اللہ اور رسول کے بارے میں پرویز کے 5 گمراہ نظریات
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اللہ اور رسول سے مراد ’مرکزِ ملت‘ ہے – پرویز کی گمراہی کا تفصیلی تجزیہ

پرویز کی کوشش: اطاعتِ اللہ و رسول سے انحراف

مسٹر غلام احمد پرویز نے اپنی پوری زندگی اس مقصد کے لیے صرف کی کہ مسلمانوں کو "اللہ اور رسول” کی اطاعت سے ہٹا کر ایک نئے اور گمراہ کن نظریے کی طرف مائل کیا جائے۔ اس نے قرآنِ کریم کے الفاظ کے مفاہیم میں معنوی تحریف کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اس مقصد کے لیے دن رات محنت کی۔

آیتِ قرآنی کا گمراہ کن مفہوم

قرآن مجید کی آیت:

﴿يٰاَیہا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللہ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِىْ الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾

اس کے تحت پرویز اپنے کافرانہ نظریے کو مسلط کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اس آیتِ مقدسہ کا مفہوم بالکل واضح ہے، اس میں ’اللہ و رسول‘ سے مراد مرکزِ ملت یعنی نظامِ خداوندی (Central Authority) اور اولوالامر سے مراد افسرانِ ماتحت ہیں۔”
— معراجِ انسانیت، ص 322، 323

مرکزی حکومت کو اللہ و رسول قرار دینا

پرویز مزید واضح انداز میں لکھتے ہیں:

"قرآنِ کریم میں مرکزِ ملت کو ’اللہ اور رسول‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔”
— معراجِ انسانیت، ص 322، 323

چونکہ پرویز نے مرکزی حکومت کو اپنا "اللہ اور رسول” تسلیم کرلیا تھا، اس لیے جہاں بھی قرآنِ کریم میں اطاعتِ الٰہی و اطاعتِ رسول کی بات آتی ہے، وہ اس سے مرکزی حکومت کی اطاعت مراد لیتا ہے:

"حکومت کے انتظامی امور کے لیے ایک مرکز ہوگا اور اس مرکز کے ماتحت افسرانِ مجاز، قرآنِ کریم میں اس کے لیے ’خدا اور رسول‘ کی اصطلاح آئی ہے یعنی وہ نظامِ خداوندی جسے رسول اللہ ﷺ نے متشکل فرمایا، خدا اور رسول کی اطاعت سے مراد اسی مرکزِ حکومتِ خداوندی کی اطاعت تھی۔”
— قرآنی قوانین، ص 6

خلافت کے بعد بھی یہی مفہوم

ایک اور مقام پر پرویز لکھتا ہے:

"رسول اللہ کے بعد خلیفۃ الرسول رسولُ اللہ ﷺ کی جگہ لے لیتا ہے، اب خدا اور رسول کی اطاعت سے مراد اسی جدید مرکزِ حکومت کی اطاعت ہوتی ہے۔”
— معراجِ انسانیت، ص 357

عقلی و دینی جواب

پرویز کی اس سوچ کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ:

"اللہ” اس واجب الوجود ہستی کا نام ہے جو عرش پر مستوی ہے، اور وہی وحی نازل کرتا ہے۔

"رسول” وہ ذات ہے جو اس وحی کو قبول کرتی ہے۔

کوئی بھی جدید حکومت یا مرکز ان میں سے کسی ایک کی خصوصیات بھی نہیں رکھتی۔

لہٰذا مرکزی حکومت کو اللہ یا رسول قرار دینا نہ صرف لغو ہے بلکہ صریح کفر بھی۔

پرویز کا نظریہ: خود ساختہ تضادات سے بھرا ہوا

پرویز کبھی اللہ کو حکومت، کبھی معاشرہ اور کبھی ایک قوت قرار دیتا ہے۔ مثلاً، ایک مقام پر لکھتا ہے:

آیت: ﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِىْ الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَى اللہ رِزْقُهَا﴾
تشریح پرویز: "ہم نے (اس آیت میں) اللہ سے مراد لیا ہے وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندی کو نافذ کرنے کے لیے متشکل ہو۔”
— نظامِ ربوبیت، ص 158

اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر رزق کا ذمہ معاشرے پر ہے، تو اس معاشرے کا رزق کون دے گا؟

اللہ کو قوت قرار دینا

ایک اور مقام پر پرویز لکھتا ہے:

"قرآنی تعلیم کی بنیاد خدا کی وحدت پر ہے، یعنی اس حقیقت کے اعتراف پر کہ کائنات میں صرف ایک قوت ہے جس کا اقتدار و اختیار ہے۔”
— لغات القرآن، جلد 4، ص 1690

یہ بات اللہ تعالیٰ کے قائم بالذات ہونے کی نفی ہے، کیونکہ "قوت” ایک ایسا وصف ہے جو کسی دوسرے کے سہارے قائم ہوتا ہے۔

یہ نظریہ پرویز کا اپنا نہیں بلکہ مغربی مستشرق میتھو آرنلڈ سے لیا گیا ہے:

"خدا اس قوت کا نام ہے جو سب کی مسبّب ہے۔”
— انسان نے کیا سوچا، ص 387

امام راغب کی گواہی: اللہ کا نام کسی اور پر منطبق نہیں کیا جا سکتا

پرویز کی کتاب "لغات القرآن” میں خود اس نے امام راغب کی "المفردات” کو مستند لغت قرار دیا ہے:

"مفردات امام راغب کے علاوہ، نظر سے کوئی ایسی کتاب نہیں گزری جسے خالص قرآنی الفاظ کا لغت کہا جا سکے۔”
— لغات القرآن، جلد 1، ص 20

امام راغبؒ فرماتے ہیں:

"خُصّ بالبارى تعالىٰ و لتخصّصہ بہ قال تعالىٰ ﴿هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا﴾”
— المفردات، ص 21

یعنی "اللہ” کا لفظ صرف ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے، اور کسی اور فرد یا جماعت پر اس کا اطلاق حرام ہے۔

پرویز کا انجام: کفر اور ارتداد

چونکہ پرویز نے:

◈ اللہ کو کبھی حکومت
◈ کبھی معاشرہ
◈ اور کبھی ایک غیر قائم بالذات قوت

قرار دیا، اس لیے وہ اسلام کے بنیادی عقیدے ایمان باللہ کی نفی کرتا ہے۔

یہ تمام نظریات اسلام کے دائرے سے باہر ہیں، اور ان کی بنیاد مستشرقین کے گمراہ کن افکار پر ہے، جو خود کافر اور ملحد ہیں۔ تو ان کے نقش قدم پر چلنے والا غلام احمد پرویز مسلمان کیسے کہلا سکتا ہے؟

پرویز کے پیروکاروں کا حال

پرویز کے متبعین اس کے ان نظریات پر نہ صرف مطمئن تھے بلکہ خوش بھی۔ جیسا کہ ایک عقیدت مند نے لکھا:

"وہ خدا جو وہموں کے پردے میں تھا، آپ کی کتابوں کے مطالعے سے اب وہ ظاہر ہو چکا ہے۔”
— قرآنی فیصلے، جلد 4، ص 110

یہی وہ خدا ہے جو پرویزی حضرات کے نزدیک جدید مرکزی حکومت یا مرکزِ ملت ہے۔

نتیجہ

پرویز کے نظریات:

◈ نہ صرف اسلام کے بنیادی عقائد کے منافی ہیں،
◈ بلکہ صریح کفر اور ارتداد پر مبنی ہیں۔
◈ اور اس کے پیروکار بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، کیونکہ وہ ایک ایسے خدا کے قائل ہیں جو قرآن اور سنت کے حقیقی تصورِ الٰہ سے یکسر مختلف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1