اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے نیک بندوں یعنی محدثین اور ائمہ مسلمین کو ہر لحظہ اپنی حفاظت اور اخلاص سے نوازا ہے۔ اسلام دشمنوں کی جانب سے پیش کی جانے والی جھوٹی اور گمراہ کن باتیں ان بلند مرتبہ شخصیات کو ذرہ برابر بھی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ ان باطل پرستوں کی ہر طرح کی بدگوئی، الزام تراشی، اور طنز ان مقدس ہستیوں کی عظمت کو مزید بڑھانے کا سبب بنی۔ جب مخالفین اور ظالم افراد کو محدثین نے نظرانداز کر دیا تو انہوں نے ان بزرگان دین کی عزت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کر دیں اور ان کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہوگئے۔
ائمہ اسلام میں سے ایک مشہور اور معزز نام امام محمد بن جریر طبری کا ہے۔ آپ کی پیدائش 224 ہجری میں طبرستان میں ہوئی۔ امام طبری رحمہ اللہ عظیم المرتبت، بلند مرتبہ سنی امام، حافظ، ثقہ اور معتبر تھے۔ دنیا آپ کو "امام المفسرین” کے معزز لقب سے یاد کرتی ہے۔ آپ محدث، فقیہ، مفسر، مؤرخ، لغوی اور مجتہد مطلق کے اعلیٰ مقام کے حامل تھے۔ آپ کثیر التصانیف اور کبار ائمہ اسلام میں شمار کیے جاتے ہیں، اور قرآن کریم کی تفسیر میں آپ کا ایک منفرد مقام ہے۔
تعریف و توثیق
کئی اہل علم نے امام طبری رحمہ اللہ کی علمی عظمت اور توثیق بیان کی ہے۔ چند اقوال درج ذیل ہیں:
حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"امام طبری نے بغداد میں سکونت اختیار کی اور اپنی وفات تک وہیں رہے۔ آپ ان عظیم علما میں سے تھے جن کی رائے کو حکم میں مانا جاتا تھا اور لوگ آپ کی علمی فضیلت کی بنا پر آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ آپ بیک وقت مختلف علوم کے ماہر تھے اور ان میں آپ کا کوئی ہم عصر شریک نہیں تھا۔ آپ حافظ قرآن، قراءت کے عالم، معانی قرآن میں بصیرت رکھنے والے، احکام القرآن کے فقیہ، حدیث کے صحیح و ضعیف، ناسخ و منسوخ کے عالم، صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کے اقوال کے ماہر، اور تاریخ کے ماہر تھے۔ آپ کی امم و ملوک پر کتاب مشہور ہے اور تفسیر قرآن پر آپ کی کتاب جیسی کتاب کسی نے نہیں لکھی۔ آپ کی ایک اور کتاب "تہذیب الآثار” ہے، جس کے مضمون کی کوئی اور کتاب نہیں دیکھی گئی، البتہ آپ اسے مکمل نہ کر سکے۔ آپ کے اصول اور فروعات پر بے شمار کتب ہیں اور آپ نے بہت سے منفرد مسائل کو محفوظ کیا۔”
(تاریخ بغداد : 163/2)
امام ابو احمد حسین بن علی بن محمد بن یحییٰ بن عبد الرحمن بن الفضل دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے مجھ سے سب سے پہلا سوال یہ کیا: کیا آپ نے امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے کچھ لکھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: کیوں؟ میں نے کہا: کیونکہ وہ باہر نہیں نکلتے تھے اور حنابلہ ان کے پاس جانے سے روکتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا: آپ نے بہت برا کیا۔ کاش! جن سے آپ نے لکھا ہے، ان میں سے کسی سے نہ لکھتے اور صرف امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے سماعت کا شرف حاصل کر لیتے۔”
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 195/52، وسندہٗ صحیحٌ)
امام حسین بن علی تمیمی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
"جب میں بغداد سے نیشاپور لوٹا تو امام محمد بن اسحاق خزیمہ رحمہ اللہ نے مجھ سے سوال کیا: آپ نے بغداد میں کس کس سے سنا ہے؟ میں نے ایک جماعت کا ذکر کیا جن سے میں نے سنا تھا۔ انہوں نے دریافت کیا: کیا آپ نے امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے کچھ سنا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، کیونکہ بغداد میں حنابلہ کی وجہ سے ان کے پاس کوئی نہیں جا سکتا تھا اور وہ ان کے پاس جانے سے روکتے تھے۔ انہوں نے کہا: اگر آپ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے سماعت کا شرف حاصل کر لیتے تو ان سب کے مقابلے میں آپ کے لیے بہتر ہوتا جن سے آپ نے سنا ہے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب : 164/2، تاریخ دمشق لابن عساکر : 195/52، وسندہٗ صحیحٌ)
امام طبری کے شاگرد محمد بن علی بن محمد بن سہل رحمہ اللہ نے آپ کو "فقیہ” کہا ہے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 200/52، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ابن سریج، ابو العباس احمد بن عمر بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ابو جعفر محمد بن جریر طبری شرعی علوم میں فقیہ تھے۔”
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 202/52، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ابو سعید بن یونس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ فقیہ تھے، 263 ہجری میں مصر کی طرف کوچ کیا، وہاں کتابیں لکھیں اور پھر بغداد چلے آئے۔ آپ نے بہت اچھی کتب لکھیں جو آپ کے وسعت علم کا ثبوت ہیں۔”
(تاریخ ابن یونس المصري : 195/2، 196، تاریخ دمشق لابن عساکر : 191/2)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"امام محمد بن جریر بن یزید بن کثیر طبری امام، عالم دوراں، اور مصنف کتب کثیرہ تھے۔ آپ کا تعلق طبرستان کے شہر "آمل” سے تھا۔ آپ 224 ہجری میں پیدا ہوئے اور 240 ہجری کے بعد علم کے لیے سفر کیا۔ آپ نے مختلف علاقوں کا سفر کیا اور مشہور علما سے ملاقاتیں کیں۔ آپ علم و دانش کے لحاظ سے نابغہ روزگار تھے۔”
(سیر اعلام النبلاء : 267/14)
حافظ ذہبی مزید فرماتے ہیں:
"آپ ثقہ، صادق، حافظ، تفسیر کے امام، فقہ و اجماع و اختلافی مسائل میں امام، تاریخ و ایام الناس کے ماہر اور قراءت و لغت کے علوم پر دسترس رکھنے والے تھے۔”
(سیر اعلام النبلاء : 270/14)
شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"آپ فقہ، تفسیر، حدیث، تاریخ، لغت، نحو اور قرآن کے علوم میں امام ہیں۔”
(اجتماع الجیوش الإسلامیۃ علی غزو المعطّلۃ والجہمیّۃ : 94/2)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"آپ علوم کی بہت سی انواع میں ماہر امام تھے۔”
(تہذیب الأسماء واللغات : 78/1)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کو اتفاق رائے سے اہل علم نے سنی مفسر اور امام تسلیم کیا ہے۔ آپ کی تفسیر کو ہر دور کے مسلمان قرآن فہمی کے لیے بطور معتبر ماخذ استعمال کرتے رہے ہیں، اور بعد میں آنے والے مفسرین نے اسے اپنی تفاسیر کے لیے بنیاد بنایا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر "تفسیر القرآن العظیم” میں اس کا خلاصہ پیش کیا ہے، اور یہ تفسیر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی تعریفات سے بھری ہوئی ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا قول
حافظ ابن بالویہ محمد بن احمد الجلاب رحمہ اللہ نے امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
"امام ابن خزیمہ نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ نے محمد بن جریر رحمہ اللہ سے تفسیر لکھی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں، میں نے ان سے تفسیر لکھی ہے۔ انہوں نے پوچھا: مکمل؟ میں نے کہا: جی ہاں، پوری لکھی ہے۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ کس سال میں؟ میں نے بتایا: 283 ہجری سے 290 ہجری تک۔ اس پر امام ابن خزیمہ نے وہ نسخہ مجھ سے ادھار لیا اور کئی سال بعد واپس کیا۔ پھر انہوں نے کہا: میں نے اس تفسیر کو اول تا آخر پڑھا ہے اور میرے علم کے مطابق روئے زمین پر محمد بن جریر رحمہ اللہ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ یقیناً حنابلہ نے ان پر ظلم کیا ہے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی : 163/2، وسندہٗ صحیحٌ)
دشمنان اسلام کا تفسیر طبری سے بغض
تفسیر ابن جریر طبری کو منکرین حدیث، ملحدین اور زنادقہ ہمیشہ سے اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی خواہشات کی بنیاد پر قرآن کی من پسند تفسیر کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کے خواہاں ہیں کہ قرآن مجید کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالیں، مگر تفسیر طبری کی موجودگی میں وہ اپنی ناکام کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ دشمنان اسلام کے جھوٹے عزائم کو ناکام بنانے کا سبب بنتی ہے اور ان کے بُنے ہوئے جال کو چاک کر دیتی ہے۔ اس کے ردّ میں وہ بے بنیاد اعتراضات کا سہارا لینے لگتے ہیں۔
امام ابن جریر طبری کو شیعہ ثابت کرنے کی کوشش
مشہور منکر حدیث، تمنا عمادی نے ایک مضمون میں یہ کوشش کی ہے کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ کو شیعہ ثابت کریں تاکہ اہل اسلام کے دلوں میں آپ کی بے نظیر تفسیر کی اہمیت کم کی جا سکے۔ "طلوع اسلام” نے اس مضمون کو پسند کرتے ہوئے اس پر یہ تبصرہ کیا:
"علامہ تمنا نے اپنے اس مضمون میں یہ ثابت کیا ہے کہ امام ابن جریر طبری درحقیقت شیعہ تھے۔ اگر یہ شیعہ تھے تو آپ خود سمجھ لیجیے کہ اہل سنت والجماعت جس تفسیر اور تاریخ کو اتنا معتبر سمجھتے ہیں، اس کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے اور اس بنیاد پر اٹھی ہوئی عمارتیں کس درجہ قابل اعتماد ہو سکتی ہیں۔”
(طلوع اسلام، ص : 11، 7 مئی : 1955ء)
تفسیر ابن جریر کی حیثیت اہل اسلام کے نزدیک
دشمنان حدیث اور باطل پرستوں کی پوری کوشش ہے کہ اہل اسلام کا تفسیر ابن جریر پر اعتماد ختم ہو جائے، مگر یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، ان شاء اللہ۔ قرآن مجید کی تفسیر کی بات آتے ہی مسلمانوں کی پہلی نظر تفسیر ابن جریر پر پڑتی ہے۔ یہ تفسیر اہل اسلام اور اہل سنت والجماعت کے لیے معتبر، مستند، اور بنیادی تفسیری ماخذ ہے، جسے اہل اسلام نے ہمیشہ انتہائی احترام اور فخر کے ساتھ قبول کیا ہے۔ یہ عظیم المرتبت اور بلند پایہ تفسیر اہل بدعت اور اہل شبہات کے رد میں ایک کھلی تلوار کی مانند ہے۔
ایک مغالطہ اور اس کی حقیقت
درحقیقت، سنی امام محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ کے زمانے میں ایک اور شخصیت موجود تھی، جن کا نام بھی محمد بن جریر تھا، البتہ ان کے دادا کا نام رستم تھا۔ یہ شخص بھی بغداد میں رہتا تھا اور دونوں کی کنیت بھی ایک ہی تھی، اسی بنیاد پر غلط فہمی پیدا کی گئی۔ ان دونوں کی وفات کا سال بھی ایک ہی ہے، جس کے سبب ظالموں نے ان میں اشتباہ پیدا کر دیا۔ محمد بن جریر بن رستم طبری کی شیعہ صفات کو سنی امام محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ امام طبری رحمہ اللہ شیعہ تھے۔ حالانکہ حقیقت میں محمد بن جریر بن رستم طبری ایک رافضی شیعہ تھے، اور شیعہ کی معتبر کتابوں میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔ حتی کہ خود شیعہ علما بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ محمد بن جریر بن یزید طبری ایک سنی امام ہیں اور محمد بن جریر بن رستم طبری دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کا قول
مشہور سوانح نگار، ناقد رجال، اور شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اشتباہ کی حقیقت یوں بیان کی ہے:
"ان کے ہم عصر اور بعد کے علما نے ان کے حالات زندگی تحریر کیے ہیں مگر کسی نے انہیں شیعہ نہیں قرار دیا۔ یہ اشتباہ ان دونوں شخصیات (محمد بن جریر بن یزید طبری سنی اور محمد بن جریر بن رستم طبری رافضی) کے نام، باپ کے نام، نسبت، کنیت، ایک زمانے میں موجود ہونے اور کثرتِ تصانیف کے سبب ہوا ہے۔”
(لسان المیزان: 100/5، 101)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا بیان
تفسیر قرآن کے مفسر اور امام اہل سنت والجماعت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے وضو کے مسئلے میں دونوں شخصیات میں فرق واضح کرتے ہوئے لکھا:
"بعض علما کا خیال ہے کہ ابن جریر نام کے دو شخص ہیں؛ ان میں سے ایک شیعہ ہے جس کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے، جبکہ اہل علم امام ابو جعفر کو ان صفات سے پاک سمجھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے امام کی تفسیر سے پاؤں دھونے کے مسئلے کو دلیل بنا کر یہ اشتباہ پیدا کیا کہ انہوں نے دھونے کے ساتھ پاؤں کا مسح بھی واجب قرار دیا ہے، جبکہ انہوں نے ’مسح‘ کا لفظ پاؤں کو ملنے یا رگڑنے کے معنی میں استعمال کیا ہے، نہ کہ شیعہ مسح کے طور پر۔”
(البدایہ والنہایہ: 167/11، طبعۃ احیاء التراث)
محمد بن علی بن محمد بن سہل المعروف بہ ابن الامام کی گواہی
محمد بن علی بن محمد بن سہل المعروف ابن الامام بیان کرتے ہیں:
"میں نے امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری فقیہ کو سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے متعلق بات کرتے سنا۔ جب امام محمد بن جریر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جو شخص کہے کہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ائمہ ہدایت نہیں ہیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟ امام طبری رحمہ اللہ نے کہا: وہ نہ صرف بدعتی ہے بلکہ واجب القتل بھی ہے۔”
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 200/52، 201، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کا اپنا بیان
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے صحابہ کرام کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا درجہ ہے، پھر سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد امیر المومنین اور امام المتقین سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کا درجہ ہے۔”
(صریح السنۃ، ص: 23)
شیعہ عالم کا بیان
مشہور شیعہ عالم محمد باقر مجلسی (م: 1111ھ) نے محمد بن جریر بن رستم طبری کے متعلق لکھا:
"یہ وہ ابن جریر نہیں جو مورخ اور شیعہ کے مخالف ہیں۔”
(بحار الأنوار: 40/1)
تنبیہ نمبر 1
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) نے امام محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ کے متعلق لکھا:
"محمد بن جریر بن یزید طبری، امام جلیل، مفسر، ابو جعفر، شاندار کتابوں کے مصنف ہیں، 310 ہجری میں وفات پائی۔ آپ ثقہ اور صادق تھے، البتہ آپ میں تھوڑا سا غیر مضر تشیع پایا جاتا تھا۔”
(میزان الاعتدال: 498/3، 499)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حافظ ذہبی کی اس رائے کا رد کرتے ہوئے لکھا کہ امام طبری پر تشیع کا الزام صرف اس بنا پر لگایا گیا کہ انہوں نے غدیر خم کی حدیث کو صحیح قرار دیا:
"آپ پر تشیع کا الزام صرف اس وجہ سے لگایا گیا کہ آپ رحمہ اللہ نے غدیر خم والی حدیث کو صحیح کہا ہے۔”
(لسان المیزان: 100/5)
علاوہ ازیں، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی آخری تصانیف میں اس بات کا ذکر نہیں کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس رائے سے رجوع کر لیا تھا۔ مزید برآں، حافظ ذہبی کے اس قول کو کسی دوسرے اہل علم نے درست قرار نہیں دیا کیونکہ اس کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ "فِیْہِ تَشَیُّعٌ یَّسِیْرٌ” اور جدید اصطلاح میں شیعیت کے مفہوم میں بڑا فرق ہے۔ حافظ ذہبی نے امام ابو جعفر کو ثقہ، صادق، اور امام جلیل قرار دیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک امام طبری میں پائی جانے والی تشیع غیر مضر اور معمولی تھی۔
تنبیہ نمبر 2
حقیقت میں، جب حافظ احمد بن علی سلیمانی رحمہ اللہ نے محمد بن جریر بن رستم ابو جعفر طبری رافضی پر جرح کی تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو یہ گمان ہوا کہ شاید یہ جرح سنی امام محمد بن جریر بن یزید ابو جعفر طبری رحمہ اللہ پر کی گئی ہے، اسی لیے انہوں نے لکھا:
"حافظ احمد بن علی سلیمانی نے زبان درازی کرتے ہوئے کہا کہ ابن جریر روافض کے لیے احادیث گھڑتے تھے۔ یہ ان کا جھوٹا گمان ہے، بلکہ ابن جریر تو اسلام کے معتمد کبار ائمہ میں سے ہیں۔ ہم ان کے معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے، لیکن ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم بے بنیاد باتوں اور ذاتی خواہشات کی بنا پر انہیں اذیت دیں۔ علما کی ایک دوسرے پر جرح و تعدیل میں احتیاط سے کام لینا ضروری ہے، خصوصاً جب بات کسی بڑے امام کی ہو۔”
(میزان الاعتدال: 499/3)
حقیقت میں، سلیمانی کی یہ جرح محمد بن جریر بن رستم رافضی کے متعلق تھی، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو اس بارے میں شبہ ہو گیا تھا۔ اسی تذبذب کے اظہار کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ شاید سلیمانی نے ابن جریر طبری رافضی کا ذکر کیا ہے:
"شاید حافظ سلیمانی رحمہ اللہ نے اس رافضی کا ارادہ کیا ہو، جس کا ذکر ابھی آنے والا ہے۔”
(میزان الاعتدال: 499/3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سلیمانی کے حق میں اور حافظ ذہبی کے رد میں یہ وضاحت کی:
"اگر میں قسم کھا لوں کہ حافظ سلیمانی نے ابن جریر بن رستم رافضی ہی کو مراد لیا تھا تو میری قسم پوری ہوگی۔ سلیمانی ایک پختہ حافظ ہیں اور اپنی کہی ہوئی بات کو بخوبی جانتے تھے۔ میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ ابن جریر جیسے امام پر جھوٹا الزام لگائیں۔”
(لسان المیزان: 100/5)
تنبیہ نمبر 3
حافظ ابو الفضل عراقی رحمہ اللہ (806-725ھ) نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
"محمد بن جریر بن رستم، ابو جعفر طبری ایک خبیث رافضی تھا۔ حافظ عبد العزیز کتانی نے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ رافضی تھا اور اس کی کچھ کتابیں بھی ہیں، جن میں ایک کتاب اہل بیت کے راویوں سے متعلق ہے۔ شاید حافظ سلیمانی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کا ارادہ کیا تھا اور یہی کہا تھا کہ یہ روافض کے لیے احادیث گھڑتا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا، جو کہ مشہور امام ہیں، اور سلیمانی کا قول ذکر کر کے اس کا رد کر دیا۔ گویا انہیں علم نہیں تھا کہ ایک رافضی بھی امام ابو جعفر طبری کا ہم نام ہے۔ ان دونوں میں فرق صرف دادا کے نام سے ہوتا ہے؛ رافضی کے دادا کا نام رستم جبکہ مشہور امام کے دادا کا نام یزید ہے۔”
(ذیل میزان الاعتدال، ص: 178، 179)
حافظ عراقی کو یہ بات اس لیے لکھنی پڑی کہ شاید ان کے پاس میزان الاعتدال کا ایسا نسخہ تھا جس میں حافظ ذہبی کا قول "فَلَعَلَّ السُّلَیْمَانِيُّ أَرَادَ الْآتِي” موجود نہ تھا۔ حقیقت میں، حافظ ذہبی نے امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید طبری سنی اور محمد بن جریر بن رستم طبری رافضی کے درمیان واضح فرق کیا ہے، اور دونوں کو علیحدہ ذکر کر کے سنی امام طبری کو امام جلیل اور ثقہ صادق کہا، جبکہ رافضی کو ناپاک رافضی قرار دیا۔
تنبیہ نمبر 4
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ) نے اپنے اساتذہ کے استاد ابو حیان کے متعلق لکھا:
"ہمارے اساتذہ کے استاد ابو حیان کو حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کے قول سے مغالطہ ہو گیا، اور انہوں نے اپنی تفسیر کے آغاز میں لفظ ‘صراط’ کی تفسیر میں کہہ دیا کہ ابو جعفر طبری، جو امامی شیعہ کے امام ہیں، نے کہا کہ لفظ ‘صراط’ قریش کی زبان میں صاد کے ساتھ ہے۔ میں نے بطور تنبیہ یہ بات کردی ہے تاکہ کسی کو اس سے مغالطہ نہ ہو جائے۔”
(لسان المیزان: 100/5)
یہ غلطی ابو حیان کے تفسیر کے اس نسخے میں تھی، اور دراصل یہ قول ابو جعفر الطوسی کے متعلق تھا، نہ کہ امام ابن جریر طبری کے۔ ہو سکتا ہے کہ حافظ ابن حجر کے پاس موجود نسخے میں کوئی غلطی ہو یا ان سے صرفِ نظر ہو گیا ہو کیونکہ تفسیر ابن جریر طبری میں ایسا کچھ بھی موجود نہیں۔
شیوخ کرام
امام طبری رحمہ اللہ نے علم کے حصول کے لیے مختلف علاقوں کا سفر کیا اور وہاں سے علم حاصل کیا۔ آپ نے محمد بن عبد الملک بن ابو شوارب، اسماعیل بن موسیٰ سُدّی، اسحاق بن ابو اسرائیل، احمد بن منیع، ابو کریب محمد بن علا، ہناد بن سری، ابو ہمام سکونی، محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی، محمد بن بشار بندار، محمد بن مثنیٰ، حسن بن عرفہ، مہنا بن یحییٰ، علی بن سہل رملی، بشر بن معاذ عقدی، عمرو بن علی فلاس، زبیر بن بکار اور احمد بن سریج رازی رحمہم اللہ وغیرہ جیسے علما سے علم حاصل کیا۔
تلامذہ عظام
امام طبرانی، احمد بن کامل القاضی، ابو بکر شافعی، امام ابو احمد بن عدی اور متعدد دیگر علما نے امام طبری رحمہ اللہ سے علم حاصل کیا۔
تصانیف
امام طبری رحمہ اللہ کی مشہور تصانیف میں جامع البیان عن تأویل آي القرآن شامل ہے، جو تفسیر طبری کے نام سے معروف ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ الأمم والملوک، تہذیب الآثار، التبصیر في معالم الدین، صریح السنّۃ بھی آپ کی اہم تصانیف میں شامل ہیں۔
وفات حسرت آیات
دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں آتا، اور امام طبری رحمہ اللہ 310 ہجری میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے!
خلاصہ
امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ اسلامی تاریخ کے ممتاز مفسر، محدث، اور فقیہ تھے، جنہوں نے تفسیر اور تاریخ میں نمایاں کام کیا۔ امام طبری کے بارے میں بعض لوگ، ان کے ہم نام شیعہ عالم محمد بن جریر بن رستم کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوئے، اور ان پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا۔ یہ مغالطہ نام، کنیت، اور وفات کی تاریخ میں مماثلت کی وجہ سے پیدا ہوا۔ امام طبری کے بارے میں تمام اہل علم متفق ہیں کہ وہ سنی عالم تھے اور ان کی تفسیر "جامع البیان” کو ہمیشہ اہل سنت والجماعت کے علما نے معتبر سمجھا ہے۔ ان پر تشیع کا الزام محض غدیر خم کی حدیث کو صحیح کہنے کے سبب لگایا گیا، مگر اہل علم نے واضح کیا کہ یہ غیر مضر تشیع تھا، جس سے ان کے مسلک پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ امام طبری کی کتب، خاص طور پر تفسیر طبری اور تاریخ الامم والملوک، اسلامی تاریخ و تفسیر میں ایک عظیم اثاثہ ہیں۔