ایمان باللہ – ذاتِ الٰہی کے بارے میں امتِ مسلمہ کا متفقہ عقیدہ
اللہ تعالیٰ پر ایمان کی اہمیت
اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے اور اپنی مخلوق سے جدا و منفرد ہونے پر امتِ مسلمہ کا ہمیشہ سے اتفاق رہا ہے۔ قرآنِ کریم اور سنتِ نبویہ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہی عقیدہ پیش کرتے ہیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کا اجماعِ امت کا بیان
امام ذہبی رحمہ اللہ اس عقیدے پر امتِ مسلمہ کے اجماع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”أدركنا العلماء فى جميع الأمصار حجازا وعراقا ومصر وشامّا ويمنا فكان مذھبھم أن اللہ تبارك وتعالى على عرشہ بائن من خلْقِہ كما وصف نفسہ بلاكيف وأحاط بكل شيئ علما“
یعنی: حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام علمائے دین کا یہی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور اپنی مخلوق سے جدا و منفرد ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی صفات بیان کی ہیں، جن کی کیفیت وہی بہتر جانتا ہے، اور اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ (کتاب العلوّ للذہبی ص 137)
امام ابن بطة رحمہ اللہ کا بیان
امام ابن بطة رحمہ اللہ، عقیدہ توحید پر امت کے اجماع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”أجمع المسلمون من الصحابة والتابعين أن اللہ على عرشہ فوق سمواتہ بائن من خلقہ“
یعنی: تمام صحابہ، تابعین اور اہلِ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے اور اپنی ساری مخلوق سے جدا ہے۔ (کتاب الإبانة)
حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ کا قول
اللہ تعالیٰ کے بارے میں امتِ مسلمہ کے عقیدے کو حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ یوں بیان کرتے ہیں:
”طريقتنا وطريقة السّلف المتّبعين للكتاب والسنة وإجماع الامة وممّا اعتقدوہ أن الأحاديث التى ثبتت فى العرش واستواءِ اللہ علیہ يقولون بہا ويُثبتونہا من غير تكييف ولا تمثيل وأن اللہ بائن من خلقہ والخلق بائنون منہ لا يحُلُّ فیہم ولايمتزج بہم وہو مستو على عرشہ فى سمائہ من دون أرضہ“
یعنی: ہمارا طریقہ وہی ہے جو سلف صالحین کا تھا، جنہوں نے کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی پیروی کی۔ ان سب کا عقیدہ تھا کہ جن آیات اور احادیث میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر آیا ہے، ان پر بلا تشبیہ و بلا کیفیت ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی مخلوق سے جدا ہے، وہ مخلوق میں حلول نہیں کرتا، نہ ہی اس میں مدغم ہوتا ہے۔ وہ اپنے آسمان میں اپنے عرش پر مستوی ہے، زمین میں نہیں۔ (کتاب العلو، ص 148)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا فتویٰ
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ، اہل سنت کے بیان کردہ عقیدے سے انحراف کرنے والے کے بارے میں سخت حکم دیتے ہیں:
”من لم يُقِرَّ بأن اللّہ تعالىٰ على عرشہ قد استوى فوق سبع سمواتہ فہو كافر بربّہ يستتاب فإن تاب وإلا ضُرِب عُنقُہ“
یعنی: جو شخص اس بات کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور اس کا عرش سات آسمانوں کے اوپر ہے، وہ اپنے رب کا منکر ہے۔ ایسے شخص سے توبہ کروائی جائے گی، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔ (معرفة علوم الحديث، ص 84)
یہی وہ عقیدہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ پر ایمان ہی اسلام کی بنیاد ہے۔ اس عقیدے کا انکار یا تحریف کرنے کے بعد کوئی شخص مسلمان نہیں رہتا۔
پرویز کی نظر میں اللہ سے کیا مراد ہے؟
اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ غلام احمد پرویز، جو کہ فرقہ طلوعِ اسلام کے بانیوں میں سے تھے، اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے تھے اور کیسے وہ عقیدہ توحید کو مسخ کرتے رہے۔
اللہ پر ایمان کا مفہوم: پرویزی تعبیر
اگرچہ مسٹر پرویز اپنی کتابوں میں ”اللہ“ یا ”خدا“ کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کا عقیدہ امتِ مسلمہ کے عقیدے کے برعکس ہے۔
اپنی کتاب ”سلیم کے نام“ میں وہ اپنے متبنیٰ سلیم کو اللہ پر ایمان لانے کا مفہوم یوں سمجھاتے ہیں:
”میں نے تمہیں اپنے سابقہ خط میں بتایا تھا کہ خدا پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ جو معاشرہ اس کے قوانین کے مطابق قائم ہو، اسے صفاتِ خداوندی کا مظہر ہونا چاہئے-“ (سلیم کے نام: 1/225)
پرویز صاحب نے خدا پر ایمان کو معاشرے پر ایمان کے مترادف قرار دیا، اور اللہ کی صفات کو معاشرے پر چسپاں کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کامل اور بلا کیفیت ہیں، جبکہ مخلوق کی صفات ناقص اور محدود ہیں۔
خدا کا مارکسی تصور : پرویز کی تائید
اسی کتاب کے دوسرے مقام پر وہ اسلام کے تصورِ خدا کو رد کرتے ہوئے مارکس کے نظریے کی تائید کرتے ہیں:
”… وہ خدا جس کے متعلق مارکس نے کہہ دیا تھا کہ اس کا تصور سرمایہ داروں کی مصلحت کوشیوں کا پیدا کردہ ہے … اس تصور کی رو سے ان مقامات پر خدا سے عملاً مفہوم، وہ نظام ہے جو اس کے قوانین کو نافذ کرنے کیلئے متشکل ہوتا ہے-“ (سلیم کے نام: ج 1، ص 299)
یعنی پرویز صاحب کے نزدیک خدا وہ نظام ہے جو قوانینِ خداوندی کو نافذ کرے۔ یہ تصور اسلامی عقیدۂ توحید کی کھلی تحریف ہے۔
”اللہ“ کا مطلب صرف قانون؟
مزید آگے وہ قرآن فہمی کے لئے ایک عجیب منطق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”سلیم اگر تم ایک اہم نکتہ کو سمجھ لو تو قرآن فہمی میں تمہاری بہت سی مشکلات کا حل خود بخود نکل آئے گا، یعنی ان مقامات میں جہاں قرآن کریم میں لفظ ’اللہ‘ استعمال ہوا ہے، اللہ کی جگہ اگر تم ’اللہ کا قانون‘ کہہ لیا کرو تو بات بالکل واضح ہو جائے گی-“ (سلیم کے نام: ج 1، ص 173)
یہ عقیدے کی شدید بگاڑ ہے کہ ”اللہ“ جیسے بابرکت اسمِ جلالت کو ”قانون“ کے ساتھ بدل دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ کی عرش پر استواء کا انکار
اپنے مخصوص انداز میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”خدا کے متعلق عام تصور یہی ہے کہ وہ کائنات سے باہر، انسانی دنیا سے الگ اپنے عرشِ حکومت پر بیٹھا ہے… یہ تصور غیر قانونی ہے-“ (سلیم کے نام: پیش لفظ، ج 2)
یہ واضح انکار ہے اللہ تعالیٰ کی علیحدگی اور اس کے عرش پر ہونے کا، جو کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَىٰ الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾ (سورة طہ: ٥)
”رحمن جل شانہ عرش پر قائم ہے-“
غیر مرئی خدا سے محبت ممکن نہیں؟
اللہ سے محبت کو وہ ناممکن قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جس قسم کی محبت انسانی محبوب سے کی جاتی ہے، اس قسم کی محبت خدا سے کی ہی نہیں جا سکتی… محسوسات کا خوگر انسان کسی غیر مرئی، غیر محسوس حقیقت سے محبت نہیں کر سکتا-“ (سلیم کے نام: ج 3، ص 89)
یہ بات قرآن کی صریح آیت کے خلاف ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ﴾ (البقرہ: 165)
خدا = اسلامی حکومت؟
اپنی کتاب ”نظامِ ربوبیت“ میں وہ مزید آگے بڑھتے ہیں:
”ہم نے آیت ﴿اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُوْمِنِيْنَ﴾ میں ’اللہ‘ سے مراد لیا ہے وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندی کو نافذ کرنے کے لئے متشکل ہو-“ (نظامِ ربوبیت، ص 158)
اور حکومتِ اسلامی کے منشور کو ”میثاقِ خداوندی“ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”چونکہ عمال حکومتِ اسلامیہ کا عہدنامہ ان کے اور حکومت کے اقتدارِ اعلیٰ (یعنی ان کے خدا) کے مابین ہو گا، اس لئے ہم نے اس کا عنوان ’میثاقِ خداوندی‘ رکھا ہے-“ (سلسبیل، ص 122)
اللہ اور رسول = حکومت؟
مزید اپنے کفر و الحاد کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”قرآن میں جہاں ’اللہ اور رسول‘ کے الفاظ اکٹھے آتے ہیں، وہاں اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟ … اس سے مراد ’اسلامی نظامِ حکومت‘ ہے-“ (قرآنی فیصلے، ج 1، ص 237)
یہ بیان واضح گمراہی، انحراف اور تحریفِ دین ہے۔ ”اللہ“ اور ”رسول“ جیسے مقدس الفاظ کو محض حکومت کے مفہوم میں لینا ایک ناقابلِ معافی جرم ہے جس کی امتِ مسلمہ میں کوئی نظیر نہیں۔