بغیر پگڑی نماز پڑھنے کی کراہت کا عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص239

بغیر پگڑی نماز پڑھنے کی کراہت، سنت اور شریعت کی روشنی میں احادیث و اقوال کا تحقیقی جائزہ

تمہید

سوال میں پوچھا گیا کہ:

"بغیر پگڑی نماز پڑھنے کی کراہت کا عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟ سنت مطہرہ میں پگڑی کی مقدار کتنی ہے؟ نماز اور غیر نماز میں اس کا کیا حکم ہے؟”

اس کے جواب میں احادیث کے اصل متون کے ساتھ ساتھ ان کی اسنادی حیثیت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلے احادیث مع تخریج و تحقیق ذکر کی گئی ہیں، بعد ازاں ان سے مستنبط فقہی و شرعی مسائل بیان کیے گئے ہیں تاکہ اس بارے میں پیدا ہونے والے شبہات کا ازالہ کیا جا سکے۔

احادیث اور ان کی اسنادی حیثیت

صحیح احادیث:

◈ جابر بن عبد اللہؓ: نبی ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو سر پر سیاہ پگڑی تھی۔ صحیح مسلم (1/439)
◈ عمرو بن حریثؓ: نبی ﷺ منبر پر سیاہ پگڑی کے ساتھ نمودار ہوئے، دونوں کنارے کندھوں کے درمیان لٹکے ہوئے تھے۔ صحیح مسلم
◈ ابن عمرؓ: پگڑی باندھ کر کندھوں کے درمیان لٹکاتے۔ ترمذی (1/204)، خطیب (11/293)، الصحيحة (2/343) رقم (717)
◈ عائشہؓ: جبریل علیہ السلام عمدہ گھوڑے پر نبی ﷺ کے پاس آئے، پگڑی باندھ رکھی تھی۔ احمد (6/148،152)، حاکم (4/193-194)
◈ ابو عبیدؒ: یزید اللیثیؓ سیاہ پگڑی میں نماز پڑھتے تھے، حدیث موقوف ہے۔ احمد (2/82)
◈ ابو موسیؓ: جبریل علیہ السلام سیاہ پگڑی میں نبی ﷺ کے پاس آئے۔ طبرانی
◈ بلالؓ، عمرؓ، ثوبانؓ: نبی ﷺ نے پگڑی پر مسح کیا۔ ابن ماجہ (1/91)، ابن ماجہ، ابو داود، ترمذی
◈ نافعؒ عن ابن عمرؓ: پگڑی کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے۔ ابن ابی شیبہ (8/239)

ضعیف اور موضوع احادیث:

◈ عبدالرحمن بن عوفؓ، رکانہؓ، عائشہؓ، ابو امامہؓ، ابو درداءؓ، معاذؓ اور دیگر صحابہؓ سے منسوب ایسی احادیث جن میں پگڑی کے فضائل مبالغہ آمیز انداز میں بیان کیے گئے ہیں جیسے:
❀ "پگڑی کے ساتھ نماز پچیس نمازوں کے برابر”
❀ "پگڑی کے ساتھ جمعہ بغیر پگڑی کے ستر جمعوں کے برابر”
❀ "پگڑی کے بل کے بدلے ایک نیکی”
❀ "پگڑی بغیر پہننے والا والی نہیں بنایا جاتا”
یہ تمام احادیث موضوع یا بہت ضعیف اسناد کی حامل ہیں۔

مستنبط مسائل

➊ پگڑی مسلمانوں کا شعار ہے، لیکن یہ مخصوص صرف نماز، علماء یا ائمہ کے لیے نہیں۔
➋ نماز میں پگڑی کی فضیلت پر کوئی صحیح حدیث وارد نہیں۔ اس کی فضیلت صرف اتنی ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہؓ اسے استعمال کرتے تھے۔
➌ پگڑی کی مقدار شرعاً مقرر نہیں۔ سات، بارہ، چودہ یا پندرہ ہاتھ کی مقدار کی روایات جھوٹ پر مبنی ہیں۔
➍ نبی ﷺ نے مختلف رنگوں کی پگڑیاں استعمال کیں۔ کالی پگڑی کی متعدد روایات ہیں، لیکن خالص سرخ رنگ کی پگڑی کی کوئی صحیح روایت نہیں۔
➎ پگڑی کا شملہ پیچھے یا سامنے لٹکانا جائز ہے، اس کی کوئی مخصوص مقدار نہیں۔ شملے کا طول مقرر کرنا بدعت ہے۔
➏ پگڑی پہننے کی نیت اگر اتباع سنت ہو تو باعث اجر ہے، لیکن ریاء و شہرت کی نیت سے ہو تو گناہ۔
پگڑی نہ پہننے والا معذور ہے، اس پر نہ گناہ ہے نہ ملامت۔
➐ ٹوپی کے بغیر پگڑی باندھنا یا پگڑی کے بغیر ٹوپی پہننا جائز ہے۔ کسی صحیح حدیث میں ممانعت وارد نہیں۔
➑ پگڑی پر مسح جائز ہے۔ اس پر احادیث صحیحہ وارد ہیں جیسے ترمذی (1/32) وغیرہ۔
➒ نماز کیلئے خاص طور پر پگڑی پہننا اور بعد نماز اتار دینا بدعت ہے۔
تارکِ عمامہ سے جھگڑنا جاہلانہ عمل ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فتاوی رشیدیہ (ص: 34) میں لکھتے ہیں:
"تارک عمامہ سے جھگڑنے والا جاہل ہے اور عمامہ کے بغیر نماز مکروہ نہیں۔”

شیخ البانیؒ الضعيفة (1/162) رقم (127) میں لکھتے ہیں:
"عمامہ کے بغیر نماز کو باعث کراہت سمجھنا غلط ہے، عمامہ مستعار ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مصنوعی داڑھی لگائے۔”
➓ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا افضل ہے، کیونکہ زینت اختیار کرنا اللہ کی رضا کا باعث ہے۔
بیہقی (2/235) میں روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے کپڑے پہن لیا کرے، اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے”

شیخ البانیؒ "تمام المنۃ” (ص: 1654) میں کہتے ہیں:
"ننگے سر نماز پڑھنا غیروں کی عادت ہے، اسلامی عرف کے خلاف ہے اور ترک زینت کے مترادف ہے۔”

ابن تیمیہؒ مجموع الفتاوی (22/117) میں نافعؒ کا قول نقل کرتے ہیں:
"عمرؓ نے نافعؒ کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو کہا: کیا تو لوگوں کے پاس اس حالت میں جائے گا؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے۔”

قرآنی دلیل

﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ …٣١…سورة الأعراف
"تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو”

نتیجہ

پگڑی کا استعمال سنت سے ثابت ہے، لیکن اس کا ترک کرنا گناہ یا مکروہ نہیں۔

پگڑی یا اس کے بغیر نماز دونوں درست ہیں، بشرطیکہ زینت کا اہتمام ہو۔

پگڑی کی مقدار، رنگ، شملے کی مقدار یا طریقہ مخصوص شرعی احکام میں داخل نہیں۔

نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اسلام اعتدال، زینت، اور نیت کی پاکیزگی کا دین ہے نہ کہ ظاہری رسوم کا۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1