سوال: حسب ذیل روایات (احادیث) کی تخریج و تحقیق درکار ہے:(الف) عن عائشۃ رضي اللہ عنھا قالت:”السنۃ علی المعتکف أن لا یعود مریضاً ولا یشھد جنازۃ……..ولا اعتکاف إلا في مسجد جامع” (ابو داود: ح ۲۴۷۳)
نیز یہ بھی بتا دیں کہ کیا ”غیر جامع مسجد“ میں اعتکاف جائز نہیں؟
(ب) عن ابن عباس رضياللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ: "ومن اعتکف یوماً ابتغاء وجہ اللہ تعالیٰ جعل اللہ بینۃ وبین النار ثلاثۃ خنادق أبعد ممابین الخافقین”
(طبرانی اوسط بیہقی الترغیب ۱۵۰/۲)
(ج) عن أبی ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:”إذاتخذا لفئ دولاً والأمانۃ مغنماً والزکاۃ مغرماً…… وآیات تتابع کنظام بال قطع سلکہ فتتابع”
(الترمذی ابواب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول المسخ و الخسف ح ۲۲۱۱)
نیزفرمائیں کہ اس طویل حدیث "وظھرت الأصوات فی المساجد” سے کیا مراد ہے؟
سائل: محمد صدیق بمقام تلیاں ڈاکخانہ سمندر کھٹہ ضلع ایبٹ آباد کوڈ (22270) تاریخ:2005-11-13
الجواب: الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الأمین أما بعد:
اعتکاف کے بعض مسائل
(الف): یہ روایت سنن ابی داؤد (۲۴۷۳) و سنن الدارقطني (۲۰۱/۲ ح ۲۳۳۹،۲۳۳۸) والسنن الکبریٰ للبیہقی (۳۲۱،۳۲۰/۴)
میں الزہري عن عروۃ بن الزبیر (وسعید بن المسیب) عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سند سے مروی ہے۔
شیخ البانیؒ لکھتے ہیں کہ:”وإسنادہ صحیح” اور اس کی سند صحیح ہے (ارواء الغلیل ۱۳۹/۴ ح ۹۶۶)
عرض ہے کہ اس روایت کے مرکزی راوی امام محمد بن مسلم الزہریؒ ثقہ بالاجماع ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی تھے، دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیقی (۳/۱۰۲ ، المرتبۃ الثالثۃ)
طحاوی نے کہا:”إنما دلس بہ”أي الزھري
(شرح معاني الآثار ۵۵/۱ باب مس الفرج)
انہیں العلائی (جامع التحصیل ص ۱۰۹) ابوزرعۃ ابن العراقی (۶۰) ذہبی، ابومحمود مقدسی ، حلبی (ص۵۰) سیوطی(۴۶) اور معاصرین میں الدمینی (۳/۱۳۹) نے مدلسین میں شمار کیاہے۔
شیخ حماد بن محمد الانصاری المدنی نے انہیں طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔
(اتحاف ذوی الرسوخ بمن رمي بالتدلیس من الشیوخ ص ۴۷ رقم : ۱۲۷)
حافظ العلائی اور برہان الحلبی کہتے ہیں کہ”وقد قبل الأئمۃ قولہ:عن”
(جامع التحصیل ص ۱۰۹ وا لتبیین لأسماء المدلسین ص ۵۰ رقم:۶۴)
اس کا رد کرتے ہوئے حافظ ابوزرعۃ ابن العراقی فرماتے ہیں:”قلت: وحکی الطبري فی تھذیب الآثار عن قوم أنہ من المدلسین وذلک یقتضي خلافاً في ذلک”
میں نے کہا : (ابن جریر) طبری نے (اپنی کتاب) تہذیب الآثار میں ایک قوم سے نقل کیا ہے کہ وہ (زہری) مدلسین میں سے تھے اور یہ اس (قول: وقد قبل الأئمۃ قولہ: عن) کے خلاف ہونے کا متقاضی ہے (کتاب المدلسین ص ۹۰ رقم: ۶۰)جب امام زہری کا مدلس ہونا ثابت ہے تو راجح یہی ہے کہ غیر صحیحین میں ان کی معنعن روایت، عدمِ سماع اور عدمِ متابعتِ قویہ کے بغیر ضعیف ہی ہوتی ہے۔
خلاصہ التحقیق: یہ روایت بلحاظ اصول حدیث و بلحاظ سند ضعیف ہے لہذا مردود ہے۔
تنبیہ: زہری کی یہ روایت مختصراً موقوفاً مؤطا امام مالک (۳۱۲/۱ ح ۷۰۱ بتحقیقی، ۳۷۴/۲ ح ۷۵۶ بتحقیق الشیخ الصالح الصدوق ابی أسامۃ سلیم بن عید الہلالی السّلفی) میں موجود ہے۔ اس میں بھی زہری مدلس ہے لیکن مؤطا والی روایت میں زہری کے سماع کی تصریح التمھید لابن عبدالبر (۳۱۹/۸) میں موجود ہے۔
اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ:”أن عائشۃ کانت إذا اعتکفت لاتسأل عن المریض إلا وھي تمشي ولا تقف” یعنی : بے شک جب (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اعتکاف فرماتیں تو کسی مریض کی عیادت نہیں کرتی تھیں الایہ کہ بغیر رُکے چلتے چلتے ہی بیمار پُرسی کرلیتیں۔
اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ :”إن کنت لأدخل البیت للحاجۃ والمریض فیہ فما أسأل عنہ إلا وأنا مارّۃ” اور میں (انسانی) ضرورت کے لئے گھر میں داخل ہوتی اور اس میں کوئی مریض ہوتا تو میں صرف چلتے چلتے ہی اس کی بیمار پُرسی کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الحیض ب ۳، ح ۲۹۷/۷ و ترقیم دارالسلام : ۶۸۵)
اعتکاف کے یہ مسائل میرے علم کے مطابق کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہیں لہذا اس سلسلے میں بعض آثارِ صحیحہ پیشِ خدمت ہیں:
۱: عروہ بن الزبیر نے فرمایا:”لا اعتکاف إلا بصوم” روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۸۷/۳ ح ۹۶۲۶ وسندہ صحیح)
۲: سعید بن جبیر نے کہا : (اعتکاف کرنے والا) جمعہ میں حاضر ہو، مریض کی عیادت کرے اور حاکمِ وقت کی اطاعت کرے ۔ (ابن ابی شیبہ ۸۸/۳ ح ۹۶۳۲ و سندہ صحیح)
اور فرمایا : جمعہ میں حاضر ہو، مریض کی عیادت کرے ، جنازے میں حاضر ہو اور حاکمِ وقت کی اطاعت کرے۔ (ابن ابی شیبہ ۸۸/۳ ح ۹۶۳۴و سندہ صحیح)
۳: عامر الشعبی نے فرمایا: قضائے حاجت کے لئے باہر جائے، مریض کی عیادت کرے، جمعہ پڑھنے کے لئے جائے اور دروازے پر کھڑا ہو (ابن ابی شیبہ ح ۹۶۳۶ وسندہ صحیح)
۴: حسن بصری نے فرمایا: قضائے حاجت کے لئے جائے ، جنازہ پڑھے اور مریض کی بیمار پرسی کرے۔ (ابن ابی شیبہ ۸۸/۳ ح ۹۶۳۹ وسندہ صحیح)
۵: ابن شہاب الزہری نے کہا: نہ تو جنازہ پڑھے ، نہ مریض کی عیادت کرے اور نہ کسی کی دعوت قبول کرے۔ (ابن ابی شیبہ ۸۹/۳ ح ۹۶۴۴ وسندہ صحیح)
۶: عروہ بن الزبیر نے کہا: نہ تو دعوت قبول کرے، نہ مریض کی بیمار پرسی کرے اور نہ جنازے میں حاضر ہو۔ (ابن ابی شیبہ ۸۹/۳ ح ۹۶۴۶ و سندہ صحیح)
ان آثار کو دیکھ کر راجح اور قوی پر عمل کریں۔
زہری فرماتے ہیں کہ: اعتکاف اسی مسجد میں کرنا چاہئے جہاں نماز باجماعت ہوتی ہے۔ (ابن ابی شیبہ ۹۱/۳ ح ۹۶۷۳ و سندہ صحیح)
یہی تحقیق حکم بن عتیبہ ، حماد بن ابی سلیمان ، ابو جعفر اور عروہ بن الزبیر کی ہے۔ (ابن ابی شیبہ ۹۲/۳ ح ۹۶۷۴۔۹۶۷۶ واسانیدھا صحیحۃ)
جبکہ عمومِ قرآن ﴿وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ﴾ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے چاہے وہ مسجد جامع ہو یا غیر جامع۔ واللہ أعلم
ابوقلابہ نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا تھا۔(ابن ابی شیبہ ۹۰/۳ ح ۹۶۶۰ و سندہ صحیح)
یہی تحقیق سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی کی ہے ۔(ابن ابی شیبہ ۹۰/۳ ح ۹۶۶۳ و سندہ قوی ، ۹۱/۳ ح ۹۶۶۵ و سندہ قوی)
سابقہ آثار جن میں نماز جمعہ کے لئے جانے کے لئے معتکف کو اجازت دی گئی ہے، سے یہ بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ غیرجامع مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔
(ب) سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب یہ روایت المعجم الاوسط للطبرانی (۱۶۰/۸ ح ۷۳۲۲) شعب الإیمان للبیہقی (۴۲۴/۳ ح ۳۹۶۵) اخبار اصبھان لأبی نعیم الاصبھانی (۹۰،۸۹/۱) وتاریخ بغداد للخطیب البغدادی (۱۲۶/۴ ، ۱۲۷ ترجمہ:۱۸۰۲)میں بشر بن سلم البجلی عن عبدالعزیز بن ابی رواد عن عطاء عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے ۔
بشر البجلی کے بارے میں حافظ ابو حاتم الرازی نے کہا :”ھو المنکر الحدیث” (الجرح و التعدیل ۳۵۸/۲) اس شدید جرح کے مقابلے مین حافظ ابن حبان کا اس راوی کو کتاب الثقات (۱۴۴،۱۴۳/۸) میں ذکر کرنا مردود ہے۔
خلاصہ التحقیق: یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (۵۶۶/۱۱ ح ۵۳۴۵) وضعیف الترغیب و الترھیب (۱۷۷/۲)اس روایت کی باطل تائید مستدرک الحاکم (۲۷۰/۴ ح ۷۷۰۶) میں ہے۔ اس کا راوی محمد بن معاویہ کذاب اور ہشام بن زیاد متروک ہے ۔
(ج) یہ روایت سنن الترمذی (۲۲۱۱) و تلبیس ابلیس لابن الجوزی (ص۲۳۴) میں رمیح الجذامي عن أبی ھریرۃؓ کی سند سے مروی ہے ۔ رمیح راوی: مجہول ہے (دیکھئے تقریب التہذیب: ۱۹۵۷ والکاشف للذھبي ۲۴۳/۱) لہذا یہ سند ضعیف ہے۔
سنن الترمذی کی دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میری اُمت پندرہ (۱۵) کام کرے گی تو اس پر مصیبتیں آجائیں گی۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ پندرہ کام کیا ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: (۱) جب مالِ غنیمت ذاتی دولت بن جائے گی (۲) امانت کو غنیمت بنا لیا جائے گا (۳) زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا (۴) خاوند اپنی بیوی کی (اندھی) اطاعت کرے گا یعنی زن مرید ہوگا (۵) اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے گا (۶) اپنے دوست کے ساتھ نیکی کرے گا (۷) اور اپنے والد کے ساتھ برا سلوک کرے گا (۸) مسجدوں میں (دنیاوی) آوازیں بلند ہوں گی (۹) ذلیل اور گھٹیا لوگ حکمران بن جائیں گے (۱۰) انسان کے شر کی وجہ سے اس کی عزت کی جائے گی (۱۱) شرابیں پی جائیں گی (۱۲) ریشم پہنا جائے گا (۱۳) ناچ گانے والی لڑکیوں کو رکھا جائے گا (۱۴) گانے بجانے کے آلات استعمال کئے جائیں گے (۱۵) اور اس امت کے آخری لوگ اگلے لوگوں پر لعنت بھیجیں گے۔ تو اس وقت سرخ آندھی، زمین میں دھنسنے یا چہروں کے مسخ ہونے کا انتظار کرو۔ (ح ۲۲۱۰ وقال:ھذا حدیث غریب…..إلخ)
یہ روایت المجروحین لابن حبان (۲۰۷/۲) تاریخ بغداد (۱۵۸/۳) اور العلل المتناھیۃ لابن الجوزی (۳۶۷/۲) میں بھی ہے ۔ امام دارقطنیؒ نے فرج کی حدیث کو باطل کہا (تاریخ بغداد ۳۹۶/۱۲)
فرج بن فضالہ : ضعیف ہے (تقریب التہذیب : ۵۳۸۳ ونیل المقصود : ۲۴۸۸)
زلزلہ اور لوگوں کے گناہ
تنبیہ: حافظ حسن مدنی لکھتے ہیں کہ :حضرت عائشہؓ سے ایک شخص نے زلزلہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :فإذا استحلوا الزنا وشربوا الخمور بعد ھذا وضربوا المعازف غار اللہ في سمائہ فقال للأرض تزلزلي بھم فإن تابوا و نزعوا وإلاھدمھا علیھم فقال أنس :عقوبۃ لھم؟ قالت: رحمۃ و برکۃ و موعظۃ للمؤمنین ونکالاً و سخطۃً و عذاباً للکافرین
(مستدرک حاکم : ۸۵۷۵ صحیح علی شرط مسلم)
لوگ جب زنا کاری کو مباح سمجھنے لگتے ہیں، شراب پینا دن رات کا مشغلہ بنا لیتے ہیں اور ناچ گانے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اوروہ زمین سے فرماتا ہے: ان پر زلزلہ لا (یعنی ان کو جھنجھوڑ دے)۔ اگر اس سے عبرت حاصل کی اور باز آگئے تو خیر ورنہ اللہ تعالیٰ ان پر زمین کو (عذاب کی صورت میں) مسلط فرما دیتا ہے ۔ حضرت انسؓ نے پوچھا : یا ام المؤمنین! یہ زلزلہ سزا ہے؟ فرمایا : مؤمنوں کے لئے باعثِ رحمت اور نصیحت ہے، البتہ نافرمانوں کے لئے سزا، عذاب اور غضب ہے۔ (ماہنامہ محدث لاہور، جلد ۳۷ شمارہ:۱۱ ص ۸، نومبر ۲۰۰۵ء)
یہ روایت امام نعیم بن حماد الصدوقؒ کی کتاب الفتن (ص ۴۲۰ تحت ح ۱۳۵۴ دوسرا نسخہ ۶۱۹/۲ ح ۱۷۲۹)میں بقیہ بن الولید عن زید (یزید) بن عبداللہ الجھني عن ابی العالیہ عن أنس بن مالکؓ کی سند سے مروی ہے ۔ نعیم الصدوق کی سند سے اسے حاکم نیشاپوری نے روایت کرکے "صحیح علی شرط مسلم” قرار دیا ہے (المستدرک ۵۱۶/۴ ح ۸۵۷۵) اس پر تعاقت کرتے ہوئے حافظ ذہبی لکھتے ہیں:”بل أحسبہ موضوعاً علی أنس و نعیم المنکر الحدیث إلی الغایۃ مع أن البخاري روی عنہ” بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت انسؓ پر موضوع ہے اور نعیم (بن حماد) حد درجے کا منکر الحدیث راوی ہے ۔ باوجود اس کے کہ بخاریؒ نے اس سے (صحیح بخاری میں) روایت کی ہے ۔(تلخیص المستدرک ۵۱۶/۴)
یہ روایت اگرچہ مردود ہے مگر نعیم مظلوم پر حافظ ذہبی کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود باطل ہے۔ نعیم بن حماد کے دوست اور واقف کار امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ:”ثقۃ……کان نعیم بن حماد رفیقي فی البصرۃ“ نعیم بن حماد ثقہ ہے ….. وہ بصرا میں میرا ساتھی تھا۔تفصیل کے لئے میرا مضمون ”ارشاد العباد إلی توثیق نعیم بن حماد“ دیکھیں۔ والحمد للہ
اس روایت کے ضعیف و مردود ہونے کی اصل وجوہ دو ہیں:
۱: بقیہ بن الولید (صدوق) مدلس راوی ہے (طبقات المدلسین ۴/۱۱۷) اور یہ روایت معنعن ہے۔
۲: ابن عبداللہ الجھنی مجہول الحال راوی ہے اسے حاکم کے علاوہ کسی نے بھی ثقہ قرار نہیں دیا۔
حافظ ذہبی بذات خود اس کی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :”لایصح خبرہ” اس کی خبر صحیح نہیں ہے۔ (میزان الاعتدال ۴۳۱/۴)
خلاصہ التحقیق: یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔
حافظ حسن مدنی صاحب لکھتے ہیں کہ:”٭ دورِ نبوی میں زلزلہ آیا تو نبی کریم ﷺ نے زمین کو ٹھہر جانے کا حکم دیا اور صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ رب العالمین اس کے ذریعے برائیوں کے ترک کا مطالبہ کرتا ہے ، اس کی طرف رجوع کرو۔
٭ عہد فاروقی میں زلزلہ آیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ محض ان نئی چیزوں (بدعات و خرافات) کی وجہ سے ہے جن کو تم نے دین میں شامل کر دیا ہے ، اگر ایسی باتیں ہوتی رہیں تو سکون ناممکن ہے۔
٭ حضرت کعب فرماتے ہیں کہ زمین اس وقت ہلتی ہے جب معصیت کی کثرت ہوجاتی ہے، گناہوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور یہ زلزلہ رب العزت کا خوف ہے جس میں زمین کانپ اٹھتی ہے۔
٭ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تمام اطراف کو لکھا کہ زلزلہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کو عتاب فرماتا ہے، اور انہیں پابند کیا کہ سب لوگ شہر سے باہر نکل کر اللہ کےسامنے گڑگڑاؤ اور جس کو اللہ نے مال عطا فرمایا ہے ، وہ اپنے مال سے صدقہ خیرات کرے۔
مذکورہ بالا تمام واقعات کو علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنی کتاب الداء والدواء کے صفحہ ۶۳،۶۴ پر درج کیا ہے۔
(محدث ، نومبر ۲۰۰۵ء ص۹)
یہ روایات ہمارے نسخہ میں ص ۶۷،۶۶ پر مذکور ہیں۔
(الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی ، عرف: الداء والدواء ، تحقیق احمد بن محمد آل نبعۃ)
ان میں سے پہلی روایت مرسل (یعنی ضعیف) ہے دیکھئے الداء و الدواء (ص۶۶)
دوسری روایت بحوالہ مناقب عمر لابن ابی الدنیا ہے لیکن بے سند ہے۔ بے سند روایت اس وقت تک ضعیف و مردود ہوتی ہے جب تک اس کی صحیح یا حسن سند دستیاب نہ ہوجائے۔
تیسری روایت بحوالہ احمد عن صفیۃ مذکور ہے۔ یہ روایت نہ تو مسند احمد میں ملی اور نہ کتاب الزہد میں، لہذا یہ روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
چوتھی روایت کعب (الاحبار) کا قول سرے سے بے حوالہ بے سند ہے۔
پانچواں قول از عمر بن عبدالعزیزؒ بھی بے حوالہ و بے سند ہے (دیکھئے الداء والدواء ص ۶۷)
معلوم ہواکہ یہ پانچوں روایتیں ضعیف و مردود ہیں۔ محدثین کرام اور عام اہلِ علم کو چاہئے کہ وہ اپنی تحریروں میں صحیح و ثابت روایات ہی بطورِ استدلال بیان کیا کریں۔وما علینا إلا البلاغ
آخر میں عرض ہے کہ ترمذی والی ضعیف روایت میں "وظھرت الأصوات فی المساجد” کا مطلب یہی ہے کہ لوگ مسجدوں میں اونچی آوازوں میں دنیاوی باتیں کریں گے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔
(۲۳ شوال ۱۴۲۶ھ)