باجماعت نماز یا فجر کی سنتیں ؟
 تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

جب فرض نماز کی اقامت شروع ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ سنتیں اور نوافل پڑھنا جائز نہیں خواہ صف میں کھڑے ہو کر ادا کیے جائیں یا صف سے پیچھے اور خواہ ادائیگی کے بعد کلام کرے یا نہ کرے، جیسا کہ :

دلیل نمبر 1 :

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 إذا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلَاةَ إلَّا الْمَكْتُوبَةَ ”جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی ( نفلی ) نماز نہیں ہوتی۔“ ( مسند الإمام أحمد : 331/2، صحیح مسلم : 1644 – 247/1 ح : 710 )

یہ حدیث مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح روایت ہوئی ہے، یعنی اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان بھی ثابت ہے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی۔ یہ اصول ہے کہ موقوف روایت مرفوع حدیث کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اس مرفوع حدیث میں واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی سنتیں ہوں یا کوئی اور نماز، فرض نماز کی اقامت کے بعد پڑھنا ممنوع ہے۔

(1) امام ترمذی رحمہ اللہ ( 209-279ھ) اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
والعمل على ھذا عند بعض أھل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم و غيرھم إذا أقيمت الصلاة أن لا يصلّي الرجل إلّا المكتوبة، و به يقول سفيان الثوريّ و ابن المبارك والشافعيّ و أحمد و إسحق
”بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو آدمی صرف فرضی نماز ہی پڑھ سکتا ہے۔ امام سفیان ثوری، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ اس کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔“ ( سنن الترمذي، تحت الحديث : 421)

(2) امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ ( 223-311ھ) نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے :
باب النھي عن أن يصلّي ركعتي الفجر بعد الإقامة ضدّ قول من زعم أنّھما تصليان و الإمام يصلّي الفريضة
”اس بات کا بیان کہ فجر کی دو رکعت سنتیں اقامت کے بعد ادا کرنا منع ہیں برخلاف اس شخص کے جو کہتا ہے کہ امام فرض نماز پڑھا رہا ہو تو یہ دو رکعتیں پڑھ لی جائیں۔“ ( صحيح ابن خزيمة : 169/2، ح 1123) 

(3) امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ) نے یوں تبویب فرمائی ہے :
 ذكر البيانّ بأنّ حكم صلاة الفجر و حكم غيرھا من الصلوات فى ھذا الزجر سواء
”اس بات کا بیان کہ اس ڈانٹ میں نماز فجر اور دوسری نمازوں کا حکم ایک ہی ہے۔“ (صحیح ابن حبان، تحت الحدیث : 2193) 

(4) حافظ ابنِ عبدالبر رحمہ اللہ ( 368-463ھ) اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
والحجة عند التنازع السنّة، فمن أوّل بھا فقد أفلح، ومن استعملھا فقد نجا
”اختلاف کے وقت دلیل سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہے۔ جو شخص سنت کی تعمیل کرے وہ کامیاب اور جو اس پر عمل کرے وہ نجات مند ہے۔“ ( التمهيد لابن عبدالبر : 69/22) 

(5) حافظ خطابی رحمہ اللہ (319-388ھ) فرماتے ہیں :
في ھذا بيان أنه ممنوع من ركعتي الفجر ومن غيرھا من الصلوات إلّا المكتوبة
”اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ( فرض نماز کی اقامت کے بعد ) فجر کی دو رکعتیں اور دوسری کوئی نماز سوائے فرضی کے ممنوع ہے۔“ ( معالم السنن للخطابي : 274/1) 

(6) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ ( 508-597ھ) فرماتے ہیں :
وهذا لأنه قد صار الحكم لها، ولا ينبغي أن يتشاغل بالأنقص مع حضور الأكمل وقد قال أبو حنيفة : من كان خارج المسجد ولم يخش فوات الركوع فى الركعة الثانية من الفجر صلى ركعتين ثم دخل والحديث يرد هذا
”یہ ( فرض کی اقامت کے بعد نفلی نماز کی ممانعت ) اس لیے ہے کہ اب وقت فرضی نماز کا ہے اور جائز نہیں کہ کامل تر چیز کی موجودگی میں اس سے کم تر چیز ( نفلی نماز ) کے ساتھ مشغول ہوا جائے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا: ہے کہ جو شخص مسجد سے باہر ہو اور اسے ( فجر کی دو رکعت سنت ادا کرتے ہوئے ) دوسری رکعت کا رکوع نکل جانے کا خدشہ نہ ہو تو وہ شخص دو رکعتیں ادا کر کے نماز میں داخل ہو جائے حالانکہ یہ حدیث اس بات کا ردّ کرتی ہے۔“ (كشف المشكل من حديث الصحيحين لابن الجوزي : 1022/1) 

(7) حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
فيھا النھي الصريح عن افتتاح نافلة بعد إقامة الصلاة، سواء كانت راتبة كسنّة الصبح والظھر والعصر أو غيرھا، وھذا مذھب الشافعيّ والجمھور
”اس حدیث میں فرضی نماز کی اقامت کے بعد نفل نماز کی واضح ممانعت ہے خواہ وہ نفل نماز سنن راتبہ میں سے ہو جیسے صبح، ظہر اور عصر کی سنتیں ہوں یا کوئی اور نفلی نماز ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور علمائے کرام کا یہی مذہب ہے۔“ ( شرح صحيح مسلم للنوي : 247/1) 

(8) حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) فرماتے ہیں :
ردّ السنّة الصحيحة الصريحة أنَه لا يجوز التنفل إذا أقيمت صلاة الفرض كما فى صحيح مسلم
”صحیح اور صریح سنت نے فرض نماز کی اقامت کے بعد نفل نماز کے ناجائز ہونے کا رد کیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں موجود ہے۔“ ( إعلام الموقعين لابن القيم : 375/2) 

(9) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) فرماتے ہیں :
فيه منع التنفل بعد الشروع فى إقامة الصلاة سواء كانت راٹبة أم لا
”اس حدیث میں فرض نماز کی اقامت کے بعد نفل نماز شروع کرنے کی ممانعت ہے خواہ نفلی نماز سنن رواتب میں سے ہو یا نہ ہو۔“ ( فتح الباری : 368/3)

(10) محدث محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ ( م : 1353 ھ /1934ء) فرماتے ہیں :
والحديث يدلّ عليٰ أنّه لا يجوز الشروع فى النافلة عند إقامة الصلاة من غير فرق بين ركعتي الفجر و غيرھا
”یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کی اقامت کے وقت نفل نماز شروع کرنا جائز نہیں۔ اس حوالے سے فجر کی دو رکعت سنتوں اور دیگر نفل نمازوں میں کوئی فرق نہیں۔“ ( تحفة الأحوذي : 323/1) 

فائدہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إذا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلَاةَ إلَّا التی أُقِيمَتْ ”جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو کوئی نماز نہیں ہوتی سوائے اس نماز کے جس کے لیے اقامت کہہ دی گئی ہو۔“ ( المعجم الأوسط للطبراني : 8654، شرح معاني الآثار : 371/1، وسندہٗ حسنٌ) 

دلیل نمبر 2 :

سیدنا عبد الله بن مالك بن بحينة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا وقد أقيمت الصلاة يصلي ركعتين فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم لاث به الناس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ‏‏‏‏ الصبح أربعا؟ الصبح أربعا؟
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز کی اقامت کے بعد فجر کی دو رکعت سنت پڑھ رہا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے اس آدمی کو گھر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : کیا فجر کی ( فرض ) نماز چار رکعتیں پڑھ رہے ہو ؟ کیا فجر کی ( فرض ) نماز چار رکعتیں پڑھ رہے ہو ؟“ ( صحیح البخاری : 91/1، ح : 663، صحیح مسلم : 247/1، ح : 711) 

صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :
أقيمت الصلاة الصبح، فرٰاي رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يعلّي والمؤذن يقيم، فقال : أتصلي الصبح أربعا؟
”صبح کی نماز کھڑی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ مؤذن کی اقامت کے دوران نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم صبح کی ( فرض نماز ) چار رکعتیں ادا کر رہے ہو ؟“

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463ھ) فرماتے ہیں :
قوله صلى الله عليه وسلم : ”أصلاتان معا؟“، وقوله لھذا الرجل : ”أيتھما صلاتك“، وقوله فى حديث ابن بحينة : ”أتصليھما أربعا“ كل ذلك إنكار منه صلى الله عليه وسلم لذلك الفعل، فلا يجوز لأحد أن يصلّي فى المسجد ركعتي الفجر ولا شيئا من النوافل إذا كانت المكتوبة قد قامت
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا دو نمازیں اکھٹی پڑھنا چاہتے ہو، اور اس آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان دونوں میں سے تیری ( فجر کی فرض ) نماز کون سی ہے ؟ نیز سیدنا بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا فجر کی نماز چار رکعتیں پڑھنا چاہتے ہو ؟ یہ سب باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کام پر انکار ہے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد مسجد میں فجر کی دو رکعتیں یا کوئی اور نفلی نماز ادا کرے۔“ ( التمہید لا بن عبد البر : 68/22) 

مشہور فقیہ ابوالعباس القرطبی رحمہ اللہ ( م : 656 ھ) فرماتے ہیں :
وقوله صلى الله عليه وسلم : ”أتصلي الصبح أربعا؟“ إنكار على الرجل الذى فعل ذلك، وھذا الإنكار حجة عليٰ من ذھب إلى جواز صلاة ركعتي الفجر فى المسجد والامام يصلي
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا تم صبح کی (فرض) نماز چار رکعت ادا کر رہے ہو ؟ یہ اس کام کرنے والے پر انکار ہے اور اس انکار میں اس شخص کا رد ہے جو امام کے نماز پڑھاتے ہوئے فجر کی دو رکعتوں کی ادائیگی کو جائز قرار دیتا ہے۔“ (الفہم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم : باب إذ أقيمت الصلاة فلا صلاة۔۔۔ ) 

حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) الصبح أربعا؟ کے الفاظ کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں :
 ”أتصلي الصبح أربعا؟“ ھو استفھام إنكار، ومعناه أنّه لا يشرع بعد الإقامة للصبح إلّا الفريضة، فإذا صلّى ركعتين نافلة بعد الإقامة، ثمّ صلّى معھم الفريضة، صار فى معنى من صلّى الصبح أربعا، لأنه صلّى بعد الإقامة أربعا
”فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا تم صبح کی ( فرض ) نماز چار رکعت ادا کرتے ہو ؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ صبح کی نماز کی اقامت کے بعد صرف فرضی نماز ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ جب آدمی اقامت کے بعد دو رکعتیں نفل ادا کرے گا پھر نمازیوں کے ساتھ فرض پڑھے گا تو گویا صبح کی چار رکعت ادا کر رہا ہے کیونکہ اس نے اقامت کے بعد چار رکعتیں ادا کی ہیں۔“ ( شرح صحیح مسلم للنووی : 247/1) 

علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (762-855ھ) لکھتے ہیں :
قوله : آلصبح أربعا حيث أنكر على الرجل الّذى كان يصلّي ركعتين بعد أن أقيمت صلاة الصبح، فقال : آلصبح أربعا، أى الصبح تصلّي أربعا، لأنّه إذا صلّى ركعتين بعد أن أقيمت الصلاة، ثمّ يصلّي مع الإمام ركعتين صلاة الصبح، فيكون فى معنى من صلّى الصبح أربعا، فدلّ ھذا على أن لا صلاة بعد الإقامة إلّا الصلاة المكتوبة
”فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھ رہے ہو ؟ اس قول کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر انکار کیا جو صبح کی نماز کھڑی ہونے کے بعد دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ یعنی نماز کھڑی ہونے کے بعد جب وہ دو رکعتیں سنت ادا کر کے امام کے ساتھ صبح کی دو رکعت نماز پڑھے گا تو گویا اس نے صبح کی چار رکعتیں ادا کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ہو جانے کے بعد کوئی نماز سوائے فرضی نماز کے نہیں ہوتی۔“ (عمدة القاري : 181/5) 

دلیل نمبر 3 :

سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى صَلاَةِ الْغَدَاةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِى جَانِبِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : يَا فُلاَنُ ! بِأَىِّ الصَّلاَتَيْنِ اعْتَدَدْتَ ؟ أَبِصَلاَتِكَ وَحْدَكَ أَمْ بِصَلاَتِكَ مَعَنَا ؟
”ایک شخص مسجد میں آیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے فرض ادا فرما رہے تھے تو اس نے مسجد کے کونے میں فجر کی دو رکعت سنت پڑھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا : ”اے فلاں ! تم نے فرض نماز کس کو گنا، آیا وہ جو اکیلی پڑھی یا وہ جو ہمارے ساتھ پڑھی۔“ (صحیح مسلم : 1651-247/1، ح : 712) 

حافظ خطابی رحمہ اللہ (319-388ھ) فرماتے ہیں :
في ھذا دليل على أنه إذ صادف إمام فى الفريضة لم يشتغل بركعتي الفجر وتر كھما إلى أن يقضيهما بعد الصلاة
”اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ جب امام فرض نماز شروع کر دے تو آدمی فجر کی دو رکعتوں میں مصروف نہیں ہو گا بلکہ ان کو چھوڑ دے گا اور نماز مکمل کرنے کے بعد ان کی قضائی دے دے گا۔“(معالم السنن للخطابی : 274/1) 

حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
فيه دليل علي أنه لا يصلّي بعد الإقامة نافلة وإن كان يدرك الصلاة مع الإمام، وردّ على من قال : إن علم أنّه يدرك الركعة الأوليٰ أو الثانية يصلّي النافلة
”اس حدیث میں دلیل موجود ہے کہ فرضی نماز کی اقامت کے بعد نفلی نماز نہیں پڑھی جا سکتی اگرچہ آدمی ( نفل پڑھ کر ) امام کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتا ہو۔ اس حدیث میں اس شخص کا ردّ بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر آدمی کو یقین ہو کہ وہ پہلی یا دوسری رکعت میں شامل ہو جائے گا تو ( فرض نماز کی اقامت کے بعد ) نفل پڑھ سکتا ہے۔“ (شرح صحیح مسلم : 247/1) 

یہ حدیث مبارکہ بھی اس بات پر واضح دلیل ہے کہ فجر کی سنتیں تکبیر کے بعد پڑھنا جائز نہیں، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر انکار نہ فرماتے۔

دلیل نمبر 4 :

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
إنّ النبى صلى الله عليه وسلم رٰاي رجلا يصلّي ركعتي الفجر وقد أقيمت الصلاة صلاة الفجر، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : ”ألصبح أربعا؟“ 
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز فجر کی اقامت کے بعد فجر کی دو رکعت سنت ادا کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم صبح کی چار رکعتیں ادا کر رہے ہو ؟“ ( مسند البزار : 3260، وسندہ صحیحٌ) 

دلیل نمبر 5 :

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں :
كنت أصلّي وأخذ المؤذّن فى الإقامة، فجذبني النبى صلى الله عليه وسلم وقال : ”أتصلّي الصبح أربعا؟“ 
میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مؤذن اقامت کہنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھینچا اور فرمایا : کیا تم صبح کی ( فرض ) نماز چار رکعتیں ادا کر رہے ہو ؟“ (مسند الطيالسي : 2736، السنن الكبريٰ للبيهقي : 482/2، وسندہ حسنٌ) 

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1124) اور امام ابن حبان نے (2469) صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کا راوی صالح بن رستم ابوعامر الخزار جمہور محدثین کرام کے نزدیک موثق، حسن الحدیث ہے۔

دلیل نمبر 6 :

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أقيمت صلاة الصبح، فقام رجل يصلّي ركعتين، فجذب رسول الله صلى الله عليه وسلم بثوبه، وقال : ”أتصلّي الصبح أربعا؟“ 
”صبح کی نماز کھڑی ہو گئی تو ایک آدمی کھڑا ہو کر دو رکعتیں ( نفل ) ادا کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کپڑے سے پکڑ کر کھینچا اور فرمایا : کیا تم صبح کی ( فرض ) نماز چار رکعتیں ادا کر رہے ہو۔“ ( مسند الإمام أحمد : 238/1، وسندہ حسنٌ) 

دلیل نمبر 7 :

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أقيمت الصلاة فرأي النبى صلى الله عليه وسلم ناسا يصلّون، فقال : ”أصلاتان؟“ 
”نماز کھڑی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ ( نفل ) نماز ادا کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا دو ( فرض ) نمازیں پڑھ رہے ہو ؟۔“ ( التاریخ الصغیر للبخاری : 2300، وسندہ حسنٌ) 

ان دلائل کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فھذه نصوص منقلولة نقل المتواتر، لايحلّ لأحد خلافھا
”یہ نصوص متواتر حد تک مروی ہیں۔ کسی کے لیے ان کے خلاف عمل کرنا جائز نہیں۔“ ( المحليٰ لا بن حزم : 108/3، مسئلة : 308) 

بعض الناس کا مذہب !
ان احادیث مبارکہ کے خلاف بعض الناس کا مذہب ملاحظہ فرمائیں :

إن خشي أن تفوته ركعته من الفجر فى جماعة و يدرك ركعة من الفجر صلّى ركعتين عند باب المسجد، ثمّ دخل فصلّي مع القوم، وإن خاف أن تفوته الركعتان جميعا صلّى مع القوم ولم يصلّ ركعتي الفجر الا يقضيهما)
”اگر نمازی کو فجر کی ایک رکعت نکل جانے اور ایک رکعت پانے کا خدشہ ہو تو وہ مسجد کے دروازے کے پاس دو رکعتیں پڑھ لے اور پھر نماز میں جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اگر اسے دونوں رکعتوں کے نکل جانے کا خدشہ ہو تو وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لے اور دو رکعت سنت ادا نہ کرے نہ ان کی قضائی دے۔“ ( كتاب الأصل لمحمد بن الحسن الشيباني : 166/1، الأوسط لا بن المنذر : 233/5)

ان لوگوں نے مذکورہ احادیث کی باطل تاویلات کر رکھی ہیں : جیسا کہ :

(ا) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کے بارے میں امام طحاوی حنفی (238-321ھ) لکھتے ہیں :
فقد يجوز أن يكون أراد بھذا النھي عن أن يصلّي غيرھا فى موطنھا الّذى يصلّي فيه فيكون مصلّيھا قد وصلھا بتطوّع، فيكون النھي من أجل ذلك لا من أجل أن يصلّي فى آخر المسجد، ثمّ يتنحّي الّذى يصلّيھا من ذلك المكان فيخالط الصفوف ويدخل فى الفريضة
”ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت سے مراد یہ ہو کہ نمازی فجر کی نماز کے علاوہ کوئی نماز اس جگہ نہ پڑھے، کیونکہ اس طرح نماز پڑھنے والا فجر کی نماز کو نفل کے ساتھ ملا دے گا۔ لہٰذا ممانعت اس بات سے تھی، اس بات سے نہیں تھی کہ وہ مسجد کے آخری حصے میں نفل پڑھ لے پھر اس جگہ سے ہٹ کر صفوں میں مل جائے اور فرض نماز میں داخل ہو جائے۔“ ( شرح معاني الآثار للطحاوي : 371/1)

(تبصرہ :)
یہ تاویل باطل ہے۔ ائمہ محدثین میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں، بلکہ یہ امتِ مسلمہ کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔
امام ابن ابی العزا الحنفی (731-792ھ) نے کیا خوب کہا ہے :
ومن ظنّ أن يعرف الأحكام من الكتاب والسنّة بدون معرفة ما قاله الإقامة وأمثالھم فھو مخطي . 
”جو آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کے احکام کے بغیر ائمہ دین اور اسلافِ امت کے اقوال کی معرفت کے بغیر سمجھ لے گا وہ خطا کار ہے۔“ ( الاتّباع لابن أبي العز الحنفي : ص 43)
اس مسئلے میں ساری کی ساری احادیث اس تاویل کا ردّ کرتی ہیں۔

(ب) نیز امام طحاوی حنفی سیدنا عبداللہ بن بحینہ اور ابن سرجس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
إنّه قد يجوز أن يكون قوله : كان خلف الناس أى كان خلف صفوفھم لا فصل بينه وبينھم، فكان شبيه المخالط لھم، فذلك أيضا داخل فى معنى ما بان من حديث بن بحنة، وھذا مكروه عندنا، وانّما يجب أن يصلّيھما فى موخر المسجد، ثم يمشي من ذلك المكان الي أول المسجد، فأما أن يصليھا مخالطا لمن يصلّي الفريضة فلا ”یہ بھی ممکن ہے کہ راوی کا اس آدمی کے بارے میں لوگوں کے پیچھے ہونے کے بیان کا مطلب یہ ہو کہ وہ صفوں کے پیچھے اس طرح تھا کہ اس کے درمیان اور ( باجماعت نماز پڑھنے والے ) لوگوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہ تھا۔ گویا وہ ان کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ یہ صورت بھی اسی میں داخل ہے جو ابنِ بحنیہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ یہ ہمارے نزدیک مکروہ ہے۔ ضروری ہے کہ نمازی ( جماعت کے دوران فجر کی دو رکعتیں ) مسجد کے آخری حصے میں ادا کرے پھر چل کر مسجد کے شروع کے حصے میں آئے۔ اگر وہ فرض پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نفل پڑھے تو یہ درست نہیں۔“ ( شرح معاني الآثار للطحاوي : 371/1)

(تبصرہ :)
یہ انتہائی بعید تاویل ہے جو ائمہ محدثین کے اجماعی فہم کے خلاف ہے۔ سابقہ احادیث بول بول کر اس کا ردّ کرتی ہیں، جیسا کہ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں :
وحمل الطحاوي ھذه الأخبار على أنّھم صلّوا فى الصفوف لا فصل بينھم و بين المصلّين بالجماعة، فلذلك زجرھم النبى صلى الله عليه وسلم، لكنّه حمل من غير دليل معتدّ به، بل سياق بعض الروايات يخلفه
”امام طحاوی حنفی نے ان احادیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ ( فرض کے ہوتے ہوئے نفل ) نماز پڑھنے والوں نے جماعت کی صفوں میں یہ نماز پڑھی تھی۔ ان کے درمیان اور جماعت کے ساتھ فرض نماز پڑھنے والوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہ تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا : لیکن یہ مطلب و مفہوم کسی قابل اعتماد دلیل کے بغیر اخذ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بعض روایات کا سیاق اس معنیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔“ ( التعلیق المجّد : ص 86) 

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (384-456ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں :
ثم لو لم يأت حديث أبى ھريرة أصلا لكان فى حديث ابن سرجس و ابن بحينة و ابن عباس كفاية لمن نصح نفسه، ولم يتبع ھواه فى تقليد من لا يغني عنه من الله شيئا، ونصر الباطل بما أمكن من الكلام الغثّ
”پھر اگر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا سرے سے وجود بھی نہ ہوتا تو سیدنا ابن سرجس، ابن بحینہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث اس شخص کے لیے کافی ہیں جو اپنے نفس کی خیرخواہی کرتا ہو، خواہش نفس کی پیروی میں ایسے لوگوں کی تقلید نہ کرتا ہو جو اللہ کے ہاں اسے کچھ فائدہ نہ دے سکیں گے اور وہ شخص فضول کلام سے جہاں تک ممکن ہو سکے باطل کی تائید نہ کرتا ہو۔“ ( المحلّيٰ لابن حزم : 109/3، مسئله : 308)  

نیز ابن حزم رحمہ اللہ بعض الناس کی اس تاویل کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
واعترض بعضھم فى حديث ابن سرجس و ابن بحينة بضحكة أخري، وھي أن قال : لعلّ رسول الله إنما أنكر عليه أن يصليھا مختلطا بالناس، وھذا كذب مجرّد و مجاھرة بسمجة، لإنّ فى الحديث نفسه : أنّه لم يصلّھما إلا خلف الناس فى جانب المسجد، كما يأمرون من قلّدھم فى باطلھم، فكيف ولو لم يكن ھذا لكان مما يوضح كذب ھذا القائل قول رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”بأيّ الصلاتين اعتددتّ، أبصلاتك وحدك أم بصلاتك معنا“، و ”أتصلّي الصبح أربعا؟“ لإنّ من الباطل المتنع أن يقول له النبيّ ھذا القول، وھو لم ينكر عليه إلا صلاته الركعتين مختلطا بالناس ومتصلا بھم، فيسكت عليه السلام عمّا أنكر من المنكر و يھتف بما لم يذكر من لفظه، وقد أعاذ الله تعالىٰ نبيّه عن ھذا التخليط الّذى لا يليق بذي مسكة إلا بمثل من أطلق ھذا

”بعض لوگوں نے سیدنا ابن سرجس اور ابن بحینہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ایک اور مضحکہ خیز اعتراض کیا ہے۔ وہ یہ کہ اس کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس ( جماعت ہوتے ہوئے نفل پڑھنے والے ) شخص کے ( باجماعت ) لوگوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے پر اعتراض کیا تھا۔ یہ صاف جھوٹ اور بے وقوفی کا مظاہرہ ہے کیونکہ اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے کہ اس شخص نے یہ دو رکعتیں لوگوں سے پیچھے مسجد کی ایک جانب میں ہی پڑھی تھیں۔ بالکل اسی طرح یہ لوگ باطل میں اپنی تقلید کرنے والوں کو حکم دیتے ہیں۔ اگر یہ الفاظ نہ بھی ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس جھوٹ کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ تم نے دو نمازوں میں سے کون سی نماز شمار کی ہے، جو اکیلے پڑھی ہے یا جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے ؟ اور کیا تم صبح کی نماز چار رکعتیں پڑھ رہے ہو ؟ یہ غلط اور ناممکن بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اتنی باتیں کہیں اور اعتراض صرف اس کے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے پر کریں۔ یعنی جس بات پر انکار کرنا تھا اس سے تو آپ خاموش رہیں جبکہ مراد وہ بات ہو جس کا الفاظ میں آپ نے ذکر ہی نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسی بے عقلی سے محفوظ رکھا تھا جو کسی عقل مند کے لائق نہیں بلکہ صرف ایسی باتیں کرنے والوں کے مناسب ہے۔“ ( المحلّيٰ لابن حزم : 109/3، 110، مسئله : 308) 

(تنبیہ :)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة إلا ركعتي الصبح ”جب نماز کی اقامت ہو جائے تو سوائے فرضی نماز کے کوئی نماز نہیں ہوتی۔ ہاں فجر کی دو رکعت سنت ہو جاتی ہیں۔“ (السنن الكبريٰ للبيھقي : 483/2)

( تبصرہ :)
اس کی سند سخت ”ضعیف“ ہے کیونکہ :
(1) اس کا راوی حجاج بن نصیر محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
والأكثرون على تضعيفه ”اکثر محدثین اسے ضعیف قرار دیتے یں۔“ ( مجمع الزوائد : 32/8) 

نیز فرماتے ہیں :
وقد ضعّفه الجمهور ”اسے جمہور نے ضعیف کہا: ہے۔“ ( مجمع الزوائد : 121/8) 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف كان يقبل التلقين ”یہ ضعیف راوی تھا، تلقین قبول کرتا تھا۔“ (تقریب التہذیب لابن حجر : 1139) 

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”متروک“ قرار دیا ہے۔ ( تلخیص المستدرک : 179/3) 

(2) اس کا دوسرا راوی عباد بن کثیر البصری بھی ”متروک“ ہے۔ ( التقریب : 3139)
اگر یہ عباد بن کثیر الرملی ہے تو بھی ضعیف ہے۔ (التقریب : 3140) 

(3) اس کا تیسرا راوی لیث بن ابی سلیم بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”مختلط“ ہے۔
خود امام بیہقی رحمہ اللہ دونوں راویوں حجاج بن نصیر اور عباد بن کثیر کو ”ضعیف“ قرار دے کر لکھتے ہیں :
وھذہ الزیادۃ لا أصل لھا ”یہ زیادت بے اصل ہے۔“ ( السنن الکبریٰ للبیھقی : 483/2)

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسے بے اصل قرار دیا ہے۔ ( إعلام الموقعین : 375/2) 

بعض الناس کے موقوف دلائل پر تبصرہ

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جماعت ہوتے ہوئے فجر کی سنتیں ادا کرنے کے بارے میں جو روایات مروی ہیں، ان کا جائزہ پیش خدمت ہے :

(1) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما:
( شرح معاني الآثار للطحاوي : 355/1)
اس کی سند یحییٰ بن ابی کثیر کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ : 250/2)
اس کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں دلہم بن صالح نامی راوی ”ضعیف“ ہے۔ ( تقریب التہذیب : 1830)

(2) سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ :
( شرح معاني الآثار للطحاوي : 375/1)
اس کی سند ابومعاویہ الضریر کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

(3) سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم :
( مصنف ابن ابی شیبہ : 251/2)
اس کی سند ابواسحاق السبیعی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

اسی طرح سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت :
( شرح معاني الآثار للطحاوي : 374/1)
اس میں امام سفیان ثوری اور ابواسحاق سبیعی دونوں مدلس ہیں۔

(4) سیدنا ابوموسیٰ اشعری، سیدنا خذیفہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم : ( ایضاً )
اس میں ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں۔ زہیر نے ان سے اختلاط کے بعد سماع کیا ہے لہٰذا یہ روایت بھی ”ضعیف“ ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما
( شرح معاني الآثار للطحاوي : 374/1۔ وسندہٗ صحیحٌ)

مسروق تابعی رحمہ اللہ:
( شرح معاني الآثار للطحاوي : 376/1، وسندہٗ صحیحٌ) 

امام حسن بصري رحمه الله:
( شرح معاني الآثار للطحاوي : 376/1)
سے جماعت كے ہوتے ہوئے فجر کی سنتیں پڑھنا ثابت ہے۔

ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آتے۔ وہ نماز میں ہوتے تھے۔ ہم نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی ہوتی تھیں۔ ہم مسجد کے آخری حصے میں نفل ادا کرتے، پھر جماعت کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ( شرح معاني الآثار للطحاوي : 375/1۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ کو جگایا۔ جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ آپ نے کھڑے ہو کر فجر کی سنتیں ادا کر لیں۔ ( شرح معاني الآثار للطحاوي : 375/1۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

اسی طرح نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گھر سے نکلے۔ صبح کی نماز کھڑی ہو چکی تھی۔ آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی راستے میں فجر کی سنتیں ادا کیں پھر مسجد میں داخل ہو کر جماعت میں شامل ہو گئے۔ ( شرح معاني الآثار للطحاوي : 375/1۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

مسجد کے اندر جماعت کے ہوتے ہوئے فجر کی سنتیں پڑھنا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں۔ بلکہ وہ اس سے ناراض ہوتے تھے جیسا کہ ان کے بارے میں روایت ہے :
إنّه أبصر رجلا يصلّي الركعتين والمؤذّن يقيم، فحصبه وقال : أتصلي الصبح أربعا؟
”آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ دو رکعتیں پڑھ رہا تھا اور ادھر مؤذن اقامت کہہ رہا تھا۔ آپ نے اسے کنکری ماری اور فرمایا : کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھتا ہے ؟“ (السنن الکبریٰ للبیھقی : 483/2۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

دلیل نمبر 8 :

راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة
”جب فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو فرضی نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ہوتی۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 76/2، وسندہٗ صحیحٌ) 

دلیل نمبر 9 :

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إذا كنت فى المسجد اأقيمت الصلاة فلا تركع
”جب تم مسجد میں ہو اور نماز کھڑی کر دی جائے تو ( نفلی ) نماز نہ پڑھو۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 77/2، وسندہٗ صحیحٌ) 

دلیل نمبر 10 :

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے شاگرد امام میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
 إذا كبّر المؤذّن بالإقامة فلا تصلّلينّ شيئا حتّي تصلّي المكتوبة
”جب مؤذن اقامت کی تکبیر کہہ دے تو فرض نماز پڑھنے تک کوئی نماز نہ پڑھو۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 76/2۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

دلیل نمبر 11 : 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إن كان فى مكان صلّاھما، وإن كان فى المسجد لم يصلّھما
”اگر آدمی اپنے گھر میں ہو تو یہ ( جماعت کے ہوتے ہوئے ) دو رکعتیں ادا کر لے اور اگر وہ مسجد میں ہو تو ایسا نہ کرے۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 251/2، وسندہٗ صحیحٌ) 

نیز آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا، ادھر نماز عصر کی اقامت ہو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا : يَسُرُّك أَنْ يُقَالُ : صَلَّى ابْنُ فُلاَنَةَ سِتًّا ؟ ”کیا تجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ یہ کہہ دیا جائے : فلاں کے بیٹے نے ( عصر کی ) چھ رکعتیں ادا کی ہیں ؟“ (مصنف ابن ابي شيبه : 76/2۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

دلیل نمبر 12 :

امام ابرہیم نخعی فرماتے ہیں :
كانوا يكرھون الصلاة إذا أخذ المؤذّن فى الإقامة
”جب مؤذن اقامت شروع کر دیتا تو ( خیر القرون کے ) لوگ ( نفلی ) نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے تھے۔“(مصنف ابن ابي شيبه : 76/2۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

یہ ایک درجن دلائل ہیں جو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ فرض نماز کی جماعت کے ہوتے ہوئے سنتیں ادا کرنا جائز نہیں۔ وہ صحابہ و تابعین جو فرض جماعت کی موجودگی میں سنتیں پڑھتے تھے شاید ان تک یہ ممانعت نہ پہنچی ہو، ورنہ اس سلسلے میں فجر کی سنتوں کی کوئی استثناء ثابت نہیں ہو سکی۔

امام ابرہیم نخعی فرماتے ہیں :
لأن أدرك ما فاتني من المكتوبة أحب إلى من أن أصليهما
”اگر میں نکل جانے والی فرضی نماز پا لوں تو مجھے دو رکعت سنت ادا کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 252/2۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ما يفوته من صلاة الإمام أفضل مما يطلب فى تيك الركعتين
”ایسے آدمی سے جو امام کے ساتھ والی نماز رہ جاتی ہے وہ اس کے ان دو رکعتوں کے ثواب سے افضل ہوتی ہے۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 151/2، وسندہٗ صحیحٌ) 

تنبیہ :
جو شخص سنتیں ادا کر رہا ہو، اسی اثناء میں اقامت شروع ہو جائے تو راجح یہی ہے کہ وہ سنتیں توڑ کر باجماعت نماز میں شامل ہو جائے۔ امام سعید بن جبیر (مصنف ابن ابي شيبه : 78/2، وسندہٗ صحیحٌ) ، امام میمون بن مہران (مصنف ابن ابي شيبه : 78/2، وسندہٗ صحیحٌ) اور قیس بن ابی حازم (مصنف ابن ابي شيبه : 78/2، وسندہٗ صحیحٌ) رحمها اللہ اسی کے قائل ہیں۔

فجر کی سنتیں نماز کے بعد کب ادا کی جائیں ؟

(1) جب کوئی مسجد آئے اور جماعت کھڑی ہو تو جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے۔ فرض نماز ادا کرنے کے بعد کھڑے ہو کر دو رکعت فجر کی سنتیں ادا کر لے، جیسا کہ سیدنا قیس بن عمرو بن سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ، وَلَمْ يَكُنْ رَكَعَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيْهِ 

”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔ انہوں نے فجر کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو وہ کھڑے ہو گئے اور دو رکعتیں ادا کر لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔“ (صحيح ابن خزيمة : 1116، صحیح ابن حبان : 1563، المستدرک للحاکم : 375/1، وسندہٗ صحیحٌ)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إسناده صحيح، وقيس بن قھد الأنصاري صحابي، والطريق إليه صحيح عليٰ شرطھما
”اس کی سند صحیح ہے۔ قیس بن قہد انصاری صحابی ہیں۔ ان تک سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔“

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس سند کا مختصر حال ملاحظہ فرمائیں :
(1) صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا قیس بن عمرو یا قیس بن قہد۔ اکثر محدثین کا کہنا ہے کہ صحیح قیس بن عمرو ہے۔ جمہور و اکثر کی بات ہی راجح ہے۔
(2) اسد بن موسیٰ اس کو موصول کرنے میں منفرد ہیں۔ دوسرے راوی اسے ”مرسل“ بیان کرتے ہیں۔ ثقہ کی زیادت مقبول ہوتی ہے۔ اس السنۃ امام اسد بن موسیٰ ثقہ ہیں۔
(3) سعید بن قیس کی اس حدیث کو امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور امام حاکم رحمها اللہ نے ”صحیح“ قرار دے کر اس کی توثیق کی ہے۔ کسی نے اسے ”مجہول“ نہیں کہا:۔
(4) امام ابنِ عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يقولون : إنّ سعيدا والد يحيي بن سعيد لم يسمع من أبيه قيس شيئا
”لوگ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کے والد سعید نے اپنے والد قیس سے کچھ بھی سماع نہیں کیا۔“ (الإستیعاب لابن عبدالبر : 186/9) 

حافظ مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقيل لم يسمع منه ”کہا گیا ہے کہ اس سعید نے اپنے والد قیس سے سماع نہیں کیا۔“ ( تہذیب الکمال للمزی : 332/15) 

نامعلوم و مجہول لوگوں کی بات کا کوئی اعتبار نہیں جیسا کہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
 لم يعرف القائل لذلك ”اس بات کا قائل معلوم نہیں ہو سکا۔“ ( نیل الأوطار للشوکانی : 25/3) 

اس کے برعکس محدثین کا اس کی سند کو صحیح قرار دینا اتصالِ سند کی دلیل ہے۔ پھر یہ اجماعی اصول ہے کہ جب راویوں کی ملاقات ممکن ہو تو سند متصل ہوتی ہے جب تک کسی ثقہ امام کی طرف سے اس کے خلاف کوئی واضح نقد معلوم نہ ہو جائے۔

یہ حدیث واضح نص ہے کہ جس شخص کی فجر کی سنتیں رہ جائیں وہ فرضوں کے متصل بعد ادا کر سکتا ہے۔

وہ احادیث جن میں نمازِ فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، ان کا تعلق طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہے جیسا کہ دو صحابی نمازِ فجر گھر میں ادا کرنے کے بعد مسجد میں آئے۔ ان کے سامنے جماعت ہو رہی تھی لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہوئے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے نماز فجر گھر میں ادا کر لی تھی۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فلا تفعلا، إذا صلّهتما،فی رحالكما، ثمّ أتيتما مسجد جماعة، فصلّيا معھم، فإنّھا لكما نافلة

تم آئندہ ایسا نہ کرنا۔ جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو پھر کسی جماعت والی مسجد میں آؤ تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیا کرو۔ وہ تمہارے لیے نفل ہو جائے گی۔“ ( مسند الإمام أحمد : 161، 160/4۔ سنن أبی داود : 576، 575، سنن النسائی : 858، سنن الترمذی : 219، وقال : حسن صحیحٌ، و سندہ صحیحٌ ) 

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1279) اور امام ابن حبان (1565) نے بھی ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا کہ نماز فجر کے بعد نوافل بھی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ فجر کی سنتیں تو بالاولیٰ ادا ہو سکتی ہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایسا ہوا ہے اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی ظاہر کی ہے۔

(2) فجر کی چھوڑی ہوئی سنتیں اگر فرضوں کے فوراً بعد ادا نہ ہو سکیں تو طلوع آفتاب کے بعد بھی ادا ہو سکتی ہیں جیسا کہ امام نافع، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

إنّه جاء إلى القوم وھم فى الصلاة، ولم يكن صلّى ركعتين، فدخل معھم، ثمّ جلس فى مصلّاه، فلمّا أضحيٰ قام فضلّا ھما 

”آپ آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ نے فجر کی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ جماعت میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے پھر اپنی نماز والی جگہ بیٹھے رہے۔ جب چاشت کا وقت ہوا تو کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں ادا کر لیں۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 254/2، وسندہٗ صحیحٌ) 

قاسم بن محمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ولم أصلّھما حتّي أصلّي الفجر صلّيتھما بعد طلوع الشمس
”اگر میں ان دونوں رکعتوں کو فجر کی نماز تک ادا نہ کر سکوں تو پھر سورج طلوع ہونے کے بعد ادا کرتا ہوں۔“ (مصنف ابن ابي شيبه : 254/2، وسندہٗ صحیحٌ) 

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، وأحمد، و إسحاق
”امام سفیان ثوری، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ یہی کہتے ہیں۔“ ( سنن الترمذی، تحت الحدیث : 423) 

( فائدہ :) 
حدیث : من لم يصل ركعتي الفجر فليصلّھما بعد ما تطلع الشمس (سنن الترمذی : 423) اس کی سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

( تنبیہ :)

فجر کی سنتوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ صحیح مسلم (725) وغیرہ کی حدیث اس پر شاہد ہے لیکن بعض لوگ اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تدعو ركعتي الفجر، ولو طردتكم الخيل”فجر کی دو سنتیں نہ چھوڑو اگرچہ تمہیں دشمن کے گھوڑے کچل جائیں۔“ ( مسند الإمام أحمد : 405/2، سنن ابی داؤد : 1258 )

(تبصرہ :)

اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی ابن سیلان مجہول ہے۔

حافظ ابن القطان فرماتے ہیں :
وعلّته الجھل بحلا ابن سيلان
”اس حدیث میں علت یہ ہے کہ ابنِ سیلان کے حالات نامعلوم ہیں۔“ ( نصب الراية للزيلعي : 161/2) 

حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا يعرف ”یہ نامعلوم راوی ہے۔“ ( ميزان الاعتدال : 547/2، ترجمة عبدالرحمٰن بن اسحاق المدني ) 

حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وليس إسناد بالقوي ”اس کی سند مضبوط نہیں۔“ ( نصب الراية : 161/2) 

بہرحال فجر کی سنتوں کی فضیلت ثابت ہے۔ اس کے باوجود امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور نماز کھڑی ہو تو ایک رکعت پا لینے کی امید کی صورت میں پیچھے کھڑا ہو کر سنتیں ادا کر لے پھر جماعت میں شامل ہو جائے۔ اگر پوری نماز نکل جانے کا خدشہ ہو تو پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لے۔ پھر سنتیں نہ پڑھے۔ نہ فرضوں کے متصل بعد نہ طلوع آفتاب کے بعد۔ ( كتاب الأصل لمحمد بن الحسن : 166/1، الھداية : 152/1) 

قارئیں کرام !
یہ ہے فجر کی سنتوں کی فضیلت اور یہ ہے حنفی مذہب۔ ”یوسفی“ مذہب بھی یہی ہے۔ جبکہ اہل الحدیث کا مسلک یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرتے ہوئے نہ پہلے سنتیں چھوڑی جائیں نہ بعد میں۔ البتہ فرضوں کی جماعت کھڑی ہو جائے تو سنتیں ترک کر کے جماعت میں شامل ہو جائے پھر بعد میں سنتیں ادا کی جائیں خواہ فوراً بعد خواہ طلوع آفتاب کے بعد۔ اس سے تمام احادیث پر عمل ہو جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل الحدیث ہی عامل بالحدیث ہوتے ہیں۔

السنہ جہلم شمارہ ۳۱، ص۱۲۔۳۴

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے