وَمِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَ: ( (أُمِرْتُ أَنْ . أَقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، يُقِمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدْ عَصَمُوا مِنِّي دِمَانَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ )) لَفْظُ رِوَايَةِ الْبُخَارِي
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں اُن کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرو یہاں تک کہ لوگ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں وہ نماز قائم کریں زکوۃ دیں، جب وہ یہ کرلیں تو انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیے مگر اسلام کا حق بدستور قائم رہے گا اور ان کا حساب اللہ پر ہوگا۔ لفظ بخاری کی روایت کے ہیں۔
تحقيق وتخريج:
[بخاري: 25، مسلم: 22]
وَعِندَ مُسْلِمٍ: ( (فَإِذَا فَعَلُوهُ عَصَمُوا مِنِّي دِمَانَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا )
مسلم شریف میں ہے ”جب وہ اسے کر گزریں تو محفوظ کر لیا انہوں نے اپنے خونوں اور اموال کو مگر اسلام کا حق بدستور رہے گا۔ “
تحقيق وتخریج:
[مسلم: 22]
وَعِندَ ابْنِ حِبَّانَ: ( (فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ))
ابن حبان میں ہے کہ ہم پر ان کے خون اور ان کے اموال قرار دے دیے گئے ان کے لیے وہ کچھ ہوگا جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان کے ذمے وہی ہوگا جو مسلمانوں کے ذمے ہو گا۔
تحقيق وتخريج:
حدیث صحیح ہے۔
[ابن حبان: 219، 175]
وَعِندَ الْبُخَارِيِّ فِي حَدِيثٍ لِأَنَسٍ: ( (فَإِذَا شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَصَلُّوا صَلَاتَنَا، حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا) لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ)))
بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک سے مروی ہے ”جب وہ گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں وہ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کریں، ہمارا ذبیحہ کھائیں، ہماری نماز پڑھیں تو ان کے خون اور اموال ہم پر حرام قرار دے دیئے گئے مگر ان کا حق قائم رہے گا ان کے لیے وہی کچھ ہوگا جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان کے ذمے وہی ہوگا جو مسلمانوں کے ذمے ہے۔ “
تحقيق وتخريج:
[رواه البخاري 392]
فوائد:
➊ اسلام اپنے اندر داخل ہونے والے کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ آدمی تو حید و رسالت کی گواہی دیتا ہو صلوۃ و زکوۃ کا پابند ہو۔ نو مسلم کو وہی حقوق ملیں گے جو دیگر مسلمانوں کو ملتے ہیں۔
➋ ایسا آدمی جو مسلمان ہو جاتا ہے مسلمانوں میں رہتا ہے اسلام کے لحاظ سے وہ محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ ایسے آدمی کو چھیڑنا مارنا اور قتل کرنا حرام ہے۔ ایسے ہی اس کا مال مسلمانوں پر حرام ہے۔
➌ جس کا اسلام نے ذمہ اٹھایا اس کو جس کسی نے ضرر دیا اس سے اس نقصان کے مطابق بدلہ لے کر دینا۔ اسلام کا ایک فرض ہے۔
➍ مسلمان کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں۔
① توحید و رسالت کی گواہی ② کعبتہ اللہ کو قبلہ ماننا
③ مسلمان طریقہ کا ذبیحہ کھانا ④ ان جیسی نماز پڑھنا
➎ ایک دوسرے کے خون ہم پر حرام ہیں، خون بہانا نا قابل برداشت جرم ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں اُن کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرو یہاں تک کہ لوگ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں وہ نماز قائم کریں زکوۃ دیں، جب وہ یہ کرلیں تو انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیے مگر اسلام کا حق بدستور قائم رہے گا اور ان کا حساب اللہ پر ہوگا۔ لفظ بخاری کی روایت کے ہیں۔
تحقيق وتخريج:
[بخاري: 25، مسلم: 22]
وَعِندَ مُسْلِمٍ: ( (فَإِذَا فَعَلُوهُ عَصَمُوا مِنِّي دِمَانَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا )
مسلم شریف میں ہے ”جب وہ اسے کر گزریں تو محفوظ کر لیا انہوں نے اپنے خونوں اور اموال کو مگر اسلام کا حق بدستور رہے گا۔ “
تحقيق وتخریج:
[مسلم: 22]
وَعِندَ ابْنِ حِبَّانَ: ( (فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ))
ابن حبان میں ہے کہ ہم پر ان کے خون اور ان کے اموال قرار دے دیے گئے ان کے لیے وہ کچھ ہوگا جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان کے ذمے وہی ہوگا جو مسلمانوں کے ذمے ہو گا۔
تحقيق وتخريج:
حدیث صحیح ہے۔
[ابن حبان: 219، 175]
وَعِندَ الْبُخَارِيِّ فِي حَدِيثٍ لِأَنَسٍ: ( (فَإِذَا شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَصَلُّوا صَلَاتَنَا، حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا) لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ)))
بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک سے مروی ہے ”جب وہ گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں وہ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کریں، ہمارا ذبیحہ کھائیں، ہماری نماز پڑھیں تو ان کے خون اور اموال ہم پر حرام قرار دے دیئے گئے مگر ان کا حق قائم رہے گا ان کے لیے وہی کچھ ہوگا جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان کے ذمے وہی ہوگا جو مسلمانوں کے ذمے ہے۔ “
تحقيق وتخريج:
[رواه البخاري 392]
فوائد:
➊ اسلام اپنے اندر داخل ہونے والے کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ آدمی تو حید و رسالت کی گواہی دیتا ہو صلوۃ و زکوۃ کا پابند ہو۔ نو مسلم کو وہی حقوق ملیں گے جو دیگر مسلمانوں کو ملتے ہیں۔
➋ ایسا آدمی جو مسلمان ہو جاتا ہے مسلمانوں میں رہتا ہے اسلام کے لحاظ سے وہ محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ ایسے آدمی کو چھیڑنا مارنا اور قتل کرنا حرام ہے۔ ایسے ہی اس کا مال مسلمانوں پر حرام ہے۔
➌ جس کا اسلام نے ذمہ اٹھایا اس کو جس کسی نے ضرر دیا اس سے اس نقصان کے مطابق بدلہ لے کر دینا۔ اسلام کا ایک فرض ہے۔
➍ مسلمان کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں۔
① توحید و رسالت کی گواہی ② کعبتہ اللہ کو قبلہ ماننا
③ مسلمان طریقہ کا ذبیحہ کھانا ④ ان جیسی نماز پڑھنا
➎ ایک دوسرے کے خون ہم پر حرام ہیں، خون بہانا نا قابل برداشت جرم ہے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]