الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى
” اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ “ [صحيح بخاري/الزكاة : 1429 ]
فوائد :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ منبر پر تشریف فرما تھے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے، سوال سے اجتناب اور دست سوال پھیلانے کا ذکر کیا۔ اس دوران آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ سوال کرنے والا ہے۔ “
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دینے والے کا مقام بلند اور عزت کا ہے اور بلاوجہ دست سوال دراز کرنے والے کے مقدر میں ذلت اور رسوائی ہے۔ اس لئے مومن کو چاہیے کہ وہ خرچ کرنے والا بنے اور سوال کرنے کی ذلت سے خود کو بچائے رکھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوجہ مانگنے کی ذلت کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا ہے :
”جو انسان مسلسل مانگتا رہتا ہے وہ قیامت کے دن اللہ کے پاس اس حالت میں جائے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہیں ہو گا۔ “ [صحيح مسلم/الزكاة : 103 ]
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس مانگنے کی قباحت کو مزید نمایاں کیا کہ جو لوگوں سے اس لئے مانگتا ہے تاکہ اس کا مال زیادہ ہو جائے۔ وہ اس سے آگ کے انگارے مانگتا ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ وہ زیادہ جمع کر لے یا کم اکٹھے کر لے۔ [صحيح مسلم/الزكاة : 105 ]
افسوس کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر ہدایات کے باوجود ہمارے معاشرہ میں پیشہ ور مانگنے والے گداگر موجود ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو عالم ہونے کے باوجود معزز قسم کی گداگری کرتے ہیں۔ یہ لوگ سوال اور گداگری کے علاوہ دھوکہ دہی اور دین فروشی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کی ذلت سے محفوظ رکھے۔ آمین