انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کے دوست (اولیاء) ہیں
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کے دوست ہیں

انبیاء کرام علیہ اللہ السلام کے دوست ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی وحی ان پر نازل کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ﴾
[الشورى: 51]
”ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بزرگ ہے ، حکمت والا ہے ۔ “
ایک جگہ فرمایا کہ ہم اپنے رسولوں کی مدد کرتے ہیں، دنیوی زندگی میں اور اخروی زندگی میں بھی۔ ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾
[غافر: 51]
”یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ س آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ”جب اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے لیے دنیاء، برزخ اور قیامت کے روز کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اہل جہنم کے لیے جو اس کے رسولوں سے عناد رکھتے اور ان کے خلاف جنگ کرتے تھے، بُرے حال کا ذكر كيا، تو فرمایا: ﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ”ہم یقیناً اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں۔“ یعنی ہم دنیا میں دلیل برہان اور نصرت کے ذریعے سے اپنے رسولوں کی مدد کرتے ہیں ۔ ﴿وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾ ”اور اس دن بھی (مدد کریں گے) جب گواہ کھڑے ہوں گے۔“ آخرت میں ان کے حق میں فیصلے کے ذریعے سے ان کی مدد کریں گے ، ان کے متبعین کو ثواب سے نوازیں گے اور ان لوگوں کو سخت عذاب دیں گے جنہوں نے اپنے رسولوں کے خلاف جنگ کی ۔ ﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ﴾ (جب وہ معذرت کریں گے تو ) ظالموں کی معذرت اس دن تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی ۔ ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ﴾ [غافر: 52] ”اور ان کے لیے نعمت ہے اور ان کے لیے بُرا گھر ہے۔“ یعنی بہت بُرا گھر جو وہاں داخل ہونے والوں کو بہت تکلیف دے گا۔ (تفسیر السعدی: 3 /2390)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ﴾
[الأعراف: 143]
”اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر آئے ، اور ان کا رب اُن سے ہم کلام ہوا تو موسیٰ نے کہا: اے میرے رب ! مجھے نظر دے کہ میں تجھے دیکھ سکوں، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن دیکھو اس پہاڑ کی طرف پھر وہ اگر اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو ضرور تم بھی مجھے دیکھ سکو گے؟ چنانچہ جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو تجلی نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش آیا تو کہنے لگے: تو پاک ہے، میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں۔ “
﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾
[البقرة: 285]
”رسول اس پر ایمان لایا جو اس کے رب کی جانب سے اس کی طرف نازل کیا گیا اور سب مومن بھی (ایمان لائے ) ہر ایک اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ (وہ کہتے ہیں) ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش کے طالب ہیں ، اے ہمارے رب ! اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ “
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے:
﴿قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
[ابراهيم: 11]
”ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزہ تمہیں لا دکھائیں، اور ایمان والوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ “
ایک مقام پر فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾
[الكهف: 110]
” (اے نبی) کہہ دیجئے کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں، ہاں میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ تمہارا سب کا معبود ایک ہی ہے تو جسے بھی اپنے رب سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ وہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ “
نیز فرمایا:
﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾
[الأعراف: 188]
”آپ فرما دیجیے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اور کسی ضرر کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو چاہے اللہ اور اگر میں غائب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا۔ میں تو محض ڈرانے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔ “
﴿أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا﴾
[مريم: 58]
”یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا انبیاء میں سے جو اولاد آدم تھے ، اور ان لوگوں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، اور یہ ابراہیم واسرائیل کی نسل سے تھے، اور ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور چن لیا۔ جب ان پر رحمن کی آیات پڑھی جاتی تھیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ “
ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ﴾
[آل عمران: 144]
”محمد صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے، اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو وہ ہرگز اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔ “
﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ‎. لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ. ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ‎. فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ . وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ .﴾
[الحاقة: 44 تا 48]
”اگر وہ ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا تو ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے، پھر ہم اس کی رگ جان کاٹ دیتے۔ سو تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ اور بے شک یہ (قرآن ) ڈرنے والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔ “
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ ان آیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اگر اس رسول نے اللہ پر کوئی جھوٹ گھڑا ہوتا ﴿بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ﴾ ”اور بعض جھوٹی باتیں بنائی ہوتیں۔ “ ﴿لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ‎. ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ .﴾ ”تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور رگ گردن کاٹ دیتے ۔“ ﴿وَتِينَ﴾ ”وہ رگ ہے جو دل کے قریب ہوتی ہے اگر وہ کٹ جائے تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے۔“ (تفسیر السعدی)
اب ہم ذیل میں چند انبیاء ورسل علیہ السلام کا تذکرہ قرآنی آیات کی روشنی میں کرتے ہیں۔

1۔ سیدنا آدم علیہ السلام

سیدنا آدم علیہ السلام کو اللہ نے بہت سے اعزازات سے نوازا ہے، آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ۔ آپ علیہ السلام کو فرشتوں سے سجدہ کرایا، اور آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا، اور جنت میں جو بھی داخل ہو گا وہ انہی کی شکل وصورت لے کر جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«خلق الله آدم وطوله ستون ذراعا ثم قال: اذهب فسلم على أولئك من الملائكة فاستمع ما يحيونك تحيتك وتحية ذريتك فقال السلام عليكم فقالوا السلام عليك ورحمة الله فزادوه ورحمة الله فكل من يدخل الجنة على صورة آدم»
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب وقوله تعالى واذ قال ربك للملائكة، رقم: 3326)
”اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا ، پھر فرمایا کہ جا اور ملائکہ کو سلام کر کے دیکھنا کہ وہ کن لفظوں میں آپ کے سلام کا جواب دیتے ہیں، کیونکہ وہی تمہارا، اور تمہاری اولاد کا طریقہ سلام ہوگا ۔ آدم علیہ السلام گئے اور کہا السلام عليكم فرشتوں نے جواب دیا وعليكم السلام ورحمة الله ۔ انہوں نے ورحمته الله کا جملہ بڑھا دیا۔ پس جو بھی جنت میں داخل ہوگا ، وہ آدم علیہ السلام کی شکل وصورت وقد وقامت پر داخل ہوگا۔ “
اب آپ خلیفتہ اللہ فی الارض آدم علیہ السلام کے بارے میں چند قرآنی آیات ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ آپ کو ان سے نفع عطا کرے۔
﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ . وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎.‏ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ . قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ. وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ‎. وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ . فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ‎.‏ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ. قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‎.‏ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ.﴾
[البقرة: 30 تا 39]
”اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ، تو انہوں نے کہا: ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے گا، اور خون بہائے گا، اور ہم تیری تسبیح ، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ، اور اللہ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ، ان سب نے کہا: اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے پورے علم وحکمت والا تو تو ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا: تم ان کے نام بتا دو، جب انہوں نے بتا دیے تو فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا کہ زمین اور آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں، اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو، اور جو تم چھپاتے تھے، اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہی تھا۔ اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو بلا روک ٹوک کھاؤ پیو ، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاؤ گے لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا، اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور ایک وقت مقررہ تک تمہارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔ آدم نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں ، اور اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں ۔ اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں وہ جہنمی ہیں، اور ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ “

آدم علیہ السلام کا احترام نہ کرنے پر ابلیس کا دھتکارے جانا اور آدم علیہ السلام کو چند ہدایات:

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ. قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ. قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ ‎.‏ قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ‎. قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ .‏ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ‎. ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ‎.‏ قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ . وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ . فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ‎. وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ.‏ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎.قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ.﴾
[الأعراف: 11 تا 23]
”اور البتہ ہم نے تمہیں پیدا کیا، اور پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو، سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب میں نے تجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو تجھے کس چیز نے منع کیا؟ وہ کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس تو یہاں سے اتر جا، تجھ کو کوئی حق نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے پس نکل جا، بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے۔ وہ بولا: مجھے اس دن تک مہلت دے (جس دن مردے ) اٹھائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے مہلت دی گئی وہ بولا: جیسے تو نے میرے گمراہ (ہونے کا فیصلہ ) کیا ہے میں ان کے لیے (گمراہ کرنے کے لیے ) آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ان تک ضرور آؤں گا ان کے سامنے، ان کے پیچھے سے، ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے، اور تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والے نہ پائے گا۔ فرمایا: یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا، ان میں سے جو تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ اے آدم تم اور تمہاری بیوی (حوا) جنت میں رہو، پھر جس جگہ سے تم دونوں چاہو کھاؤ اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ان کو ظاہر کر دے، اور بولا: تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لیے روکا کہ (کہیں) تم دونوں فرشتے نہ بن جاؤ، یا (کہیں) ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ اور ان دونوں کے سامنے قسم کھالی کہ یقین جانیے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔ پس ان دونوں کو دھوکے سے نیچے لے آیا۔ پس جب ان دونوں نے درخت کو چکھا تو ان کے لیے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں۔ اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے انہیں پکارا: کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور کیا یہ نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ان دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔ “

آدم علیہ سلام کا جنت میں سے نکالا جانا:

﴿قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ .‏ قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ . يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ .‏ يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ.﴾
[الأعراف: 24 تا 27]
” (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: اتر جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ایک ٹھکانا اور کچھ زندگی کا سامان ہے۔ فرمایا: تم اس میں زندگی گزارو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے نکالے جاؤ گے۔ اے آدم کی اولاد! ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور باعث زینت بھی ہے، اور تقوی کا لباس! وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ اے آدم کی اولاد! کہیں تمہیں شیطان فتنے میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا ، ایسی حالت میں کہ ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھائے ۔ بےشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔ بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے ۔ “

اللہ کی رہنمائی:

﴿فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾
[البقرة: 37]
” (سیدنا) آدم (علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا ، اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“

آدم علیہ السلام کی دعا ء و معافی:

﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
[الأعراف: 23]
”دونوں نے کہا: اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا، ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقیناً خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ “

2۔ سیدنا ادریس علیہ السلام

سیدنا ادریس علیہ السلام کو آدم اور شیث علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے نبی ہونا کا شرف حاصل ہے، اور آدم علیہ السلام کے تین سو ساٹھ برس ، ان کو دیکھنے کا موقعہ ملا، اور یہ قلم کے ذریعے لکھنے والے سب سے پہلے شخص ہیں۔ (قصص الانبیاء لابن کثیر، ص: 70)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے ، اور چھٹے آسمان پر پہنچے تو ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
«قال أنس: فلما مر جبريل بإدريس قال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح ، فقلت: من هذا؟ قال: هذا إدريس»
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذكر ادريس، رقم: 3342)
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر جب جبریل اور ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا، خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی۔ (نبی علیہ السلام فرماتے ہیں) میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے بتایا، یہ ادریس ہیں۔“
اور قرآن نے ان کا ذکر اس انداز سے کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں، اللہ آپ کی حفاظت کرے۔

سیدنا ادریس علیہ السلام کا مقام و مرتبہ:

﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا . وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا.﴾
[مريم: 56، 57]
”اور اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کر، بے شک وہ نہایت سچا نبی تھا۔ اور ہم نے اسے بہت اونچے مقام پر بلند کیا۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
یعنی اس کتاب کریم میں تعظیم و اجلال اور صفات کمال سے متصف ہونے کے اعتبار سے سیدنا ادریس علیہ السلام کا ذکر کرو ۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیک وقت صدیقیت …. جو جو تصدیق تام، علم کامل ، یقین ثابت اور عمل صالح کی جامع ہے … اور اپنی وحی اور رسالت کے لیے چن لیا۔ ﴿وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے جہانوں میں ان کا ذکر اور مقربین کے درمیان ان کا درجہ بلند کیا ۔ ۔ پس وہ ذکر کے لحاظ سے بھی بلند تھے اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی بلند ۔ (تفسیر السعدی: 1582/2)

3۔ سیدنا نوح علیہ السلام

سیدنا نوح علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے بہت سے اعزازات سے نوازا، وہ پہلے رسول بن کر دنیا میں مبعوث ہوئے ، وہ آدم ثانی کہلائے، وہ سب سے پہلے سمندری (پانی کی) سواری تیار کرنے والے، وہ مشہود نبی آخر الزمان ہوں گے۔ صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله عز وجل ارسلنا نوحا….. الخ رقم: 3339 وہ اللہ سے عبد الشکور کا لقب پانے والے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فياتون نوحا فيقولون: يا نوح أنت أول الرسل إلى أهل الأرض ، وسماك الله عبدا شكورا»
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله عز وجل ولقد ارسلنا نوحا، رقم: 3340
” (جب آدم علیہ السلام سفارش و شفاعت کرنے سے انکار فرما دیں گے ) تو لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے ، اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ روئے زمین پر سب سے پہلے رسول ہیں، اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے عبد الشکور کہہ کر پکارا ہے ۔ “

سیدنا نوح علیہ السلام کے بارے میں:

اب آیات قرانی کی روشنی میں نوح علیہ السلام کے تذکرہ کو پڑھئے اور ایمان کو تازہ کیجیے۔

نوح علیہ السلام کی دعوت اور قوم کی حالت:

﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎. فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ .‏ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّىٰ حِينٍ .‏ قَالَ رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ.﴾
[المؤمنون: 23 تا 26]
”یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا ، اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں۔ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو کسی فرشتے کو اتار دیتا، ہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانے میں سنا ہی نہیں۔ یقیناً اس شخص کو جنون ہے، پس تم ایک وقت تک اس کے بارے میں انتظار کرو۔ نوح (علیہ السلام ) نے دعا کی: اے میرے پالنے والے! ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد کر ۔ “

نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم اور سواروں کی ترتیب:

﴿فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ. فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ.﴾
[المؤمنون: 27 ، 28]
”تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا۔ جب ہمارا حکم آجائے اور تنور ابل پڑے تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لے اور اپنے اہل کو بھی، مگر ان میں سے جس کی بابت ہماری بات پہلے گزر چکی ہے اور مجھ سے ان لوگوں کے بارے میں بات نہ کرنا جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ تو سب ڈبوئے جائیں گے۔ جب تو اور تیرے ساتھی کشتی پر با اطمینان بیٹھ جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی ۔ “

منزل مقصود پر پہنچنے کی دُعا:

﴿وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ‎.‏ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ وَإِن كُنَّا لَمُبْتَلِينَ ‎.‏ ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ.﴾
[المؤمنون: 29 تا 31]
”اور کہنا کہ اے میرے رب ! مجھے ایسا اتارنا جو بابرکت ہو اور تو ہی بہتر اتارنے والا ہے۔ یقیناً اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں اور ہم بے شک آزمائش کرنے والے ہیں۔ ان کے بعد ہم نے اور بھی امت پیدا کی ۔ “

قوم کا انجام، نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں پر اللہ کا احسان:

﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ ‎. فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ. فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ.﴾
[يونس: 71 تا 73]
”آپ ان کو نوح کا قصہ پڑھ کر سنائیے ، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم ! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔ تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکاء کے پختہ کرلو، پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔ پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو۔ پھر بھی اگر تم اعراض ہی کیے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا، میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں اطاعت کرنے والوں میں سے رہوں ۔ سو وہ لوگ ان کو جھٹلاتے رہے، پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے، ان کو نجات دی اور ان کو آباد کیا اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ، ان کو غرق کر دیا ۔ سو دیکھنا چاہیے کہ کیسا انجام ہوا ، ان لوگوں کا جو ڈرائے جاچکے تھے ۔ “

عذاب کی ہولناکی اور بیٹے کی بدبختی:

﴿وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ‎.‏ قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ ‎. وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ‎. وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ.قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ.﴾
[هود: 42 تا 46]
”اور کشتی انہیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لے کر جا رہی تھی ، اور نوح نے اپنے لڑکے کو جو ایک کنارے پر تھا ، پکار کر کہا کہ اے میرے پیارے بچے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ رہ۔ اس نے کہا: میں عنقریب کسی (بڑے) پہاڑ کی طرف پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا: آج اللہ کے فیصلے سے بچانے والا کوئی نہیں ، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا۔ اس وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا۔ فرما دیا گیا کہ اے زمین! اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان ! بس کر، تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کر دیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ظالم لوگوں پر لعنت نازل ہو۔ نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے تھا۔ یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے، اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نوح یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے۔ اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں، بس مجھ سے اس بات کا سوال نہ کر جس کا تجھ کو کوئی علم نہیں ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تکہ تو جاہلوں میں سے نہ ہو جائے ۔ نوح نے کہا اے میرے رب ! بے شک میں تیری ہی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وہ مانگوں جس کا مجھے علم
ہی نہ ہو۔ “

نوح علیہ السلام کی دعا اور اللہ کا انعام:

﴿قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ . قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ .‏ تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ.﴾
[هود: 47 تا 49]
”اگر تو مجھے نہ بخشے گا، اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا تو میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔ فرما دیا گیا کہ اے نوح اتر جا ہماری طرف سے عظیم سلامتی اور بہت سی برکتوں کے ساتھ ، تجھ پر اور ان جماعتوں پر جو ان لوگوں سے ہوں گی جو تیرے ساتھ ہیں، اور بہت سی وہ امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائدہ تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔ یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، اس لیے آپ صبر کرتے رہیے۔ یقین مانیے کہ اچھا انجام پر ہیزگاروں کے لیے ہی ہے۔ “

4۔ سیدنا ہود علیہ السلام

سیدنا ہود علیہ السلام کو ایسی قوم کی طرف داعی بنا کر بھیجا گیا جو قوم کھجوروں کے تنوں کے جتنی لمبی ، اور تمام انسانوں میں سب سے زیادہ طاقتور جن پر عذاب کا تذکرہ کتب احادیث میں جابجا موجود ہے حتی کہ اگر بارش کا سماں بنتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہو جاتے کہ کہیں یہ ہمارے لیے عادیوں کی بربادی جیسا پیغام نہ لایا ہو ۔
(السلسلة الصحيحة، رقم: 2757)
آئیے اب چند قرآنی آیات کی روشنی میں ہود علیہ السلام کی محنت و کاوش کا مطالعہ کرتے ہیں، اور ان کی قوم کے عبرت ناک انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں، اور رب تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، وہ مقلب القلوب (دلوں کو پھیر نے والا) ہے، وہ ہمیں ایمان والوں اور اولیاء
اللہ کی صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہود علیہ السلام کی دعوت اور قوم کے اعتراضات:

﴿وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ .‏ قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ .‏ قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ وَلَٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ.أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ‎.‏ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ . قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ۖ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ.﴾
[الأعراف: 65 تا 70]
”اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ انہوں نے فرمایا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، سو کیا تم نہیں ڈرتے۔ ان کی قوم میں جو بڑے کافر لوگ تھے، انہوں نے کہا: ہم تم کو کم عقلی میں دیکھتے ہیں اور ہم بے شک تم کو جھوٹے لوگوں میں سے سمجھتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں ذرا بھی کم عقلی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں ۔ تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں۔ اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرائے اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور قد وقامت میں تم کو پھیلاؤ زیادہ دیا۔ سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے ہم ان کو چھوڑ دیں۔ پس تم جس عذاب کی دھمکی ہمیں دیتے ہو اس کو ہم پر لے آؤ، اگر تم سچے ہو۔“

ایمان نہ لانے والوں کو عذاب کی اطلاع اور ایمانداروں کا انجام خیر:

﴿قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ۖ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ‎. فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ.﴾
[الأعراف: 71، 72]
”انہوں نے فرمایا کہ بس اب تم پر اللہ کی طرف سے عذاب اور غضب آیا ہی چاہتا ہے۔ کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے گھڑ لیا ہے ، ان کے معبود ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں بھیجی۔ سو تم انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔ غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ بچا لیا ، اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا، اور وہ ایمان لانے والے نہ تھے۔ “

قوم کی ہلاکت کے اسباب:

﴿فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ. فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ.﴾
[فصلت: 15 ، 16]
”اب عادیوں نے تو بےوجہ زمین میں سرکشی شروع کر دی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے بہت ہی زیادہ زور آور ہے، وہ (آخر تک) ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے۔ بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز و تند آندھی منحوس دنوں میں بھیجی تاکہ ہم انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں۔ یقین مانو کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا ہے اور انہیں کوئی امداد نہ دی جائے گی۔ “

ریت کے ٹیلوں پر ہود علیہ السلام کا وعظ و نصیحت کرنا:

﴿وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ‎. قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ‎.‏ قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ.﴾
[الأحقاف: 21 تا 23]
”عاد کے بھائی کو یاد کرو جب کہ اس نے اپنی قوم کو احقاف (احقاف حقف کی جمع جو کہ ریت کے لمبے لمبے ٹیلوں پر بولا جاتا ہے جو ٹیلے اپنی لمبائی و چوڑائی میں پہاڑ کی مانند ہوں، لیکن اصطلاحاً یہ صحرائے عرب الربع انحالی کے جنوبی مغربی حصے کا نام ہے (جو کہ حضرموت (یمن) کے قریب تھا ) جہاں آج کوئی آبادی نہیں ہے۔ اور بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کیے ہیں، نیز یہ عاد اولی کا تذکرہ ہے۔ ) میں ڈرایا، اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں، اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ کے کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں۔ قوم نے جواب دیا: کیا آپ ہمارے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہمیں اپنے معبودوں (کی پرستش) سے باز رکھیں۔ پس اگر آپ سچے ہیں تو جن عذابوں کا آپ وعدہ کرتے ہیں انہیں ہم پر لے آئیں۔ (سیدنا ہود علیہ السلام نے ) کہا: (اس کا ) علم اللہ ہی کے پاس ہے میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں ، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم نادانی کر رہے ہو۔ “

لاعلمی کی وجہ سے قوم کا عذاب کو دیکھ کر خوش ہونا:

﴿فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ‎. تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ.﴾
[الأحقاف: 24، 25]
”پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا جو ان کے میدانوں کا رخ کیسے ہوئے تھا تو کہنے لگے: یہ ابر (بادل) ہم پر برسنے والا ہے۔ (نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے، ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر دے گی ، پس وہ ایسے ہو گئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ گناہ گاروں کے گروہ کو ہم یونہی سزا دیتے ہیں۔ “

5۔ سیدنا صالح علیہ السلام

سیدنا صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا، یہ لوگ مدائن صالح حجر کے قریب رہتے تھے جو کہ اب موجودہ سعودی عرب میں ہے۔ اور غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ان کی قوم کے تباہ شدہ علاقہ سے ہوا جس طرح تذکرہ صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ قرآن نے صالح علیہ السلام اور قوم صالح کے واقعات کو کس طرح بیان کیا ہے، اس کی ایک جھلک ملاحظہ کریں۔

قوم کو دعوت اور اللہ کی نشانی اونٹنی کے بارے میں نصیحت:

﴿وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ‎. قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ.﴾
[الأعراف: 73 تا 75]
”اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ انہوں نے فرمایا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے ، یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لیے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے، اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آ پکڑے، اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کا جانشین بنایا، اور تمہیں زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ تم نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو۔ سو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔ ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے ، انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے۔ پوچھا: کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بے شک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیا ہے۔ “

قوم کے لوگوں کی بدبختی:

﴿قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِي آمَنتُم بِهِ كَافِرُونَ ‎.‏ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوا يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ ‎.فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ ‎. فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ.﴾
[الأعراف: 76 تا 79]
”وہ متکبر لوگ کہنے لگے: تم جس بات پر یقین لائے ہو ہم تو اس کے منکر ہیں۔ پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ اے صالح ! جس کی آپ دھمکی دیتے ہیں اس کو لے آئیے ، اگر آپ پیغمبر ہیں۔ پس ان کو زلزلے نے آ پکڑا، سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے ۔ اس وقت (صالح ) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم ! میں نے تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔ “

6۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام

سیدنا ابراہیم علیہ السلام اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں۔ انہیں اللہ کی توحید کی خاطر بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا لیکن آپ سب آزمائشوں پر استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیل بنا لیا، اور اپنے مقدس کلام میں جابجا ان کا تذکرہ جمیل کیا۔ ذیل میں ہم انہی چند آیات کا ذکر کرتے ہیں۔

قوم کو دعوت اور بت شکنی:

﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ ‎. إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ‎. قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ ‎. قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎.‏ قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ . قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ‎.‏ وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ.فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ. قَالُوا مَن فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ ‎. قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ . قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ ‎. قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ ‎.‏ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ ‎. فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ . ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ .‏ قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ‎.‏ أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.﴾
[الأنبياء: 51 تا 67]
”یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ عطا فرمائی تھی، اور ہم اسے جاننے والے تھے، جب کہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ، کیا ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ آپ نے فرمایا: پھر تو تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا رہے۔ کہنے لگے: کیا آپ ہمارے پاس سچ مچ حق لائے ہیں یا یوں ہی مذاق کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں! در حقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمان وزمین کا مالک ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے میں تو اسی بات کا گواہ اور قائل ہوں، اور اللہ کی قسم میں تمہارے ان معبودوں کا علاج تمہاری غیر موجودگی میں ضرور کروں گا۔ پس اس نے ان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے، ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا ، یہ بھی اس لیے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں ۔ کہنے لگے کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کس نے کیا؟ ایسا شخص تو یقیناً ظالموں میں سے ہے۔ بولے: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ سب نے کہا: اچھا اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاؤ تاکہ گواہ ہو جائیں۔ کہنے لگے: اے ابراہیم! کیا تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔ آپ نے جواب دیا: بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے، تم اپنے خداؤں سے ہی پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں۔ پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہو گئے اور کہنے لگے: یقینا تم خود ہی ظالم ہو ، پھر اپنے سروں پر الٹے کر دیئے گئے کہ یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا: افسوس ! کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچا سکیں نہ نقصان ۔ تف (افسوس) ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں۔ “

قوم کی ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کی کوشش اور آگ کا ٹھنڈا ہو جانا:

﴿قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ .‏ قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ‎. وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ.﴾
[الأنبياء: 68 تا 70]
” (جب ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو ) کہنے لگے: اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو ہم نے فرما دیا: اے آگ! تو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈی اور سلامتی بن جا۔ گو انہوں نے ابراہیم کا برا چاہا لیکن ہم نے انہیں ہی نقصان پانے والا کر دیا ۔ “

والد کو دعوت اور والد سے علیحدگی:

﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ‎. إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا ‎.يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ‎.‏ يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا ‎. يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ‎.‏ قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا . قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ‎. وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا ‎.﴾
[مريم: 41 تا 48]
”اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بیان کر بے شک وہ سچا نبی تھا۔ جب کہ اس نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے باپ! اس چیز کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کام آتی ہے۔ میرے مہربان باپ ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں ۔ تو آپ میری ہی مانیے ، میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہنمائی کروں گا۔ میرے ابا ! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں۔ شیطان تو رحم وکرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے۔ ابا جی ! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الہی نہ آ پڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم ! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا۔ اور مجھے چھوڑ جا اس حال میں کہ تو صحیح سالم ہے۔ کہا: اچھا تم پر سلام ہو ۔ میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، بے شک وہ مجھ پر ہمیشہ سے مہربان ہے۔ میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں ، صرف اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں ، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگنے میں محروم نہ رہوں گا۔ “

ابراہیم علیہ السلام کی تعریف بزبان قرآن:

﴿وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ.﴾
[التوبة: 114]
”اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا، وہ صرف وعدہ کے سبب سے تھا جو انہوں نے اس سے کر لیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے تعلق ہو گئے ، بے شک ابراہیم بہت نرم دل اور بڑے بردبار تھے۔ “

ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا طرز زندگی و منہج:

﴿إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ‎.‏ وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ‎. أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ‎. تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ .وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ‎.‏ قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.﴾
[البقرة: 131 تا 136]
”جب کبھی بھی اس سے اس کے رب نے کہا: فرمانبردار ہو جا، اس نے کہا: میں رب العالمین کا فرمانبردار ہو گیا ، اسی کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرما لیا ہے، خبردار ! تم مسلمان ہی مرنا ، کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے، جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ اُن سب نے جواب دیا: آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤاجداد اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اس کے فرمانبردار رہیں گے۔ یہ جماعت تو گزر چکی جو انہوں نے کیا ، وہ ان کے لیے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لیے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے۔ کہتے ہیں: یہود ونصاری بن جاؤ ، تو تم ہدایت پاؤ گے کہو: بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار اور مشرک نہ تھے۔ اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ، اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی، اور جو چیز ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسی اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) دیئے گئے ، ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں ۔ “

آزمائش کے بعد امامت کا ملنا:

﴿وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ.﴾
[البقرة: 124]
”جب ابراہیم کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا۔ اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنادوں گا۔ عرض کرنے لگے: اور میری اولاد کو بھی ، فرمایا: میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔“

دین ابراہیم:

﴿وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾
[النساء: 125]
”باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دیا، اور وہ ہو بھی نیک کام کرنے والا اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک اللہ کی طرف ہو جائے ، اور ابراہیم کو اللہ نے اپنا دوست بنا لیا ہے۔ “

7۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام

سیدنا اسماعیل جد الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں، ان کو بھی رب نے اپنی رسالت کے لیے چنا صرف ہی نہیں بلکہ ان کی دعاء کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انہیں کی اولاد میں سے چنا۔ مختصر یہ کہ آپ علیہ السلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ پیغمبر ، باپ پیغمبر بھائی پیغمبر ، بھتیجے یعقوب پیغمبر اور نبی آخرالزمان اپنی ہی اولاد سے پیغمبر ۔

اسماعیل علیہ السلام کی والد کی فرمانبرداری اور اللہ کی راہ میں فدا ہونے کی تڑپ:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ . رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ .‏ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ‎.‏ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ.فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ‎. وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ. قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎.‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ‎. وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ .‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎.‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ . كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎. إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ‎. وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ . وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ .﴾
[الصافات: 99 تا 113]
”اور اس نے کہا: میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں، وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ اے میرے رب ! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی، پھر جب بچہ اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو ابراہیم نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ: اے ابا جان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے بجا لائیے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے ایک جانب گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا ، اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں، بے شک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔ اور ہم نے اس کو اسحاق (بیٹے) کی بشارت دی اس حال میں کہ وہ نبی ہوگا اور صالح لوگوں میں سے ہوگا ۔ اور ہم نے ابراہیم واسحاق پر برکتیں نازل فرمائیں، ان دونوں کی اولادوں میں بعضے تو نیک بخت ہیں اور بعضے اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں۔ “
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا . وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا .‏ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ‎. وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا.﴾
[مريم: 53 تا 55]
”اس کتاب میں اسماعیل کا واقعہ بھی بیان کرو، وہ بڑے ہی وعدے کے سچے تھے ، رسول اور نبی بھی تھے۔ وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے۔ اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پسند کیے ہوئے تھے۔ “

8۔ سیدنا اسحاق علیہ السلام

سیدنا اسحاق علیہ السلام بھی ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اور اسماعیل علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کو اللہ نے یہ اعزاز بھی بخشا ہے کہ ان کے بیٹے یعقوب، پوتے یوسف اور آگے چل کر ان کی اولاد میں موسیٰ و عیسی، یحیی و زکریا علیہم السلام پیدا ہوئے ، اور دیگر انبیاء بنی اسرائیل بھی انہیں کی اولاد سے ہیں۔
﴿وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ . وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ .﴾
[الصافات: 112، 113]
”اور ہم نے اس کو اسحاق نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا۔ اور ہم نے ابراہیم واسحاق (علیہم السلام ) پر برکتیں نازل فرمائیں، اور ان دونوں کی اولادوں میں بعض تو نیک بخت ہیں، اور بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں۔ “

اسحاق علیہ السلام کی پیدائش:

﴿وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ . فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ . وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ.قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَٰذَا بَعْلِي شَيْخًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ ‎.‏ قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.﴾
[هود: 69 تا 73]
”اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے ، انہوں نے سلام کہا۔ اس نے کہا: سلام ہو اور بغیر کسی تاخیر کے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ اب جو دیکھا کہ ان کے ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو انہیں اجنبی جان کر دل ہی دل میں ان سے ڈرنے لگے، انہوں نے کہا: ڈرو نہیں ، ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں، ان کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھیں، وہ ہنس پڑی ، تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی ۔ وہ کہنے لگیں: میرے ہاں اولاد کیسے ہوسکتی ہے میں خود بڑھیا ہوں، اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں، یہ تو یقیناً بہت تعجب کی بات ہے۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو اللہ کی قدرت پر تعجب کر رہی ہو ، اے اس گھر کے لو گو تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، بے شک وہ (اللہ ) بے حد تعریف کیا گیا، بڑی شان والا ہے۔ “

9۔ سیدنا شعیب علیہ السلام

اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام بھی ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدیان بن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، ان کو اللہ نے اہل مدین کی طرف بھیجا، اور اصحاب الایکہ بھی انہی کی قوم پر بولا گیا ایکہ ایک درخت تھا ان کی قوم اس کی پوجا کیا کرتی تھی ، اور آپ کو خطیب الانبیاء کا لقب بھی دیا گیا۔
(مستدرك حاكم: 568/2- طبری: 229/1)
اور ان کو لوط علیہ السلام کے بعد قریب کے زمانہ میں بھیجا گیا۔
(قصص الانبياء لابن كثير، ص: 244)

قرآن ان کا تعارف اور ان کی دعوت کا بیان کچھ یوں پیش کرتا ہے:

﴿وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‎. وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ . وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ. قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ ‎.‏ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ ‎.‏ وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ ‎.فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ .‏ الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا ۚ الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِينَ ‎. فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ.﴾
[الأعراف: 85 تا 93]
”اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے فرمایا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے، پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو، اور روئے زمین میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کر دی گئی فساد مت پھیلاؤ، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو۔ اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو، اور اللہ کی راہ سے روکو، اور اس میں کجی ڈھونڈتے رہو۔ اور اس حالت کو یاد کرو جب تم کم تھے، پھر اللہ نے تم کو زیادہ کر دیا اور دیکھو فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا، اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس حکم پر جس کو دے کر مجھے بھیجا گیا ایمان لے آئے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لائے ہیں، تو ذرا ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ ہمارے درمیان میں اللہ فیصلہ کردے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ اس قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور ان کو جو آپ کو اور جو آپ ساتھ ایمان والے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ۔ شعیب نے جواب دیا کہ اگرچہ ہم نا پسند کرنے والے ہوں؟ ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہو جائیں گے۔ اگر ہم تمہارے مذہب میں آجائیں، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کردے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ اور ان کی قوم کے کا فر سرداروں نے کہا کہ اگر تم شعیب کی راہ پر چلو گے تو بے شک بڑا نقصان اٹھاؤ گے۔ پس ان کو زلزلے نے آپکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے۔ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں وہ کبھی رہے ہی نہ تھے۔ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی وہی خسارے میں پڑ گئے۔ اس وقت شعیب ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی تو میں نہ ماننے والوں پر کیوں رنج کروں ۔ “

10، 11۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام و سیدنا یوسف علیہ السلام

ان دونوں پیغمبروں کا ذکر بھی اللہ نے اپنے مقدس کلام میں کیا ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے کو ”احسن القصص“ کہا گیا ہے۔ سورہ یوسف میں اس کا مفصلاً تذکرہ ہے۔ ایک دفعہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا:
«من أكرم الناس؟ قال: أكرمهم أتقاهم، قالو: يا نبي الله، ليس عن هذا نسألك ، قال: فأكرم الناس يوسف نبي الله ابن الله ابن نبي الله ابن خليل الله»
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبياء، باب قصة اسحاق بن ابراهيم، رقم: 3374)
”سب سے زیادہ معزز و شریف کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو سب سے زیادہ متقی ہو وہ سب سے زیادہ معزز ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، ہمارے سوال کا مطلب یہ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سب سے زیادہ مکرم و محترم اور عزت و شرف والے اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام ہیں کیونکہ وہ خود اللہ کے نبی ہیں ، ان کے والد (یعقوب علیہ السلام ) بھی اللہ کے نبی ہیں، پھر ان کے والد (یعنی یوسف علیہ السلام کے دادا اسحاق علیہ السلام ) بھی اللہ کے نبی ہیں، پھر ان کے والد (ابراہیم علیہ السلام یوسف علیہ السلام کے پردادا ہیں وہ خلیل اللہ ہیں ) تو ان سے بڑھ کر کوئی عزت و شرف مقام والا نہیں ہوسکتا ایسی نسبت کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی ۔ “
ایک دوسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوسف علیہ السلام کو یوں خراج تحسین پیش فرمایا:
«ولو لبثت فى السجن طول ما لبث يوسف لا جبت الداعى»
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبياء، باب ونبئهم عن ضيف ابراهیم رقم: 3372 )
”اور اگر میں اتنی میں مدت تک قید تک قید خانہ میں رہتا جتنی لمبی مدت یوسف علیہ السلام رہے تو ضرور میں بادشاہ کے قاصد کی بات مان لیتا۔ “
تو ان سے بڑھ کر کوئی عزت و شرف و مقام والا نہیں ہوسکتا۔ ایسی نسبت کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ اب ذرا ان دونوں معزز و محترم اور اللہ کے پاک پیغمبروں کا تذکرہ قرآن کی زبانی معلوم کرتے ہیں۔

یوسف علیہ السلام کا خواب اور احسانات باری تعالیٰ:

﴿إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ.قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ. وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾
[يوسف: 4 تا 6]
”جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ اے ابا جان! میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ یعقوب نے کہا: میرے پیارے بچے ! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں۔ شیطان تو انسان کا صریح دشمن ہے۔ اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار (تجھے اپنے کام کے لیے) چن لے گا، اور تجھے باتوں کی اصل حقیقت (خوابوں کی تعبیر ) بھی سکھائے گا، اور اپنی نعمت تجھ پر اور آل یعقوب پر پوری کرے گا۔ جیسا کہ اس نے پہلے تیرے دادا ابراہیم و اسحاق پر پوری کی یقینا تیرا رب سب کچھ جاننے والا اور زبردست حکمت والا ہے۔ “

گٹھ جوڑ اور سازش:

﴿لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ ‎. إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ . اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ ‎.‏ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ .﴾
[يوسف: 7 تا 10]
”یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں سوال کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے، باپ کو بہت زیادہ پیارا ہے حالانکہ ہم طاقتور جماعت ہیں، کوئی شک نہیں کہ ہمارا باپ صریح غلطی پر ہے۔ (آپس میں مشورہ کرتے ہوئے کہنے لگے ) یوسف کو تو مار ہی ڈالو یا اسے نامعلوم جگہ پہنچا دو تا کہ تمہارے والد کا چہرہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ اس کے بعد تم نیک ہو جانا۔ ان میں سے ایک نے کہا: یوسف کو قتل تو نہ کرو، بلکہ اسے کسی گمنام اندھے کنوئیں میں پھینک دو، کوئی راہ چلتا قافلہ اسے لے جائے گا ، اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو ۔ “

یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا اعتماد دلانے کی کوشش کرنا اور والد کے خدشات:

﴿قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ ‎. أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ . قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ ‎. قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَّخَاسِرُونَ.﴾
[يوسف: 11 تا 14]
”انہوں نے کہا: اے ہمارے باپ! آخر آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں۔ کل آپ اسے ضرور ہمارے ساتھ بھیج دیجیے کہ یہ خوب کھائے پیئے اور کھیلے، اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ۔ (یعقوب علیہ السلام نے) کہا: مجھے تو یہ بات سخت غمگین کرتی ہے کہ تم اسے ساتھ لے جاؤ اور مجھے یہ بھی کھٹکا لگا رہے گا کہ تمہاری غفلت میں اسے بھیڑیا کھا جائے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم جیسی زور آور جماعت کی موجودگی میں بھی اگر اسے بھیڑیا کھا جائے پھر تو ہم بالکل نکمے ہیں۔ “

یوسف علیہ السلام کنویں میں اور بھائی روتے ہوئے:

﴿فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ‎. وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ ‎.‏ قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ .‏ وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ.﴾
[يوسف: 15 تا 18]
”پھر جب اسے لے چلے اور سب نے مل کر طے کر لیا کہ اسے اندھے کنوئیں میں ڈال دیں، ہم نے یوسف (علیہ السلام ) کی طرف وحی کی کہ یقیناً وقت آ رہا ہے کہ تو انہیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں گے، اور رات کے اندھیرے میں (وہ سب) اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچے، اور کہنے لگے کہ ابا جی! ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے کوئی بھیڑیا کھا گیا ، آپ تو ہماری بات پر یقین کرنے والے نہیں خواہ ہم بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے آلودہ بھی کر لائے تھے۔ باپ نے کہا: (حقیقت) یوں نہیں (جس طرح کہ تم کہہ رہے ہو ) بلکہ تم نے اپنے دل ہی دل سے ایک بات بنا لی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔ “

یوسف علیہ السلام بازار مصر میں:

﴿وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ . وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ .وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ . وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ.﴾
[يوسف: 19 تا 22]
”اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا، اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا۔ وہ کہنے لگا: واہ واہ ! خوشی کی بات ہے ، یہ تو ایک لڑکا ہے۔ انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا دیا ، اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر تھا جو وہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بہت ہی ہلکی قیمت پر گنتی کے چند درہموں پر ہی بیچ ڈالا ، وہ تو یوسف کے بارے میں بہت ہی بے رغبت تھے۔ مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا، اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت ہی عزت واحترام کے ساتھ رکھو، ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں ، یوں ہم نے مصر کی زمین میں یوسف کا قدم جما دیا کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں، اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ، اور جب (یوسف) پوری جوانی کی عمر کو پہنچا ہم نے اسے دانائی اور علم دیا ، ہم نیکی کرنے
والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔“

ملکہ کی چالبازیاں اور اللہ کی مدد:

﴿وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ‎. وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ‎.‏ وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ . قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ. وَإِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ .‏ فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ ‎.‏ يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ .﴾
[يوسف: 23 تا 29]
”اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے ، اس نے یوسف کو اپنی طرف ورغلانا چاہا ، اس نے دروازے بند کر لیے اور کہنے لگی: جلدی آ جاؤ، یوسف نے کہا: اللہ کی پناہ ! میرے رب نے مجھے بہت اچھی منزلت بخشی ہے۔ ظالم لوگ یقیناً فلاح نہیں پاتے۔ چنانچہ اس عورت نے یوسف کا قصد کیا اور وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتے ۔ اس طرح ہم نے انہیں اس برائی اور بے حیائی سے بچا لیا کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔ پھر وہ دونوں دروازے کی طرف لپکے اور اس نے یوسف کو پیچھے سے کھینچ کر قمیض پھاڑ دی، انھوں نے اس کے خاوند کو دروازے کے پاس کھڑا پایا۔ تب کہنے لگی: جو تیری بیوی سے بُرا ارادہ رکھتا ہو ، اس کا بدلہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ یا اس کو قید کر دیا جائے یا المناک سزا دی جائے۔ یوسف نے کہا: یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر اس کی قمیض آگے سے پھٹی ہوئی ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ اور اگر اس کی قمیض پیچھے کی جانب سے پھٹی ہوئی ہے تو عورت جھوٹی ہے، اور یوسف سچوں میں سے ہیں۔ خاوند نے جو دیکھا کہ قمیض پچھلی جانب سے پھٹی ہوئی ہے تو صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم عورتوں کے فریب میں سے ہے، بے شک تمہارا فریب بہت بڑا ہے۔ یوسف اس معاملے سے درگزر کرو اور عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ۔ بے شک تو گناہ گاروں میں سے ہے۔“

یوسف علیہ السلام مصر کی عورتوں کے سامنے:

﴿وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ. فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ . قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ ‎. قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ ‎. فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.﴾
[يوسف: 30 تا 34]
”اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے جوان غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے۔ اس کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وہ صریح غلطی میں ہے۔ اس نے جب ان کی پُرفریب غیبت کا حال سنا تو انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لیے ایک مجلس مرتب کی اور ان میں سے ہر ایک کو چھری دی۔ اور کہا: اے یوسف ! ان کے سامنے چلے آؤ، ان عورتوں نے جب اسے دیکھا، تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے، اور زبان سے نکل گیا کہ ماشاء اللہ ! یہ انسان تو ہرگز نہیں، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ ہے۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے کہا: یہی ہے جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں ، میں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا لیکن یہ بال بال بچا رہا اور جو کچھ اس سے کہہ رہی ہوں، اگر یہ نہ کرے گا تو یقیناً یہ قید کر دیا جائے گا اور بے شک یہ بہت ہی بے عزت ہوگا۔ یوسف نے دعا کی: اے میرے پروردگار ! جس بات کی طرف عورتیں مجھے بلا رہیں ہیں ، اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے۔ اگر تو نے ان کا فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا ، اور میں نادانوں میں جا ملوں گا، اس کے رب نے اس کی دعا قبول کرلی، اور ان عورتوں کے داؤ پیچ اس سے پھیر دیے۔ یقیناً وہ سننے والا جاننے والا ہے۔“
حدیث میں آتا ہے کہ:
«عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: سبعة يظلهم الله فى ظله يوم لا ظل إلا ظله… ورجل طلبته امرأة ذات منصب وجمال فقال: إني اخاف الله»
(صحیح بخارى ، كتاب الآذان باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة، رقم: 660 – صحیح مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل اخفاء الصدقة)
”سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اپنا سایہ عطا فرمائے گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے ایک ایسی عورت دعوت گناہ دے جو حسن و جمال سے آراستہ ہو اور جاہ و منصب کی بھی حامل ہو، لیکن وہ اسکے جواب میں یہ کہہ دے کہ میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں۔ “

12 ۔ سیدنا ایوب علیہ السلام

سیدنا ایوب علیہ السلام کے متعلق یہ بات جاننا ضروری ہے کہ آپ علیہ السلام بہت مالدار تھے، اور آپ کا علاقہ حوران ثنیہ تھا ان کے صبر وشکر اور ان پر رب کے احسانات کو قرآن نے جابجا بیان کیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن أيوب نبي الله لبث فى بلائه ثمان عشرة سنة فرفضه القريب والبعيد الا رجلين… وكان يخرج إلى حاجته، فإذا قضى حاجته، أمسكت امرأته بيده ، فلما كان ذات يوم أبطأ عليها ، فأوحى الله إلى أيوب فى مكانه أركض برجلك هذا مغتسل بارد شراب "ص الآية: 42 فاستبطأته فبلغته ، فاقبل عليها قد اذهب الله ما به البلاء فهو أحسن ما كان ، فلما رأته قالت اى بارك الله فيك! هل رأيت نبي الله – هذا المبتلى -؟ والله – على ذلك ما رأيت أحدا كان أشبه به منك إذا كان صحيحا ! قال فإني أنا هو، وكان له اندران: أندر القمح واندر السعير ، فبعث الله سحابتين، فلما كانت إحداهما على اندر القمح ، أفرغت فيه الذهب حتى فاضت ، وأفرغت الأخرى على اندر السعير الورق حتى فاضت»
(صحیح ابن حبان، رقم: 2887 – سلسلة الصحيحة، رقم: 17)
”اللہ کے نبی ایوب اٹھارہ سال بیماری میں رہے حتی کہ دور قریب کے سب رشتہ دار سب چھوڑ گئے ، دو آدمیوں کے علاوہ ۔ ۔ ۔ آپ جب قضائے حاجت کے لیے نکلتے فارغ ہوتے تو آپ علیہ السلام کی بیوی ہاتھ کا سہارا دیئے رہتیں حتی کہ آپ واپس آجاتے، ایک دن اس سے دیر ہوگئی تو اللہ نے وحی فرمائی ﴿ارْكُضْ بِرِجْلِكَ﴾ [ص: 42] اپنا پاؤں زمین پر ماریئے، یہ نہانے اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی ہے، بیوی دیر سے پہنچیں تو دیکھنے لگ گئیں، ایوب علیہ السلام اس کی طرف آئے جبکہ اللہ نے بیماری بالکل ختم کر دی ، اور اب وہ بہت خوبصورت حالت میں تھے، بیوی آپ کو دیکھ کر کہنے لگیں ، کیا آپ نے اللہ کے نبی کو دیکھا ہے جو یہاں بیماری کی حالت میں موجود تھے؟ اور اللہ کی قسم جب وہ صحیح تھے تو وہ آپ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے تو (ایوب علیہ السلام نے) فرمایا وہ میں ہی ہوں۔ ایوب علیہ السلام کے دو کھلیان (وہ جگہ جہاں تھریشر، یا ویٹ مشین یا کسی دوسرے طریقے پر اناج بھس وغیرہ سے نکال کر ڈھیر لگایا جائے ) تھے، ایک گندم کا اور دوسرا جو کا، اللہ تعالیٰ نے دو بادل بھیجے ۔ ایک بادل گندم کے کھلیان پر آیا، اور اس نے سونا برسایا حتی کہ وہ لبالب بھر گیا۔ پھر دوسرے نے جو کے کھیت پر چاندی برسائی۔ حتی کہ وہ بھی فل چاندی سے بھر گیا۔ “
آپ نے ملاحظہ کیا کہ آزمائش کے بعد رب تعالیٰ نے ان کو کتنا نوازا، اب ہم قرآن کی چند آیات ان کے متعلق بیان کرتے ہیں۔

ایوب علیہ السلام کا اللہ کا ادب ، اور اللہ کی رحمت کی برکھا:

﴿وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ . فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ.﴾
[الأنبياء: 83، 84]
”ایوب کی اس حالت کو یاد کرو جب کہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اور ہم نے ان کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا ، اسے دور کر دیا، اور اس کو اہل وعیال عطا فرمائے بلکہ اپنی خاص مہربانی سے ان کے ساتھ ویسے ہی اور تاکہ بچے بندوں کے لیے سبب نصیحت ہو۔ “
ایک مقام پر فرمایا:
﴿وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ .‏ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ. وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ‎. وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ .﴾
[ص: 41 تا 44]
”اور ہمارے بندے ایوب کا بھی ذکر کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے۔ (اللہ نے فرمایا ) اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے، اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا بلکہ اتنا ہی اور بھی اس کے ساتھ اپنی رحمت سے اور عقل مندوں کی نصیحت کے لیے، اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لے کر مار دے اور قسم کا خلاف نہ کر، سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا، وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑا ہی رغبت رکھنے والا ۔ “

13۔ سیدنا یونس علیہ السلام

سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا يقولن أحدكم إني خير من يونس بن متى»
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله تعالى وان يونس الخ“ رقم: 3413 و 3413 )
”کسی بندے کے لیے لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ “
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ارض موصل کے ایک شہر نینوی کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔

یونس علیہ السلام کی دعا:

﴿وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‎. فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ.﴾
[الأنبياء: 87، 88]
”مچھلی والے (سیدنا یونس علیہ السلام ) کو یاد کرو! جب کہ وہ غصے سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑیں گے۔ بالآخر وہ اندھیروں کے اندر پکار اٹھا کہ الہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بے شک میں ظالموں میں سے ہو گیا۔ تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے سیدنا یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی ، اور اسے اندھیرے سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دے دی ، اور فرمایا کہ جو بھی مومن ہمیں اسطرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے ، حدیث میں بھی آتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«دعوة ذي النون إذ دعا وهو فى بطن الحوت لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظلمين فإنه لم يدع بها رجل مسلم فى شيء قط إلا استجاب الله له»
سنن ترمذی، کتاب الدعوات، رقم: 3505۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”کہ جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لیے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایا ہے۔ “

یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نجات پانا:

ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ‎.‏ إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ‎. فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ ‎.‏ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ‎. فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ‎.‏ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ . فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ ‎. وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ‎. وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ .‏ فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ.﴾
[الصافات: 139 تا 148]
”اور یہ یونس نبیوں میں سے تھے۔ جب بھاگ پڑے بھری کشتی کی جانب ، پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہو گئے۔ تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا، اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے ۔ پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو یہ اس دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے جس دن مردے زندہ کیے جائیں۔ پس اسے ہم چٹیل میدان میں ڈال دیا۔ اور اس وقت وہ بیمار تھے اور اس پر سایہ کرنے والا کدو کی قسم کا ایک درخت ہم نے اگا دیا اور ہم نے اسے ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا۔ پس وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش وعشرت دی ۔ “

یونس علیہ السلام پر رب کا احسان اور چُن لیا جانا:

﴿فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ . لَّوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ . فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ.﴾
[القلم: 48 تا 50]
”پس تم اپنے رب کے حکم کا صبر سے انتظار کرو اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جاؤ ، جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی ۔ اگر اسے اس کے رب کا احسان نہ پا لیتا ، تو یقیناً وہ برے حالوں میں بنجر زمین میں ڈال دیا جاتا۔ اسے اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیکو کاروں میں کر دیا ۔ “
﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ.﴾
[يونس: 98]
”چنانچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ اس کا ایمان لانا اس کو نافع دینا سوائے یونس کی قوم کے۔ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ان سے ٹال دیا اور ان کو ایک خاص وقت تک کے لیے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ “

14 و 15۔ سیدنا موسیٰ وسیدنا هارون علیہما السلام

یہ دونوں بھی اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں میں سے تھے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کثرت سے قرآن میں آیا ہے، اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
«الناس يصعقون يوم القيامة فاكون أول من يفيق، فإذا أنا بموسى اخذ بقائمة من قوائم العرش فلا ادرى أفاق قبلى أم جوزي بصعقة الطور»
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله تعالى وهل اتاك حديث موسى، رقم: 3398 )
”قیامت کے دن سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے پھر سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا، اور دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کے پایوں میں سے ایک پایا تھامے ہوئے ہیں، اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے ہوں یا (بے ہوش ہی نہ کیے گئے ہوں بلکہ ) انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کا بدلہ دیا گیا ہو۔“
اسی ہی باب کی حدیث ، رقم: 3394، میں ہے کہ ”میں نے معراج والی رات موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، وہ ایک دبلے پتلے سیدھے بالوں والے آدمی ہیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ شنوہ میں ہوں ۔ “
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب وفاة موسى، رقم: 3408)
ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
«استب رجل من المسلمين ورجل من اليهود فقال المسلم: والذي اصطفى محمدا صلى الله عليه وسلم على العالمين. فى قسم يقسم به. فقال اليهودي: والذي اصطفى موسى على العالمين، فرفع المسلم عند ذلك يده فلطم اليهودي، فذهب اليهودي إلى النبى صلى الله عليه وسلم فأخبره بالذي كان من أمره وأمر المسلم، فقال لا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون …. الخ»
”مسلمانوں میں سے ایک آدمی کا ایک یہودی کے ساتھ جھگڑا ہو گیا مسلمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں برگزیدہ بنایا، قسم کھاتے ہوئے انہوں نے یہ کہا اس پر یہودی نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو ساری دنیا میں برگزیدہ بنایا ، اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر یہودی کو تھپڑ مار دیا، وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنے اور مسلمان کے جھگڑے کی آپ کو خبر دی ۔ آپ نے اسی موقع پر فرمایا کہ مجھے موسیٰ پر ترجیح نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ۔ ۔ ۔ الخ“
اب آپ قرآن سے چند آیات موسی علیہ السلام و ہارون علیہ السلام کے متعلق ملاحظہ فرمائیں۔

موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو نبوت ملنا:

﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا. وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا.‏ وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا ‎. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا.﴾
[مريم: 51 تا 53]
”اس قرآن میں موسیٰ کا ذکر بھی کرو، جو چنا ہوا رسول اور نبی تھا۔ ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا اور اپنی خاص مہربانی سے اس کے بھائی کو نبوت عطا فرمائی۔ “

طور سینا پر رب سے کلام اور معجزات کا ملنا:

﴿فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ .‏ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ .‏ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ .‏ اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ.﴾
[القصص: 29 تا 32]
”جب سیدنا موسیٰ نے مدت پوری کر لی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی ۔ اپنی بیوی سے کہنے لگے: ٹھہرو ! میں نے آگ دیکھی ہے، بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو ۔ پس جب وہاں پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت میں سے آواز دیے گئے کہ اے موسیٰ ! یقیناً میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار اور (یہ بھی آواز آئی ) کہ اپنی لکڑی ڈال دے۔ پھر جب اسے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح پھن پھیلا رہی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر واپس ہو گئے اور مڑ کر رخ بھی نہ کیا۔ ہم نے کہا: اے موسیٰ ! آؤ ، ڈرو مت یقیناً تو ہر طرح امن والا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی قسم کے روگ و بیماری کے چمکتا ہوا نکلے گا، بالکل سفید اور انھوں نے خوف سے بچنے کے لئے اپنے بازو اپنی طرف ہلائے ، پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، یقیناً وہ سب کے سب بے حکم اور نافرمان لوگ ہیں ۔ “

معجزات موسی علیہ السلام کی تعداد:

﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا .‏ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا.﴾
[الإسراء: 101، 102]
”ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل صاف صاف عطا فرمائے ، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو فرعون بولا کہ اے موسیٰ ! میرے خیال میں تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے۔ موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تجھے علم ہو چکا ہے کہ آسمان وزمین کے پروردگار ہی نے نو معجزے دکھانے سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں۔ اے فرعون ! میں تجھے ہلاک کیا ہوا سمجھتا ہوں۔ “

جادوگروں کا ایمان لانا اور فرعون کا انتقام:

﴿فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ ‎.‏ قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ .‏ قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا .‏ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ‎.‏ إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ . وَمَن يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ . جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَن تَزَكَّىٰ.﴾
[طه: 70 تا 76]
”اب تو تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر ایمان لائے ۔ فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تو تمہارا وہ بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے ، سن لو! میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں ایک دوسرے کی مخالف جانب سے (یعنی سیدھا تو الٹا پاؤں و برعکس ) کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا اور تمہیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح دیں اور جو ہمارے سامنے آچکیں اور اس اللہ پر (تجھ کو ترجیح دیں) جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اب تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے چلا تیرا وہ اسی دنیوی زندگی میں ہی ہے، ہم اس امید سے اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے، اور جو کچھ تم نے ہم سے زبردستی کرایا ہے وہ تو جادو ہے، اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ بات یہی ہے کہ جو بھی گنہگار بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں جائے گا اس کے لیے دوزخ ہے، جہاں نہ موت ہوگی، اور نہ زندگی اور جو بھی اس کے پاس ایماندار ہو کر جائے گا، اور اس نے اعمال بھی نیک کیے ہوں گے، اس کے لیے بلند وبالا درجے ہیں۔ ہمیشگی والے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی انعام ہے ہر اس شخص کا جو پاک ہوا ہے۔“

موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو وحی کی روشنی عطا ہونا:

﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ . الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَهُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ ‎.‏ وَهَٰذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ ۚ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ.﴾
[الأنبياء: 48 تا 50]
”یہ بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسیٰ وہارون کو فیصلے کرنے والی نورانی اور پرہیزگاروں کے لیے وعظ ونصیحت والی کتاب عطا فرمائی ہے۔ وہ لوگ اپنے رب سے بن دیکھے خوف کھاتے ہیں اور قیامت سے ڈرنے والے ہیں اور یہ نصیحت و برکت والا قرآن بھی ہم نے نازل کیا ہے، کیا تم اس کے منکر ہو۔“

موسی علیہ السلام کے بعد ان کی کتاب کے ساتھ ان کی قوم کا سلوک:

﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ . وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ.﴾
[الأنعام: 91، 92]
”اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کرنے کا حق تھا ، جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی ۔ آپ یہ کہیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے ، جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لیے وہ ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے۔ جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئیں ہیں جن کو نہ تم اور نہ تمہارے بڑے جانتے تھے ۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ نے نازل فرمایا ہے، پھر انہیں چھوڑ دے اپنی فضول بحث میں کھیلتے رہیں ۔ اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے ، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں، اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں، اور وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔ “

تورات کا تعارف:

﴿ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ ‎.‏ وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.﴾
[الأنعام: 154، 155]
”پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور سب احکام کی تفصیل ہو جائے اور رہنمائی ہو اور رحمت ہو، تاکہ وہ لوگ اپنے رب کے ملنے پر یقین لائیں ۔ اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر و برکت والی ہے اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ “

موسی و ہارون علیہما السلام تبلیغ کے لیے فرعون کے دربار میں:

﴿وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي . اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي ‎.‏ اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ . فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ‎. قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَىٰ ‎.‏ قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ ‎. فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ ‎.‏ إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَىٰ مَن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ‎. قَالَ فَمَن رَّبُّكُمَا يَا مُوسَىٰ ‎. قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ . قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ . قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى.﴾
[طه: 41 تا 52]
”اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لیے پسند فرما لیا ہے، اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں لیے ہوئے جا اور خبردار میرے ذکر میں سستی نہ کرنا، تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ ، اس نے بڑی سرکشی کی ہے، اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ جائے یا ڈر جائے ۔ دونوں نے کہا: اے ہمارے رب ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جائے ۔ جواب ملا کہ تم مطلقاً خوف نہ کرو، میں اب تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا رہوں گا۔ تم اس کے پاس جا کر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے، ان کی سزائیں موقوف کر ۔ ہم تو تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی اس کے لیے ہے جو ہدایت کا پابند ہو جائے۔ ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لیے عذاب ہے۔ فرعون نے پوچھا: اے موسیٰ ! تم دونوں کا رب کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت شکل عنایت فرمائی، پھر راہ سمجھا دی۔ اس نے کہا: اچھا یہ تو بتاؤ: اگلے زمانے والوں کا حال کیا ہونا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں کتاب میں موجود ہے، نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ “

16 ۔ سیدنا الیاس علیہ السلام

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ الیاس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دمشق کے مغربی شہر بعلبک کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ بعل ایک بت کا نام تھا جس کی وہ پوجا کیا کرتے تھے، جس طرح کہ ذیل کی آیت سے واضح ہے۔ یہ شہر موجودہ اردن کے شمالی اضلاع پر مشتمل ہے۔ الیاس علیہ السلام کا ذکر قرآن میں صرف دو مقام پر ہے، ایک یہ درج مقام ، اور دوسراسورہ انعام آیت 85 میں ۔

الیاس علیہ السلام کی دعوت:

﴿وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ‎.‏ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ. أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ‎.‏ اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ . فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ‎.‏ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ . وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ .‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ‎.‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎.‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ.﴾
[الصافات: 123 تا 132]
”بے شک الیاس بھی پیغمبروں میں سے تھے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو۔ کیا تم بعل (نامی بت ) سے دعائیں کرتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟ اللہ جو تمہارا اور تمہارے اگلے تمام باپ دادوں کا پالنہار ہے۔ لیکن قوم نے انہیں جھٹلایا۔ پس یقیناً وہ سب ضرور حاضر کیے جائیں گے۔ ہم نے الیاس کے ذکر خیر کو پچھلوں میں بھی باقی رکھا کہ سلام ہوالیاسین پر ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ “

17 ۔ سیدنا داؤد علیہ السلام

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أحب الصلاة إلى الله صلاة داود عليه السلام، واحب الصيام إلى الله صيام داود»
صحیح بخاری، کتاب التهجد، قم: 1131
”اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ روزے بھی داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں۔“
نیز نبی علیہ السلام نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا:
﴿خُفَّ عَلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلامُ الْقُرْآنُ فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَوَا بِهِ فَتُسْرَجُ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّهُ، وَلَا يَأْكُلُ إِلَّا مِنْ عَمَلِ يَدِهِ﴾
صحیح بخاری کتاب احادیث الانبياء، باب قوله تعالى و اتينا داؤد ، زبور، رقم: 3417
”داؤد علیہ السلام کے لیے قرآن (یعنی زبور ) کی قرآت بہت آسان کر دی گئی تھی، چنانچہ وہ اپنی سواری پر زین کسنے کا حکم دیتے اور زین کسے جانے سے پہلے ہی پوری زبور پڑھ لیتے ، اور آپ عالیہ السلام صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے۔“
یہ تھے داؤد عالیہ السلام کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرامین، جبکہ قرآن میں بھی ان کی عبادت وریاضت اور انابت الی اللہ کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

نبوت کا عطا ہونا اور جالوت کا قتل:

﴿فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ.﴾
[البقرة: 251]
”چنانچہ اللہ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی، اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا، اور اللہ نے داؤد کو مملکت وحکمت، اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا ۔ اگر اللہ بعض (شر پسند ) لوگوں کو بعض (صالح لوگوں کے ذریعے) سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل وکرم کرنے والا ہے۔ “

ان کے لیے اللہ کی طرف سے لوہے کا نرم ہو جانا:

﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ.‏ أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ ۖ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.﴾
[سبأ: 10، 11]
”اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا، (ہم نے کہا) اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح پڑھا کرو، اور پرندے بھی ، اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کر دیا کہ تو پوری پوری زرہیں بنا اور جوڑوں میں اندازہ رکھ اور تم سب نیک کام کرو۔ یقین مانو کہ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں۔“
علامہ شوکانی اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
«او بيي» کے معنی ہیں تسبیح دہراؤ۔ یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا چنانچہ یہ بھی داؤد کے ساتھ مصروف تسبیح ہو جاتے ، اور ہم نے پرندے ان کے تابع کر دیے۔ (فتح القدير، للشوكاني)

اللہ تعالیٰ نے پرند اور پہاڑ تابع کر دیے:

﴿اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ.‏ إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ. وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً ۖ كُلٌّ لَّهُ أَوَّابٌ. وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ.﴾
[ص: 17 تا 20]
”آپ ان کی باتوں پر صبر کریں، اور بندے داؤد کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا، یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا ، ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام اور صبح کو تسبیح کرتے تھے۔ اور اڑتے پرندے جمع ہو کر سب کے سب اس کے زیر فرمان رہتے ۔ اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا، اور اسے حکمت اور فیصلہ کن گفتگو عطا فرمائی۔ “

18۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام

سیدنا سلیمان علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہت سے بھی نوازا تھا۔ ان کی حکومت نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں، جانوروں، جنات پر بھی تھی ۔ آپ معمار بیت المقدس بھی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لما فرغ سليمان بن داؤد عليهما السلام من بناء بيت المقدس سأل الله ثلاثا: حكما يصادف حكمه، وملكا لا ينبغي لاحد من بعده، وألا يأتى هذا المسجد احد. لا يريد إلا الصلاة فيه – إلا خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: أما اثنتان فقد أعطيهما . وارجوا آن يكون قد أعطي الثالثة»
سنن ابن ماجه، کتاب اقامة الصلاة، رقم: 1408۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”جب سلیمان بن داؤد علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر چکے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا (1) اے اللہ میرا فیصلہ تیرے فیصلہ کے موافق ہو (2) مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو (یعنی ویسی حکومت میرے بعد کسی کو نہ ملے) ان کی یہ دونوں دعائیں قبول کر لی گئیں۔ اور تیسری دعاء انہوں نے یہ کی کہ کوئی بھی شخص صرف نماز کی غرض سے میری اس تعمیر کردہ مسجد میں آجائے تو اس کے تمام گناہ معاف فرما کر ایسے کر دینا گویا وہ ابھی پیدا ہوا ہے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) میں یہ امید کرتا ہوں کہ یہ چیز بھی اللہ نے اُسے عطاء کی ہے۔“
اب آئیے قرآنی آیات کی روشنی میں ان کی سیرت و حالات کی ایک جھلک کو ملاحظہ کرتے ہیں۔

پرندوں اور جانور کی زبانوں کو سمجھنا:

﴿وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ . وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ. حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ‎. فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ.﴾
[النمل: 16 تا 19]
”اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے اور کہنے لگے: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم سب کچھ دیئے گئے ہیں۔ (جو ایک ریاست کو ضرورت ہوتا ہے) بے شک یہ واضح فضل الہی ہے۔ سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرندے جمع کیے گئے ہر ہر قسم الگ الگ کھڑی کر دی گئی۔ جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند ڈالے، اس کی اس بات سے سیدنا سلیمان مسکرا کر ہنس دیے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجالاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل کرلے۔ “

جاسوس پرندے کی اطلاع:

﴿وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ.‏ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ. فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ.إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ. وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ‎.‏ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ. اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ . قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ.﴾
[النمل: 20 تا 27]
”آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟ یقیناً میں اسے سخت سزا دوں گا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا۔ یا میرے سامنے کوئی معقول وجہ بیان کرے۔ کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آکر اس نے کہا: میں ایک ایسی خبر لایا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں۔ میں سبا کی ایک سچی خبر آپ کے پاس لایا ہوں، میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے، اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ، شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کر کے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے۔ پس وہ ہدایت پر نہیں آتے کہ اسی اللہ کے لیے سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اور ظاہر کرتے ہو وہ سب جانتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی عظمت والے عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ سلیمان نے کہا: اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔ “

ہواؤں اور جنوں کا تابع ہونا:

﴿وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ.وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَن يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلًا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ .﴾
[الأنبياء: 81، 82]
”ہم نے تند و تیز ہواؤں کو سلیمان کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھیں جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔ اس طرح سے بہت سے شیاطین بھی ہم نے اس کے تابع کیے تھے جو اس کے فرمان سے غوطے لگاتے تھے، اور اس کے سوا بھی بہت سے کام کرتے تھے ، ان کے نگہبان ہم ہی تھے۔“

سلیمان علیہ السلام کی موت اور جنوں کی عاجزی:

﴿‏ فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ.﴾
[سبأ: 14]
”پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی بجز گھن (دیمک) کے کیڑے کے جو ان کی لکڑی کو کھا رہا تھا۔ پس جب سلیمان گر پڑے اُن جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کی مصیبت میں مبتلا نہ رہتے۔“

آزمائش کے بعد انعامات:

﴿وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ.‏ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ‎. فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ .‏ وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ ‎.‏ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ.‏ هَٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ‎.‏ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ.﴾
[ص: 34 تا 40]
”اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک جسم ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا۔ کہا کہ اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما کہ جو میرے سوا کسی شخص کے لائق نہ ہو، تو بڑا ہی دینے والا ہے۔ پس ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کر دیا ، وہ آپ کے حکم سے جہاں آپ چاہتے یہ نرمی پہنچا دیا کرتی تھی۔ اور طاقت ور جنات کو بھی ان کا ماتحت کر دیا ہر عمارت بنانے والے کو، اور غوطہ خور کو، اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے ۔ یہ ہمارا عطیہہے اب تو احسان کر یا روک رکھ کچھ حساب نہیں ۔ ان (سلیمان) کے لیے ہمارے پاس بڑا تقرب ہے اور بہت اچھا ٹھکانہ ہے۔ “

19 و20 ۔ سیدنا زکریا و یحیی علیہ السلام

یہ دونوں انبیاء باپ بیٹا ہیں، ذکریا علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے بڑھاپے میں اولاد عطاء فرمائی، اور اس کا نام بھی رب تعالیٰ نے خود رکھا، اس کے علاوہ قرآن میں ان کے بہت سارے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اور احادیث نبوی میں بھی مختلف اعزازات بیان ہوئے ہیں جن کو
اختصار سے ذکر کرنا بہتر ہوگا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«كان زكرياء نجارا»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل زكريا عليه السلام، رقم: 2379
”زکریا (علیہ السلام ) بڑھئی تھے۔ “
نبی علیہ السلام کی ایک دوسری حدیث میں ہے:
«إِنَّ مِنْ أَطْيبَ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ: مِنْ كَسْبِهِ»
سنن ابوداؤد، كتاب البيوع، باب في الرجل ياكل من مال ولده رقم: 3528۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”انسان کا سب سے پاکیزہ کھانا اس کا اپنے ہاتھ سے کمایا ہوا ہے۔ “
جہاں قرآن نے یحیی علیہ السلام کو سیّداً وحصورًا کہا، وہاں نبی علیہ السلام نے ان کا یوں تذکرہ فرمایا:
«الحسن والحسين سيد الشباب أهل الجنة إلا ابنى الخالة عيسى ابن مريم ويحى بن زكريا»
صحیح ابن حبان، رقم: 6920، مع التعليقات الحسان مستدرك حاكم: 166/3، رقم: 4831 – سلسلة الصحيحة، رقم: 796
”حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے سوائے دو خالہ زاد بھائیوں، عیسی بن مریم اور یحیی بن زکریا علیہما السلام کے ۔“
اب قرآن کی روشنی میں ان دو عظیم باپ بیٹے کے چند فضائل و مناقب اور اللہ کی طرف سے عطا کردہ اعزازات کو ملاحظہ فرمائیں۔

دعاء زکریا اور پیدائش یحیی علیہما السلام اور عطاء نبوت:

﴿كهيعص . ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا . إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا .‏ قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا .وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا.‏ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا .‏ يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا.‏ قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا ‎.قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا.‏ قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا . فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا. يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ‎. وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا . وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا . وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا.﴾
[مريم: 1 تا 15]
”کھیعص ۔ یہ تیرے پروردگار کی مہربانی کا ذکر ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی، جب کہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی۔ کہ اے میرے پروردگار ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے (یعنی بہت زیادہ سفید ہو گیا ہے) لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا۔ مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے۔ میری بیوی بھی بانجھ ہے، پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کے خاندان کا بھی جانشین ۔ اور میرے رب ! تو اسے مقبول بندہ بنا لے۔ (اللہ نے وحی فرمائی) اے ذکریا! ہم تجھے ایک بچے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحیی ہے ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا۔ ذکریا کہنے لگے: میرے رب ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ وعدہ اسی طرح ہو چکا، تیرے رب نے فرما دیا ہے کہ مجھ پر تو یہ بالکل آسان ہے اور تو خود جب کہ کچھ نہ تھا میں تجھے پیدا کر چکا ہوں۔ کہنے لگے: میرے پروردگار! میرے لیے کوئی علامت مقرر فرما دے۔ ارشاد ہوا کہ تیرے لیے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تو تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکے گا، اب زکریا اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں اشارہ کرتے ہیں کہ تم صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو۔ اے یحیی ! میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لے، اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی۔ اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی۔ وہ پرہیزگار تھا۔ اور اپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے والا تھا۔ وہ سرکش اور گنہگار نہ تھا۔ اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا، اور جس دن وہ مرے اور جس دن وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے۔ “
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
«عاقر» اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو ، اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو ۔
” یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے اسے عتیا کہتے ہیں، مراد پڑھاپے کا آخری درجہ ہے جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے، اور میں بڑھاپے کے انتہائی آخری درجے کو پہنچ چکا ہوں ۔ اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے، سیدنا زکریا کی بیوی کا نام اشاع ہے، لیکن زیادہ صحیح قول یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی عمران کی دختر ہیں جو سیدہ مریم کے والد تھے یوں سیدنا یحیی اور سیدنا عیسی دونوں خالہ زاد بھائی ہیں ۔ صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔“ (فتح القدير، للشوکانی)

پیدائش یحیی علیہ السلام کے آثار :

﴿فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ. هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ . فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ‎.‏ قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ‎.‏ قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۖ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ.﴾
[آل عمران:37 تا 41]
” پس اسے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا، اور اسے بہترین پرورش دی۔ اس کی خیر خبر لینے والا ذکریا کو بنایا۔ جب کبھی زکریا ان کے حجرے میں جاتے ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے۔ وہ پوچھتے: اے مریم ! یہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آئی؟ وہ جواب دیتیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے، بے شک اللہ جسے چاہے بے شمار روزی دے۔ اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی ، کہا کہ اے میرے پروردگار ! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔ پس فرشتوں نے اسے آواز دی جب کہ وہ حجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، کہ اللہ یحیی کی یقینی خوش خبری دیتا ہے جو اللہ کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا ، سردار، اپنے آپ پر بہت ضبط رکھنے والا اور نیک لوگوں میں سے نبی ہے ، کہنے لگے: اے میرے رب! میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے فرمایا: اسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے۔ کہنے لگے: پروردگار ! میرے لیے اس کی کوئی نشانی مقرر کر دے۔ فرمایا: نشانی یہ ہے کہ تین دن تک تو لوگوں سے بات نہ کر سکے گا۔ صرف اشارے سے سمجھائے گا۔ تو اپنے رب کا ذکر کثرت سے کر اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتا رہ۔ “
سیدنا زکریا علیہ السلام نے جو اپنے رب سے دعا کی قرآن اس کا ذکر یوں کرتا ہے:
﴿وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ‎.‏ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ.﴾
[الأنبياء:89 تا 90]
” اور زکریا کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے پروردگار مجھے تنہا نہ چھوڑ ، تو سب سے بہتر وارث ہے۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے یحیی عطا فرمایا اور ان کی بیوی کو ان کے لیے درست کر دیا۔ یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔ “
ایک جگہ سیدنا زکریا، سیدنا یحیی علیہ السلام ، سیدنا عیسی اور سیدنا الیاس علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ﴾
[الأنعام:85]
” اور زکریا اور یحیی اور الیاس ، سب نیک لوگوں میں سے تھے ۔ “

21۔ سیدنا عیسی علیہ السلام

سیدنا عیسی علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب انجیل نازل کی ، اور وہ آسمانوں میں ابھی بھی زندہ ہیں۔ قرب قیامت اللہ تعالیٰ دوبارہ ان کو اتارے گا، اور وہ آکر دجال کو قتل کریں گے، اور چالیس سالہ زندگی گزار کر اس دار فانی سے رفیق اعلیٰ کی طرف منتقل ہو جائیں گے یعنی وفات پا جائیں گے۔ اب آئیے ان کے بارے میں قرآن مجید کی چند آیات پڑھتے ہیں۔

رسالت ، دعوت و معجزات :

﴿وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ .‏ يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ . ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ ‎.‏ إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ. وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ‎.‏ قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ‎.‏ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ‎. وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‎. وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ‎.‏ إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ.﴾
[آل عمران:42 تا 51]
”اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم ! اللہ تعالیٰ نے تجھے برگزیدہ کر لیا، اور تجھے پاک کر دیا، اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔ اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کر ، اور سجدہ، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر ۔ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں، تو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پالے گا؟ اور نہ تو ان کے جھگڑے کے وقت ان کے پاس تھا؟ جب فرشتوں نے کہا، اے مریم ! اللہ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوش خبری دیتا ہے، جس کا نام مسیح بن مریم ہے، جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے، اور وہ میرے مقربین میں سے ہے۔ وہ لوگوں سے اپنے گہوارے (پنگھوڑا گود ) میں اور ادھیڑ عمر میں بھی باتیں کرے گا، اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا۔ کہنے لگی: الہی ! مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا، فرشتے نے کہا: اسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے کہ صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ اسے لکھنا اور حکمت اور توراۃ اور انجیل سکھائے گا۔ اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (عیسی علیہ السلام نے کہا) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانیاں لایا ہوں۔ میں تمہارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں، اور مردے کو زندہ کر دیتا ہوں، اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔ اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایماندار ہو اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے، اور میں اس لئے آیا ہوں کہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئیں ہیں، اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں اس لیے تم اللہ تعالی سے ڈرو، اور میری فرمانبرداری کرو۔ یقین مانو میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے، تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔“

عیسی علیہ السلام کو الہ سمجھنے والوں کے لیے تنبیہ :

﴿ذَٰلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ .‏ إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ‎. الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ ‎. فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ. إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ . فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ.﴾
[آل عمران:58 تا 63]
” یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں آیتیں ہیں، اور حکمت والی نصیحتیں ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسی کی مثال ہوبہو آدم کی مثال ہے جسے مٹی سے پیدا کر کے کہہ دیا کہ ہوجا، پس وہ ہو گیا۔ تیرے رب کی طرف سے حق یہی ہے، خبر دار! شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔ اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ، ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو، اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو، اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلالیں ، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ۔ یقیناً صرف یہی سچا بیان ہے، اور کوئی معبود برحق نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے، اور بے شک غالب اور حکمت والا اللہ ہی ہے۔ پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ بھی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے والا ہے ۔ “

عیسی علیہ السلام الہ نہیں بلکہ رسول اور اللہ کے بندے ہیں :

﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا ‎. لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا ‎. فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا.﴾
[النساء:171 تا 173]
”اے اہل کتاب ! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ، اور اللہ پر سوائے حق کے اور کچھ نہ کہو۔ مسیح عیسی بن مریم تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شدہ) ہیں، جسے مریم علیہا السلام کی طرف ڈال دیا تھا، اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔ اس لیے تم اللہ کو، اور اس کے سب رسولوں کو مانو، اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے۔ اللہ تو صرف ایک ہی معبود برحق ہے، اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا۔ مسیح کو اللہ کا بندہ ہونے میں عار نہیں، نہ مقرب فرشتوں کو اس کی بندگی سے جو بھی عار سمجھے، اور تکبر وانکار کرے، اللہ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔ پس جو لوگ ایمان لائے ہیں ، اور نیک اعمال کیے ان کو ان کا پورا پورا ثواب عنایت فرمائے گا۔ اور اپنے فضل سے اور زیادہ دے گا، اور جنہوں نے عار سمجھا، اور تکبر کیا تو وہ انہیں دردناک عذاب دے گا، اور وہ اپنے لیے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی دوست اور امداد کرنے والا نہ پائیں گے۔ “

عیسی علیہ السلام کو الہ ماننا کفر ہے :

﴿لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ .﴾
[المائدة:17]
” یقیناوہ لوگ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم ، اور اس کی ماں، اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ اختیار رکھتا ہے؟ آسمانوں اور زمین اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “

عیسی علیہ السلام اور ان کی ماں کا کھانا کھانا ان کے بشر ہونے کی نشانی ہے:

﴿أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ .‏ مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ.﴾
[المائدة:74،75]
” یہ لوگ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے؟ اللہ تو بے حد بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ مسیح ابن مریم سوائے پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو چکے ہیں، اس کی ماں صدیقہ ہے۔ دونوں ماں بیٹے کھانا کھایا کرتے تھے، آپ دیکھیے کہ ہم ان کے سامنے آیات کھول کر بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو کس طرح پھرے جاتے ہیں۔“

عیسی علیہ السلام کی روح القدس کے ذریعے مدد کی گئی ہے:

﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ.﴾
[البقرة:253]
”یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے، اور بعض کے درجے بلند کیے ہیں، اور ہم نے عیسی بن مریم کو معجزات عطا فرمائے ، اور روح القدس سے ان کی تائید کی ، اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس نشانیاں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں نہ لڑتے لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے ،لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ “

عیسی علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دیتے ہیں :

﴿وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ‎. وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ.‏ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ.﴾
[الصف:6 تا 8]
”اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا: اے (میری قوم ) بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں۔ اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوش خبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے، پھر جب وہ اس کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔ اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ (افترا) باندھے، حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے۔ اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے، اگرچہ کافر لوگ ناپسند کریں۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے