سوال کی نوعیت
یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان کی تعداد ہمیشہ سے اہلِ کفر کے مقابلے میں کم کیوں رہی ہے؟ اور اگر زیادہ لوگوں کو عذاب دینا ہی تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیوں کیا؟ اس پر مزید کہا گیا کہ یہ حکمت سمجھ سے بالاتر ہے۔
انسان کا اختیار اور اعمال
بنیادی نکتہ: یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر انسان کو اچھے یا برے راستے کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے۔
اللہ نے اچھے اور برے اعمال تخلیق کیے ہیں، مگر انسان ان میں سے اپنی مرضی سے انتخاب کرتا ہے۔
مثال: زبان میں موجود تمام الفاظ انسان نے نہیں بنائے، مگر وہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا لفظ کب استعمال کرنا ہے۔
اہلِ ایمان کی کم تعداد: تاریخی تناظر
- انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت ہمیشہ غیرروایتی اور اجنبی سمجھی گئی، کیونکہ وہ اپنی قوم کے غالب نظریات سے ہٹ کر ایک منفرد پیغام لے کر آئے۔
- حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ علیہم السلام اور دیگر انبیاء کی قومیں زیادہ تر روایتی یا مشرکانہ عقائد پر قائم تھیں۔
- اس لیے ان کے پیغام کو ماننا ان قوموں کے لیے آسان نہیں تھا، کیونکہ وہ موجودہ عقائد کے خلاف سوچنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔
مذاہب کی بقا اور زوال
- وقت کے ساتھ، غیر مستحکم مذاہب ختم ہو گئے، اور وہ مذاہب زندہ رہے جو مضبوط بنیادوں پر قائم تھے۔
- اہم نکتہ: کسی بھی نظریے کے پھیلنے یا زوال پذیر ہونے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔
- جب کسی نظریے پر اعتراض ختم ہو جاتا ہے، تو وہ نظریہ جامد ہو جاتا ہے اور پھر زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
- نئے نظریات ابھرتے ہیں، پرانے مٹتے ہیں، اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اسلام کی مقبولیت اور قیامت تک بقا
اسلام، جو قیامت تک کے لیے آیا ہے، اس دنیا میں کبھی بھی اتنا مقبول نہیں ہو سکتا کہ تمام انسان بیک وقت اسے قبول کر لیں۔
حکمت: اگر ایسا ہو جائے تو انسانوں کے لیے آزمائش ختم ہو جائے گی، اور جبر کا پہلو غالب آ جائے گا، جو اللہ کی حکمت کے خلاف ہے۔
عذاب پر اعتراض کا جواب
- پانچ ارب غیرمسلموں کے جہنم میں جانے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، تو ایک ارب یا حتیٰ کہ ایک فرد کے عذاب پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے۔
- یہ اعتراض صرف تعداد کی بنیاد پر نہیں، بلکہ بنیادی طور پر انسان کے اعمال اور اس کے اختیار سے جڑا ہوا ہے۔
- اللہ نے ہر انسان کو اختیار دیا ہے، اور ہر فرد اپنی مرضی سے اپنے انجام کا انتخاب کرتا ہے۔
ایمان کی مقبولیت کی حد
حق کی مقبولیت اگر ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے، تو آزمائش کا نظام ختم ہو جائے گا اور ایمان لانا جبر کی صورت اختیار کر لے گا۔
یہ دنیا آزمائش کے لیے ہے، اور اس میں مکمل طور پر حق کی مقبولیت قیامت کے قریب سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک ممکن نہیں۔
خلاصہ
یہ سوال کہ "اللہ نے اتنے لوگوں کو پیدا کیوں کیا جب انہیں جہنم میں جانا تھا؟” درحقیقت انسان کے اختیار کی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے۔
اہلِ ایمان کی اقلیت میں ہونے کی حکمت یہ ہے کہ یہ دنیا آزمائش کے لیے ہے، اور ایمان کی ایک خاص حد سے زیادہ مقبولیت آزمائش کے نظام کو ختم کر دے گی۔