بيع عرايا کیا ہے؟
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لِصَاحِبِ الْعَرِيَّةِ: أَنْ يَبِيعَهَا بِخَرْصِهَا وَلِمُسْلِمٍ بِخَرْصِهَا تَمْرًا ، يَأْكُلُونَهَا رُطَبًا . }
زید بن ثابت رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب عربیہ کو رخصت دی ہے کہ وہ اسے اندازے کے ساتھ بیچ سکتا ہے ۔
مسلم میں ہے: اس کھجور کے ساتھ اس کا اندازہ لگا کر جسے وہ تازہ کھاتے ہیں ۔
شرح المفردات:
العرية: کسی کو عاریتاً کھجور کا درخت یا کچھ فصل دے دینا۔

الخرص اندازہ تخمینہ ۔
شرح الحديث:
یہ بظاہر مزابنہ کی صورت بنتی ہے کہ اس میں بھی درخت یا فصل پر کھڑے پھل یا اناج کا خشک کے بدلے لین دین ہوتا ہے، جبکہ وہ ناجائز ہے اور یہ جائز ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت یہ مزابنہ سے مختلف ہے، کیونکہ عرایا کا معاملہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب کوئی حاجت مند بار بار چکر لگائیں اور فصل ابھی تیار نہ ہوئی ہو تو انہیں اس تکلیف سے بچانے کے لیے ان کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے ایک یا زائد درخت یا کچھ فصل انھیں پکنے سے پہلے ہی دے دی جائے ، اس حسن عمل کی وجہ سے عرایا کو مستقلی قرار دیتے ہوئے یہ رخصت دی گئی ہے کہ صرف اس صورت میں باغ کا مالک اندازے کے ساتھ غیر متعین پھل یا اناج دے سکتا ہے۔
راوى الحديث:
زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو خارجہ اور ابو سعید منقول ہے ۔ انصاری صحابی تھے اور مدینہ سے تعلق تھا ۔ کاتب وحی بھی تھے۔ غزوہ اُحد وغیرہ میں شرکت کی۔ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بانوے احادیث روایت کیں۔ آپ کے سن وفات کی بابت آٹھ اقوال منقول ہیں۔ ان میں سے قریب الصحت 51 ہجری کا قول ہے۔
(265) صحيح البخارى، كتاب البيوع، باب بيع المزابنة ، ح: 2188 – صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب تحريم بيع الرطب بالتمر الافي العرايا ، ح: 1539
266 – الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { أَنَّ رَسُولَ [ ص: 512] اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ . } .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا میں پانچ وسق سے کم میں رخصت دی ہے۔
شرح المفردات:
أوسق: یہ وسق کی جمع ہے ، ایک وسق ساٹھ نبوی صاع کا ہوتا ہے اور پانچ وسق تین سوصاع ہوئے ۔ اہل حجاز کے نزدیک ایک صاع چار مد یعنی گیارہ سو بیس درہم کے وزن کے برابر ہوتا ہے جبکہ اہلِ عراق کے ہاں دو کلو چودہ چھٹانک چار تولہ کے برابر ہوتا ہے۔
شرح الحديث:
اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بصورت عرایا دینے کی حد مقرر فرمائی ہے کہ پانچ وسق سے زیادہ نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ غیر متعین مقدار والی چیز بیچنا یا خریدنا اصلاً ناجائز ہی ہے، لیکن عرایا میں ایک خاص علت کے پیش نظر اسے مستثنی قرار دیا گیا ہے، تو اس رخصت سے ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں ہے، لہذا جو پھل یا فصل بصورت عرایا دی جائے وہ پانچ وسق ہو یا اس سے بھی کم ہو ۔
267 – الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { مَنْ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرُهَا لِلْبَائِعِ ، إلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ . } وَلِمُسْلِمٍ { وَمَنْ ابْتَاعَ عَبْدًا فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ إلَّا أَنْ يُشْتَرَطَ الْمُبْتَاعُ } .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پیوند کی ہوئی کھجور خریدے تو اس کا پھل، بیچنے والے کا ہوگا ، سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط لگا دے۔
اور مسلم میں ہے: جو شخص غلام بیچے تو اس کا مال اسی کے لیے ہوگا جس نے اسے بیچا، مگر یہ کہ خرید نے والا شرط لگا دے۔
شرح المفردات:
أبرت: پیوند کی ہوئی قلم لگائی ہوئی ۔ / واحد مؤنث غائب، فعل ماضی مجہول، باب تفعیل ۔
المبتاع: اس سے مراد مشتری ہے یعنی خرید نے والا / واحد مذکر ، اسم فاعل، باب افتعال ۔
شرح الحديث:
اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تابیر شدہ کھجور بیچی جائے تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا اور خریدار کو اس کا پھل ملنے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو ظاہر حدیث سے معلوم ہو رہی ہے کہ خریدار خود شرط لگا دے اور دوسری مفہوم مخالف سے نکلتی ہے کہ وہ کھجور تابیر شدہ نہ ہو۔
غلام کا مال بھی بیچنے والے کے حصے ہی میں آئے گا، لیکن اگر اس میں بھی خریدار یہ شرط رکھ دیتا ہے کہ غلام کے ساتھ اس کا مال بھی میرا ہو گا ، تو پھر وہی اس کا حقدار ٹھہرے گا۔
(267) صحيح البخاري ، كتاب البيوع ، باب من باع نخلا قد أبرت ، ح: 2204 ـ صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب من باع نخلا عليها ثمر ، ح: 1543
268 – الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا [ ص: 514] أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ } وَفِي لَفْظٍ { حَتَّى يَقْبِضَهُ }
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (یعنی اناج یا غلہ وغیرہ ) خریدے تو اُسے تب تک نہ بیچے جب تک کہ اسے پورا پورا حاصل نہ کر لے ۔
ایک روایت میں ہے: یہاں تک کہ اسے قبضے میں لے لے۔
شرح المفردات:
يستوفيه: یعنی وہ اس کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لے۔ واحد مذکر غائب ، فعل مضارع معلوم، باب استفعال ۔
شرح الحديث:
اس اناج یا غلے کا ناپ تول کیے بغیر یا اسے مکمل طور پر قبضے میں لیے بغیر آگے فروخت کر دینا جائز نہیں ہے ۔
(268) صحيح البخاري، كتاب البيوع ، باب الكيل على البائع والمعطى ، ح: 2126 – صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب بطلان بيع المبيع قبل القبض ، ح: 1526
269 – وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلُهُ .
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔
(269) صحيح مسلم، كتاب البيوع، باب بطلان بيع المبيع قبل القبض ، ح: 1525
270 – الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا { أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ إنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ [ ص: 515] الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ . فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ؟ فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ ، وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ . وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ . فَقَالَ: لَا . هُوَ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ . إنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِمْ شُحُومَهَا . جَمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ } . قَالَ ” جَمَلُوهُ ” أَذَابُوهُ . .
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال فرماتے سنا: یقیناً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام کیا ہے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیونکہ اس سے کشتیوں کو پالش کیا جاتا ہے، اس (کو ملنے) سے چمڑوں کو نرم کیا جاتا ہے اور لوگ اس کے ذریعے روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، وہ حرام ہے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے کہ جب اللہ نے ان پر مردار کی چربی کو حرام کیا تو انھوں نے اسے پگھلایا ، پھر اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانے لگے۔
شرح المفردات:
الأصنام: صنم کی جمع، بت ، مورتیاں ۔
يستصبح: چراغوں میں ڈال کر جلاتے اور روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ / واحد مذکر غائب فعل مضارع معلوم، باب استفعال ۔
جملوه: اسے پکھلا کر تیل بنالیا ۔ / جمع مذکر غائب فعل ماضی معلوم، باب نصر ينصر ۔
شرح الحديث:
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چربی پگھلا کر فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنے میں یہود کو جو ملامت کی گئی ہے، اس کی وجہ اصلا چربی کا حرام ہونا ہے۔ اس سے یہ دلیل ملتی ہے کہ حرام چیزوں کے ذرائع بھی حرام ہوتے ہیں، یعنی چاہے ان کی اصل صورت اور حالت تبدیل کر کے بھی استعمال کیا جائے تو وہ حرام ہی رہتی ہیں۔ [شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: 153/3]
نیز اس حدیث سے یہ امر بھی احاطہ علم میں آتا ہے کہ ہر وہ حیلہ حرام ہے جس میں کسی حرام چیز کا نام یا ہیئت تبدیل کر کے اسے حلال کرنے کی کوشش کی جائے۔ [الفتاوى المصرية الكبرى: 124/3]
(270) صحيح البخاري ، كتاب البيوع ، باب بيع الميتة والأصنام ، ح: 2336 ـ صحيح مسلم ، كتاب المساقاة ، باب تحريم بيع الخمر والميتة — ، ح: 1581

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے