ہے۔
حدیث نبوی نے پسند کرتے وقت حسن و جمال کا خیال رکھنے سے نہیں روکا، بلکہ دینی خرابی کے با وجود محض حسن کی خاطر نکا ح کرنے پر سرزنش کی ہے۔
جیسا کہ سابقہ گفتگو اور احادیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسلام حدود و قیود میں رہتے ہوئے شادی سے پہلے بیوی کی محسوس کی جانے والی صفات کا تعارف حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ ایک آدمی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اور اس نے بتایا کہ ایک انصاری عورت کے ساتھ اس نے نکا ح کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ”کیا تو نے اس کو دیکھا ہے“ ؟ وہ کہنے لگا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور جاکر اسے دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ (عیب) ہوتا ہے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 1424]
اہل علم بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد ان کی آنکھوں میں چندیاہٹ ہے کسی نے کہا ہے کہ ان کی آنکھوں میں چھوٹا پن ہوتا ہے، اور کسی نے کہا کہ نیلاہٹ، لیکن ابوعوانہ کی مستخرج میں حدیث ہے کہ ”ان کی آنکھوں میں چھوٹا پن ہے۔“ اور یہی قابل اعتماد ہے۔ [شرح النووي 210/9 فتح الباري 87/9]
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو پیغام نکاح دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کہا:
”اسے دیکھ لو ! یہ تمہارے درمیان دوام الفت کے لیے بہتر ہو گا۔“ [مسند احمد245/4 سنن الترمذي، رقم الحديث 1087]
ایک عورت حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کی پیش کش کی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سراپے پر نظر دوڑائی، پھر سر جھکا لیا، جب اس عورت نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5087 صحيح مسلم، برقم 1425]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: