بدشگونی لینا اور عقیدہ نحوست
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

بدشگونی لینا اور عقیدہ نحوست

رسول اللہ ﷺ جب اس دنیا فانی میں مبعوث ہوئے تو دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی ، اور کئی طرح کے شیطانی وساوس اور شرکیہ تو ہمات میں مبتلا تھی۔ جاہلیت کی شرکیہ رسومات اور باطل خیالات میں سے ’’تطیر ، بدشگونی لینا‘‘ بھی ہے۔ دور جاہلیت میں کسی لمبے سفر یا اہم کام کے شروع میں پرندے کو اُڑایا جاتا تھا ، اگر وہ پرندہ دائیں طرف کو اُڑ کے جاتا تو اس سے مشروع کو بابرکت اور کامیاب سمجھتے ہوئے جاری رکھا جاتا، جب کہ اس کے بائیں جانب پرواز کرنے کی صورت میں اس پروگرام کو منحوس اور نا کام تصور کر کے چھوڑ دیا جاتا۔ شریعت اسلامیہ نے اس کی بھر پور نفی کی اور اسے محض باطل اور شرک قرار دیا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، یقینا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ .))
صحیح بخاری کتاب الطب، رقم : ٥٧٥٧ ـ صحيح مسلم، کتاب السلام، رقم: ۲۲۲۰۔

’’نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری لگتی ہے ، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ اُلو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے ، اور نہ صفر کی کوئی حقیقت ہے۔‘‘

یہ حدیث پاک اس حقیقت سے باخبر کر رہی ہے کہ جلب منفعت یا دفع مضرت میں اس چیز کی کوئی تاثیر نہیں یعنی بدشگونی کی ، یقیناً ہر قسم کے نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ، لہٰذا انسان کو ہمیشہ تو کل علی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہیے اور اس کے مقاصد میں کسی قسم کی فال یا بدشگونی حائل نہ ہو، جو اسے شرک کی ہیبت ناک دلدل میں دھکیل دے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:

((الطَّيَرَةُ شِرُكَ الصِّيَرَةُ شِرُكٌ.))
سنن أبو داؤد، كتاب الطب، رقم: ۳۹۱۰ – البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

’’بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے۔‘‘

زمانہ جاہلیت کے شرکیہ عقائد میں سے صفر بھی تھا۔ صفر کے متعلق ان کا گمان تھا کہ صفر پیٹ کا ایک کیڑا ہے جو بھوک کے وقت پیٹ کو نوچتا ہے، کبھی آدمی اس کی وجہ سے مرجاتا ہے، عرب لوگ اس بیماری کو متعدی سمجھتے تھے ۔ امام مسلمؒ نے سیدنا جابرؓ سے صفر کے یہی معنی نقل کیے ہیں ۔
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: ٥٧٩٧۔

بعض نے کہا صفر سے مراد وہ مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے۔ عرب لوگ اس کو بھی منحوس سمجھتے تھے۔

ايك شبه :

اب تک پاک و ہند کے مسلمان تیرہ تیزی کو منحوس جانتے اور ان دنوں میں شادی بیاہ نہیں کرتے اور دلیل کے طور پر ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( مَنْ بَشَّرَنِي بِخُرُوجِ صَفَرٍ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ .))

’’جو شخص مجھے ماہ صفر ختم ہونے کی بشارت دے گا ، میں اسے جنت کی بشارت دوں گا۔‘‘

ازاله:

لیکن یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ، ملا علی قاری حفی نے ’’الموضوعات الكبير ، ص : ١١٦‘‘ میں لکھا ہے کہ

((لَا أَصْلَ لَهُ))

’’اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔‘‘

لہٰذا ماہ صفر کو منحوس خیال کرنا جاہلی شرکیہ تو ہمات سے ہے ۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ پس جو شخص بدشگونی لیتا ہے، یا عقیدہ نحوست رکھتا ہے وہ شرک میں مبتلا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے