بدعت کے اسباب و محرکات
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب دین اسلام اور بدعت سے ماخوذ ہے۔

بدعت کے اسباب و محرکات

بدعت و ضلالت کے چند محرکات و اسباب ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان کا بیان مختصراً کیے دیتے ہیں:

پہلا سبب: دینی احکام سے لاعلمی و جہالت :

جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور لوگ آثار رسالت سے دور ہوتے گئے ، علم کم ہوتا رہا اور جہالت عام ہوتی گئی جیسا کہ اس کی خبر نبی کریم ﷺ نے اپنی اس حدیث میں دی ہے:

’’تم میں سے زندہ رہنے والا شخص بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔‘‘
سنن ابن ماجة، المقدمة، رقم : 43- محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور اپنے اس فرمان میں بھی:

’’اللہ تعالیٰ علم بندوں سے چھین کر نہیں ختم کرے گا بلکہ علماء کو ختم کر کے علم ختم کرے گا یہاں تک کہ جب کسی عالم کو زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو رؤسا بنالیں گے اور یہ لوگ مسئلہ پوچھے جانے پر بغیر علم کے فتویٰ دیں گے تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔‘‘

تو علم اور علماء ہی بدعت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور جب علم و علماء ہی کا فقدان ہو جائے تو بدعت کے پھلنے پھولنے اور بدعتیوں کو سرگرم ہونے کے مواقع میسر ہو جاتے ہیں۔

دوسرا سبب: خواہشات کی پیروی:

جو کتاب وسنت سے اعراض کرے گا وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرے گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ﴾

﴿القصص: 50﴾

’’اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو اللہ کی راہنمائی کے بغیر۔‘‘

❀ اور ارشاد فرمایا:

﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ﴾

﴿الجاثيه : 23﴾

’’کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔‘‘

﴿عن أبى برزة الأسلميؓ قال: قال رسول الله ﷺ: إن مما أخشى عليكم بعدي بطونكم و فروجكم و مضلات الأهواء .﴾
كتاب السنة لابن ابی عاصم، رقم: 13 .

سیدنا ابو برزہ اسلمیؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’یقیناً میں تم پر اپنے جانے کے بعد پیٹ پرستی، زنا اور گمراہ کن خواہشات کی پیروی سے ڈرتا ہوں۔‘‘

یادر ہے کہ زیادہ تر بدعتیں خواہشات کی پیداوار ہیں۔

تیسرا سبب مخصوص لوگوں کی رائے کے لیے تعصب برتنا:

کسی کے رائے کی طرف داری کرنا یہ انسان اور دلیل کی پیروی و معرفت حق کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾

﴿البقره: 170﴾

’’اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔‘‘

اور آج کل یہی حالت متعصبین کی ہے خواہ وہ مذہب صوفیت کے بعض پیروکار ہوں یا قبوری حضرات، جب انھیں کتاب وسنت کی پیروی اور ان دونوں کی مخالف چیزوں کو چھوڑنے کو کہا جاتا ہے تو یہ حضرات اپنے مذہب، مشائخ اور آباؤ اجداد کو دلیل بناتے ہیں اور بطور حجت پیش کرتے ہیں۔

چوتھا سبب : کافروں سے مشابہت اختیار کرنا:

کافروں سے مشابہت سب سے زیادہ بدعتوں میں مبتلا کرنے والی چیزوں میں سے ہے۔ ابو واقد اللیثی کی حدیث میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حسنین کی طرف نکلے اور ابھی ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ مشرکوں کے لیے ایک بیری کا درخت تھا جہاں یہ لوگ ٹھہرتے تھے اور جس کے ساتھ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے جسے ذات انواط کہا جاتا تھا۔ چنانچہ ہمارا گزر اس بیری کے پاس سے ہوا، ہم نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ذات انواط بنا دیجیے جیسا کہ ان کے لیے ذات انواط ہے، رسول اللہ ﷺ نے تعجب کرتے ہوئے اللہ اکبر کہا، اور مزید فرمایا: یہی سنتیں ہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگوں نے ویسے ہی کہا ہے جیسے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا، اور مزید فرمایا:

﴿اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾

﴿الاعراف : 138﴾

’’ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا مقرر کر دیجیے جیسے ان کے یہ معبود ہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔‘‘
سنن ترمذی، رقم : 2180 ، مسند احمد، رقم : 21897، صحيح ابن حبان، رقم 6702۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور یہی آج حقیقت میں ہو رہا ہے اس لیے کہ اکثر مسلمانوں نے شرک و بدعت کے ارتکاب میں کافروں کی روش اپنائی ہوئی ہے جیسے برتھ ڈے منانا، یادگاری تصویریں و مجسمے قائم کرنا، ماتم کی محفلیں منعقد کرنا، جنازے کی بدعتیں اور قبروں پر تعمیر وغیرہ۔

پانچواں سبب : آباؤ اجداد کی اندھی تقلید :

بدعت کے اسباب میں سے تقلید آباء بھی ہے۔

❀ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾

﴿البقره : 170﴾

’’اور جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ نے جو نازل فرمایا ہے اس کی اتباع کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا، تو کیا اگر چہ اُن کے آباء کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ راہ راست پر ہوں (اُنھی کی اتباع کریں گے؟)‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں بغیر حجت و برهان آباء واجداد کی اتباع سے روکا ہے جو درحقیقت شیطان ہی کی اتباع ہے۔اس آیت میں اس بات پر سخت نکیر کی گئی ہے کہ صریح قرآن اور صحیح سنت کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی بات مانی جائے ، اور قرآن وسنت کے مقابلے میں اسے دلیل بنایا جائے ، اور حجت یہ پیش کی جائے کہ ہمارے امام، ہمارے مرشد، ہمارے بزرگ، اور ہمارے فقیہ زیادہ سمجھتے تھے، اور یقیناً یہ حدیثیں ان کے علم میں رہی ہوں گی، لیکن کسی اقویٰ دلیل ہی کی وجہ سے انھوں نے ان حدیثوں کا انکار کیا ہوگا۔

اور ستم بالا ستم یہ کہ ان حضرات نے انکار احادیث کے ان واقعات سے فقہی اصول کشید کیے اور اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب بھی کوئی حدیث ان اصولوں کے خلاف پڑے گی اسے رد کر دیا جائے گا، اس لیے کہ یا تو وہ ضعیف ہوگی، یا مرجوح یا منسوخ ہوگی۔ قرآن وسنت کے حق میں اس جرم عظیم کا بدترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی کمزور اور واہیات قسم کی حدیثیں رائج ہو گئیں ، اور وہ صحیح حدیثیں جو بخاری و مسلم نے روایت کی ہیں اور جن پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز امت کے پاس موجود نہیں، سینکڑوں سال سے مسلمانوں کا منہ تک رہی ہیں، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم پر عمل کرو، ہم اللہ کے رسول کی صحیح احادیث ہیں، لیکن مقلدین انھیں درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔

اسلام میں تمام گمراہ فرقوں کا وجود، شرک و بدعت کا رواج، قبروں، مزاروں اور درگاہوں کی پرستش اور عقائد کی تمام بیماریاں اسی چور دروازے سے داخل ہوئی ہیں کہ قرآن وسنت کو ترک کر کے اپنے بزرگوں، پیروں، مشائخ اور خود ساختہ معبودوں کی بات کو ترجیح دی، ان کی تقلید کی اور کہا کہ یہ حضرات جو کرتے آئے ہیں آخر ان کے پاس بھی تو کوئی دلیل رہی ہوگی ، اس لیے ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں اور ان حدیثوں کو ہم نہیں مانیں گے اس لیے کہ ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ فہم نہیں رکھتے ۔

جو مشرکین مختلف شرکیہ اعمال میں مبتلا تھے ، ان سے جب کہا جاتا کہ تم لوگ اپنے آباؤ اجداد کی تقلید چھوڑ دو جنھوں نے اللہ کے بارے میں افترا پردازی کی تھی، اور اللہ اور اس کے رسول کے کہے پر عمل کرو، تو وہ فوراً بول اٹھتے کہ ہم تو اپنے آباؤ اجداد ہی کی تقلید کریں گے، اس کا جواب اللہ نے دیا کہ کیا باپ دادوں کی تقلید ان کے لیے کافی ہوگی، چاہے ان کے وہ باپ دادا حق کو جانتے اور پہچانتے نہ ہوں۔

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾

﴿المائده : 104﴾

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور رسول کی طرف آجاؤ ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جس دین و عقیدہ پر اپنے آباؤ اجداد کو پایا، وہی ہمارے لیے کافی ہے، کیا (وہ اسی پر قائم رہیں گے) اگر چہ ان کے آباؤ اجداد نہ کچھ جانتے رہے ہوں اور نہ راہِ ہدایت پر رہے ہوں ۔‘‘

مشرکین کے فعل شنیع پر مزید نکیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے پاس فرشتوں اور بتوں کی عبادت و پرستش کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی دین پر عمل کرتے پایا ہے، لہذا ہم بھی اسی دین پر قائم رہیں گے:

﴿ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِّن قَبْلِهِ فَهُم بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ ‎﴿٢١﴾‏ بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ ‎﴿٢٢﴾ ﴾

﴿الزخرف : 21 تا 22﴾

’’کیا ہم نے انھیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی جس سے وہ چھٹے ہوئے ہیں، بلکہ اُن کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر چلتے پایا ہے، اور ہم یقیناً انھی کے نقش قدم کی پیروی کرتے رہیں گے۔ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا (نبی) بھیجا، تو ان کے عیش پرستوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر چلتے پایا ہے، اور ہم یقیناً انھی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔‘‘

چھٹا سبب کفار کی مشابہت اختیار کرنا:

بنی اسرائیل جو فرعون کی غلامی سے آزاد ہونے اور سیدنا موسیٰؑ کے سمندر پار کرنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں ان کا گزرایسی قوم کے پاس سے ہوا جو بتوں کی پرستش کرتی تھی۔ انھیں دیکھ کر بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰؑ سے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی ایک ایسا ہی بت چاہیے جس کے سامنے جھکیں ۔

﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾

﴿الاعراف: 138﴾

’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر عبور کرا دیا، تو ان کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو اپنے بتوں کی عبادت کر رہے تھے، انھوں نے کہا، اے،موسیٰ ، جس طرح ان کے کچھ معبود ہیں، آپ ہمارے لیے بھی معبود بنادیجیے، موسیٰ نے کہا کہ واقعی تم لوگ بالکل نادان ہو۔‘‘

مفسر بغویؒ نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں کوئی شبہ نہیں تھا، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ ان بت پرستوں کی طرح ان کے لیے بھی کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جس کی تعظیم کرکے اللہ کا قرب حاصل کریں، اپنی شدت جہالت کی وجہ سے سمجھ بیٹھے تھے کہ اس سے ان کے دین و ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا …. انتهی (تفسیر بغوی)

امام احمد، ترمذی اور ابن جریر وغیرھم نے ابو واقد اللیثی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ حنین کے لیے نکلے تو ایک درخت کے پاس سے گزرے جس پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے، اس لیے اسے ’’ذاتِ انواط‘‘ کہا کرتے تھے، تو صحابہ میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی ’’ذات انواط‘‘ بنا دیجیے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سبحان اللہ ! یہ تو وہی قوم موسیٰ کی بات ہے کہ ’’بت پرستوں کے معبودوں کی طرح ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ گذشتہ قوموں کی راہ پر ضرور چلو گے۔
سنن ترمذى، كتاب الفتن، رقم : 2180 ، تفسير ابن جرير : 82/13 .

یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے مقام حدیبیہ کے اس درخت کو کٹوا دیا تھا جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے بیعت لی تھی، جسے بیعت الرضوان کہا جاتا ہے۔ امام ابوبکر طرطوش مالکی لکھتے ہیں کہ اگر تم کوئی ایسا درخت دیکھو جس کی لوگ زیارت اور تعظیم کرتے ہوں، اسے شفایابی کا سبب مانتے ہوں، اور اس میں کیلیں ٹھونکتے ہوں اور کپڑے کے ٹکڑے لٹکاتے ہوں، تو اسے کاٹ دو، کیونکہ وہ ’’ذات انواط‘‘ ہے۔
تفسير ابن كثير: 395/2، 396 .

❀ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿لتتبعن سنن من كان قبلكم شبرا شبرا وذراعا بذراع ، حتى لو دخلوا جحر ضب تبعتموهم ، قلنا: يا رسول الله اليهود والنصارى ، قال: فمن .﴾
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة ، حديث : 7320 .

تم اپنے سے پہلے لوگوں کی ضرور بالضرور بالشت اور ہاتھ کی حد تک پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں گھس گئے تو تم بھی ان کے پیچھے چلو گے (صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ) ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا:

تو پھر اور کون ہیں؟

﴿عن عبد الله بن عمرؓ قال: قال رسول الله ﷺ ليأتين على أمتي كما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان فى أمتي من يصنع ذلك ، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة ، وتفترق أمتي على ثلث وسبعين ملة ، كلهم فى النار إلا ملة واحدة ، قالوا: من هي يا رسول الله؟ قال: ما أنا عليه واصحابي﴾
مستدرك حاكم 129/1 ، سنن ترمذی: 89/2 واللفظ له.

سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

البتہ میری امت پر ایسا وقت آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا۔ جس طرح جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ بدکاری کی ہوگی تو میری امت کے (کچھ بدنصیب) لوگ بھی ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ، ایک کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا:

یا رسول اللہ وہ (نجات پانے والی) کون سی جماعت ہے؟ فرمایا جو میرے اور میرے اصحاب کے طریق پر ہوگی۔

❀ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

’’اور ایسی ہی وہ چیزیں ہیں جو بعض لوگ گڑھ کر مناتے ہیں یا میلاد عیسیؑ میں نصاریٰ کی مشابہت کرتے ہوئے اور یا نبی ﷺ کی محبت اور تعظیم میں آپ کی عید مناتے ہیں، حالانکہ آپ کی تاریخ پیدائش میں لوگوں کا اختلاف ہے کیونکہ اسے سلف کرام نے نہیں ذکر کیا ہے اگر اس کا کرنا محض خیر ہوتا یا کرنا رائج ہوتا تو سلف صالحینؒ ہم سے زیادہ اس کے حقدار ہوتے ، کیونکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ نبی کریم ﷺ سے محبت اور تعظیم کرنے والے تھے اور وہ لوگ خیر کے زیادہ حریص تھے اور نبی کریم ﷺ کی محبت اور تعظیم آپ کی متابعت وفرماں برداری، نیز آپ کے حکم کی پیروی، آپ کی سنت کے احیاء ظاہری اور باطنی طور پر ، آپ کی دعوت کو عام کرنے اور اس پر دل، ہاتھ اور زبان سے جہاد کرنے ہی میں ہے، کیونکہ یہی طریقه مہاجرین و انصار سابقین اولین کا ہے اور ان لوگوں کا بھی ہے جنھوں نے اچھائی کے ساتھ اس کی پیروی کی ۔‘‘
اقتضاء الصراط المستقيم: 615/2 .

ساتواں سبب غلو:

اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو دین میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ ہر دور میں یہ برائی ان کے اندر دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پائی گئی۔ انھوں نے دین میں رہبانیت اور عورتوں سے کنارہ کشی کو ایجاد کیا ، اور سید نا عیسیؑ کو اللہ کا مقام دیا، بلکہ اپنے علماء اور راہبوں تک کو اپنا معبود بنالیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا﴾

﴿النساء : 171﴾

’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو، اور اللہ کی شان میں حق بات کے علاوہ کچھ نہ کہو ، مسیح عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول تھے، اور اس کا کلمہ، جسے اس نے مریم کی طرف پہنچا دیا، اور اس کی طرف سے ایک روح، پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ، اور تین معبودوں کے قائل نہ بنو، اس سے باز آجاؤ، اسی میں تمھاری بہتری ہے، بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، اسی کی ملکیت ہے، اور اللہ بحیثیت کارساز کافی ہے۔

❀ سورۃ التوبہ میں ارشاد فرمایا:

﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾

﴿التوبة: 30 ، 31﴾

’’اور یہود نے کہا کہ عزیز اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ اُن کے منہ کی بکواس ہے، ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انھیں ہلاک کر دے، کس طرح حق سے پھرے جارہے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے عالموں اور عابدوں کو اللہ کے بجائے معبود بنالیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔‘‘

امام احمد ، ترمذی اور ابن جریر وغیرھم نے عدی بن حاتمؓ سے روایت کی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو ان کی گردن میں چاندی کا صلیب لٹک رہا تھا (انھوں نے جاہلیت کے زمانہ میں عیسائیت کو قبول کر لیا تھا) تو رسول اللہ ﷺ نے آیت پڑھی:

﴿اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾

تو میں نے کہا کہ عیسائیوں نے اپنے عالموں کی عبادت تو نہیں کی ، آپ ﷺ نے فرمایا:

ہاں ، انھوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا ، تو لوگوں نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروی کی، یہی ان کی عبادت ہے۔
مسند أحمد: 378/3، سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن، رقم : 3095، تفسير طبری: 212/14 – محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

سید نا عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمرؓ کو ممبر پر یہ فرماتے سنا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا:

﴿لا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عبده فقولوا : عَبدُ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ﴾
صحيح بخارى، كتاب أحاديث الانبياء ، رقم : 3445 .

’’مجھے نصاریٰ کی طرح نہ بڑھانا جیسا کہ انھوں نے عیسیٰؑ کے معاملہ میں کیا میں تو اللہ کا نبی اور اس کا رسول ہوں۔‘‘

’’تم لوگ دین میں غلو کرنے سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ غلو فی الدین کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے ۔‘‘

علامہ ابن قیمؒ نے غلو کو کبائر میں شمار کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’مخلوق کے بارے میں غلو کرنا حتی کہ اس کے مقام سے تجاوز کیا جائے اور بعض اوقات یہ غلو گناہ کبیرہ سے شرک کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
اعلام الموقعين : 407/4 .

مولانا حالی نے کیا خوب کہا:

تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا بیٹا بنانا
میری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انسان ہیں واں جس طرح سرفگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی ایک اس کا بندہ
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا میری قبر پر سر خم تم

آٹھواں سبب : استدلالات فاسده و اتباع متشابهات :

استدلالات فاسدہ اور اتباع مشابہات بھی بدعات کے اسباب و محرکات میں سے ہیں۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:

﴿يطلبون الدنيا وقد اعتادوا تقليد السلف، وأعرضوا عن نصوص الكتاب والسنة، وتمسكوا بتعمق عالم وتشدده واستحسانه ، فاعرضوا كلام الشارع المعصوم ، وتمسكوا بأحاديث موضوعة، وتأويلات فاسدة، كانت سبب هلاكهم﴾
الفوز الكبير في اصول التفسير ، ص : 10 ، 11 .

’’اگر تم یہودیوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو (ہمارے زمانے کے) علمائے سوء کو دیکھو، جو دنیا کی طلب اور (اپنے) سلف کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کتاب وسنت کی نصوص (دلائل) سے منہ پھیر تے اور کسی (اپنے پسندیدہ) عالم کے تعمق، تشدد اور استحسان کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ جو معصوم ہیں، کے کلام کو چھوڑ کر موضوع روایات اور فاسد تاویلوں کو گلے سے لگالیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘

جن لوگوں کے دلوں میں کفر و نفاق ہے وہ متشابہ آیتوں کے در پے ہوتے ہیں، تاکہ لوگوں کو شبہات میں مبتلا کر سکیں، اپنے باطل عقائد و نظریات پر فاسد تاویلات کے ذریعہ ان سے استدلال کر سکیں ، اور اسلام میں بدعتوں کو رواج دے سکیں۔ ایسے لوگ یقیناً بیمار عقل والے ہوتے ہیں جو مشتبہ آیتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں ، تاکہ اپنے باطل افکار کی تائید میں کوئی دلیل لاسکیں ، اور مسلمانوں میں شر اور فتنہ پھیلا سکیں ۔

﴿فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾

﴿آل عمران : 7﴾

’’پس جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ پن ہوتا ہے وہ فتنہ انگیزی کی غرض سے اور (اپنی خواہش نفس کے مطابق) تاویل کی غرض سے انہی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، حالانکہ ان کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اور راسخ علم والے کہتے ہیں کہ ہم اُن پر ایمان لے آئے،سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل والے حاصل کرتے ہیں۔‘‘

نواں سبب : تعصب مذہبی :

تعصب بہت بُری چیز ہے، اس کی وجہ سے اُمت مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئی اور اس کی بنا پر دوستی یا دشمنی کی جانے لگی۔ حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾

﴿آل عمران: 103﴾

’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقوں میں مت بٹو ۔‘‘

تعصب سے افتراق و عداوت اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض اصحاب مذہب نے مخالف مذہب کی لڑکی یا اس کے عکس سے نکاح کو نا جائز قرار دیا ہے اور بعض نے مخالف نا مذہب کی لڑکی کو یہودی یا نصرانی عورت کی طرح سمجھ کر نکاح کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح مخالف مذہب کے امام کے پیچھے نماز کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔

چنانچہ ابن ہمام حنفی رقمطراز ہیں کہ:

❀ ابوالیسر نے کہا ہے:

کہ حنفی آدمی کی صلاۃ شافعی کے پیچھے جائز نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ مکحول نخعی نے اپنی کتاب ’’یشفاع‘‘ میں رقم کیا ہے کہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے کیونکہ یہ عمل کثیر ہے۔
فتح القدير : 31/1 .

شیخ محمد حیات سندھی حنفی نے کہا ہے:

’’ہمارے اہل زمانہ نے جو خاص مذہب کے التزام کی بدعت ایجاد کی ہے کہ ہر ایک کسی ایک مذہب سے منتقل ہو کر دوسرے مذہب میں جانے کو ناجائز کہتا ہے۔ تو یہ جہالت، بدعت اور ظلم ہے۔ ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو صحیح منسوخ احادیث کو چھوڑ کر جن مذاہب کی کوئی سند نہیں انھی سے تمسک کرتے ہیں ۔‘‘

إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ .
ايقاظ همم أولى الأبصار ، ص 70 .

اسی تعصب مذہبی کے نتیجے میں ہی لوگوں نے مسجد الحرام کو چار یا پانچ مصلوں میں بانٹ رکھا تھا۔ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں گزرا ہے۔

یہ ملاں کافروں کو دولت اسلام کیا دے گا
اسے کافر بنانا بس مسلمانوں کو آتا ہے
تعصب نے اس صاف چشم کو آکر
کیا بغض کے خار و خس سے مکدر

دسواں سبب : بدعتی لوگوں کی ہم نشینی :

ابتدائے اسلام میں مشرکین مکہ صحابہ کرام کو قرآن پڑھتے دیکھتے تو مذاق اُڑاتے، اور باتیں بناتے ، انھی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو منع کیا کہ کفار جب قرآن کا مذاق اڑا رہے ہوں تو ایسی مجلسوں سے اُٹھ جائیں، یہاں تک کہ وہ لوگ کوئی اور بات کرنے لگیں :

﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾

﴿الانعام : 68﴾

’’اور جب آپ اُن لوگوں کو دیکھئے جو ہماری آیتوں کے خلاف باتیں بناتے ہیں، تو آپ ان سے اعراض کیجیے، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھئے ۔‘‘

اور جب نبی کریم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ شریف پہنچے، تو وہاں بھی جب کفار اور منافقین کا ایسا ہی رویہ تھا کہ وہ لوگ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے ، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی مجلسوں سے اجتناب کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ سورہ نساء میں آیا ہے:

﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾

﴿النساء: 140﴾

’’اللہ نے قرآن میں تمھارے لیے اتارا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جارہا ہے، اور اس کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، تو اُن کے ساتھ نہ بیٹھو، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، ورنہ تم انھی کے جیسے ہو جاؤ گے۔‘‘

مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ حکم عام ہے، اور اُمت مسلمہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی اسلام کا یا قرآن وسنت وغیرہ کا مذاق اُڑایا جارہا ہو، یا بدعت وخرافات کی طرف دعوت دی جارہی ہو اس مجلس کا بائیکاٹ کرے، ورنہ اس پر بھی وہی حکم لگے گا جس کا بیان ابھی سورہ نساء کے آخر میں گزرا کہ (إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ) تم بھی ان کے مانند ہو جاؤ گے۔

حضرت محمد بن سیرینؒ اسی آیت کریمہ کی روشنی میں اہل بدعت سے مجالست کو مردود قرار دیتے تھے، اور فرماتے کہ یہ آیت انھی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
سير أعلام النبلاء: 610/4 .

اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿إنما مثل الجليس الصالح والجليس السوء كحامل المسك ونافح الكير ، فحامل المسك إما أن يحذيك وإما أن تبتاع منه ، وإما أن تجد منه ريحا طيبة ، ونافخ الكير إما أن يحرق ثيابك وإما أن تجد ريحا خبيثة﴾
صحيح البخارى، كتاب الذبائح والصيد ، باب السمك، حديث رقم: 5534 ، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة ، باب استحباب مجالسة الصالحين . حدیث رقم : 2628 ، بروایت ابوموسی اشعریؓ .

’’نیک ہم نشین اور بُرے ہم نشین کی مثال مشک فروش اور آگ کی بھٹی دھو نکنے والے کی سی ہے۔ مشک فروش یا تو آپ کو مشک ہدیہ میں دے دے گا یا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم تمھیں اس سے پاکیزہ خوشبوضرور ملے گی اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تمھارے کپڑے جلا دے گا یا کم از کم تمھیں اس سے بد بو ملے گی۔‘‘

❀ امام فضیل بن عیاضؒ نے ارشاد فرمایا:

’’یقیناً اللہ کے فرشتے ذکر کے حلقے تلاش کرتے رہتے ہیں لہذا دیکھو کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا کس کے ساتھ ہے؟ بدعتی کے ساتھ نہ ہو، کیونکہ اللہ ان کی طرف نہیں دیکھتا اور نفاق کی علامت یہ ہے کہ آدمی کا اٹھنا بیٹھنا بدعتی کے ساتھ ہو۔‘‘
حلية الأولياء: 104/8 .

گیارہواں سبب : تصوف :

یہ معاملے ہیں نازک، جو تیری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی

تصوف بدعت کی جڑ ہے۔ ائمہؒ نے اس سے بہت ڈرایا ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ انسان غیر محسوس طریقے سے گمراہی میں چلا جاتا ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

﴿لو أن رجلا تصوف أول النهار لا يأتى الظهر حتى يصير أحمق﴾

’’اگر کسی نے شروع دن میں صوفیانہ زندگی اختیار کر لی تو وہ دو پہر تک احمق ہو جائے گا۔‘‘

﴿ما لزم أحد الصوفين أربعين يوما فعاد عقله .﴾

’’جس کسی نے متواتر چالیس دن تک کسی صوفی کی صحبت اختیار کی تو اس کی عقل دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گی۔‘‘

❀ اور امام اہل السنہ احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:

﴿حدروا من الحارث أشد التحذير ، الحارث أصل البلبلة يعني فى حوادث كلام جهم ، ذاك جالسه فلان وفلان وأخرجهم إلى ر أى جهم ما زال مأوى أصحاب الكلام، حارث بمنزلة الأسد المرابط أنظر أى يوم يتب على الناس﴾

حارث صوفی سے جہاں تک ہو سکے بچو، کیوں کہ وہ مصیبت کی جڑ ہے،
الفكر الصوفي في ضوء الكتاب والسنة، ص : 683، 684.

جہم بن صفوان کے کلام کے حوادث کا شکار ہے، دیکھتے نہیں کہ فلاں اور فلاں اشخاص اس کے ہم جلیں ہیں، جس نے ان کو جہم بن صفوان کی رائے کا پابند بنادیا ہے، جو اب تک علم کلام والوں کا ملجی و ماویٰ ہے، حارث کی مثال گھات میں رہنے والے شیر کی ہے، دیکھو وہ کس دن حملہ کرتا ہے۔

یہ سلسلے بھی تصوف کے ہیں، ان سے صحبت و مجلس بدعت کی طرف لے جاتی ہے۔

① سلسله نقشبندیہ
② سلسلہ سہروردیہ
③ سلسلہ قادریہ
④ سلسلہ چشتیہ

سلسله نقشبندیه:

یہ سلسلہ جو ’’سلسلہ خواجگان‘‘ بھی کہلایا۔ اپنی قدامت سے سب سے پہلے آتا ہے۔ ترکستان میں اس کی بنیاد پڑی۔ اس سلسلے کے بزرگوں میں محمد اتا لیسوسی (المتوفی 570ھ) اور عبد الخالق مجید وانی نے اس کو فروغ دینے کی بڑی کوششیں کیں ، لیکن اس کو مقبول عام بنانے کا شرف بہاء الدین نقشبند (المتوفى 785ھ) کو حاصل ہوا، ان کے بعد یہ سلسلہ ’’نقشبندیہ”‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اگر چه نقش بندی سلسلہ سب سے زیادہ قدیم ہے، مگر ہندوستان میں یہ سلسلہ دیگر سلاسل کے بعد پہنچا۔ حضرت باقی باللہ (المتوفی 1014ھ) اس سلسلے کو ہندوستان لائے اوران کے عزیز ترین مرید اور خلیفہ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف به مجددالف ثانی (المتوفى 1035ھ) نے اس سلسلے کو ہندوستان میں ترقی دی۔ ان کے بعد یہ سلسلہ ’’سلسلہ مجددیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا۔

سهروردی سلسله:

یہ سلسلہ شیخ شہاب الدین سہروردی کی طرف منسوب ہے، انہوں نے اس سلسلے کی ترویج و اشاعت بڑی محنت اور جانفشانی سے کی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں ’’خانقاہی نظام‘‘ ترتیب دیا اور رفتہ رفتہ تمام سلسلوں نے اس نظام کو اپنا نصب العین بنالیا۔ ان کے خلفاء میں قاضی حمید الدین ناگوری اور بہاء الدین زکریا ملتانی کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ زکریا ملتانی نے ملتان ، اوچ اور دیگر مقامات پر سہروری سلسلے کی مشہور خانقاہیں قائم کیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے عہد سلطنت کے ابتدائی دور میں صرف چشتیہ اور سہروردیہ سلسلوں کا وجود ملتا ہے۔ سہروردیہ سلسلے کی خانقاہیں ملتان اور سندھ تک محدود تھیں۔ چشتیوں نے اپنا نظام پاک پتن سے لے کر لکھنوتی اور دہلی سے لے کر دیو گیر تک قائم کیا تھا۔

قادريه سلسله:

یہ سلسلہ شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی کی طرف منسوب ہے، یہ بغداد میں قائم ہوا اور رفتہ رفتہ اس کی شاخیں تمام اسلامی ملکوں میں پھیل گئیں۔ ہندوستان میں یہ سلسلہ نویں صدی ہجری میں شاہ نعمت اللہ قادری نے قائم کیا۔ سید محمد غوث گیلانی، مخدوم شیخ عبدالقادر ثانی، سید موسیٰ اور شیخ عبدالحق دہلوی نے اس سلسلہ کو عہد مغلیہ میں فروغ دیا۔

چشتیه سلسله:

اس سلسلے کی داغ بیل تو شیخ ابو اسحاق شامی (المتوفى : 316ھ) نے ڈالی تھی، لیکن اس کو پروانہ چڑھانے اور پھیلانے کا کام حضرت معین الدین حسن سنجری (المتوفی 611 ھ) نے انجام دیا۔ ہندوستان میں سب سے پہلے چشتیہ سلسلہ کی داغ بیل رکھی گئی تھی۔ شیخ معین الدین چشتی کے عزیز مرید اور خلیفہ قطب الدین بختیار کاکی نے چشتیہ سلسلے کو مقبول عام کرنے کی بے حد کوشش کی اور ان کے بعد ان کے خلیفہ فرید الدین مسعود گنج شکر نے اس سلسلے کو منظم کیا اور ان کے خلیفہ نظام الدین اولیاء نے اسے معراج کمال تک پہنچایا۔

اس زمانے میں بدر الدین سمر قندی تصوف کا ’’سلسلہ فردوسیہ‘‘ لے کر ہندوستان تشریف لائے تھے۔ موصوف سیف الدین باخرزری کے خلیفہ تھے، لیکن یہ سلسلہ صرف صوبہ ’’بہار‘‘ تک محدود رہا۔ اس سلسلے کو پروان چڑھانے کا کام شرف الدین یحییٰ منیری نے انجام دیا۔

دسویں صدی ہجری میں شاہ عبداللہ شطاری نے ’’سلسلہ شطاریہ‘‘ قائم کیا تھا، سیّد محمد غوث گوالیاری اور وجیہہ الدین علوی گجراتی نے اس سلسلے کو ہندوستان میں ترقی دی۔ جہانگیر بادشاہ کے عہد کے بعد اس سلسلے کا اثر ہندوستان میں رفتہ رفتہ بہت کم ہو گیا تھا۔

تصوف کا ایک اور سلسلہ جو ’’صابر یہ سلسلہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سلسلہ کی نسبت علی احمد صابر کی طرف ہے جو فرید الدین مسعود گنج شکر کے خلیفہ تھے۔ اس سلسلے کے پروان چڑھنے کی وجوہات یہ ہوئیں کہ چشتیہ سلسلے کا تابناک دور جو معین الدین چشتی سے شروع ہوا تھا وہ ان کے مرید اور خلیفہ نصیر الدین چراغ دہلوی کی وفات کے بعد چشتیہ سلسلے کا مرکزی نظام ختم ہو گیا، تو دوسری طرف فیروز شاہ کے انتقال کے بعد (1388ء) میں سلطنت دہلی کی مرکزی حیثیت ختم ہو گئی تھی۔ صوبوں میں خود مختار حکومتیں پیدا ہوگئی تھیں اور دہلی کی امتیازی شان جاتی رہی تھی ۔ پھر سلطان محمد تغلق کے حکم سے دہلی ساری آبادی رکن کے شہر ’’دیو گیر‘‘ منتقل ہو گئی تو اس سلسلے کے سارے مشائخ بھی تتر بتر ہو گئے اور چشتیہ سلسلے کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔

صابر یہ سلسلہ اسی دور میں پروان چڑھا تھا۔ اس دور میں اس سلسلہ کا مرکز امروہہ تھا۔ علی احمد صابر کے حالات سے معاصر تذکرے اور تاریخیں یکسر خالی ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں سلسلہ کی ترقی کے لیے کچھ نہ کر سکے، لیکن ان کے بعد ان کے سلسلے کے بزرگوں نے اس کو فروغ دینے کی بڑی جدو جہد کی ۔

صابر یہ سلسلے میں علاء الدین احمد صابر کلیری کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ان کے خلیفہ اور سجادہ نشین شمس الدین ترک تھے۔ ان کے بعد جمال الدین پانی پتی مسند خلافت پر بیٹھے۔ ان کے چالیس (40) خلیفہ تھے جن میں عبدالحق کو سلسلہ صابریہ کو آگے بڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے ردولی ضلع بارہ بنکی میں اپنی خالقاہ قائم کی تھی۔ اس وقت چشتیہ سلسلے کا مرکزی نظام ختم ہو چکا تھا اور دہلی اور اس کے ارد گرد کا تمام علاقہ چشتیہ سلسلے کے بزرگوں سے تقریباً خالی تھا۔ 837ھ میں شیخ عبدالحق کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شیخ عارف سجادہ نشین ہوئے ، اور ان کے بعد ان کے صاحب زادے محمد ردولوی سجادہ شیخیت پر بیٹھے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ ان کے عزیز مرید وخلیفہ عبدالقدوس گنگوہی کے ہاتھوں میں پہنچا۔ یہ صابر یہ سلسلے کے پہلے بزرگ ہیں جن کے حالات معاصر تذکروں اور تاریخوں میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ انہیں جو شہرت حاصل ہوئی وہ اس سے قبل اس سلسلے کے کسی بزرگ کو نہیں ملی تھی۔ صابر یہ سلسلہ کے نظام کو ترتیب دینا اور اسے پھیلا نا عبدالقدوس گنگوہی کا ہی کام تھا۔

عبدالقدوس گنگوہی کے خلیفہ جلال الدین تھانیسری ہوئے اور ان کے خلفاء میں ابوسعید گنگوہی نے صابر یہ سلسلے کی اشاعت میں کافی سرگرمی کا ثبوت دیا۔ ابوسعید گنگوہی کے سب سے زیادہ مشہور خلیفہ محب اللہ الہ آبادی تھے۔ ان کے بعد اس سلسلے کو ان کے خلیفہ سید شاہ محمد ین کے مرید شاہ عضد الدین (المتوفی 1172ھ) نے ترقی دی۔ ان کے بعد مسند خلافت علی الترتیب شاہ عبد الہادی (المتوفی 1190ھ ) اور شاہ عبدالباری (المتوفی 1226ھ ) کے ہاتھ آئی۔ شاہ عبدالباری کے خلیفہ حاجی سید عبدالرحیم فاطمی تھے جو سید احمد شہید بریلوی کی تحریک جہاد میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور پھر بالا کوٹ میں انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ انہیں حاجی عبدالرحیم فاطمی کے خلیفہ میاں جی نور محمد جھنجھانوی (المتوفی 1259ھ) ہوئے جن کے مرید حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے جو دیو بندی مکتب فکر کے شیخ الشیوخ ہیں، کیونکہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلفاء میں مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی کو دیو بندی مکتب فکر کا امام اور مقتدی مانا جاتا ہے، اس طرح سلسلہ صابریہ کے ذریعہ نظریاتی طور پر دیوبندی مکتب فکر ، اس تصوف سے پوری طرح وابستہ ہے جو اپنے برگ و بار کے لحاظ سے شرک و بدعت کی جڑ ہے۔
اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات ،ص: 115 تا 118۔

بارہواں سبب : طمع و لالچ :

طمع ولالچ بھی انسان کو بدعت کی طرف لے جاتا ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح جل مؤمنا ويمسى كافرا ، أو يمسي مؤمنا ويصبح كافرا ، يبيع دينه بعرض من الدنيا﴾
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم : 118 .

’’ان فتنوں کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے نیک اعمال کی طرف سبقت اور جلدی کرو جو شب دیجور کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے کہ آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافریا شام کو مومن ہوگا ، اور صبح کو کافر وہ اپنے دین کو دنیوی سامان کے عوض فروخت کر دے گا۔‘‘

❀ دوسرے مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿ما ذنبان جائعان أرسلا فى غنم بأفسد من حرص المرء على المال والشرف لدينه﴾
سنن الترمذی، کتاب الزهد، باب حدثنا سويد، رقم : 6732۔ شیخ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

’’بکریوں کے کسی ریوڑ میں بھیجے گئے دو بھوکے بھیڑیے اتنے زیادہ نقصان دہ نہیں ہوتے جتنا مال و شرف کا لالچی آدمی دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘

تیر ہواں سبب : اکابر پرستی:

جاہل اور غلو کرنے والے یہودیوں نے سیدنا عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، جن کا زمانہ عیسیؑ سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال پہلے کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بکھرے ہوئے تو رات کو اکٹھا کیا، اور عبرانی زبان میں لکھی ہوئی تمام اسرائیلی کتابوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کے لیے قانون کی ایک عظیم کتاب تیار کی۔ جس سے متاثر ہوکر یہودیوں نے انھیں اللہ کا مجازی بیٹا کہنا شروع کر دیا، جو توحید باری تعالیٰ کی شان کے خلاف تھا۔

اور گمراہ نصاریٰ میں سے کسی نے عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا، کسی نے ان کو بعینہ اللہ اور کسی نے انھیں تین میں سے ایک معبود قرار دیا۔

﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾

﴿التوبة : 30﴾

’’اور یہود نے کہا کہ عزیز اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ اُن کے منہ کی بکواس ہے، ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انھیں ہلاک کر دے، کس طرح حق سے پھرے جارہے ہیں۔‘‘

قوم نوح صالحین کی عبادت کرنے لگی ۔ قوم کے سرغنوں نے عوام الناس کو شرک پر ابھارتے ہوئے کہا کہ جن معبودوں کی ہمارے اور تمھارے آباء پرستش کرتے آئے ہیں، انھیں ہرگز نہیں چھوڑو، اور اُن کی عبادت پر سختی کے ساتھ جمے رہو۔ تم لوگ اپنے معبود ود ، سواع، یغوث ، یعوق اور نسر کو کسی حال میں فراموش نہ کرو۔

امام بخاریؒ نے سید نا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ:

ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر قوم نوح میں نیک لوگوں کے نام تھے جب وہ لوگ وفات پاگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہوں پر ان کے ناموں کے مجسمے بنا کر گاڑ دو، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور جب وہ لوگ مرگئے ، اور ان کے درمیان سے علم اُٹھ گیا تو ان مجسموں کی عبادت کی جانے لگی ۔
صحیح بخاری، رقم : 492 .

چودہواں سبب : عقل پرستی :

عقل پرستی انسان کو گمراہ کر دیتی ہے۔ چنانچہ امام فخر الدین رازیؒ کہتے ہیں:

نهاية اقدامِ العقول عقالُ وأكثر سعى العالمين ضلال وأرواحنا في وحشة في جسومنا وحاصل دنيانا أذى ووبال ولم نستفد من بحثنا طول عمرنا سوى أن جمعنا فيه قيل وقالوا

’’عقلوں کے گھوڑوں کی منزل ہے بے بسی اور علماء کی زیادہ محنت گمراہی کا سبب ہے۔ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں وحشت زدہ ہیں اور ہماری دنیا کا حاصل تکلیف اور مصیبت ہے۔ ہماری عمر بھر کی بحثوں سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ ہم نے اس میں قیل اور قالوا کو جمع کر دیا ہے ۔‘‘
یہ ابن خطیب المعروف فخر الدین رازی کے اشعار ہیں، شاطبی نے انھیں ’’الافادات والانشادات‘‘ میں (صفحہ 84، 85) پر اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے، اور المقری کی کتاب ’’نفخ الطيب‘‘ (19/9) میں اور لسان الدین ابن خطیب کی کتاب ’’الاحاطة في اخبار غرناطه‘‘ (222/2) میں دوسری سند کے ساتھ مروی ہیں۔

پندرہواں سبب : ابتلائے شک وشبہ:

مشرکین مکہ اپنے جھوٹے معبودوں جنھیں انھوں نے اور اُن سے پہلے ان کے آباء واجداد نے اللہ کے ناموں سے مشتق نام دے رکھے تھے ، ان میں معبود بننے کی کوئی بھی صفت موجود نہیں تھی ، انھوں نے محض اپنی طرف سے ان کے ایسے نام رکھ دیے تھے، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی تھی۔ وہ محض اپنے وہم و گمان اور اپنی خواہش نفس کی اتباع کرتے تھے، حالانکہ اُن کے پاس اُن کے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی تھی کہ یہ بت اس لائق نہیں کہ ان کی عبادت کی جائے۔ عبادت تو صرف اُس اللہ جل شانہ کے لیے خاص ہے جو ہر چیز کا خالق اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے۔

مشرکین مکہ کے لیے ان کے رب کی طرف سے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ جو ہدایت آئی، اس سے انھوں نے منہ پھیر لیا، اور اپنی من مانی تمناؤں سے رشتہ جوڑ لیا، اور خیال باطل کو اپنے دل میں جگہ دے دی کہ اُن کے بت اُن کے لیے سفارشی بنیں گے:

﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَىٰ﴾

﴿النجم : 23﴾

’’یہ بت تو محض نام ہیں جنھیں تم نے اور تمھارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، وہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور اپنی خواہش نفس کی، حالانکہ اُن کے پاس اُن کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔‘‘

سولہواں سبب : کتمان حق :

کتمان حق بھی اسباب بدعت میں سے بڑا سبب ہے۔ جب حق پس پردہ ہو جائے تو بدعات سے پردہ اٹھ جاتا ہے، جن لوگوں کا شیوہ کتمان حق ہو وہ باطل کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی شدید مذمت فرمائی جو انبیاء و رسل کے ذریعہ بھیجی گئی ہدایت و رہنمائی کولوگوں سے چھپاتے تھے۔

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ﴾

﴿البقره : 159﴾

’’بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، اس کے باوجود کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے کتاب میں بیان کر چکے ہیں، ان پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔‘‘

یہ آیت کریمہ اگر چہ یہود و نصاری کے ان علماء کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی صداقت کی نشانیوں کو چھپایا تھا، لیکن اس کا حکم عام ہے، ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حق کو چھپاتا ہے، وہ لازمی طور پر اس وعید شدید میں شامل ہوگا۔

چند آیات آگے کتمان حق کرنے والوں کے لیے وعید کا دوبارہ ذکر کیا تا کہ امت مسلمہ کے افراد ایسی مذموم صفت سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں ۔ ارشاد فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾

﴿البقره : 174﴾

’’جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں، اور اس کے بدلے حقیر سی قیمت قبول کر لیتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتے ہیں، اور روز قیامت اللہ اُن سے کلام نہیں فرمائے گا، اور نہ انھیں پاک کرے گا، اور اُن کے لیے بڑا دردناک عذاب ہوگا۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿من سئل عن علم يعلمه فكتمه الجم يوم القيامة بلجام من النار .﴾
سنن الترمذى، كتاب العلم باب ما جاء في كتمان العلم، حدیث نمبر: 2649، سنن ابوداؤد، کتاب العلم باب كراهية منع العلم حديث نمبر : 3658، سنن ابن ماجه المقدمة، باب من سئل عن علمه ،فکتمه حدیث نمبر: 266، مسند احمد 263/2، 305۔ علامہ البانیؒ نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

’’جس شخص سے کوئی علم دریافت کیا گیا جسے وہ جانتا ہے اور اس نے اسے چھپا لیا تو اسے قیامت کے روز آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‘‘

ستر ہواں سبب : تحریف:

تحریف بھی بدعت کے اسباب میں سے ہے اور بڑا مذموم فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود کے لیے وعید شدید کا ذکر فرمایا جو تحریف کیا کرتے تھے:

﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾

﴿البقره: 79﴾

’’پس ویل (ہلاکت) ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تا کہ اس کے بدلے کچھ مال حاصل کریں، پس ان کے لیے خرابی ہے، اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی (کتاب) کے سبب، ان کے لیے خرابی ہے ان کی اپنی کمائی کے سبب ۔‘‘
تفصیل کے لیے دیکھیے : بدعت از شیخ صالح بن فوزان الفوزان ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے