ایصال ثواب کی شرعی حیثیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
تالیف: حافظ شبیر صدیق حفظ اللہ

مشرک والدین اور رشتہ داروں کے لیے ایصال ثواب ……؟
وہ امور جن کی وجہ سے کسی شخص کے فوت ہو جانے کے بعد بھی اس کو ان کا ثواب پہنچتا ہے، ان کے جاننے سے پہلے یہ جاننا بھی اشد ضروری ہے کہ یہ فائدہ صرف اس شخص کو پہنچے گا جو مؤحد ہوگا۔ جس نے اپنی زندگی میں کبھی شرک نہ کیا ہو یا اس سے شرک ایسے گھناونے جرم کا ارتکاب تو ہو گیا ہو مگر اس نے اپنی زندگی ہی میں توبہ کر لی ہو۔ اگر کوئی شخص شرک سے توبہ کیے بغیر فوت ہو جاتا ہے تو اس کو نہ تو اپنے اعمال کچھ فائدہ پہنچائیں گے اور نہ ہی کسی اور کے۔ کسی شخص کے عمل سے اس کو فائدہ پہنچنا تو درکنار، اگر کوئی اس کے حق میں دعائے مغفرت بھی کرتا ہے تو اس کا بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ قرآن و سنت کی بہت ساری نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:
إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ
”اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی بخشش کی دعا کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے الله اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا۔“ [التوبه :80 ]
گویا کہ کفار و مشرکین اور منافقین کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مغفرت کی دعا کرنا بھی ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
استاذنت ربي ان استغفر لأمي فلم يأذن لي
”میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی اجازت طلب کی تو میرے رب نے مجھے اس بات کی اجازت نہیں دی۔ “ [صحيح مسلم، الجنائز، باب استئذان النبى صلى الله عليه وسلم ربه فى زيارة قبر أمه، حديث: 976 ]
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین زمانہ جاہلیت ہی میں وفات پا چکے تھے اور اس وقت لوگ دین ابراہیمی سے کوسوں دور تھے۔ وہ بت پرستی کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفار کے لیے استغفار کرنے کی ممانعت ہے۔
جس طرح مشرک والدین یا دیگر مشرکین کے لیے دعا کرنے کی ممانعت ہے اسی طرح کوئی اور کام جو ایصال ثواب کی نیت سے کیا جائے وہ بھی ممنوع ہے جیسا کہ :
سنن ابی داؤد میں باب ماجاء فى وصية الحربي يسلم وليه أيلزمه أن ينفذها کے تحت حدیث ہے۔ عاص بن وائل، جو کافر اور مشرک تھے، نے یہ وصیت کی کہ ان کی طرف سے ایک سو غلام آزاد کیے جائیں۔ ان کے ایک بیٹے ہشام نے اپنے والد کی طرف سے پچاس غلام آزاد کر دیے اور باقی پچاس غلام ان کے دوسرے بیٹے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو آزاد کرنے تھے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت تک غلام آزاد نہیں کروں گا جب تک ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کر لوں۔ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا کہ میں اپنے والد کی طرف سے پچاس غلام آزاد کروں یا نہ کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه لو كان مسلما فاعتقتم عنه، أو تصدقتم عنه، أو حججتم عنه، بلغه ذالك
”اگر تمھارا باپ مسلمان ہوتا پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، صدقہ کرتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کا ثواب تمھارے باپ کو پہنچ جاتا۔ “ [سنن أبى داودة الوصايا، باب ماجاء فى وصية الحربي يسلم وليه أيلزمه أن ينفذها حديث: 2883]
مذکور و نصوص کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغفرت کی دعا یا ایصال ثواب کی نیت سے کوئی بھی کام صرف ایک شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے جو کافر یا مشرک نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو مگر اس کی موت شرک پر ہوئی ہو تو اس کے لیے بھی ایصال ثواب کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔ والله اعلم
البتہ اس بات کی وضاحت کر دیں کہ اگر کسی شخص کے والدین اس کے بچپن ہی میں فوت ہو گئے ہوں اور اس کو کے علم نہ ہو کہ ان کی وفات عقیدہ توحید پر ہوئی ہے یا شرک کی حالت میں، تو ایسے شخص کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے والدین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے ان کی طرف سے ایصال ثواب کے کام انجام دے سکتا ہے۔ والله اعلم بالصواب

وہ امور جن سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے
زیر نظر عنوان کے تحت ہم پہلے ان امور کو ذکر کریں گے جو میت نے خود اپنی زندگی میں انجام دیے ہوں اور فوت ہونے کے بعد ان کا ثواب میت کو پہنچتا رہتا ہے۔ اس کے بعد ہم وہ اعمال ذکر کریں گے جو میت کی اولاد یا اس کے عزیز و اقارب انجام دیتے ہیں اور ان کا اجر میت کو پہنچتا ہے۔ ان شاء الله العزيز

صدقہ جاریہ اور علم نافع
اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اندر کوئی ایسا کام کر جاتا ہے کہ جس سے اس کی وفات کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھائیں تو اس کا یہ کام صدقہ جاریہ شمار ہو گا۔ یعنی جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اس کو برابر ثواب ملتا رہے گا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص علم نافع حاصل کرنے کے بعد دوسروں کو بھی سکھاتا ہے تو جب تک لوگ اس علم پر عمل کرتے رہیں گے اس کو اجر ملتا رہے گا۔ اس پر درج ذیل نصوص دلالت کرتی ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ
” اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انہوں نے آگے بھیجھے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی۔ “ [يس : 12]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
إذا مات الإنسان إنقطع عنه عمله إلا من ثلاثة، إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به …… الخ
”جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ سوائے تین اعمال کے ختم ہو جاتا ہے، وہ اعمال یہ ہیں صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ حاصل کیا جائے ……….الخ“ [ صحيح مسلم، الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته حديث: 1631]
سنن ابن ماجہ میں باب ثواب معلم الناس الخير کے تحت حدیث ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من علم علما فله أجر من عمل به لا ينقص من أجر العامل
”جو کسی کو علم سکھاتا ہے، اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے اور عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔“ [سنن ابن ماجه، السنة، باب ثواب معلم الناس الخير، حديث: 240 ]
ابن ماجہ ہی میں اسی باب کے تحت ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:
إن مما يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته، علما علمه ونشره …. أو صدقة أخرجها من ماله فى صحته وحياته، يلحقه من بعد موتها
مومن کو وفات کے بعد جو نیک عمل پہنچتے ہیں ان میں یہ بھی ہے۔ جس علم کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا ……….. یا صدقہ جو اس نے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں نکالا، ان سب کا ثواب اس کی موت کے بعد اسے ملتا رہتا ہے۔ [سنن ابن ماجه، السمنة، باب ثواب معلم الناس الخير حديث : 242 ]
یعنی جو اپنی زندگی ہی میں کوئی صدقہ کر جائے مثلاً : مسجد و مدرسے کی تعمیر، لو گوں کی سہولت کے لیے پانی کا اہتمام وغیرہ تو اس کو وفات کے بعد بھی اجر ملتا رہتا ہے۔ ایسے ہی وہ شخص جو لوگوں کو دین کی تعلیم دے اور اسے پھیلائے، اس کو بھی فوت ہونے کے بعد ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ سنن ابن ماجہ ہی کی ایک روایت میں علم سکھانے کو بہترین صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
أفضل الصدقة أن يتعلم المرء المسلم علماء ثم يعلمه أخاه المسلم
سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ مسلمان آدمی کسی چیز کا علم حاصل کرے، پھر اپنے مسلمان بھائی کو اس کی تعلیم دے۔ [سنن ابن ماجه، السنة، باب ثواب معلم الناس الخير، حليت : 243]

نیک اولاد کا نیک عمل
اگر کوئی شخص اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرتا ہے تو اولاد جو بھی نیک عمل کرے اس کا اتنا ہی اور والدین کو پہنچے گا جتنا اولاد کو اس عمل کے کرنے پر ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے :
اذا مات الإنسان إنقطع عنه عمله إلا من ثلاثة، إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعوله
”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے لیکن تین چیزیں جاری رہتی ہیں: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے اور نیک او لاد جو اس کے لیے دعا کرے۔“ [صحيح مسلم: الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته حديث : 1631 ]
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ نیک اولاد اعمال صالحہ میں سے جو بھی عمل کرے اس کا اجر اس کے والدین کو اتنا ہی پہنچتا ہے جتنا اولاد کو اس عمل کے کرنے پر ہوتا ہے اور اولاد کے اجر میں مطلق کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ اس لیے کہ اولاد بھی والدین کی کوشش اور کمائی کے ذخیرے میں سے ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ‎ ﴿٣٩﴾
انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ [نجم : 39 ]
اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إن من أطيب ما أكل الرجل من كسبه، وولده من كسبه
”سب سے پاکیزہ خورا ک وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی کا حصہ ہے۔ “ [سنن أبى داود، البيوع باب الرجل يأكل من مال وولده حديث : 3528، و احكام الجنائز للالباني ص: 21 ]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت اور حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کوشش کی اور کمایا، جبکہ اولا د انسان کی کمائی کا حصہ ہی ہے تو جا بھی عمل صالح اولاد کرے گی اس کا اجر اس کے والدین کو بھی پہنچے گا۔

اچھا طریقہ ایجاد کرنا
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کر جاتا ہے تو جب تک لوگ اس طریقے پر عمل کرتے رہتے ہیں، اس شخص کو بھی ان کے برابر اجر و ثواب ملتا رہتا ہے۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من سن فى الإسلام سنة حسنة، فله أجرها، وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء
”جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا، اس کے لیے اس کا اجر بھی ہے اور ہر اس شخص کا اجر بھی کہ جس نے اس پر عمل کیا، اور ان کے اجر میں سے بھی کم نہیں ہو گا۔“ [صحيح مسلمة الزكاة، باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة، حديث: 1017 ]
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
من سن سنة حسنة فله أجرها ما عمل بها فى حياته وبعد مماته حتى تترك
”جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا۔ اس پر اس کی زندگی میں اور اس کی وفات کے بعد جب تک عمل ہوتا رہے گا، اس کو بھی اجر ملتا رہے گا، یہاں تک کہ اس طریقے کو چھوڑ دیا جائے۔ “ [صحيح الترغيب والترهيب للالباني: 65]
البتہ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر وہ طریقہ اچھا نہیں ہو سکتا جس کو کسی آدی کی عقل اچھا گردانے۔ اچھا طریقہ ایجاد کرنے سے مراد وہی طریقہ ہے جس کی اصل پہلے شریعت میں موجود ہو، بصورت دیگر وہ طریقہ ظاہرا جتنا بھی بھلا لگتا ہو قابل قبول نہ ہو گا بلکہ اس کا شمار بدعات میں ہوگا۔

کتب کی نشر و اشاعت
انسان کا اپنی زندگی کے اندر دینی کتب کی نشر و اشاعت یا تصنیف و تالیف کے ذریے علم کو پھیلانا بھی صدقہ جاریہ میں شمار ہو گا۔ فضيلة الشيخ عطاء اللہ ساجد صاحب حفظہ اللہ ابن ماجہ میں باب ثواب معلم الناس الخير کے تحت مذکور حدیث کے الفاظ :
وعلم يعمل به من بعده
” اور وہ علم جس پر اس کے بعد عمل ہوتا رہے۔“ [سنن ابن ماجه، السنة، باب ثواب معلم الناس الخير، حديث: 24]
کے تحت فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :کسی کو علم سکھانا کوئی مفید علمی کام کرنا بھی ایک ایسا عمل ہے جس کا ثواب جاری رہتا ہے۔ محدثین کرام رحمہ اللہ علیہم کی تصنیفات اور دوسری علمی تالیفات بھی اس میں شامل ہیں، جب تک ان سے استفادہ کیا جاتا رہے گا، مصنفین کو ثواب پہنچتا رہے گا۔ [ سنن ابن ماجه، مترجم: 279/1، مطبوعة دار السلام ]
ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں :
إن ممايلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته، علما علمه و نشره .. ومصحفا ورثه
”مومن کو وفات کے بعد جو نیک عمل پہنچتے ہیں، ان میں یہ بھی ہیں۔ جس علم کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا۔ قرآن مجید کا نسخہ جو کسی کو وراثت میں ملا۔“ [ سنن ابن ماجه، السنة، باب ثواب معلم الناس الخير احديت: 242 ]
مذکورہ حدیث کے الفاظ نشرہ میں مطلق علم کو پھیلانے کا ذکر ہے، چاہے وہ پھیلانا کسی کو علم سکھانے کے ذریعے ہو یا کتب کی نشر و اشاعت کے ذریعے ہو یا اسی طرح دینی کتب خرید کر فی سبیل اللہ تقسیم کرنے کے ذریعے ہو، یہ تمام صورتیں اس عموم میں شامل ہیں۔ اسی طرح فرمایا کہ قرآن مجید کا وہ نسخہ کہ جو کسی کو وراثت میں ملا، جب تک وہ وارث اس کو پڑھتا رہے گا تو اس فوت شدہ کو بھی برابر اجرملتا رہے گا۔ والله اعلم

اللہ تعالی کی راہ میں سرحد کا پہرہ دینا
اللہ کی راہ میں اسلامی ملک کی سرحد کا پہرہ دینا بھی ان اعمال میں سے ہے جن کا اجر و ثواب کسی شخص کے فوت ہو جانے کے بعد بھی اس کو ملتا رہتا ہے۔
اس بارے میں امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے :
رباط يوم وليلة خير من صيام شهر وقيامه، وان مات جرى عليه عمله الذى كان يعمله، وأجرى عليه رژه، وأمن الفتان
”الله کی راہ میں ایک دن اور ایک رات سرحد کا پہرہ دینا، ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے۔ اور اگر وہ مر گیا تو اس کا عمل اس پر جاری رہے گا جو وہ کرتا رہا اور اس پر اس کا رزق جاری کر دیا جائے گا۔ اور وہ فتنے میں ڈالنے والے سے بھی محفوظ ہو گا۔“ [صحيح مسلم، الجهاد، باب فضل الرباط فى سبيل الله عز وجل، حديث: 1913 ]
شیخ صفی الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اللہ کی راہ میں سرحد کا پہرہ دینا بھی صدقہ جاریہ کی مثل ہی ہے، اس لیے وفات کے بعد بھی اس شخص کو اس کا اجر وثواب ملتا رہے گا۔ [منة المنعم فى شرح صحيح مسلم، ج: 3، ص: 294 ]

مسجد و دیگر اشیاء کی تعمیر
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ میں باب ثواب معلم الناس الخير کے تحت ایک حدیث نقل کی ہے جو زیر نظر عنوان کے حوالے سے بڑی جامعیت رہتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إن مما يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته، علما علمه ونشره، وولدا صالحا تركه، ومصحفا وورثه، أو مسجدا بناه أو بيتا لإبن السبيل بناه، أو نهرا أجراه أو صدقة أخرجها من ماله فى صحته و حياته، يلحقه من بعد موته
”مومن کو وفات کے بعد جو نیک عمل پہنچتے ہیں، ان میں یہ بھی ہیں : جس علم کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا، نیک اولاد جو پیچھے چھوڑی، قرآن مجید کا نسخہ جو کسی کو وراثت میں ملا، مسجد جو اس نے تعمیر کی، مسافر خانہ جو اس نے قائم کیا اور جو نہر اس نے جاری کی یا صدقہ جو اس نے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں نکالا، ان سب کا ثواب اس کی موت کے بعرا سے ملتا رہتا ہے۔ “ [سنن ابن ماجه السنة، باب ثواب معلم الناس الخير، حديث 242]
یہاں ان اعمال کا ذ کر مکمل ہوا جو کوئی شخص اپنی زندگی میں کرتا ہے تو ان کا اجر اس کو وفات کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ذیل میں ہم ان امور کا ذکر کرتے ہیں جو میت کے عزیز و اقارب کی طرف سے کیے جاتے ہیں اور ان کا اجر میت کو پہنچتا ہے۔

قرض کی ادائیگی
اگر کوئی شخص اپنے ذمے کچھ قرض چھوڑتا ہے تو اس کا ادا کرتا میت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اس کی ادائیگی کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو، یعنی کوئی رشتے دار قرض کی ادائیگی کرے یا کوئی اور شخص، اس بارے میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ البته قرض کا ادا کرنا لازمی اور ضروری ہے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے میت کو بہت مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
چونکہ قرض کی ادائیگی ایک اہم مسئلہ ہے، اس لیے ہر آدمی کو اپنی زندگی کے اندر ہی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ذمے کسی قسم کا کوئی قرض نہ چھوڑے۔ احادیث میں ایسے شخص کے لیے بہت سخت وعید آئی ہے جو لوگوں سے قرض تو لے لیتا ہے مگر اس قرض کو ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
بہرحال اگر کوئی شخص کسی وجہ سے اپنی زندگی کے اندر قرض ادا نہیں کر سکا تو اس کی طرف سے قرض ادا کرنے سے اس کا قرض ادا ہو جاتا ہے اور اس کے لیے عذاب میں تخفیف کا باعث بھی بنتا ہے۔
سعد بن اطول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان (سعد) کا بھائی فوت ہو گیا، اس نے تین سو درہم (ترکہ ) چھوڑا اور بال بچے بھی چھوڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے چاہا وہ مال ان کے بیوی بچوں پر خرچ کروں۔ میں نے اپنے اس ارادے کا اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أخاك محتبس بدينه، فاقض عنه
”تمھارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے قید ہے، اس لیے اس کا قرض ادا کرو۔“
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب میں نے قرض ادا کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے قرض ادا کر دیا ہے۔ [سنن ابن ماجه الأحكام، باب آداء الدين عن الميت، حديث : 2433]
میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کی اہمیت کے حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر باب من تكفل عن ميت دينا فليس له أن يرجع کے تحت ایک حدیث نقل کی ہے،
سلمہ بن اکوعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک میت کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے بلایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: هل عليه من دين؟ ” اس پر کوئی قرض ہے؟ “صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فصلوا على صاحبكم ” پھرتم خود ہی اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔ “ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کا قرض میں ادا کر دوں گا، آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ [صحيح البخاري، الكفالة، بأن من تكفل عن محبت دينا فليس له أن يرجع، حديث: 2295 ]
مسند احمد کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ابوقتادو! ان دیناروں کا کیا بناء وہ قرض ادا کر دیا ؟ ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اگلے دن وہ قرض ادا کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الآن بردت عليه جلده
”اب اس کی جلد ٹھنڈی ہوئی ہے۔ “ [مسند احمد:330/3]
یعنی قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ عذاب میں مبتلا تھا، اب اس کو سکون ملا ہے جب اس کا قرض ادا کر دیا گیا ہے۔

دعا و استغفار
میت کے لیے دعا و استغفار کرنا، اس کے لیے درجات کی بلندی کا سبب اور عذاب میں کمی کا باعث ہے۔ البتہ میت کو یہ فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب قبولیت دعا کی تمام شروط پائی جا ئیں فوت شدگان کے لیے دعا کرنے اور ان کو اس دعا سے فائدہ پہنچنے پر قرآن و حدیث کی بہت ساری نصوص دلالت کرتی ہیں۔
دعا میں سب سے پہلی چیز میت کی نماز جنازہ ہے۔ فوت شدہ کی نماز جنازہ ادا کرنا مسلمانوں پر ایک فرض ہے، اگرچہ چند افراد ہی اس کو ادا کر لیں تو یہ فرض ادا ہو جاتا ہے۔ مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے موجودہ دور میں نماز جنازہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی، صرف ایک یا دو منٹ میں نماز جنازہ ادا کر لی جاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ صرف جماعت اہل حدیث کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ میت کے اس حق کو صحیح طرح ادا کرتے ہیں تو اس میں مبالغہ نہ ہوگا۔
بہرحال صحیح العقیدہ فوت شدگان کے لیے دعا و استغفار کرنا قرآن مقدس میں اہل ایمان کی ایک نشانی بتائی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ
”اور جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی۔“ [الحشر :10 ]
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بقیع غرقد میں جا کر بدفون لوگوں کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب اس بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إني أمرت أن أدعولهم
”مجھے یہ کم دیا گیا ہے کہ میں ان کے لیے دعا کروں۔ “ [مسند احمد: 252/6 ]
دعا کی افادیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان گرامی ہے کہ جب تدفین ہو جائے تو میت کے لیے دعا کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
إستغفروا لأخيكم واسئلوا له التثبيت فإنه الآن يسئل
”اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور ثابت قدی کی دعا کرو، اس لیے کہ اب (قبر میں ) اس سے سوال کیا جائے گا۔ “ [سنن أبى داود، الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت حديث 3221]
میت کے لیے استغفار کرنے کی وجہ سے جنت میں اس کے درجات کو بلند کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الرجل لترفع درجة فى الجنة فيقول: أنى هذا؟ فيقال: باستغفار ولدك لك
”جنت میں جب کا آدمی کا درجہ بلند کیا جاتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے۔ یہ (درجے کی بلندی ) کس وجہ سے ہے اس کو بتایا جاتا ہے کہ (جنت میں درجے کی بلندی ) تیرے لیے تیری اولاد کے بخشش کی دعا کرنے کی وجہ سے ہے۔ “ [سنن ابن ماجه الأدب باب بر الوالدين حديث : 3660 ]

میت کی طرف سے صدقہ
جب کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کی طرف سے صدقہ کرنے والوں کے بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اپنے علماء کا کہنا ہے کہ صرف اولاد ہی میت کی طرف سے صدقہ کر سکتی ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص میت کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہے۔
بہرحال دلائل دونوں طرف موجود ہیں، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بارے میں وسعت موجود ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے عزیز، رشتہ دار کی طرف سے صدقہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس بارے میں دلائل درج ذیل ہیں :
”سعد بن عباد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں۔ اس وقت میں یہاں موجود نہیں تھا۔ اگر اب میں اپنی والدہ کی طرف سے کوئی صدقہ کروں تو کیا میری والدہ کو اس کا فائدہ ہو گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نعم ’’ہاں۔‘‘ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا : میرا ایک پھل دار باغ ہے، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے وہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا۔ [صحيح البخاري، الوصايا، باب اذا قال: أرضي او بستاني صدقة، حديث: 2756]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
إلى أبى مات وترك مالا ولم يوص، فهل يكفر عنه إن تصدق عنه
”میرا والد فوت ہو گیا ہے، انھوں نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے جبکہ کچھ وصیت نہیں کی، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم ”ہاں “۔ [ صحيح مسلم، الوصية، باب وصول ثواب الصدقة الى الميت، حديث: 1630 ]
امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے درج ذیل ہے۔ باب وصول ثواب الصدقة إلى الميت میت کو صدقہ کا ثواب پہنچنے کا بیان امام نووی رحمہ اللہ کی اس تبویب سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدقہ صرف والدین کی طرف سے نہیں بلکہ کسی بھی فوت شدہ کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ والله اعلم
اس حوالے سے ایک بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ صدقہ صرف فوت شدہ والدین ہی کی طرف سے نہیں بلکہ زندہ والدین کی طرف سے بھی کوئی چیز صدقہ کی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں سعودی علماء کی فتوی کمیٹی کا ایک فتوی بھی فتاوی اسلامیہ میں مذکور ہے۔ [فتاوى اسلامية 84/1 ]

میت کی طرف سے حج
میت کی طرف سے ایصال ثواب کی خاطر حج کرنا بھی شرعا جائز و مشروع ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو بدنی بھی ہے اور مالی تھی، اس لیے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ میت کی طرف سے بدنی عبادت صرف وہی کی جا سکتی ہے جو صحیح نصوص سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور عبادت کو ان پر قیاس کرنا درست نہیں۔ وہ احادیث جو میت کی طرف سے حج کرنے پر دلالت کرتی ہیں، درج ذیل ہیں:
جہیہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا : میری والدہ نے نذر مانی تھی کہ وہ حج ادا کرے گی۔ وہ حج کی ادائیگی سے پہلے ہی وفات پا چکی ہیں، کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نعم حجي عنها، آرأيت لو كان على أمك دين، اكنت قاضيته؟ اقضوا الله، الله أحق بالوفاء
”ہاں، اس کی طرف سے حج کر، اگر تمھاری والدہ پرکوئی قرض ہوتا، تو ادا کرتی ؟ تم اللہ کا قرض ادا کرو، اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“ [ صحيح البخاري، جزاء الصيد، باب الحج والنذور عن الميت حديث : 1852 ]
مذکورہ حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے، درج ذیل ہے۔
باب الحج والنذور عن الميت، والرجل يحج عن المرأة
امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تبویب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میت نے حج کرنے کی نذر مانی ہو یا نہ مانی ہو اس کی طرف سے حج ادا کرنا درست ہے۔
میت کی طرف سے مطلق طور پر حج کرنے کے متعلق سنن أبي داود کی ایک روایت مشرک والدین اور رشتہ داروں کے لیے ایصال ثواب —– ؟کے تحت گزر چکی ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب اپنے والد کی طرف سے پچاس غلام آزاد کرنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنه لو كان مسلما فاعتقتم عنه، أو تصدقتم عنه، أو حججتم عنه بلغه ذالك
”اگر تمھارا باپ مسلمان ہوتا، پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، اس کی طرف سے صدقہ کرتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کا ثواب تمھارے باپ کو پہنچ جاتا۔“ [ سنن ابي داود، الوصايا، باب ما جاء فى و صية الحربي حديث : 2883 ]
میت کی طرف سے حج، اولاد یا کوئی اور عزیز بھی کرسکتا ہے۔

میت کی طرف سے روزوں کی ادائیگی
میت کی طرف سے نذر کے روزوں کی ادائیگی بھی ایک مشروع و مسنون عمل ہے۔ البته فرض روزوں کی قضا کے بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر بیماری یا سفر وغیرہ کی وجہ سے میت کے فرض روزے رہ گئے ہوں تو وہ میت کی طرف سے رکھے جا سکتے ہیں یا کہ نہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ روزوں کے بجائے فدیہ ادا کیا جائے اور بعض علماء کا موقف ہے کہ روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اس بارے میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے احكام الجنائز، ص: 215 اور فضيلة الشيخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے جنازے کے احکام و مسائل جوزیر طبع ہے، میں کافی مفصل بحث کی ہے۔ اس مفصل بحث کے بعد نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ میت کی طرف سے صرف نذر کے روزے رکھے جا سکتے ہیں۔
نذر کے روزے رکھنے کے بارے میں جو دلائل ہیں، وہ درج ذیل ہیں: ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور پوچھا: اے اللہ کے رسول ! میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اس پر نذر کا روز ہ تھا، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أرأيت لو كان على أمك دين فقضيته، أكان يؤدي ذلك عنها
”اگر تیری ماں پر قرض ہوتا جس کو تو ادا کرتی، کیا وہ اس کی طرف سے ادا ہو جاتا؟ اس عورت نے جواب دیا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں کی طرف سے روز و رکھو۔“ [صحيح مسلم، الصيام، باب قضاء الصوم عن الميت، حديث: 156 1148]
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے اندر باب قائم کیا ہے۔ باب من مات وعليه صوم اور اس کے تحتسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من مات وعليه صيام صام عنه وليه
”جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔ “ [صحيح البخاري، الصوم، باب من مات وعليه صوم، حديث: 1952]
مذکورہ حدیث کی روشنی میں کوئی بھی وارث میت کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے۔

غلام آزاد کرنا
میت کی طرف سے غلام آزاد کرنا بھی اس کے لیے ثواب کا موجب ہے۔
امام داود رحمہ اللہ تم نے باب ما جاء فى وصية الحربي، يسلم وليه أيلزمه أن ينفذها کے تحت ایک روایت نقل کیا ہے، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا میرے والد نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی، میرے بھائی نے پچاس غلام آزاد کر دیے ہیں، کیا میں بھی اپنے والد کی طرف سے پچاس غلام آزاد کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه لو كان مسلما فاعتقتم عنه بلغه ذلك
”اگر تمھارا باپ مسلمان ہوتا، پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، تو اس کا ثواب تمھارے والد کو پہنچ جاتا۔ “ [سنن ابي داود، الوصايا، باب ما جاء فى وصية الحربي حديث: 2883 ]

میت کی طرف سے قربانی
میت کی طرف سے قربانی کرنا بھی ایک مشروع عمل ہے۔ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فعل منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے ( زندہ اور مردو) لوگوں کی طرف سے قربانی کی۔ [صحيح مسلم، الأضاحي، باب استحباب استحسان الضحية. حديث 1967. ]
میت کی طرف سے قربانی کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ میت کی طرف سے قربانی نہیں کی جا سکتی، ان کے نزدیک مذکورہ حدیث میں منقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ اس لیے نہیں صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں کسی امتی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی فوت شدہ کے لیے قربانی کرے۔
بہرحال قربانی بھی صدقے ہی کی ایک صورت ہے، اور صدقہ شرعا مشروع و مستون ہے، اس لیے اس بارے میں کسی حد تک وسعت موجود ہے۔ اگر کوئی اپنے فوت شدگان کے لیے قربانی کرنا چاہے تو اس کے لیے گنجائش ہے۔ والله اعلم
ایک ضروری وضاحت عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں جو تصور پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ صرف اولاد ہی فوت شدہ والدین کے لیے صدقہ کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر والدین زندہ ہوں اور اولاد میں سے کوئی فوت ہو جائے تو والدین کا اولاد کی طرف سے صدقہ کرنا درست نہیں۔ اگر ہم صدقے کے متعلق عمومی طور پر دلائل کا مطالعہ کریں تو یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ والدین بھی فوت شدہ اولاد کی طرف سے صدقہ کر سکتے ہیں۔ والله اعلم

وہ امور جن سے میت کو فائد ہ نہیں پہنچتا
ہمارے موجودہ معاشرے میں فوت شدگان کے لیے ایصال ثواب کے نام پر بہت سارے اعمال رواج پا چکے ہیں۔ ان اعمال کا شریعت سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی یہ بات ذکر کی ہے کہ ایصال ثواب کے نام پر بعض رواج پذیر امور کا نہ ہی میت کو کچھ فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ عمل کرنے والے کو، بلکہ یہ اعمال تو ایصال ثواب کرنے والے کی خطاؤں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ امور جن کے بارے کوئی شرعی نص موجود نہ ہو، شریعت نے ان کو گمراہی کے نام سے تعبیر کیا ہے اور تمام بدعات کو جہنم میں داخلے کا سبب بنایا ہے۔ ایصال ثواب کے نام پر معاشرے میں رائج امور کو ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں:

جنازہ اٹھائے ہوئے کلمہ شہادت پڑھنا
جنازہ لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت پڑھنا ہمارے معاشرے میں ایک رسم بن چکی ہے۔ ایک شخص بلند آواز سے کلمہ شہادت پکارتا ہے اور باقی لوگ کلمے کا ورد کرتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں اس بات کی ممانعت ہے کہ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے آواز وں کو بلند کیا جائے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تتبع الجناة بصوت ولا نار
”جنازے کے ساتھ آواز بلند ہو نہ جنازے کے ساتھ آگ کو لے جایا جائے۔“ [سنن ابي داود، الجنائز، باب فى اتباع الميت بالنار، حديث: 3171 ]
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے بلند آواز سے کسی بھی قسم کا ذکر یا ورد نہ کیا جائے بلکہ بالکل خاموشی سے جنازے کے ساتھ چلا جائے۔

صرف مشرک لوگوں کا جنازہ پڑھنا
نماز جنازہ کا ادا کرنا ایک مسلمان کا حق ہے۔ اس کو ادا کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ نماز جنازہ کی افادیت اسی وقت ہے جب اس کو ادا کرنے والے موجود لوگ ہوں۔ اگر نماز جنازہ ادا کرنے والے صرف وہ لوگ ہوں جو نام کے تو مسلمان ہیں مگر شرک کا ارتکاب بھی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے نماز جنازہ ادا کرنے سے میت کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر ایک روایت نقل کی ہے جس پر امام نووی رحمہ اللہ نے من صلى عليه أربعون، شفعوا فيه کے نام سے باب قائم کیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
ما من رجل مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا، لايشركون بالله شيئا الا شفعهم الله فيها
”جب کوئی مسلمان شخص فوت ہو جائے اور اس کی نماز جنازہ میں (صرف) چالیس افراد بھی ہوں مگر ان میں سے کوئی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا نہ ہو تو الله تعالیٰ اس شخص کے بارے میں ان کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔“ [صحيح مسلم، الجنائز، باب من صلى عليه اربعون شفعوا فيها حديث: 948، وجامع الترمذي : الجنائة باب كيف الصلاة على الميت و الشفاعة له، حديث 1029 ]
علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ تحت الأ حوذی شرح جامع الترمندی میں صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : میت کے بارے میں ان افراد کی شفاعت کو دو امور کے ساتھ مقید کیا گیا ہے:
➊ وہ تمام افراد اخلاس کے ساتھ میت کے لیے دعائے مغفرت کرنے والے ہوں۔
➋ وہ تمام افراد ایسے ہوں کہ ان میں کوئی بھی اللہ کے ساتھ شرکت کرنے والا نہ ہو۔ [تحفة الاحوذي، ج :4 ص: 98 ]
ہر مسلمان شخص کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ خود بھی مؤحدانہ زندگی گزارے اور اپنے تعلقات اور اٹھنا بیٹھنا بھی مؤحدین اور دین دار لوگوں کے ساتھ قائم کرے تا کہ اس کی نماز جنازہ میں ایسے لوگ شریک ہوں جن کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت قبول کی جائے۔

نماز جنازہ کے فورا بعد دعا مانگنا
نماز جنازہ کے فوراً بعد میت کے ارد گرد جمع ہو کر دعا کرنا، ہمارے معاشرے میں بہت حد تک بڑھ چکا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس کا شریعت میں کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنے کا جو ذکر ہمیں ملتا ہے وہ تدفین کے بعد کا ہے۔ صحیح احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہیں۔ نماز جنازہ کے فورا بعد دعا کی افادیت کا نہ ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی خبر نہ دینا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام اعمال اپنی امت کے لیے بیان کر دیئے ہیں جن کے اندر امت کے لیے فائد ہ اور بھلائی ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم، وينذرهم شرما يعلمه لهم، وإ أمتكم هذه جعل عافيتها فى أولها
”مجھ سے پہلے جو بھی نبی ہوا ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی خیر کی طرف راہنمائی کرے۔ امت کو بھلائی کی ہر وہ بات بتلائے جس کا امت کے لیے بہتر ہونا اسے معلوم ہو۔ ان چیزوں سے ان کو ڈرائے جن کا ان کے لیے برا ہونا اس کو معلوم ہو، بے شک تمھاری اس امت کی عافیت اس کے پہلے دور ( صحابہ کرام کے دور) میں ہے۔ “ [صحيح مسلم، المغازي باب وجوب الوفاء بيعة الخلية، الأول فالاول، حديث 1844 ]
جب ہم صحابہ کرام کے دور کو دیکھتے ہیں ہمیں دعا کا یہ محل کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ جبکہ ہمارا یہ یقین ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے فائدے کے تمام اعمال بیان کر دیئے ہیں۔ جب دعا کا محل نہیں بتایا گیا تو اس میں نہ ہمارے لیے کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی فوت شده شخص کے لیے۔ اس کا شمار ان امور میں ہوگا جن کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهورد
”جس نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں وہ مردود ہے۔“ [صحيح البخاري، الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود . حديث: 2697 ]

میت کے ساتھ قرآن کی آیات رکھنا
جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس پر ایک چادر دی جاتی ہے۔ اس پر قرآن کی آیات وغیرہ لکھی ہوتی ہیں۔ اس چادر کو میت کے ساتھ ہی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے بعض اوقات کچھ لوگ الگ سے قرآنی آیات لکھ کر میت کے ساتھ رکھ دیتے ہیں۔
اس عمل سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب قبر میں میت سے سوالات کیے جائیں تو وہ شخص سوالات کے جوابات دینے میں ثابت قدم رہے۔ شرعی نقطہ نظر سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ قبر میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وہی شخص ثابت قدم رہ پائے گا جس نے اپنی دنیا کی زندگی ایمان اور عقیدہ توحید کے مطابق گزاری ہوگی۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ‎
”اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ “ [ابراهيم 27 ]

تدفین کے وقت قرآن پڑھنا
تدفین کے وقت سورہ یسین یا کسی اور سورت کی تلاوت کرنا بھی ایک غیر شرعی عمل ہے۔ قرآن و حدیث سے تدفین کے دوران سورہ یسین یا قرآن کی کسی اور سورت کی تلاوت کرنا ثابت نہیں۔ سورہ یسین پڑھنے کے بارے میں مسند احمد اور ابوداود وغیرہ کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اقرء وا يس على موتاكم
”تم اپنے مردوں پر سورہ یٰسین پڑھا کرو۔“ [سنن ابي داود، الجنائز، باب القراءة عند البيت: 3121، ومسند احمد: 26/5 ]
اس روایت میں سخت قسم کا ضعف پایا جاتا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اس روایت کی سند کے راوی ”مجہول “ہیں۔ [مشكاة المصابيح، باب ما يقال عند من حضرة الموت، حديث: 1622 ]
تدفین کے موقع پر صحیح احادیث سے جو عمل ہمیں ملتا ہے وہ دعا کا پڑھنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کو قبر میں اتارتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھی :
بسم الله وعلى سنة رسول الله [ سنن ابي داود، الجنائز باب فى الدعاء للميت اذا وضع فى قبره حديث: 3213 ]
اسی طرح تدفین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرنے کی تعلیم دی ہے نہ کہ سورہ یسین یا کسی اور سورت کی تلاوت کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی نہیں ملتا کہ کسی صحابی نے تدفین کے موقع پر یہ عمل کیا ہو۔

قبر پر قرآن پڑھنا
ایصال ثواب کی خاطر قبر پر جا کر قرآن پڑھنا، خصوصاً شعبان کی پندرھویں رات اور دس محرم کو اہل خانہ کا قبرستان جا کر اپنے کسی عزیز رشتہ دار کی قبر پر قرآن کی تلاوت کرنا، ایک غیر شرعی اور دعی عمل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہی تو پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان میں جا کر مردوں کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ اس بات کا ثبوت کہیں نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی کی قبر پر جا کر تلاوت فرمائی ہو۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قبر پر جا کر قرآن کریم کی تلاوت ایک ممنوع عمل ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
اجعلوا فى بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوا قبورا
” اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور اپنے گھر کو قبرستان نہ بناؤ۔“ [صحيح البخاري، الصلاة، باب كراهية الصلاة فى المقابر،حديث : 432 ]
مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرأت قرآن کا محل گھر ہیں نہ کہ قبرستان۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گھر کو قبرستان سے تشبیہ دی ہے جہاں قرآن کی تلاوت نہ کی جاتی ہوں۔ گویا کہ قبرستان میں قرآن پڑھنا ناجائز ومنوع ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے [احكام الجنائز، ص: 241] میں اس بارے میں مفصل بحث کی ہے جو متلاشیان حق کے لیے بہت مفید ہے۔

قرآن خوانی
برصغیر پاک و ہند میں ایصال ثواب کے نام پر گھٹری جانے والی رسوم میں سے ایک رسم : ”قرآن خوانی“ ہے۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں یہ رسم دیمک کی طرح گھر گھر میں پائی جاتی ہے، بہت کم گھرانے اس بدعت سے محفوظ ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی مدرسے کے طالبعلموں کو گھر میں بلا کر قرآن کی تلاوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس وقت خوب رنگا رنگ کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس محفل کے اختتام پر ان طالب علموں کو خوب ہدایا اور نذرانوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اس وقت پڑھا ہوا قرآن میت کو بخش دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ محلے کی خواتین کو بلا کر قرآن خوانی کی جاتی ہے اور ان کی طرف سے اس کا ثواب میت کو بخشا جاتا ہے۔ ایصال ثواب کی خاطر قرآن خوانی کا یہ طریقہ سراسر شرایت کے مخالف ہے۔ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنيعة الطعام بعد دفنه من النياحة
”ہم دفن کے بعد اہل میت کے پاس جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحه شمار کیا کرتے تھے۔“ [مسند احمد: 204/2، سنن ابن ماجه، الجنائز، باب ما جاء فى النهي عن الاجتماع الي أهل الميت وصنعة، الطعم، حديث: 1612 ]
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أن قراءة القران لا يصلہ ثوابها
”قرآن کی قراءت کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔“ [ديكهيے الفتاوي الدين الخالص : 443/7 ]
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ مروجہ قرآن خوانی کی قباحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ رسم قوم کو بے عمل اور بدعمل بنانے کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ جب ایک شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد لوگ مجھے قرآن پڑھ پڑھ کر بخشیں گے جس سے میری کوتاہیوں کی تلافی اور میری نجات ہو جائے گی تو ظاہر بات ہے وہ زندگی میں احکام و فرائض اسلام کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھے گا، ساری زندگی قرآنی اصولوں کے خلاف گزارے گا۔ نماز، روزوں کا اہتمام اور اسلام کے حلال و حرام کے درمیان تمیز ہی نہیں کرے گا۔ [جنازے كے احكام و مسائل زير طبح ]
اسی طرح محترم حافظ صاحب نے مزید قباحتیں بھی ذکر کی ہیں جن کا مطالعه افادہ سے خالی نہیں۔
مروجہ قرآن خوانی کے متعلق سعودیہ کی فتوی کمیٹی اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا ایک فتوی بھی شائع ہوا ہے۔ اس فتوے میں مروجہ قرآن خوانی کا شریعت کے مخالف اور ناجا ئز ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
من قرأ القران فليسأل الله به، فإنه سيجئ أقوام يقرون القرآن يسالون به الناس جامع الترمذي، فضائل القرآن، باب من قرأ القرآن فليسأل الله به [ حديث: 2917 ]
کی روشنی میں طالب علموں اور ان کے ”استادوں “کو دیے جانے والے ہدایا اور نذرانوں کا حرام ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ [ فتاوى اللجنة الدائمة: 40/9 ]

چراغ جلانا
قبر پر چراغ جلانا ایک فضول اور بے معنی رسم ہے جو فقط جہل پر مبنی اختراع ہے۔ جس طرح نقلی طور پر یہ صحیح اور درست نہیں ہے ایسے ہی عقلی طور پر بھی ایک جاہلانہ رسم ہے۔ قبر میں مدفون شخص کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی رسم ہے جو عبادت کے طور پر لوگوں میں چلی نکلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اس عمل کو مجوس کی مشابہت کی وجہ سے ناجائز اور بدعت کہا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لاتتبع الجنازة بنار ولا صوت
”جنازہ کے ساتھر نہ آگ کو لے جایا جائے اور نہ ہی آواز بلند ہو۔“ [مسند أحمد: 426/2 ]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنے اہل خانہ کو یہ وصیت کرتے تھے کہ ہمارے جنازے کے ساتھ آگے لے کر نہ جانا۔ [مسند احمد : 474/2 ]
علامہ البانی رحمہ اللہ اس عمل کے باعث ہونے کے متعلق لکھتے ہیں :
”جو لوگ قبروں پر چراغ جلاتے ہیں ان کا مقصد تقرب الہی ہوتا ہے۔ ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ چراغوں کے جلانے سے قبروں کی زیارت کرنے والے کو کوئی فائدہ ہوگا کیونکہ یہ لوگ تو اس وقت بھی چراغ جلاتے ہیں جب سورج نصف النہار پر ہوتا ہے۔ پس لوگوں کے اس نظریے اور عقیدے کی بنا پر عمل بدعت ہے۔ “ [احكام الجنائز، ص : 294 ]

قل، تیجا ساتواں وغیرہ
ایصال ثواب کی خاطر مروج رسوم میں سے بعض ایسی رسوم ہیں جن کا پورا کرنا فرض سمجھ لیا گیا ہے۔ چاہے کوئی شخص جتنا بھی غریب کیوں نہ ہو وہ ان رسوم کو ادا کرنا لازمی اور ضروری سمجھتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان رسوم کو ادا نہ کرے تو مولوی صاحب میت کو بخشوانے کا جھانسہ دے کر اہل خانہ کو اس پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کہیں سے قرض پکڑ کر ان رسوم کو ادا کریں قل، تیجا، ساتواں، دسواں اور چالیسواں وغیرہ ایسی رسوم ہیں جو لوگوں نے خود ہی اپنے اوپر فرض کر لی ہیں جبکہ شریت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سعودی فتوی کمیٹی نے ”رسم چہلم“ کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے : رسم چہلم منانا فرعونیوں کی رسم ہے۔ اسلام سے قبل فرعونی یہ رسم منایا کرتے تھے اور پھر ان سے دیگر قوموں میں یہ رسم پھیل کر عام ہو گئی، لہذا یہ ایک بہت بری بدعت ہے۔ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے:
من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهورد
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کر لی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مر دور ہے۔“ [صحيح البخاري، الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، حديث: 2697، فتاوي اسلاية: 90/2 ]
فضیلتہ الشیخ عطاء الله ساجد حفظہ اللہ ”سنن ابن ماجہ “میں فوائد و مسائل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعا کا کوئی مخصوص وقت یا مخصوص طریقہ نہیں۔ قل، دسواں، چالیسواں، بردی و غیر محض رسمیں ہیں جو ہندوؤں کی نقل میں مسلمانوں نے اختیار کر لی ہیں، شرعی طور پر ان کا کوئی ثبوت نہیں، لہذا ان پر ثواب کی امید بھی نہیں رکھی جاسکتی۔ [سنن ابن ماجه ج : 1، ص: 279، مطبوعة دار السلام ]

مجلس عزا اور محفل میلاد و نعت
مجلس عزا اور محفل میلاد ونعت وغیرہ بھی ایصال ثواب کے نام پر مروج بدعات میں سے ہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف ان مجالس و محافل کے بارے میں لکھتے ہیں:
ایصال ثواب کی ایک صورت شیعہ حضرات میں رائج ہے اور اس کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ ہے مجلس عزا۔ میت کے ایصال ثواب کے لیے کسی ذاکر کو بلا کر مصائب اہل بیت اور مثالب صحابہ کرام پر تقریر ہوتی ہے اور حاضرین کو لنگر کھلا کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ مرنے والے کی بخشش کا سامان کر لیا گیا ہے۔
انقی کی دیکھا دیکھی بدعت پسند اہل سنت کہلانے والے، جن کو بریلوی کہا جاتا ہے۔ محفل میلاد یا محفل نعت کے نام سے اجتماع کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اب روز افزوں ہے۔
بعض حضرات ”ختم چہلم“ کے موقع پر ایسا کرتے ہیں اور بعض اس سے آگے پیچھے اس قسم کی محفلیں کرکے اس کو میت کے حق میں ایصال ثواب کے لیے نہایت کارگر اور تیر بہدف نسخہ سمجھتے ہیں۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ بھی ایجاد بندہ رسم ہے اور اسی کو بدعت کہا جاتا ہے جو حدیث رسول کی رو سے شرالامور ( بد ترین کام) ہے۔ جب بدعت پر اجر و ثواب کے بجائے گناہ ملتا ہے تو اس کے ذریعے ایصال ثواب کس طرح ممکن ہے۔
اس لیے ایصال ثواب کے نقطہ نظر سے اہل تشیع کی مجلس عزا ومحفل ماتم برپا کرنا یا ابل بدعت کی محفل میلاد یا مجلس نعت کا اہتمام کرنا دونوں بے فائدہ ہیں، ان سے میت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ بقول غالب دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کا مصداق ہیں۔

یوم عاشوراء اور شعبان کی پندھوریں شب قبرستان جانا
یوم عاشوراء اور شعبان کی پندرھویں شب کو کثیر تعداد میں لوگ قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں۔ خصوصاً ان ایام میں جا کر فوت شدگان کے لیے دعائیں اور ان کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں۔ قبرستان جاتے ہوئے کھانے کی اشیاء ساتھ لے جاتے ہیں اور قبرستان میں جا کر ایصال ثواب کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ان دنوں قبروں پر پھول، چاول اور دالیں وغیرہ ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالی کی نعمتوں کو اس طرح قبروں پر پھینک دینا، کس قدر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری ہے۔ ثواب تو اس چیز کا پہنچتا ہے جس سے لوگوں کو فائدہ ہو۔ قبروں پر اشیائے خورونوش کا اس طرح پھینک دینا سراسر فضول خرچی ہے۔ اس عمل سے ثواب کی امید رکھنا محض نادانی ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان تمام امور کا شرعی طور پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہمیں یہ کہیں نہیں ملتا ہے کہ یوم عاشوراء یا شعبان کی پندرھویں شب کو قبرستان جانا مستحسن عمل ہے۔
بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قبروں پر سبز ٹہنیاں لگاتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے میت کے عذاب میں تخفیف ہو گیا۔ ایسے لوگ دلیل کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو پیش کرتے ہیں جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبر والوں کو عذاب ہونے کی وجہ سے ان کی قبروں پر تروتازہ چھڑی گھاڑی تھی۔ [صحيح البخاري، الأدب، باب الغيبة يا حديث: 6052 ]
مذکورہ حدیث کے حوالے سے درج ذیل نکات قابل غور ہیں:
➊ تمام محدثین و علماء محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نہ تو صحابہ کرام کو اس عمل کی ترغیب دلائی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کیا۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل عام نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر قبروں پر بھی کوئی ٹہنی گاڑی ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف انھی قبروں پر یہ عمل کیا۔ ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اطلاع دی گئی تھی کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے، اور سبب عذاب بھی بتلا دیا گیا تھا۔
مذکورہ ان تین نکات کی روشنی میں کسی کے لیے لائق نہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو دلیل بنا کر قبروں پر ٹہنیاں گاڑتا پھرے اور اس خوشی میں مبتلا رہے کہ اس کے اس عمل سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
لہٰذا وہ تمام اعمال جو ان دنوں قبرستان میں کیے جاتے ہیں کسی صورت بھی مردوں کے لیے سود مند نہیں ہیں۔ شرعاً یہ اعمال ناجائز اور بدعت ہیں کیونکہ شریعت سے ہمیں ان کے بارے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

میت کی طرف سے عمرہ کرنا
عمرہ کی ایک مستقل عبادت ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا حج کی طرح عمرہ بھی میت کی طرف سے کیا جا سکتا ہے یا کہ نہیں؟ اس بارے میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے کہ کسی فوت شدہ شخص کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے کیا حج بدل کی طرح کی زندہ شخص کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ حج کی بابت تو حدیث میں صراحت ہے کہ معذوری کی صورت میں حج بدل کی اجازت ہے، ایصال ثواب کی نیت سے حج کرنا بھی جائز ہے، لیکن کیا یہ دونوں صورتیں عمرہ میں بھی جائز ہیں؟ نیابت کے مذکورہ اصول کی رو سے ہمارار رجحان تو اس طرف ہی ہے کہ زندگی میں کسی کی طرف سے عمرہ کرنا صحیح نہیں ہوگا، اسی طرح کسی فوت شدہ شخص کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے خالی عمرہ کرنا بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ والله أعلم بالصواب . [جنازے كے احكام و مسائل، زير طبع ]

میت کی طرف سے فرض نمازوں کی قضا
کسی فوت شدہ شخص کی وہ فرضی نمازیں جو کسی عذر کی بنا پر اس سے رہ گئی ہوں ان کو ادا کرنا بھی شرعا جائز نہیں ہے۔ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لايجوز ان تقضى الصلاة عن الميت، سواء تركتها بعذر أو بغير عذر ولا أن يصلى بنية أن يكون ثواب الصلاة للميت، لأن الشرع لم يرد بذلك، وقد قال النبى صلى الله عليه وسلم : من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد
میت کی طرف سے نمازوں کی قضا جائز نہیں ہے، وہ نمازیں میت نے کسی عذر کی بنا پر چھوڑ ی ہوں یا بغیر کسی عذر کے۔ اور میت کے ایصال ثواب کی خاطر نماز پڑھنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ اس بارے میں شریعت میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں تو وہ (عمل) مردود ہے۔ [ صحيح مسلم، الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة، حديث 18 1718 فتاويٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء، 65/9 ]

وہ امور جن سے میت کو نقصان پہنچتا ہے
بعض امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے میت کو نقصان پہنچتا ہے۔ ان اعمال سے اس کے عذاب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ بڑا ہولناک اور ہیبت ناک معاملہ ہے کہ ایک آدمی اس دنیا سے تو رخصت ہو جائے مگر پھر بھی بعض امور کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہر شخص کو اس بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے، وہ اپنے پیچھے ایسے آثار چھوڑے جن کی وجہ سے اس کے درجات میں اضافہ ہوتا رہے۔
ذیل میں ہم ان امور کو ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے میت کے غم اور پریشانی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

نوحہ کرنا
کسی شخص کے فوت ہونے پر اس کے اہل خانہ کا نوحہ کرنا میت کے لیے نقصان کا سبب ہے۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه
”بےشک میت کے اہل خانہ کے بعض رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔“ [صحيح البخاري، الجنائز، باب قول النبى صلى الله عليه وسلم : يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليد حديث 1286 ]
اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں کہ اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے ہر صورت میں میت کو عذاب ہوتا ہے یا بعض صورتوں میں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اس بارے میں علماء کے آٹھ اقوال ہیں، مگر ان میں سے اقرب الی الصواب دو قول ہیں۔
➊ ( پہلا قول ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ) : جمہور کا قول یہ ہے کہ اس حدیث کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ جس شخص نے اپنی وفات پرنوح کرنے کی وصیت کی ہو اس کو عذاب ہو گا یا پھر وہ شخص جانتا تھا کہ لوگ اس کی وفات پر نوحہ کریں گے لیکن اس نے لوگوں کو منع نہیں کیا۔ اسی وجہ سے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر وہ شخص اپنی زندگی میں ان کو منع کرتا تھا مگر لوگوں نے اس کے باوجود بھی نوحہ کیا تو ان کے نوح کرنے سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ [أحكام الجنائز، ص: 41 ]
➋ فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے بھی اسی سے ملتی جلتی بجث ذکر کی ہے۔ [ فتاويٰ الدين الخالص، ج: 7، ص: 436 ]
مذکورہ حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بھی سہی سامنے آتا ہے جس کی علامہ البانی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے۔

برے طریقے کی ایجاد
اگر کوئی شخص ایسا طریقہ ایجاد کر جاتا ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہو، اور وہ طریقہ اس کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے تو یہ شخص بھی اس کے گناہ میں برابر کا شریک ہوگا، مثلاً: اگر کوئی ساتھی جو گھر کا سربراہ ہو، معاشرے میں رائج بدعت کو گھر میں راج کرتا ہے، اس کے اہل خانہ اس کے بعد اس بدعت کو جاری رکھتے ہیں، جتنا گناہ ان کو کرنے کا ہو گا اتنا ہی اس بدعت کو راج کرنے والے کو ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من سن فى الإسلام سنة سيئة، كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ
”جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا، اس شخص پر اس کا بھی گناہ ہوگا اور ہر اس شخص کا بھی جس نے اس کے بعد اس پر عمل کیا، اور ان کے گناہ میں سے کچھ کم بھی نہیں کیا جائے گا۔ “ [صحيح مسلم، الزكاة، باب الحث على الصداقة ولو بشق تمرة.. حديث: 1017 ]
اس کی مزید وضاحت صحیح بخاری کی ایک روایت سے ہوتی ہے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت تک جتنے بھی لوگ ناحق قتل ہوں گے آدم علیہ السلام کے لئے قابیل کو بھی اس کا گناہ ہو گا کیونکہ قتل کے اس طریقے کو اس نے ایجاد کیا تھا۔ [صحيح البخاري، احاديث الأنبياء، باب خلق آدم وذريته، حديث 3335 ]
مذکورہ احادیث کی روشنی میں ہر شخص کو اپنی زندگی میں عمل کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے۔ کہ وہ کوئی ایسا عمل نہ کر بیٹھے جس کے کرنے پر اس کے عذاب میں اضافہ ہوتا رہے۔ ہمیشہ ایسے اعمال کرنے چاہیں جو درجات میں بلندی کا سبب ہوں۔
اللہ تعالی ہمیں ایسے عمل کرنے کی توفیق دے جو ہمارے لیے صدقہ جاریہ اور جنت میں درجات کی بلندی کا سبب ہوں، آمین۔

ہندو مت میں ایصال ثواب
ابتدا میں ہم نے عرض کیا تھا کہ بجث کے اختتام پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین پائی جانے والی مشترکہ رسومات کو ذکر کیا جائے گا۔ ایسی رسومات جو ایصال ثواب کے نام پر مسلمانوں میں رائج ہیں مگر خالصتاً ہندو مذہب سے لی گئی ہیں۔ دین اسلام سے ان رسومات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس حوالے سے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ اس بحث کو ذکر کر دیں جو مولانا عبید اللہ مالیرکوٹلوی نے اپنی کتاب تحفۃالہند میں کی ہے۔ اگرچہ مولانا صاحب نے اس بحث کو مفصل بیان کیا ہے مگر ہم اس کو اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ اس بحث پر مولانا عبید الله صاحب نے ”ایصال ثواب“ کے نام سے فصل قائم کی ہے۔ مولانا صاحب لکھتے ہیں:۔
حقیقت میں یہ ثواب پہنچانا مردوں کے ساتھ ایک مروءت ہے۔ یہ درست نہیں کہ ان سے ڈر کر یا ان سے حاجت براری کی امید رکھ کر ان کو ثواب پہنچائیں۔ یہ بھی نہیں کہ مردے کوئی غیب دان ہیں، نہ ہی ثواب پہنچانے کے وقت ان کی روح حاضر ہو جاتی ہے بلکہ جہاں ان کی روح ہوتی ہے اس کا ثواب ان کو وہیں پہنچ جاتا ہے۔ یہ ثواب پہنچانا کوئی فرض یا واجب نہیں ہوتا کہ قرض لے کر بھی کسی کی روح کو ثواب پہنچائیں بلکہ قرض لے کر کسی کو ثواب پہنچانا بہتر نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اپنے بچوں کے خرچ سے جو زائد ہو اس میں سے خیرات کر کے اس کا ثواب پہنائے۔ ثواب پہنچانے کے لیے جو کھانا تیار کیا جائے اس کے لیے نئے برتن لگانے ضروری نہیں۔ بلکہ جو برتن ہمیشہ استعمال میں آتے ہیں وہی کافی ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کھانے پر کچھ پڑھا جائے تب اس کا ثواب پہنچے گا بلکہ نیت ہی کافی ہے۔ اس کے ساتھ پانی رکھنا بھی ضروری نہیں۔ ثواب پہنچانے سے پہلے اگر کوئی اس کھانے میں سے کھا لے تو درست ہے منع نہیں۔
ہندوؤں کے مذہب میں ثواب پہنچانے کا یہ طریقہ ہے کہ جس چیز یعنی کھانا کپڑا وغیرہ کا ثواب پہنچانا ہو تو اس کا سن کلپ (یعنی نیت ) یوں کرے کہ ثواب پہنچانے والا دائیں ہاتھ میں پانی لے کر شاستری زبان میں یہ کہے کہ آج فلاں مہینہ فلاں تاریخ فلاں دن ہے تو میں فلاں شخص فلاں چیز فلاں شخص (یعنی مردہ) کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔ پھر اس پانی کو زمین پر ڈال دے۔ اگرچہ ان کے نزدیک ثواب پہنچانا ہر روز درست ہے مگر بعض دن بھی مقرر کرنے ضروری سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کے ہاں ایک دن” کریا کرم“ کے لیے مقرر ہے۔ ان کے مطابق مردے کے مرنے سے اس دن تک اس کا ایک بدن عالم برزخ میں تیار ہوتا ہے اور جزا و سزا کے قابل ہوتا ہے۔ اس لیے اس دن کا نام کریا کرم رکھا ہے کیونکہ شاشتری زبان میں کریا بدن کو اور کرم عمل کو کہتے ہیں۔ لیکن اس مردے کا کوئی قری رشتہ دار شاستر کے مطابق مرنے کے دن سے اس دن تک ایسے عمل بجالائے جن کے سبب سے اس مردہ کا بدن تیار ہو۔ پھر اس دن اس مردہ کے لیے کچھ عمل کیا جائے۔ اس عمل کا نام کریا کرم ہے، یعنی بدن کا عمل۔ اس روز اس کریا کے لیے یہ کرم کرتے ہیں کہ اس مردے کے نام پر اپنی طاقت کے مطابق کھانا، پوشاک، پلنگ، توشک، لحاف، زیور، برتن، چھتری، گھوڑا وغیرہ عمده اسباب مہا برہمن کو دیتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ سب بھی مردے کو پہنچتا ہے۔ اس روز اور بھی بہت سا بکھیڑا کرتے ہیں۔ مہابرہمن وہ برہمن ہیں جس کو مردوں کے نام کا صدقہ دیتے ہیں۔ برہمن کے کریا کرم کے لیے اس کے مرنے کے بعد گیارھواں دن، کھتری کے لیے تیرھواں دن، ویش یعنی بنئے وغیرہ کے لیے پندھواں یا سولھواں دن، شودر یعنی بالڈھی وغیرہ کے لیے تیسواں یا اکتیسواں دن مقرر ہے۔ ان کے علاوہ ایک چھ ماہی یعنی مرنے کے چھ ماہ بعد اور ایک سال بعد برسی کا دن مقرر ہے۔ اس روز گائے کو بھی کھانا کھلاتے ہیں۔ مردے کے مرنے کے چار سال بعد ایک دن سدھ کا مقرر ہے۔ ہر سال اسوج کے مہینے کے نصف اول میں بھی اپنے بزرگوں کو ثواب پہنچاتے ہیں۔ جس تاریخ کو کوئی مرے اس تاریخ میں ثواب پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں۔ کھانے کے ثواب پہنچانے کا نام سراده ہے۔ جب سرادہ کا کھانا تیار ہو جائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ وید پڑھواتے ہیں۔ جو پنڈت اس کھانے پر وید پڑھتا ہے وہ ان کی زبان میں ابھشر من کہلاتا ہے۔ اور اسی طرح اور بھی دن مقرر ہیں۔ جب اپنے معبودوں کی روح کے لیے کچھ کرتے ہیں تو وہاں ثواب پہنچانے کی نیت تو ہوتی ہیں بلکہ ان سے ڈر کر، کچھ منافع کی امید رکھ کر، نذر ومنت کے لیے ان کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور ان کے لیے بھی دن مقرر ہیں۔
جس دن ان کے کیا مردے یا معبود کے نام پر کھانا تیار ہوتا ہے اس دن جب تک پر برہمن نہ کھا لے تب تک اس کھانے میں سے کسی دوسرے کو کھلانا درست نہیں سمجھتے اگرچہ لڑکے بالے بھوک کے عذاب میں گرفتار ہیں لیکن اس میں سے ان کو نہیں کھلاتے۔
ایسے ہی بعض مسلمانوں نے ثواب پہنچانے کے لیے دن مقرر کر لیے ہیں۔ جیسے مردہ کی سوئم کو ”قل “کہتے ہیں اور ”چہلم“جس میں پلنگ بچھا کر اور طرح طرح کے کھانے رکھ کر اعتقاد رکھتے ہیں کہ مردے کی روح یہاں آتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس دن روح گھر سے نکلتی ہے۔ چھ ماہی اور برسی مناتے ہیں۔ علی ہجویری کی فاتحہ سوائے گیارھویں اور سترھویں کے اور کسی دن میں نہیں کرتے۔
بعض دنوں کے لیے بعض کھانے مقرر کر رکھے ہیں۔ ہندوؤں کی رسم ہے کہ دو سورہ کو دہی اور خشکہ، دیوالی کو شیرینی، منگل اور اتوار کے دن برت یعنی روزے میں میٹھا۔ اور گوگے پیر کی نومی کو سویاں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی مقرر کر لیے ہیں کہ شب برات کو حلوا، محرم کو حلیم اور شربت، عید کو سویاں، مخدوم جہانیاں کے روزے میں میٹھی روٹیاں وغیرہ۔ ان کے علاوہ بھی ایسی ہی قیدیں لگا رکھی ہیں۔ بعض مسلمان بزرگوں کو اس امید پر نیاز دیتے ہیں کہ وہ ہمارے رزق یا اولاد میں ترقی دیں گے یا کوئی مراد پوری کریں گے اور اگر ہم ان کی نیاز نہ دیں گے تو ڈرتے ہیں کہ ہمارا بھی نقصان کر دیں گے۔ بعض لوگ ثواب پہنچانے کو فرض کی طرح ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی گیارھویں وغیرہ کا دن نہ کرے تو اسے طعنے دیتے ہیں بعض لوگ نیاز وغیرہ کے دن نئے برتن لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔ جس طرح ہند و سرادہ کے دن کھانے پر ابھشرمن سے منتر پڑھواتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی ”ملاں “کو بلا کر ختم دلاتے ہیں۔ جب تک ”ملاں “اس پر ختم نہ پڑھ لے تب تک اس میں سے کسی کو کھانے نہیں دیتے۔ جس طرح ہندو ”سن کلپ“ کرتے وقت دائیں ہاتھ میں پانی لیتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی ختم کے وقت کھانے کے ساتھ پانی کا پیالہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جس طرح ہندو اپنے بزرگوں کو پانی دیتے ہیں اسی طرح مسلمان محرم میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی روح کے لیے پانی کی مشکیں زمین پر بہاتے ہیں۔ جیسے ہندو دیوتاؤں کے نام پرگھی وغیرہ آگ میں جلا کر اس کا نام ”ہوم “رکھتے ہیں اسی طرح مسلمان اپنے بزرگوں کے لیے ہزار ہا چراغ روشن کر کے، اس میں دھڑیوں اور منوں تیل جلا کر الله تعالی کی نعمت کو ضائع کرتے ہیں اور اس کا نام روشنی رکھتے ہیں۔ بعض لوگ ختم کے وقت اس اعتقاد سے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں کہ بزرگوں کی ارواح یہاں حاضر ناظر ہیں، بعض ختم کے وقت چراغ بھی روشن کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں اس قسم کی بہت سی ایسی رسوم روان پا رہی ہیں جس کی تفصیل دراز ہے۔ بے سمجھ لوگوں نے ہندوؤں کے نقل میں یہ باتیں اپنا لی ہیں۔ ہمارے دین میں دوسرے دین والوں کی رسوم مخصوصہ میں نقل کرنی منح ہے۔ یہاں تک کہ ہندوؤں کے تہواروں، مثلاً : ہولی، دیوالی اور دسہرہ وغیرہ میں سیر کے لیے شامل ہونا بھی حرام ہے کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من تشبه بقوم فهو منهم
”جس نے ریس کی کسی قوم کی وہ ان ہی میں سے ہے۔“ [ سنن أبى داود، اللباس، باب فى لبس الشهرة، حديث:4031 ]
جو رسوم باطلہ مذکور ہوئی ہیں ہمارے دین میں ان کی کوئی اصل نہیں۔ اس لیے ہم لوگ ان رسوم کو بدعات اور ہندوؤں کی مشابہت میں شمار کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض مکروہ ہیں بعض حرام اور بعض شرک۔ [ماخوذ از: تحفة الهند، مولانا عبيد الله ماليير كوٹلوي۔ ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے