اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والے 10 امور
مصنف: شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ . اعلم ان نواقض الاسلام عشرة نواقض
ترجمہ:
(شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جان لو اسلام کے نواقض دس ہیں)
تشریح:
صاحب کتاب نے اپنی تصنیف کو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاتیب و خطوط کے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے بِسْمِ اللّٰهِ سے شروع کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے ہر مسلمان کو اپنے مکتوبات و خطوط میں ’’بسم الله الرحمن الرحيم ‘‘ لکھنا چاہیے یہ مستحب ہے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے ، پینے اور جماع سے پہلے بھی یہ پڑھا کرتے تھے۔ غرض ہر پاکیزہ کام کی ابتداء ’بِسْمِ اللّٰهِ‘ سے کرتے تھے۔
مصنف رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جان لیجئے ۔ باخبر رہیے کہ اسلام کے منافی امور تقریباً دس ہیں۔ خبردار اس لیے کیا جارہا ہے تا کہ ہم بغوران احکامات کو سنیں اور سمجھیں تا کہ اس علم کے ذریعے شرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کی روشنیوں کی طرف جا سکیں۔
کتاب کا عربی نام ’’نواقض اسلام ہے‘‘ نواقض ’’ناقض‘‘ کی جمع ہے۔ ناقض کا مطلب تو ڑنا ( فاسد کر نا ختم کرنا ) ہے اور نواقض اسلام کا معنی ہے کہ وہ امور جو اسلام کو توڑ دیتے ہیں ختم کر دیتے ہیں یعنی ان امور کے ارتکاب سے انسان دائر اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور اگر اسی حالت میں مرگیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائے گا ؟ اس کتاب میں ان امور کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس لئے ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے کہ وہ اسلام کو ختم کرنے والے امور کو اچھی طرح جان لے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی مسلمان ان کفریہ امور کا ارتکاب کر بیٹھے اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ یہ کفر ہے۔ جیسا کہ ان امور کو بہت سے اسلام کے نام لیواؤں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اس کتاب میں دس مسائل کا ذکر فرمایا ہے ۔ حالانکہ اسلام کے منافی امور اس سے زائد ہیں ۔ لیکن شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ان دس ہی امور کو اختیار کیا کیونکہ ان تمام امور کے نواقض اسلام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے نو اقض جنہیں فقط رحمہ اللہ نے مرتد کے باب میں ذکر کیا ان کا مرجع یہی دس نواقض ہیں۔
ان دس نواقض اسلام امور کی تفصیل درج ذیل ہے۔

مضمون کے اہم نکات:

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا پہلا کام

❀ مصنف علیہ رحمہ فرماتے ہیں:
(( الشرك في عبادة الله ))

اللہ کی عبادت میں شرک کرنا

قال الله تعالىٰ:
((اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ)) (النساء : ۴۸)
(اس کی دلیل)
❀ فرمان الہیٰ ہے۔
’’ بے شک اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف فرما دے گا‘‘
إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَا وَاهُ النَّارُ، وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِ (المائده: ۷۲)
’’یقین مانو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور ظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا‘‘۔
(( ومنه الذبح لغير الله كمن يذبح للجن أو للقبر))
’’ان امور میں سے غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرنا جیسے جن یا قبر کے لئے ذبیحہ کرنا‘‘
تشریح:
نواقض اسلام میں سب سے پہلا شرک باللہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ اور نافرمانی ہے شرک سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں نقص پیدا ہو جاتا ہے‘ شرک کا مطلب ہے ۔ ’’ہر وہ کام جو صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہے۔ اس میں غیر اللہ کو شریک ٹہرانا ‘‘ یہ سب سے بڑا گناہ کیونکر نہیں ہو گا مشرک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔
شرک کی تین اقسام ہیں۔
➊ شرک اکبر
➋ شرک اصغر
➌ شرک خفی
❀ ابن قیم رحمہ اللہ نے شرک کی دو اقسام بیان کرتے ہیں۔
➊ شرک اکبر
➋ شرک اصغر
شرک اکبر :
شرک اکبر کو اللہ تعالیٰ تو بہ کے بغیر کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔
مشرک اگر بغیر تو بہ مرگیا تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
❀ فرمان الہیٰ ہے۔
إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يُشَاء (النساء: ٤٨)
’’ بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتا اس کے علاوہ جس (گناہ) کو چاہے گا جس کے لئے چاہے گا معاف فرما دے گا‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا۔
وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفَهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَعِيقٍ (الحج: ۳۱)
’’ سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور دراز مقام پر پھینک دے گی۔‘‘
اسی لئے قبروں وغیرہ کے پجاری مشرکین اپنے معبودوں کو کہیں گے۔
تاللهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَللٍ مُّبِينِ إِذْ نُسَوّيْكُمْ بِرَبِّ الْعَلَمِينَ (شعراء: ۹۸-۹۹)
’’قسم اللہ کی یقین ہم تو کھلی گمراہی پر تھے جب تمہیں اللہ رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے‘‘۔
مشرکین خالق رازق ہونے یا زندگی اور موت دینے میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں جانتے تھے۔ لیکن وہ تعظیم، عقیدت، محبت میں اللہ کے ساتھ شرک کرتے تھے جو کہ سب سے بڑی عبادت اور قربت الہیٰ کا ذریعہ ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو اللہ کی حقیقی تعظیم نہیں کرتے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا (نوح: ۱۳)
’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اللہ کی عظمت کا عقیدہ نہیں رکھتے‘‘
(یعنی جس طرح عظمت کا حق ہے۔ تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں ہو ؟ اور اس کو ایک کیوں نہیں مانتے اور اس کی اطاعت کیوں نہیں کرتے ؟؟ )
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ تمام قسم کی برائیاں شرک میں موجود ہیں۔
شرک اکبر کی کئی اقسام ہیں جن کا دارو مدار چار اہم اقسام پر ہے۔
(مجموعة التوحید: ٥)
ہم ان اقسام کو مختصر وضاحت کے ساتھ اجمالی طور پر پیش کریں گے، جبکہ ان مسائل میں زیادہ وضاحت بہتر ہوتی ہے لیکن طوالت کے خوف سے ہم مناسب اور فائدہ مند وضاحت پر اکتفا کریں گے۔

شرک اکبر کی اقسام

( قسم اول)

دعا میں شرک کرنا:

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِيْنَ فَلَمَّا نَجْهُمُ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (العنكبوت: ٦٥)
’’اور جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں خلوص کے ساتھ پھر جب اللہ انہیں خشکی کی طرف بچالا تا ہے۔ تو اسی طرح شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔‘‘
امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ اپنی کتاب ((القواعد الاربعة)) لکھتے ہیں :
’’ہمارے دور کے مشرکین ابتدائے اسلام کے دور کے مشرکوں سے بڑھ کر ہیں کیونکہ وہ مشرک تو صرف خوشحالی میں شرک کرتے تھے اور تنگی و ترشی کے موقع پر شرک سے باز آجاتے (یعنی اپنے معبودان باطلہ کو چھوڑ کر صرف اور صرف ایک اللہ کو پکارتے ) تھے۔ اس کے برعکس اس دور کے مشرکین تو تنگ دستی و خوشحالی ہر وقت شرک کرتے ہیں۔ (یعنی ایک اللہ کو چھوڑ کر ، یا رسول اللہ، یا علی ، یا غوث الاعظم ، یا فلانی وغیرہ وغیرہ کو پکارتے ہیں۔ اور دعا ایک عبادت ہے۔ حدیث میں دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔ اس میں شرک کرنا عبادت میں شرک کرتا ہے ۔ ) اور اپنی مذکورہ کتاب کے مقدمہ میں رقم طراز کرتے ہیں کہ عبادت میں اگر شرک شامل ہو جائے تو عبادت بے کار ہو جاتی ہے جیسے طہارت میں گندگی شامل ہو جائے تو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ جب آپ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ شرک جب عبادت میں داخل ہو جائے تو عبادت کو ضائع اور اعمال کو برباد کر دیتا ہے اور اس کا مرتکب ہمیشہ کے لئے جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔ تو یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس شرک کو پہچاننا کتنا ضروری ہوگا۔ اگر آپ مخلص ہیں تو اللہ یقیناً آپ کو شرک باللہ کے اس جال سے محفوظ فرما ئے گا۔
( قسم ثانی)

نیت اور ارادوں میں شرک کرنا:

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَوَةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَقِ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيْهَالَا يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَ بَطِلَّ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (هود: ١٥-١٦)
’’جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہے تو ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی پہنچادیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔ ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں ہے۔ اور جو کچھ انہوں نے وہاں کیا تھا وہ سب بے کار ہے اور جو کچھ وہ اعمال کرتے تھے سب کچھ برباد ہونے والا ہے۔‘‘
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ نیت اور ارادوں میں شرک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں ہے۔ یعنی جو اس سمندر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان میں بہت کم ہی ایسے ہیں ۔ کہ پھر انہیں اس سے نجات نصیب ہوتی ہو ۔ کیونکہ جو شخص اپنے اعمال کو غیر اللہ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے۔ اور نیت یہ رکھتا ہے کہ غیر اللہ کی قربت حاصل کرے اور غیراللہ سے اپنے اعمال کی جزاء طلب کرے تو اس فعل کو نیت کا شرک کہتے ہیں۔‘‘
نیت کے شرک کو ’’شرک اکبر‘‘ میں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ اس فعل میں تمام تر اعمال غیر اللہ کے لئے کیے جاتے ہیں۔ ریا کاری کا معاملہ اس شرک سے جدا ہے۔ ریا کاری شرک اصغر کہلاتی ہے۔ آئندہ صفحات پر اس کے متعلق وضاحت آئے گی۔
ان شاء اللہ ۔
( قسم ثالث )

اطاعت میں شرک کرنا:

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اپنے راہبوں‘ علماء ( پادریوں ) کی اطاعت کرنا شرک اطاعت کہلاتا ہے۔
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهَا وَاحِدًا لَا إِلَهُ إِلَّا هُوَ سُبُحْنَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبه: ۳۱)
’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے اور مریم (علیہ السلام) کے بیٹے مسیح (علیہ السلام ) کو بھی حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے وہ پاک ہے ان تمام شرکاء سے جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹہراتے ہیں‘‘۔
اس آیت کی تشریح کے لئے ترمذی وغیرہ میں درج ذیل روایت ہے۔
’’سید نا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سنی تو سوال کیا۔
((انا لسنا نعبدهم، قال أليس يـحـرمـون مـا أحل الله فتـحـرمـونـه ، ويحلون ما حرم الله فتحلونه ـ قلت بلى قال فتلك عبادتهم))(رواه الترمذي)
’’اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ):
ہم اپنے اپنے پادریوں اور راہبوں کی عبادت نہیں کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کیا تم ان راہبوں کے حرام و حلال کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حرام و حلال کردہ چیزوں کے برخلاف ان کا حکم نہیں مانتے تھے۔ تو میں نے کہا۔ ہاں یہ بات تو تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عبادت کرنا تھی‘‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ جن لوگوں نے اپنے علماء اور پادریوں کو اپنا رب بنایا تھا۔ ان سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ حرام و حلال میں اللہ کے حکم کو چھوڑ کر ان علماء کی اطاعت کرتے تھے یہ اطاعت دو طرح کی تھی۔
ان کو معلوم تھا کہ ان پادریوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو تبدیل کر دیا ہے۔ پھر بھی یہ لوگ اپنے پادریوں اور علماء کی اطاعت کرتے رہے اور اپنے پادریوں اور رہنماوں کی اطاعت میں اللہ کی حلال کردہ چیزوں کے حرام اور حرام کردہ چیزوں کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتے جبکہ وہ جانتے تھے کہ وہ یہ کام جو کر رہے ہیں۔ اللہ کے دین اور رسولوں کی مخالفت پر مبنی ہے۔ پس یہ کفر ہے۔ اور اسے اللہ اور اسکے رسول نے شرک قرار دیا ہے (یعنی اطاعت میں شرک ) اگرچہ وہ ان کے لیے نمازیں اور سجدے نہیں کرتے تھے ۔ پس یاد رکھو! ہر وہ شخص جو اللہ کے علاوہ کسی کی بھی مخالف امور میں اطاعت کرے گا ، اس بات کو جاننے کے باوجود کہ یہ دین کے مخالف ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے عقیدہ کے علاوہ عقیدہ رکھے گا وہ ان مذکورہ لوگوں ہی کی طرح مشرک کہلائے گا۔ .
دوسری بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حلال کردہ امور کے حلال ہونے اور حرام کردہ امور کے حرام ہونے کا عقیدہ پر ایمان رکھتے تھے۔ لیکن (ستی غفلت ، نافرمانی کی بناء ) اللہ کی نافرمانی میں اُن ( علماء اور پادریوں) کی اطاعت کرتے تھے ۔ جیسا کہ ایک مسلم گناہ کرتا ہے لیکن اسے گناہ ہی سمجھتا ہے۔ ایسے لوگوں کا حکم گناہگاروں کا ہے۔
(مجموع الفتاویٰ : ۷۰/۷)
( قسم رابع )

محبت میں شرک کرنا:

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُب الله (البقرة : ١٦٥)
’’کچھ لوگ اللہ کے علاوہ دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں۔ اور اپنے شریکوں سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے محبت کی جاتی ہے‘‘
مشرک اپنے رب کی عظمت و قدر سے ناواقفیت اور جہالت کی بنا پر اپنے بتوں، معبودوں سے اللہ تعالیٰ کی طرح یا اُس سے بھی بڑھ کر محبت کرتا ہے ۔ ان معبودوں کی گستاخی پر اتنے شدید غضب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جتنا وہ رب العالمین کی شان میں گستاخ پر نہیں ہوتا اور جتنا خوش وہ اپنے معبودان باطلہ کے لئے ہوتا ہے اتنا بھی اللہ کے لئے نہیں ہوتا۔
❀ جیسا کہ فرمان الہیٰ ہے۔
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَارَتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَإِذَ ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِةٍ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر: ٤٥)
’’جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اُس اللہ کے سوا (دوسروں کا) ذکر کیا جائے تو بہت خوش ہو جاتے ہیں‘‘۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ۔
اس مقام پر محبت کی چار اقسام بنتی ہیں۔ ان چاروں اقسام میں تمیز فرق نہ کرنے والا گمراہی میں پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ان چاروں کے فرق کو سمجھنا اور ان میں فرق کرنا لازمی ہے:

اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرنا :

اللہ سے صرف محبت کرنا کافی نہیں ہے کہ اطاعت و عبادت کے بغیر صرف محبت سے کامیابی مل جائے یا عذاب الہیٰ سے چھٹکارامل جائے کیونکہ مشرکین‘ صلیب کے پجاری اور یہود وغیرہ‘ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔

ہر اس چیز سے محبت کرنا جس سے اللہ محبت کرتا ہے:

اور یہی وہ محبت ہے کہ جو ایک انسان دین اسلام میں داخل کرتی ہے اور کفر سے نکالتی ہے، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہی لوگ ہیں جو ’’اس محبت‘‘ میں سب سے آگے ، سب سے زیادہ اور سب سے مضبوط ہوں۔

اللہ تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرنا :

اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ کسی دوسرے سے محبت بھی اللہ ہی کے لئے کی جائے۔

چوتھی قسم ہے ’’المحبة مع اللہ‘‘:

یعنی اللہ کے ساتھ ساتھ دوسروں سے بھی محبت کرنا یہ محبت شرک ہے۔ یعنی ہر وہ محبت جو اللہ کے لئے نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی وجہ سے نہیں ہے، دین اسلام کی بناپر نہیں ہے اور وہ محبت جو اللہ کے علاوہ کسی شریک سے ہے تو یہی وہ محبت ہے جو ’’الشرک فی المحبة ‘‘ کہلاتی ہے ۔ اور یہی محبت مشرکین کی محبت ہے۔
شرک اکبر کی مذکورہ بالا چاروں اقسام ( دعا میں شرک، نیت اوراردوں میں شرک ، اطاعت میں شرک اور محبت میں شرک، انکا ارتکاب ) کرنے والا اسلام سے نکل جاتا ہے۔ کیونکہ یہ چاروں اعمال عبادت کہلاتے ہیں۔ اور غیر اللہ کی عبادت شرک کہلاتا ہے۔
❀ جیسا کہ فرمان الہیٰ ہے۔
وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهَا أَخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَفِرُونَ (المؤمنون: ۱۱۷)
’’ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے تو اس کا حساب اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بے شک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی نے غیر اللہ کو پکارنے والوں کو کافر کہا ہے۔
❀ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((ومن الشرك الأكبر ايضا الذبح لغير الله))
’’شرک اکبر میں غیر اللہ کے لئے ذبح بھی شامل ہے‘‘
تشریح:
کیونکہ ذبح کرنا‘ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے طریقوں میں سے ایک بہت اہم ذریعہ ہے۔ جس کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ حکم ربانی ہے۔
‏ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (کوثر : ۲)
’’اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا۔
قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: ١٦٢)
’’بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا مرنا میرا جینا، اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔‘‘
لہٰذا جو شخص اولیاء ، بتوں یا جنوں کے لئے ذبح کرتا ہے۔ تو اس نے کفریہ فعل کیا ہے۔ جیسا کہ آج کل بہت سے لوگ دنیا کے مختلف خطوں میں مزارات وغیرہ پر جہالت کی وجہ سے اس فعل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ذبح کرنا، نذرو نیاز کرنا، یہ سب عبادات ہیں۔ کیونکہ اسکے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اور عبادات اللہ ہی کے لئے خاص ہیں۔ پس جس نے ان چیزوں کو اللہ کے علاوہ غیر اللہ کے لئے کیا تو وہ شخص اسلام سے نکل گیا اور وہ کفر و گمراہی میں داخل ہو گیا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ (دهر : ٧)
’’(جو اللہ کے لئے ) نذر پوری کرتے ہیں۔‘‘
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗؕ (البقره: ۲۷۰)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو ( یعنی خیرات کے لئے ) اور جو کچھ نذر مانو‘ اسے اللہ بخوبی جانتا ہے‘‘
ان آیات سے معلوم ہوا کہ نذر مانگنا ایک عبادت ہے لہذا جو اولیاء کے لئے قربانی وغیرہ کا گوشت چڑھانے کی نذر مانگے تو اس نے اسلام کو توڑنے والا کام کیا ہے کیونکہ نذر صرف اللہ کے لئے جائز ہے۔ یہ کام غیر اللہ کے لئے کرنا دین محمدی کی مخالف ہے آج کل قبروں کے پجاری اور مجاور اس نیت سے غیر اللہ کی نذر مانگتے ہیں کہ یہ غیر اللہ انہیں نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تو یہ شرک اکبر اسلام سے خارج کر دینے والا ہے۔ اس فعل کو شرک اصغر کہنے والے بڑی غلطی پر ہیں۔ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے شرک سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی مدد کر سکتا ہے۔ شرک اکبر میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا، پناہ مانگنا بھی شامل ہے۔

شرک اصغر

شرک اصغر کا مرتکب اگر بغیر تو بہ مرجائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے یعنی اگر اللہ چاہے تو عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف فرمادے لیکن شرک اصغر کا مرتکب ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا انجام کا روہ جنتی ہوگا بہر حال شرک اصغر سے بچنا چاہئے ۔
شرک اصغر کی اقسام میں غیر اللہ کی قسم کھانا بھی شامل ہے۔ بشرطیکہ جس شخص کی قسم کھائی جاری ہو، اس قسم سے، اس کی تعظیم مقصود نہ ہو ۔ اور اگر اس سے اسکی تعظیم و عقیدت مقصود ہو تو پھر یہ شرک اصغر نہیں ۔ بلکہ یہ شرک اکبر اسلام سے خارج کرنے والا عمل ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔
((من حلف بغير الله فقد كفر أو اشرك))، فسئل عنه ؟ فقال : ((الرياء))(رواه احمد ابوداؤد، ترمذی حاکم)
’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی تو اس نے کفر یا شرک کیا‘‘
شرک اصغر کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔

ریا کاری کرنا !

شرک اصغر میں ریا کاری بھی شامل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر)) (احمد وسنده حسن)
’’میں سب سے زیادہ تمہارے بارے میں شرک اصغر سے ڈرتا ہوں۔
سوال کیا گیا شرک اصغر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ ریا کاری‘‘۔
ذرا سوچنے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق شرک اصغر سے خوف کھایا جارہا ہے۔ جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کی اور وحی کا زمانہ پایا تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دوسرے لوگ جو علم و ایمان میں صحابہ سے کم ہیں۔ ان کو زیادہ شرک اصغر سے بچنا چاہئے ۔ شرک اصغر سے بچنے کا طریقہ صرف یہی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص دل سے تعلق استوار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ سورج چاند اور آگ کے پجاریوں کے شرک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں عبادت میں شرک اصغر ( ریا کاری) کر نامز کورہ شرک اکبر سے زیادہ آسان ہے اور لوگ اس کو معمولی ہلکا سمجھتے ہیں۔ کیونکہ شرک اصغر اس سے صادر ہوتا ہے جولَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پر ایمان رکھتا ہو اور یہ عقید و رکھتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی نفع و نقصان دینے کا اختیا نہیں رکھتا یہ سب اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ایسے علاوہ کوئی معبود برحق کوئی رب نہیں۔ لیکن وہ عبادت و معاملات میں خلوص نیت اختیار نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے اعمال کو طلب دنیا اور شہرت و عزت کے لئے کرتا ہے اس کے عملوں میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ خواہشات نفسانی کا بھی حصہ ہوتا ہے اس کا مقصد عمل یہ ہوتا ہے۔ رحمٰن بھی راضی رہے اور شیطان بھی خوش ہو جائے اس کو ریا کاری اور شرک اصغر کہتے ہیں۔ اور آج لوگوں کی اکثریت اس مرض میں مبتلا ہے ۔ یہ وہی شرک ہے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اُمت میں شرک (اصغر ) چیونٹی کی ہلکی آہٹ سے بھی زیادہ مخفی اور پوشیدہ ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول ہم کیسے اس شرک سے بچ سکتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم یہ دعا پڑھا کرو۔
(( اللهم إني أعوذ بك أن أشرك بك شيئًا وأنا أعلم، وأستغفرك لما لا أعلم))
’’اے اللہ میں ہر اس شرک سے جس کو میں جانتا ہوں پناہ مانگتا ہوں اور جس کو نہیں جانتا اس کی بخشش چاہتا ہوں‘‘ اور فرمایا۔ یاد رکھو:
’’ ریا کاری شرک ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا (الكهف: ١١٠)
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود(اللہ) ہے۔ تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘
اس آیت کا مطلب ہے جیسے اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اسی طرح ضروری ہے کہ عبادت بھی ایک ہی رب کی ہونی چاہیے۔ جس طرح رب ایک ہے تو معبود بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ اور نیک عمل وہ ہے جو ریا کاری سے خالی ہو ( ایک اللہ ہی کے لئے ہو ) اور سنت کے مطابق ہو۔
سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ۔
((اللهم اجعل عملي كله صالحًا ، واجعله لوجهك خالصًا، ولا تجعل لاحد فيه شيئًا)) (رواه احمد)
’’اے اللہ میرا ہر عمل صالح بنادے اور میرے عمل کو خالص اپنے لئے بنادے میرے اعمال میں کسی کا کوئی حصہ نہ ہو سوائے تیرے) ۔‘‘
اور شرک اصغر اگر عبادت میں شامل ہو جائے تو اس عبادت کے اجر و ثواب کو برباد کر دیتا ہے اگر فرض عمل میں ریا کاری ہوگی تو اس پر بڑی سخت سزا کی وعید ہے۔ عبادت میں ریا کاری کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کہ اس نے کوئی عمل کیا ہی نہ ہو اور اس طرح اس کو ترک عمل کی بھی سزا ملے گی ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خلوص نیت سے عبادت کا حکم دیا ہے۔
جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے۔
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (البينة: ٥)
’’ان لوگوں کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے ۔‘‘
لہٰذا جو شخص عبادت کو خالص اللہ کے لیے نہیں کرتا گویا کہ اس نے وہ کام کیا ہی نہیں جس کے کرنے کا اُسے حکم دیا گیا بلکہ اس نے وہ کام کیا جس کے کرنے کا اُسے حکم نہیں دیا گیا۔ تو اس کا کیا ہوا عمل نہ ہی صحیح ہے اور نہ ہی قابل قبول۔
جبکہ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے ۔ صحیح مسلم میں ایک حدیث قدسی ہے۔
((أنا اغنى الشركاء عن الشرك فمن عمل عملاً أشرك معى فيه غيرى فهو للذى أشرك وأنا منه بری)) (رواه مسلم‘ و ابن ماجه)
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مشرکوں کے شرک سے بے پرواہ ہوں جو شخص اپنے اعمال میں میرے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے تو وہ عمل اسی شریک کے لئے ہے میں اس عمل سے بری ہوں‘ یہ ہے شرک اصغر جس کو چاہے تو اللہ معاف کردے اور اگر چاہے تو عذاب دے۔

غیر اللہ کے لئے عمل کرنا تین طرح کا ہوتا ہے

وہ عمل جو صرف ریا کاری کے لئے کیا جائے عمل کرنے والے کی خواہش صرف دنیا کا حصول ہو یا لوگوں کو دکھلانے کے لئے اُن منافقوں کی طرح عمل کیا جائے۔
جن کے بارے میں اللہ فرمایا۔
وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَوةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُ وُنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلا (النساء: ٢ ١٤)
’’یہ (منافق) جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور ذکر الٰہی تو برائے نام کرتے ہیں۔‘‘
ایسا عمل کرنے والا مسلمان اپنے سارے عمل ضائع کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
دوسری طرح کا عمل یہ ہوتا ہے کہ بندہ عمل تو اللہ تعالیٰ کے لئے کرے۔ مگر اس عمل میں ریا کاری کو بھی شامل رکھے اس عمل کی دو حالتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اگر ریا کاری اس عمل کی بنیاد میں شامل ہوگی تو یہ عمل قابل قبول نہ ہوگا۔
اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے۔
’’ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے۔ کہ میں مشرکوں کے شرک سے بری ہوں۔ جس نے کوئی بھی ایسا عمل کیا جس میں میری ساتھ کسی دوسرے کو شامل کیا تو میں اس کو اور اس کے عمل دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں ۔
دوسری حالت یہ کہ اگر عمل اللہ کے لئے کیا جائے مگر دوران عمل بعد میں ریا کاری کا عنصر نظر آئے تو بعض علماء کے نزدیک سارا عمل ضائع ہو جاتا ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عمل کرنے کا اجر ملے گا اور ریا کاری پر گناہ بھی ہوگا اور اگر کوشش محنت سے ریا کاری مٹاڈالی جائے تو اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوى O فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأوى (نازعات: ٤٠-٤١)
’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے‘‘۔

اس مسئلہ کو اس مثال سے سمجھے:

اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا مجاہد جو جہاد بھی کرتا اور ساتھ ساتھ اسکی یہ نیت بھی ہو کہ مال غنیمت کا حصول بھی ہو جائے۔ تو اس کے مقام کے متعلق علماء نے اختلاف کیا ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین (۱۶۳/۲) پر اسی مسئلے کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
اس مجاہد کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی اجرت لے کر نماز پڑھے۔ اگر اجرت نہ ملے تو بھی نماز تو پڑھتا ہے مگر نیت میں اجرت اور اللہ تعالیٰ کی رضا دونوں شامل ہوں۔ یا جیسے کوئی حج اس لیے کرے کہ اس سے فریضہ حج بھی ختم ہو جائے اور لوگ اس کو حاجی بھی کہیں۔ اسی طرح وہ شخص جو زکوۃ دیتا ہے۔ کہ زکوۃ ادا بھی ہو جائے اور ریا کاری بھی کرتا ہے۔ تو ایسے شخص کا کوئی عمل قبول نہ ہوگا۔
اسی مسئلے کے متعلق علامہ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ مال غنیمت کی نیت کرنے سے جہاد کا اجر کم ہوگا مگر جہاد مکمل ضائع نہ ہوگا اور احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں ۔ کہ جو شخص صرف دنیا کی خاطر ہی جہاد کرے تو پھر اس پر ریا کاری کی احادیث صادق آئیں گی ۔ اور اس کا جہاد باطل ٹھہرے گا۔
(جامع العلوم والحكم: ص: ١٥)
بہر کیف مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہو گیا کہ اجر کے ساتھ ساتھ شہرت اور ریا کاری کے لئے جہاد کرنے والے اور مال غنیمت کے لئے جہاد کرنے والے کے درمیان واضح فرق شہرت اور ریا کاری کے لئے جہاد کرنے والے کے لئے یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم صادق آتی ہے کہ ’’ایک شخص نے سوال کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )‘ ایک شخص جہاد اس نیت سے کرتا ہو کہ اس کو اجر بھی ملے گا اور اس کو شہرت بھی حاصل ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کو جہاد کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ اس نے تین بار یہی سوال دھرایا آپ ہر بار یہی فرماتے کے اس کے لئے کچھ نہیں ہے حتی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
((ان الله لا يقبل من العمل الا ما كان خالصا وابتغي به وجهه ))
’’اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے کہ جس میں خالص ہو اور اسکا مقصد صرف اللہ ہی کی رضاء کا حصول ہو‘‘۔
(نسائی : ٥٢/٦ بسند حسن )

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا دوسرا کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
((من جعل بينه وبين الله وسائط، يدعوهم، ويسألهم الشفاعة ، ويتوكل عليهم كفر اجماعا))
’’جو شخص اپنے اور اللہ کے درمیان کس کو وسیلہ ذریعہ بنائے اور اس وسیلے کو پکارے‘ اس سے سفارش مانگے اوراس پر توکل کرے وہ شخص مسلمانوں کے اجماع کے مطابق کا فر ہو گا‘‘
تشریح:
موجودہ دور میں سب سے زیادہ واقع ہونے والا اور سب سے زیادہ خطر ناک اسلام کا مخالف اور ناقض فعل یہی ہے ۔ کیونکہ اسلام کے بہت سے نام لیواؤں نے جو اسلام کی اصل حقیقت سے واقف نہیں ہیں اپنے اور اپنے رب کے درمیان بہت سے وسیلے اور ذریعے بنارکھے ہیں۔ جن کو وہ مشکلات و مصائب سے نجات کے لئے اور تکلیفوں سے بچنے کے لئے پکارتے ہیں۔ ایسے لوگ باجماع المسلمین کا فر ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کو بھیجا ہی اس لئے تھا کہ لوگ صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کریں۔ لیکن قبروں کے پجاری اس بات کے انکاری ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے بہت سے وسیلے بنارکھے ہیں جنہیں وہ نقصان و تکلیف سے بچنے اور فوائد کے حصول کے لئے پکارتے ہیں۔ اور اس پکارنے کو عبادت بنالیا گیا ہے گویا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ ( معاذ اللہ ) اور جولوگ ان کے اس شرک کو نا پسند کرتے ہوئے اس سے بے زاری کا اظہار اور ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان پر اولیاء اور صالحین کے گستاخ ہونے کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ یہ لوگ اپنے فاسد خیالات و نظریات کی وجہ سے براہ راست اللہ تعالیٰ کو نہیں پکارتے بلکہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی کے لئے کوئی وسیلہ اور زینہ بنانا بہت ضروری ہے جیسا کہ دنیا کے کسی بادشاہ کے پاس جا کر براہ راست سوال نہیں کیا جاسکتا اللہ تعالیٰ تو ان بادشاہوں سے بڑھ کر ہے اس کو براہ راست کیسے پکارا جائے ؟ جب کہ وہ یہ کہ اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ کیونکہ نعوذ باللہ اس طرح کہ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کواسکی کمزور و نا تواں مخلوق سے مشابہ مثل کر دیا ہے۔ اور ایسا کرنا اسلام کے سخت منافی ہے۔ (کیا اللہ دنیا کے ان بادشاہوں کی طرح ہے؟ ) کتاب وسنت کے بے شمار دلائل ہیں جن سے ان کے عقائد کو باطل کیا جاسکتا ہے جو شخص ہدایت طلب کرتے ہوئے اور حق بات کو مانتے ہوئے قرآن پر غور و فکر کرے گا تو اسے یہ مسئلہ صحیح طور پر سمجھ میں آجائے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ دین اسلام موجودہ دور میں کتنا تنہا ہو چکا ہے کیونکہ اکثر لوگ دین رب العالمین سے جاہل ہیں۔
اسی مضمون کے متعلق ارشاد الہی ہے۔
قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرَفٍ وَّمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيْرٍ O وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ. (سبا:۲۲-۲۳)
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے سب کو پکار لونہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے اور نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے۔ نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ شفاعت کی ( درخواست ) بھی اس کے پاس کچھ فائدہ نہیں دیگی ۔ سوائے ان کے جن کو وہ خودا جازت مرحمت فرما ئے گا“۔
مزید فرمایا۔
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشَفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا أولئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الوَسِيلَةَ أَيُّهُمُ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ. (بنی اسرائیل:٥٦-٥٧)
’’انہیں پکار و جن کو تم اللہ کے علاوہ کچھ سمجھتے ہوا لیکن یاد رکھو نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ (پکارے جانے والے ) اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں۔ کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا۔
وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذَا مِنَ الظَّلِمِينَ O وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ الَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ (يونس:١٠٧-١٠٦)
’’ اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایسی چیز کو مت پکارو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں ہو جاؤ گے اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے علاوہ کوئی اور اس کو دور کرنے والا نہیں ہے۔ اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو ہٹانے والا کوئی نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے۔ اور وہ بڑی مغفرت و رحمت والا ہے‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قُلْ أَفَرَءَ يُتُم مَّا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍ هَلْ هُنَّ كَشِفْتُ ضُرّةٍ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَتْ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُوْنَ (الزمر:۳۸)
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ان سے کہیے! کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالیٰ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اللہ مجھ پر رحمت کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیں مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ تو کل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں‘‘۔
قرآن کریم کی اکثر آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عبادت صرف اللہ کے لئے خالص ہو کر کی جائے اور اللہ کے اور مخلوق کے درمیان کسی کو واسطہ یا وسیلہ نہ بنایا جائے کیونکہ
❀ فرمان الہٰی ہے۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيْبُ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُو لِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ١٨٦)
’’اور جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی ہدایت کا باعث ہے‘‘۔
اسی لئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بات کہی گئی کہ ’’ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں اور اللہ چاہے۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
((اجعلتنى الله عدلاً ؟ ما شاء الله وحده)) (مسند احمد : ٢١٣/١ ‘ ٢١٤)
’’ کیا تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کے برابر بنادیا ہے ۔ تمہیں یہ کہنا چاہیے کہ جو اللہ وحدہ لا شریک چاہئے‘‘۔
کیونکہ اس کہنے والے کی بات سے واضح ہو رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول برابر ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اس کے ساتھ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو برابر نہیں کرنا چاہیے نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کوفر مایا کہ۔
(( احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك ، وإذا سألت فاسأل الله ، واذا استعنت فاستعن بالله ، واعلم أن الامة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشئ لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ، وان اجتمعوا على ان يضروك بشيء لم يضروك إلا بشي قد كتبه الله عليك رفعت الأقلام وجفت الصحف)) (الترمذي)
’’اے ابن عباس!‘‘ تم اللہ کے دین کی حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ کے دین کی حفاظت کرو‘ تم اللہ کو اپنے روبرو پاؤ گے۔ تم اگر مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، مد دطلب کرو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو ۔ جان رکھو‘ اگر ساری دنیا جمع ہو کر بھی تمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چا ہے ۔ تو سوائے اس کے جو اللہ لکھ دیا ہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اور اگر سب جمع ہو کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر لکھنے والے قلموں کو اٹھالیا اور لوح محفوظ کو خشک کر دیا ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحم اللہ لکھتے ہیں:
مومن کو علم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا رب اور مالک ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسباب اور ذرائع پیدا فرمائے ہیں۔ جیسا کہ بارش کو پودوں کے اگنے کا سبب بنایا ہے۔
❀ جیسا کہ فرمان الہیٰ ہے۔
أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلَّ دَابَّةٍ (البقرة: ١٦٤)
’’آسمان سے پانی اتار کر‘ مردہ زمین کو زندہ کر دینا‘ اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا (اللہ تعالیٰ کا کام ہے)‘‘۔
اسی طرح اللہ نے اسباب اور ذرائع کی پیدائش میں سورج اور چاند کو بھی تخلیق فرمایا ہے شفاعت اور دعا سے جو فوائد ملتے ہیں ان کا سبب شفاعت اور دعا کو بنایا ہے مسلمان میت کے لئے رحمت الہٰی کا سبب نماز جنازہ ہے میت کے ساتھ ساتھ نماز جنازہ پڑھنے والوں کو بھی ثواب ملتا ہے۔
لیکن ان اسباب اور مسبب سے متعلق درج ذیل تین امور کا علم ہونا چاہیے۔
اسباب کی بحث میں سب سے پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ اسباب مستقل طور پر مقصود و مطلوب نہیں ہوتے۔ بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ کوئی دوسرے اسباب بھی موجود ہوں۔ ان اسباب کے ساتھ کچھ موانع اور رکاوٹ بھی ہوتی ہیں۔ کسی رکاوٹ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سبب کو مکمل نہ کرے تو مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اگرچہ لوگ نہ چاہیں۔ اسی طرح جو لوگ چاہیں۔ اللہ تعالیٰ کے چاہے بغیر نہیں ہو سکتا۔ (مراد یہ ہے کہ جیسے نماز جنازہ میت کے لئے رحمت کا سبب ہے۔ کسی مانع کی وجہ سے میت کو رحمت نہیں ملتی اس لیے ضروری نہیں ہے کہ سبب موجود ہو تو اس کا نتیجہ بھی موجود ہو۔ ازمترجم)
بغیر علم کے کسی چیز کے متعلق یہ اعتقاد نہیں کرنا چاہیے کہ چیز سبب بن رہی ہے۔ جو شخص خلاف شریعت کسی چیز کو سبب بنائے تو اس کا یہ فعل غلط ہوگا۔ مثلاً یہ خیال کرنا کہ نذر مانگنے سے بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹالا جاسکتا ہے یا خوشیوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے تو یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ نذر مانگنا کوئی سبب نہیں ہے بخاریؒ و مسلمؒ کی حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر مانگنے سے منع فرمایا ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((انه لايأتي بخير ، وانما يستخرج به من البخيل))
’’ نذر مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے سے بخیل شخص سے کچھ مال نکالا جاتا ہے۔‘‘
شریعت کے حکم کے بغیر دینی اعمال میں سے کسی چیز کو سبب بنانا جائز نہیں۔ کیونکہ تمام عبادت توقیفی ہیں (یعنی تمام عبادات شریعت کی طرف سے مقرر کردہ ہیں۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی) لہذا کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے اور غیر اللہ کو پکارے ۔ اگرچہ اس کا گمان ہو کہ ایسا کرنا بعض اغراض و مقاصد کے لئے فائدہ مند ہے۔ اسی طرح بدعتی طور طریقوں اور خلاف شریعت طریقوں سے عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر چہ ایسی غلط عبادت کرنے والے کا خیال یا اعتقاد ہو کہ ایسا کرنا فائدے کا سبب بن رہا ہے۔ شرک کرنے کی وجہ سے شیطان بعض اوقات انسان کی مدد بھی کرتا ہے۔ اسی طرح کفر اور فسق و فجور سے بھی انسان کے بعض کام پورے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اسباب غلط ہیں۔ کیونکہ ان اسباب سے جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے وہ فائدے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا مقصد بھی یہی ہے کہ اچھے کاموں اور مصالح کی تکمیل ہو۔ فساد و بگاڑ پیدا کرنے والے تمام کام ختم ہو جائیں۔ لہذا جس کام کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور جس کام سے منع کیا گیا ہے اس میں بگاڑا اور نقصان واضح ہے۔
(الفتاوی ابن تیمیه: ۱۳۷/۱ ‘ ۱۳۸)
مشرکین قدیم ہوں یا جدید شفاعتوں سے وابستہ ہو کر شرک اکبر میں مبتلا ہو چکے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر قیامت کے دن ایسی کسی بھی قسم کی شفاعت کی نفی کی ہے۔ جس کا یہ مشرکین عقیدہ اور گمان رکھتے ہیں۔
❀ فرمان الہٰی ہے۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا حُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ (البقرة:٢٥٤)
’’اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ (اللہ کی راہ میں) کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ کوئی تجارت کام آئیگی نہ دوستی اور نہ شفاعت ! اور کافر ہی ظالم ہیں‘‘۔
❀ فرمان الہٰی ہے۔
وَانْذِرُ بِهِ الَّذِيْنَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُ وا إِلَى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مَنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (الا نعام : ٥١)
اور تم قرآن کے ذریعہ سے ان لوگوں کو ڈراؤ جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف اٹھائے جائینگے (اور ) اسکےسوا انکا کوئی کار ساز اور سفارش کر نیوالا نہیں ہے تا کہ وہ ہیز گاری کریں۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے طلب کی گئی سفارش کی نفی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ سے طلب کی جانے والی سفارش قابل قبول ہوگی۔
❀ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (البقرة : ٢٥٥)
’’( اللہ ) کی اجازت کے بغیر کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے‘‘۔
❀ ایک اور مقام پر فرمایا۔
وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ (الانبياء: ۲۸)
’’یہ (فرشتے) کسی کی سفارش نہیں کرتے ۔ علاوہ ان کے جن سے اللہ خوش ہو ۔ وہ تو خود ہیبت الہٰی سے لرزاں وتر ساں ہیں‘‘۔
❀ فرمان الہی ہے۔
قُلْ لِلْهَا لشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَهُ مُتَلكَ السَّمَوَاتِ وَالاَرضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (الزمر : ٤٤)
’’ کہہ دو کہ سب شفاعت اللہ ہی کے اختیار میں ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لئے ہے پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گئے‘‘
❀ ارشاد الہٰی ہے۔
وَكَمْ مِنْ مَلَكِ فِي السَّمَوَاتِ لَا تُغْنِى شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَّأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى (النجم: ٢٦)
’’ بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی‘ مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد اور اس کے لئے صرف جس کو اللہ چاہے ، اور پسند فرمائے‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ سفارش کی دو اقسام ہیں ایک منفی شفاعت جو غیر اللہ سے طلب کی جائے اور دوسری وہ شفاعت جو مثبت ہے یعنی جو اللہ تعالیٰ سے طلب کی جائے اور یہ شفاعت صرف اہل توحید واخلاص کے لئے ہوگی۔
شفاعت کے باب میں دو باتوں کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔
سفارش کرنے والا اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارش کر سکے گا۔
❀ جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (البقرة : ٢٥٥)
’’کون شخص ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے گا‘‘۔
سفارش کی اجازت اللہ صرف ! انہی لوگوں کے لئے دیگا جن سے اللہ راضی ہوگا اور پسند فرمائے گا۔
❀ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى (الانبياء :۲۸)
’’یہ (فرشتے) کسی کی سفارش نہیں کرتے۔ علاوہ ان کے جن کے لئے اللہ پسند فرمائے‘‘۔
جبکہ مشرکوں کے اعمال کوڑا کرکٹ کی مانند ضائع ہوجائیں گے ان کے لئے کوئی شفاعت نہ ہوگی ان کی خواہشات کے برعکس کوئی سفارشی ان کو میسر نہ آئے گا کیونکہ جو شخص وقت سے پہلے پہلے کوئی توحید پر عمل کئے بغیر اپنی شفاعت چاہتا ہے تو اس کا انجام محرومی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا تیسرا کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
( من لم يكفر المشركين أو شك في كفرهم أو صحح مذهبهم ))
’’جو شخص مشرکین کو کافر نہ کہے یا مشرکوں کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھے‘‘
تشریح:
یہ عمل اسلام کے منافی و برعکس اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر مشرکوں کو کافر قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی افتراء پردازی اور جھوٹ گھڑنے کی وجہ سے‘ ان سے عداوت کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ مشرکوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ اور اللہ کے ساتھ مختلف شریک بنا لیے۔ حالانکہ اللہ تعالی ان کے گھٹیا دعوٰوں اور قبیح اعمال سے بہت بلند و برتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر لازم قرار دیا کہ وہ مشرکوں سے بغض و عداوت کریں۔ مشرکوں کو کافر قرار دیئے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جو شخص شرک کی واضح طور پر موجودگی کے باوجود مشرکوں کے کفر میں شک کرے وہ بھی انہی کے مانند ہے۔
اسی طرح وہ شخص جو مشرکوں کے شرکیہ مذہب کو درست جانے یا ان کی کفر و سرکشی کو اچھا سمجھے‘ وہ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق کا فر ہو گا۔
کیونکہ اسلام کی حقیقی تعریف ہے۔
(( الاستسلام الله با التوحيد ، والانقياد له باالطاعة ، والبراءة من الشرك وأهله))
’’ توحید پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کا مطیع بن جانا۔ اطاعت کرنا اور شرک و مشرکوں سے دوری و براءت اختیار کرنا‘‘
اسی طرح صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
((من قال لا اله الا الله ، وكفر بما يعبد من دون الله ، حرم ماله ودمه ، وحسابه على الله)) (صحيح مسلم)
’’جو شخص کلمہ توحید پڑھے اور اللہ کے علاوہ دیگر معبودوں کا انکار کرے۔ اس کا مال اور اس کی جان حرمت و عزت والی ہے۔ اور اس کا حساب و کتاب اللہ تعالیٰ پر ہو گا‘‘۔
اس حدیث میں مسلمانوں کے خون کو حرمت والا قرار دیا گیا ہے اور صرف یہ نہیں کہا گیا کہ وہ لا الہٰ الا اللہ پڑھتا ہو، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ دیگر معبودوں کا انکار کرے اگر انکار نہ کرے گا تو اس کا خون و مال حرام نہ ہوگا اس کے خلاف لڑائی جاری رہے گی کیونکہ اس شخص نے ملت ابراہیم کے بنیادی قواعد کو ضائع کر دیا ہے۔ اور جبکہ ملت ابراہیم کی اتباع کرنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہوئے اللہ کے دشمنوں کے سامنے کمزور نہ پڑیں۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَةً وُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ O كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ اَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (الممتحنة: ٤ )
’’مسلمانوں ! تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے۔ جب ان سب نے اپنی قوم سے بر ملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو‘ ان سے بیزار ہیں۔ ہم تمہارے ( عقائد ) کے منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں‘ ہمیشہ کے لئے نفرت و عداوت ظاہر ہوگئی‘‘۔
اس آیت میں دین ابراہیمی کے اصول واضح نظر آتے ہیں۔ اللہ کے فرمان کے مطابق جو شخص ملت ابراہیمی سے بے رغبتی کرے گا تو وہ بے وقوف ہوگا۔
فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُلْقَى (البقرة: ٢٥٥)
’’جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے گا۔ تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا ہے‘‘۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ طاغوت کے انکار کرنے کی صفات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
((أن تعتقد بطلان عبادة غير الله ، وتتركها ، وتبغضها ، وتكفر أهلها ، وتعاديهم))
’’طاغوت کا انکار اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ تم غیر اللہ کی عبادت کو باطل سمجھو اس سے بغض و نفرت کر ومشرکوں کا انکار کرو اور ان کو اپنا دشمن جانو!‘‘
عزیزان گرامی! مذکورہ بالا وضاحت سے آپ جان گئے ہوں گے کہ اسلام کا دعویٰ کرنے والے بہت سے حکمرانوں اور عوام کی کیا حالت ہے۔ یہ لوگ مشرکوں سے محبت اور دوستی کرتے ہیں مشرکوں سے ان کی بھائی چارگی قائم ہو چکی ہے جبکہ یہ لوگ دین داروں کے دشمن ہیں اور ان کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ سزائیں دی جاتی ہیں۔ کیا اب بھی اسلام کی کوئی رمق باقی ہے؟؟؟
❀ حالانکہ فرمان الہٰی ہے۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصْرَى أَوْلِيَاءُ مـ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (المائدة: ٥١)
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے ۔ وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔
❀ دوسری جگہ فرمان الہٰی ہے۔
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَفِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يُفْعَلُ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ (آل عمران : ۲۸)
’’مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں ہوگا‘‘۔
معلوم ہوا اسلام کا دعویٰ کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ مشرکوں کو کا فر قرار دے ان سے دشمنی رکھے اور جو ان مشرکوں سے محبت کرے، اور ان کا دفاع کرے، اور مشرکوں کے ملکوں میں شرعی عذر کے بغیر جائے ۔ کہ جس عذر کو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم قبول نہیں کرتے ہو۔ تو ان تمام سے بھی بغض رکھنا چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ کہ وہ اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں دین کی وجہ سے ہی عزت ملتی ہے، نصرت الہٰی کا حصول ہوتا ہے ملکوں کی تقسیم دین کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ دین کی کسوٹی پر اولیاء الرحمٰن ( رحمٰن کے دوست ) کہ جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ اور اولیاء الشیطن (شیطن کے دوست ) کی تفریق ہوتی ہے۔ اولیاء الشیطن کی روزی روٹی چلتی رہے تو انہیں دین کی پرواہ نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سید نا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے اسوہ حسنہ کو لازم قرار دیا ہے۔
❀ جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لَا بِيْهِ وَقَوْمِةٍ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُون O إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (الزخرف:۲۸)
’’جب ابراہیم نے اپنے والد اور قوم سے کہا جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان سب سے بری ہوں۔ علاوہ اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہ مجھے سیدھی راہ کی ہدایت دے‘‘ ۔
اسی طرح ہم پر لازم ہے کہ ہم کفار کے متعلق حکم الہٰی کی پیروی کریں۔
❀ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتَلُوا الَّذِينَ يَلُوْنَكُمُ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (التوبة: ۱۲۳)
اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کے لئے تمہارے اندر سختی ہونی چاہیے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے‘‘۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فَاقْتُلُوا المُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَاقَامُوا الصَّلَوَةَ وَاتَوُا الزَّكَوةَ فَعَلُوا سَبِيْلَهُمْ (التوبة: ٥)
’’مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، انہیں گرفتار کرو ان کا محاصرہ کرو، اور ان کی تاک میں ہر گھائی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وہ تو بہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو‘‘۔
عزیزان گرامی ! جب بھی لوگوں نے کتاب وسنت سے منہ پھیرا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان ہی کے دشمنوں کو مسلط کر دیا۔ اسی طرح جب بھی حکام وقت نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کو چھوڑ کر خود ساختہ ملعون قوانین پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا مسلمان چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بٹ گئے ان سے دشمنوں نے ان پر غلبہ پالیا کیونکہ چھوٹے چھوٹے ممالک کے امراء کو صرف اپنے اپنے منصب و تخت کی فکر ہوتی ہے۔
دین کو غلبہ ملے یا نہ ملے ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی حالانکہ ان مسلمانوں کی عزت و شوکت دین کی وجہ سے تھی دین کی مدد کرتے تو دنیا پر غلبہ بھی ملتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر سردار ، امیر اور حاکم وقت پر لازم کیا کہ وہ قوانین الہٰی کو نافذ کرے۔ لیکن انہیں کوئی شعور ہی نہیں ہے کیونکہ کفار کی دوستی اور بری صحبت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وعلماء و داعی حضرات نے بھی اس مسئلے میں سلاطین و حکمرانوں کو اس عقیدہ (کفار کے ساتھ دوستی و دشمنی ) سے متعلق احکام سے باخبر رکھنے اور انہیں عقیدہ الولا والبراء ( اللہ ہی کے لئے محبت اور اس کے لئے نفرت ) کی تعلیم دینے ونصیحت کرنے میں غفلت اور بے پروائی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ اکبر اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب کی جائے۔
ہر مسلم کو معلوم ہونا چاہیے کہ کفار مسلمانوں کو دین سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ مسلمان بھی ان جیسے بن جائیں ۔ اگر غیور مسلمان خواب غفلت سے نہ جاگے تو وقت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا پھر حسرت و ندامت کے آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کفار غلبہ پالیں گے اور مسلمان مغلوب ہو کر رہ جائیں گے کیونکہ یہ دستور دنیا ہے۔
(( مَنْ لَمْ يَغْرُ عُرِى ))
’’ جوخود بڑھ کر جنگ نہ کرے گا تو دشمن اس پر حملہ کر دیں گئے‘‘
لہذا اس منہج کی تبلیغ یعنی کفار سے دوستی کے برے نتائج و عواقب سے ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔ ہر عالم ہر خطیب اور امام مسجد پر لازم ہے ۔ کہ وہ کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں عوام الناس کو کفار سے میل جول رکھنے ان کے ملکوں میں بلاوجہ آنے جانے کے خطرات سے آگاہ کریں اللہ تعالیٰ نے مسلمان و کافر کے درمیان تمام تر دلی محبت و دوستی کے تعلقات کو ختم کر دیا ہے۔ اگر چہ کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَ كُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِن اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيْمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (التوبة: ٢٣)
’’اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ ظالم ہوگا‘‘۔
❀ ارشاد الہٰی ہے۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَ هُمْ أَوْ أَبْنَاءَ هُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيْرَتَهُمْ أَوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ (مجادلة: ۲۲)
’’اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہر گز نہ پائیں گے گووہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے قبیلے کے ( عزیز ) ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی روح ( یعنی قرآن ) سے مدد کی ۔‘‘
مزید فرمایا۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَ كُم مِّنَ الْحَقِّ جَ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبِّكُمُ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُم جِهَادًا فِي سَبِيلِى وَابْتِغَاءَ مَرْضَانِى تُسَرُّونَ إِلَيْهِمُ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أعْلَتُهُمْ وَمَنْ يُفْعَلهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (ممتحنة: ١)
’’اے ایمان والو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے ( یعنی قرآن ، اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، دین اسلام) سے کفر کرتے ہیں۔ پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو اگر تم میری راہ میں جہاد اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو ( تو ان سے دوستی نہ کرو ) تم ان کے پاس محبت کا پیغام چھپ چھپ کر بھیجتے ہو۔ اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا تم میں سے جو بھی یہ کام کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک جائے گا‘‘۔
اس موضوع کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
((لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم)) (بخاری ومسلم)
’’کوئی مسلمان کا فر کا وارث نہیں بن سکتا اور اسی طرح کوئی کا فرکسی مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا‘‘۔
اور ایک حدیث میں فرمایا۔
((لا يقتل مسلم بكافر)) (بخاری: ٢٠٤/١)
’’کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے‘‘۔
یہ تمام آیات احادیث کفار کی اہانت پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ((انما المشركون نجس)) (التوبة:۲۸) مشرکین ناپاک ونجس ہیں‘‘۔
تمام مسلمانوں کو خبر دار رہنا چاہیے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں سے کبھی خوش اور راضی نہ ہوں گے جب تک مسلمان کفار کی پیروی نہ کریں اور ان کے نقش قدم پر نہ چلیں۔
❀ ارشا د ربانی ہے۔
وَلَنْ تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودَ وَلَا النَّصْرَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُل إِنَّ هَدَى اللهِ هُوَ الهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَ هُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَ كَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِي وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: ١٢٠)
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ سے یہود و نصاریٰ بھی راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں۔ آپ کہہ دیجئے اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے ، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ کوئی مددگار‘‘۔
اس آیت میں کفار کے دین کی پیروی کرنے والوں کے لئے سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مشرکوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ تا کہ ان سے دوستی لگا کر مسلمان ان جیسے نہ جائیں۔
❀ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أنا برئ من كل مسلم يقيم بين اظهر المشركين)) (ابوداؤد ،ترمذی)
’’میں ان مسلمانوں سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہائش اختیار کرتے ہیں‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مسلمان کفار سے کتنا دور ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتنا دور ہیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ پائے۔
آگ دیکھنے سے مراد ہے کہ ایک دوسرے کے قریب نہ رہیں۔
ایک اور حدیث میں فرمایا۔
((لا يقبل الله من مشرك بعد ما أسلم عملاً او يفارق المشركين الى المسلمين)) (نسائی)
’’اللہ تعالیٰ کسی مشرک کے اسلام لانے کے بعد اس کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں فرماتا جب تک وہ مشرکوں سے دور ہو کر مسلمانوں میں داخل نہ ہو جائے‘‘۔
ان حالات میں، جن سے ہم دو چار ہیں ۔ ہم اس دین کی غربت اور مسلمانوں کے بدلتے ہوئے حالات کی اللہ ہی سے شکایت کرتے ہیں۔ ہم تمام مسلمان ان واضح آیات و احادیث کو سنتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم کفار سے میل جول رکھتے ہوئے ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے رہتے ہیں۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
(( من جامع المشرك ، وسكن معه قانه مثله )) (ابوداؤد)
’’جو شخص مشرکوں سے میل جول رکھے ان کے درمیان رہائش اختیار کرے وہ انہی کی مانند ہے‘‘۔
کہاں ہے دین ابراہیمی !! کہاں گئی اللہ کے لئے محبت اور اللہ ہی کے لئے دشمنی!! ملت ابراہیم کا منہج چھوڑ دیا گیا ہے اب یہ منہج دنیا میں بہت کم پایا جاتا ہے اور اس کے نشانات دنیا سے مٹ چلے ہیں دین اسلام تو بغض کفار‘ محبت مسلم اور سرکش و ظالم سے برکت و خلاصی پر مبنی ہے وادی بطحاء کے نبی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کومضبوطی سے تھامنے والے موجود نہیں ہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ کہ ہماری خطائیں معاف کردے اور ہمارے دلوں پر لگا گناہوں کا زنگ صاف کردے۔
اے لوگو! دیکھو ہماری حالت کیا ہے؟ کیا ہمارے جسموں پر مشرکوں کی خوشبو ملی ہوئی نہیں ہے۔ (یعنی ہم مشرکوں سے میل جول نہیں رکھتے ) کیا ہم ان کی تعریف و ستائش نہیں کرتے ہیں، کیا ہم ان کی عزت و اکرام کے لئے لپک لپک کر نہیں جاتے؟ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس مسلمان سے برات کا اظہار کیا ہے جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے لیکن ہماری معیشت والی کاروباری عقل و دانش کہتی ہے کہ ہر نا فرمان و عاصی سے مکمل دوستی قائم کی جائے۔
مصنف رحمہ اللہ نے اسلام کے منافی امور میں لکھا تھا کہ ’’جو شخص کفار اور مشرکوں کے مذہب کو درست سمجھے وہ بھی ان میں شامل ہے‘‘ اس فہرست میں اس دور کے کمیونسٹ‘ لادینیت‘ دہریت کی دعوت دینے والے شامل ہیں۔ یہ تمام فرقے گمراہ کافر ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کے نام مسلمانوں جیسے ہوتے ہیں۔ ناموں کی وجہ سے حقاق نہیں بدلتے اس دوراجنبیت میں ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ اسلام پر عجب وقت آن پڑا ہے معیار دنیا بدل چکا ہے۔ لوگ ناموں کو دیکھتے ہیں ، نام والوں کو نہیں ، دعووں پر اعتبار کرتے ہیں، حقاق پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دشمن جو دن رات ظاہر باطناً دین کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں وہ لاعلم اور غافل لوگوں کے نزد یک پکے سچے مؤمن بن بیٹھے ہیں صرف اس بنا پر کہ وہ زبان سے کلمہ توحید پڑھتے ہیں۔ شیطان کی فوج میں شرکت کرنے کی وجہ سے ان کا اسلام کا دعویٰ ان کو کچھ فائدہ نہ دے گا کیونکہ ان کی جان و مال ہمہ وقت دین کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا چوتھا کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
(( من اعتقدان غير هدى النبى صلى الله عليه وسلم أكمل من هديه أو أن حكم غيره احسن من حكمه كالذي يفضل حكم الطواغيت على حكمه ))
جو شخص یہ اعتقاد، یہ نظریہ رکھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے علاوہ کسی دوسرے کی ہدایت زیادہ کامل ہے یا کسی اور کا حکم رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زیادہ بہتر ہے تواس کا یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہے مثلا کوئی شخص رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے حکم پر طاغوت کے حکم کو ترجیح دے۔
تشریح:
اس مختصر کلام میں کئی مسائل مذکور ہیں۔ جنھیں ہم ترتیب وار ذکر کرتے ہیں۔
(پہلا مسئلہ )
جو شخص یہ نظریہ قائم کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے علاوہ کسی اور کی ہدایت زیادہ کامل و بہتر ہے۔ تو ایسا شخص مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ اور یہ نظریہ اس کو جہنم میں لے جائگا۔ کیونکہ اس کا یہ عقیدہ کتاب وسنت اور عقل سلیم کے خلاف ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے۔
((أما بعد فان خيرا الحديث كتاب الله ، وخير الهدي هدى محمد)) (صحیح مسلم: ١٥٣/٦)
’’سب سے بہترین کلام کتاب الہٰی ہے ۔ اور سب سے بہترین ہدایت ہدایت محمدی ہے‘‘
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہدایت محمدی کامل ترین ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج وحی الہٰی پر مبنی ہے۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (نجم:٤)
’’( نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ) جو کہتے ہیں ۔ وہ صرف وحی الہٰی سے کہتے ہے‘‘۔
اس آیت کی رو سے علماء کرام نے اجماع کیا کہ سنت اسلامی قوانین میں قرآن کے بعد دوسرا ماخذ ہے۔ اور قانون کے لئے سنت ایک مستقل بنیاد ہے احکام اسلامی میں قرآن کے بعد سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے حلال و حرام قرار دینے میں سنت بھی میں قرآن ہی کی طرح ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اہل کتاب کی کتاب دیکھی تو فرمایا:
((أمتهوكون فيها يا ابن الخطاب؟ والذي نفسي بيده ، لقد جئتكم بها بيضاء نقية.)) (مسند احمد)
’’اے عمر بن خطاب! کیا تم اب بھی ان کتابوں میں مشغول ہوتے ہو اللہ کی قسم میں تمہارے پاس ایک واضح اور شفاف دین لے کر آیا ہوں‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت محمدی تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔ اور پچھلی تمام شریعتوں کی بنسبت ہلکی اور زیادہ آسان بھی۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((أحب الاديان الى الله الحنيفية السمحة)) (اخرجه البخاري في الأدب المفرد وعلقه في صحيحه بصيغة الجزم وحسنه ابن حجرؒفي الفتح: ٩٤/١)
’’اللہ تعالیٰ کو تمام دینوں میں سے سیدھا اور یک طرفہ دین (اسلام) پسند ہے‘‘
ان احادیث پر غور کیجئے اور بتائیے کیا اب بھی ہدایت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی اور ہدایت ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان دیکھئے۔
((والذي نفسي بيده ، لو كان موسى بين اظهركم ، ثم اتبعتموه وتركتموني لضللتم بعيداً))؟!
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تمہارے پاس آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگ جاؤ تو تم گمراہ ہو جاؤ گے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر احسان فرمایا ہے کہ اس نے دین کو کامل بنادیا اور اپنی نعمتوں کو تم پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نچھاور کر دیا ہے۔
❀ جیسا کہ ارشاد ہے۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: ٣)
’’آج میں نے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند فرمالیا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جس دین پر راضی ہوا ہم بھی اس دین پر راضی ہیں۔ کیونکہ اس دین کو اس نے پسند فرمایا اور ہمارے لئے چنا اور اسی دین کو دیکر سید المرسلین محمد عربی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔
❀ ارشاد الہی ہے۔
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ . (آل عمران: ۱۹)
’’بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے‘‘۔
❀ ایک اور مقام پر فرمایا۔
وَمَنْ يُبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ (آل عمران ٨٥)
’’جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرادین تلاش کرے تو اس کو قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔
اس آیت کی رو سے دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرنے والا کا فر ہوگا۔
(مسئلہ ثانی)
مصنف رحمہ اللہ نے دوسرا مسئلہ یہ بیان کیا کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے علاوہ کسی اور کا حکم مثلاً طاغوت کا حکم اچھا اور احسن ہے تو اس کا یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہے ایسا شخص علماء امت کے اجماع کے مطابق کا فر ہوگا۔ یہ لوگ اس لئے کافر ہوں گے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم تر لوگوں کے قوانین یا اپنے خود ساختہ قوانین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین سے بڑھ کر سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مبعوث ہی اسی لیے کیا تھا کہ آپ لوگوں کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر تو حید کی روشنی کی طرف لائیں ۔ لہذا اب کوئی دوسرا نظریہ یا قانون کیسے بہتر ہوسکتا ہے۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
الرَكِتُبُ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ باذن رَبِّهِمُ إلى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (ابراهيم: ۱)
’’یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے اجالے کی طرف لائیں ان کے پروردگار کے حکم سے زبردست اور تعریف والے رب کے راستے کی طرف لائیں۔‘‘
ہر مسلمان مرد‘ عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات سے باخبر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تمام حکموں سے افضل اور مقدم ہے لوگوں میں کوئی مسئلہ پیش آئے اس کو حل کرنے کے لئے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف رجوع کیا جائے جو شخص اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم کو چھوڑ کر کسی دوسرے حکم کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ کافر ہو گا۔
❀ سورۃ نساء کی آیات پڑھیے کہ جس میں اللہ کا فرمان ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَنُ أَن يُضِلُّهُمْ ضَلامٍ بَعِيدًا) (النساء: ٦٠)
’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا اس پر ان کا ایمان ہے۔ لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ طاغوت کا انکار کریں۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے۔ کہ انہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے‘‘۔
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
’’تیرے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کر لیں۔
(النساء: ٦٥)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قسم کھا کر فرمایا کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ تین کام سرانجام نہ دے۔
➊ تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاکم سمجھے ۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اپنے دل میں نا خوشی ہوں گی محسوس نہ کرے۔
➌ ہر فیصلے کو فرماں برداری کے ساتھ قبول کرے۔
عزیزان گرامی ! کوئی عقل سلیم کا مالک کیسے تسلیم کر سکتا ہے کہ لوگوں کی عقل یا کسی فرد کے افکار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں۔ مخلوق کے احکام تو ظلم و جور پر مبنی ہوتے ہیں اور اللہ کے احکام عدل وانصاف پر دیکھئے !جب لوگوں نے اپنے آپ کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نکالا تو ان کا کیا انجام ہوا ؟ ظلم و ستم فسق و فجور ان کا مقدر ٹھہرا۔ وہاں کسی برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا مادر پدر آزادی کے ساتھ، بہیمانہ زندگی گزاری جاتی ہے اسی زندگی پر بچے جوان اور جوان بوڑھے ہور ہے ہیں حتی کہ ان کی فطرت ہی بدل گئی ہے۔ ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے نکالتا ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔
❀ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ . (المائدة: ٤ ٤ )
’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے‘‘۔
کلمہ توحید لا الہ الا الہ کا تقاضا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کئے جائیں اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم غیر رسول کے حکم سے افضل و برتر ہے۔ جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ در حقیقت کلمہ توحید کو جانتاہی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس کلمہ عظیمہ کی بنیادی شرط ہے کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کی وجہ سے ہی تو زمین و آسمان قائم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کلمے کی خاطر انبیاء ورسل اور کتا بیں نازل فرمائیں جہاد کا حکم دیا اور نیک و بد کی تفسیر اسی کلمے کی بنا پر ہوتی ہے جو شخص اس کلمے کے ارکان کو جانتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اوروں کے حکموں سے دور رہتا ہے۔ موجودہ دور پرفتن میں حالات بہت بدل گئے ہیں۔ ( گویا کہ وہ زمانہ آ گیا ہو کہ جس میں انبیاء کی شریعتیں مسخ ہو چکی ہوں ) لوگوں نے ان یہود و نصاری کے آراء وافکار کی وجہ سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات ترک کر دیئے ہیں۔ کہ جن کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی مؤمن سے کوئی محبت و دوستی نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی مومن کے بارے میں کسی عہد و پیمان کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی لوگ انسانی خود ساختہ قوانین پر خوش ہیں۔
❀ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے۔
’’اللہ کی قسم! میں اپنے گناہوں سے اتنا نہیں ڈرتا کیونکہ یہ گناہ معافی و بخشش والی ہستی معاف بھی کر سکتی ہے بلکہ اپنے دل سے وحی الہٰی اور قرآن کی حکومت سے نکل جانے سے ڈرتا ہوں اور لوگوں کی آراء میں مشغول ہو جانے سے ڈرتا ہوں ۔ اگر ان افعال کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جو احسان ہم پر کیا تھاوہ کیا ہوگا ؟‘‘
پس اللہ ہی ہے کہ جس سے شکایت کی جاسکتی ہے ! ! وہی فریادوں کو سنے والا ہے وہی ہے جس پر بھروسا کیا جاتا ہے۔
کفر اور گمراہی کی فہرست میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں زنا کاری اور چوری کرنے کی قرآنی سزائیں دینا مناسب نہیں ہیں کیونکہ یہ دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور جیسا نہیں ہے۔ ایسا کہنے والا سمجھتا ہے کہ موجودہ دور کے قوانین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے بہتر ہیں۔ لہذٰا اس دور میں غیر اللہ کے قوانین نافذ کرنا چاہیئے ہے۔
کفر اور گمراہی کی فہرست میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ اس زمانے میں اللہ کے نازل کردہ قوانین کے خلاف فیصلہ کرنا جائز ہے، یہ کفر نہیں تو اور کیا ہے؟ کیونکہ انہوں نے ایک ایسی چیز کو حلال قرار دیدیا کہ جس کے حرام ہونے پر کوئی اختلاف نہیں۔

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا پانچواں کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
((من ابغض شيئًا مما جاء به الرسول ولو عمل به کفر))
’’جو شخص دین اسلام میں سے کسی ایسی چیز کو جورسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں‘ نا پسند کرے اس سے نفرت رکھے تو وہ کافر ہوگا اگر چہ خود اس پر عمل کرتا ہو‘‘۔
تشریح:
دین اسلام کو نا پسند کرنے والا، بغض کرنے والا باتفاق علماء اسلام سے خارج ہے۔ جیسا کہ صاحب الاقناع وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور آپ کے احکامات سے بغض کرنا اعتقادی نفاق کی علامات میں اور قرآن کے مطابق منافق کا ٹھکانہ جہنم ہے جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی سے نفرت کرے تو وہ بہت ہی بڑے خطرے سے دو چار ہے۔
یہود و نصاریٰ کی کفریہ تہذیب کے دلدادہ لادین مصنفین جو انگریزوں کے نمک خوار ہیں۔ اپنی گردنوں سے اسلامی قوانین کو نوچ پھینکنے والے حقیقی معنوں میں اسلام سے خارج ہو چکے ہیں۔ وہ تعدد ازدواج سے متعلق بے سروپا باتیں کرتے ہیں اور قرآنی احکامات کا انکار کرتے ہیں تعدد ازدواج سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ تعددازدواج کے خلاف تمام وسائل استعمال کرتے ہیں ان کو خبر نہیں کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ اللہ کے حکم کو رد کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بغض و نفرت کرنے والے کہتے ہیں کہ عورت کی دیت مرد سے نصف کیوں ہے؟ یہ لوگ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد جیسی نہیں مانتے ۔ اس کے علاوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر فرامین سے نفرت کرتے ہیں مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
’’ عورتوں جیسا ناقص عقل ودین میں نے نہیں دیکھا کہ یہ عورتیں عقل مند مردوں کی عقل بھی لے جاتی ہیں‘‘۔
( بخاری و مسلم)
اس حدیث سے کراہت کرنے والے اس کے خلاف زبان درازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یا تو اس حدیث کو اس کے ظاہری مفہوم سے بدل دیتے ہیں۔ یا پھر اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ حدیث عقل کے خلاف ہے ایسے لوگ اگر دلائل پر عمل کریں پھر بھی یہ لا الہ الا اللہ کی شروط پر پورے نہیں اترتے کیونکہ کلمہ کی سب سے اہم شرط حکم قرآن وحدیث سے محبت کرنا ہے اور اسے خوش دلی سے قبول کرنا ہے جبکہ یہ لوگ نفرت و بغض کرتے ہوئے تنگ دلی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ فعل منافقوں جیسا ہے کیونکہ وہ بھی ظاہر عمل کرتے ہوئے دلی طور پر نا پسند کرتے ہیں۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((من قال لا اله الا الله خالصا من قلبه دخل الجنة )) (احمد ابن حبان)
’’جو شخص ’’خلوص دل‘‘ سے لا الہ الا اللہ پڑھے وہ جنتی ہوگا‘‘۔
اس حدیث میں خلوص دل کی شرط لگائی گئی ہے لہٰذا جو شخص قرآن وحدیث کو نا پسند کرے وہ خلوص دل سے کیسے مانتا ہوگا؟
اسی موضوع کے مطابق فرمان الہٰی ہے۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَاحْبَطَ أَعْمَالَهُمُ (محمد: ۹)
’’اور جو لوگ کافر ہوئے ان کے لئے ہلاکت ہے اللہ ان کے اعمال غارت کرے گا اور یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی نازل کر دہ چیز سے ناخوش ہوئے سو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیئے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے دین کو نا پسند کرنے والوں کے اعمال کو کوڑا کرکٹ بناڈالا ان کو ضائع کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پر عمل کرنے والوں اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے والوں کو کامیابی کی بشارت دی ہے اس کے برعکس نا پسند کرنے والوں کے اعمال کو ضائع کرنے کا حکم سنایا اور ہر وہ شخص جو اللہ کے نازل کردہ قوانین کو نا پسند کرے، اس کے تمام اعمال برباد ہیں۔ اگر چہ وہ خودان پر عمل ہی کیوں نہ کرتا ہو۔
جیسا کہ یہ آیت ہے۔
ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (محمد: ۲۸)
’’یہ اس وجہ سے کہ وہ لوگ ایسی راہ پر چلے جس سے انہوں نے اللہ کو ناراض کر دیا۔ اور انہوں نے (اللہ) کی رضامندی کو برا جانا۔ تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیئے‘‘۔
ہر مسلمان کو ڈرنا چاہیے کہ وہ دین اسلام کو نا پسند کرنے والا نہ بن جائے، یہ ناپسندیدگی دلوں میں چھپی رہتی ہے اور بڑے عرصے بعد انسان کو احساس ہوتا ہے کہ شیطان اپنا کام کر گیا ہے۔ لہذا اکثر اوقات یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
((يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك ))
’’اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت کر دے‘‘۔
کیونکہ تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے دلوں کو پھیرتا رہتا ہے۔
اس مقام پر ان لوگوں کے لئے تنبیہ کر دی جانی چاہیے جنہیں اکثر اوقات ایسے مواقع ملتے رہتے ہیں کہ لوگ ان کو دعوت دیتے ہیں اور یہ دعوت دینے والوں کی دعوت کو قبول نہیں کرتے اس قبول نہ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ دین اسلام سے بغض کرنے والے ہیں یا حق کا انکار کرنے والے ہیں۔ بلکہ بات یہ ہوتی ہے کہ دعوت دینے والوں کا انداز اور طریقہ غلط ہوتا ہے اگر کوئی دوسرا یہی بات اچھے طریقے سے کرے اور برائی کو واضح کر کے بیان کرے تو لوگ اس حق کو قبول کر لیں گے کبھی کبھار دعوت دینے والے اور لوگوں کے تعلقات درست نہیں ہوتے اس بات کو دین اسلام سے بغض قرار نہیں دیا جائے گا اس مقام پر گناہ گاروں پر الزام کی تردید کر دینی چاہیے۔ بعض لوگ داڑھی کٹوانے والے شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے ، یا شراب پینے والے کو کہتے ہیں ’’تم دین اسلام سے بغض کرتے ہو تم دین کی مخالفت کرنے والے ہو حالانکہ گناہ گاروں پر یہ ایک غلط الزام ہے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی بعض گناہ ہوتے رہتے تھے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایسا الزام کوئی نہیں دیتا تھا۔ بلکہ کبھی شراب نوشی کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کومنع کرتے تھے کہ اس پر لعنت نہ بھیجی جائے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ایسا نہ کہو یہ گناہ گار اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہے۔
(بخاری)
اگر یہ الزام درست ہو جائے تو پھر کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد اسلام سے خارج ہو جائیں گے اور یہ بات غلط ہے اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق کبیرہ گناہ کرنے والے اسلام سے خارج نہیں ہوتے ایسے لوگ اللہ کی مشیت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کو معاف فرما دے اور چاہے تو ان کو عذاب دے لیکن کبیرہ گناہ کرنے والو کا انجام ان شاء اللہ جنت ہوگا۔

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا چھٹا کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
((من استهزأ بشئ من دين الرسول صلى الله عليه وسلم ، أو ثوابه ، أو عقابه كفر))
’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں سے کسی بات کا مذاق اُڑائے چاہے وہ بات ثواب سے متعلق ہو یا عذاب سے وہ شخص کافر ہے‘‘
تشریح:
دین اسلام کا مذاق اڑانے والا کیوں کا فر ہے اس کی دلیل یہ آیت ہے۔
قُلْ أَبِاللَّهِ وَاللهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِهُ وَنَ O لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ (التوبة: ٦٥)
’’(اے نبی ) کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیات اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔ تم عذر پیش نہ کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے ہو‘‘۔
دین اسلام کے کسی امر کا استہزا کرنا‘ اس کا مذاق اڑانا اجماع امت کے مطابق کفر ہے اگر چہ کوئی غیر سنجیدگی سے بھی مذاق اڑائے .. ابن جریر، ابن ابی حاتم اور اور اشیخ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ کہ سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا، میں نے اپنے قراء جیسا کسی کو نہیں دیکھا یہ لوگ بڑے پیٹو ہیں، زبان کے جھوٹے اور جنگ کے موقع پر بزدلی دکھانے والے ہیں۔ یہ بات سن کر دوسرے شخص نے کہا تم منافق ہو ہم یہ بات ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیں گے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی اور قرآن میں مذکور بالا آیت نازل ہوگئی سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔’’میں نے دیکھا کہ وہ بات کرنے والا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے لٹک لٹک کر کہ رہا تھا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔ اللہ اس کا رسول اور اس کی آیات ہی مذاق کے لیے رہ گئی ہیں ۔ ‘‘ ہم مذاق اڑا رہے تھے کا مطلب ہے کہ ہم حقیقت میں بات نہیں کر رہے تھے بلکہ ہم از راہ مذاق یہ بات کر رہے تھے صرف سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے خوش کپی کر رہے تھے ۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کا فرقرار دیا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ منافقین تو پہلے ہی سے دلی طور پر کافر تھے۔ بعد میں انہوں نے زبان سے بھی اظہار کفر کر دیا۔
لیکن اس بات کی تردید شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔ دل سے کفر کرنا اور زبان سے اسلام لا نا کفر ہی ہوتا ہے اس کو اسلام نہیں کہا جا سکتا۔
جبکہ ایسی صورت میں یہ نہیں کہا جاتا کہ :
قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمُ (التوبة: ٦٥)
’’تم ایمان لانے کے بعد کا فر ہو گئے ہو‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شروع ہی سے کا فرنہ تھے۔ (یعنی ایمان لا چکے تھے اور بعد میں کافر ہوئے )
اسی طرح جو شخص بھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے کسی بھی حکم مذاق اڑائے، جیسا کہ علم شرعی کا مذاق اڑانا، یاعلم شرعی سیکھنے والے طالب علم یا سکھانے اساتذہ ، یا اس پر عمل کرنے والے ، غرض علم شرعی سے تعلق رکھنے کسی بھی شخص کا مذاق اڑانا ، اسی طرح اللہ تعالی کی طرف مقرر کردہ کسی ثواب یا عذاب کا مذاق اڑانا ، اسی طرح اچھائی کا حکم دینے والوں اور برائی سے روکنے والوں کا ان کے اس مبارک فعل کی وجہ سے مذاق اڑانا، اسی طرح نفلی یا فرضی کسی بھی نماز کا مذاق اڑانا یا پھر نمازیوں کا نماز پڑھنے پر مذاق اڑانا، اسی طرح ایک داڑھی رکھنے والے کا اُس اسلامی شعیرہ داڑھی کی وجہ سے مذاق اڑانا ، اسی طرح سود جیسی لعنت کو چھوڑنے والے کا سود چھوڑ نے کی وجہ سے مذاق اڑانا، وغیرہ وغیرہ تو اس قسم کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ اور وہ مذاق اڑانے والا استھزاء کرنے والا اللہ کی نظروں میں کافر ہے ۔ ( کیونکہ مذکورہ تمام صورتیں اللہ کی شریعت سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور ان کا مذاق اڑانے والا اللہ کی شریعت کا مذاق اڑاتا ہے) اسی طرح اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی کسی بھی چیز کا مذاق اڑانا منافقین کی صفات میں سے ہے۔ اور یہ کسی مسلمان کے لئے لائق نہیں کہ وہ ایسا کفریہ فعل کا سرانجام دے۔
❀ جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ٥ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَعَامَرُونَ . وَإِذَا الْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ القَلَبُوا فَكِهِيْنَ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ وَمَا أَرْسِلُوا عَلَيْهِمْ خَفِظِينَ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ هَلْ ثُوبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (مطففين: ٢٩-٣٦)
’’گناہ گار لوگ ایمان والوں کا ہنسی مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھوں کے اشارے کرتے تھے اور جب اپنے گھروں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراہ ہیں۔ جبکہ یہ ان پر نگراں بنا کر تو نہیں بھیجے گئے ۔ پس آج ایمان داران کافروں پر ہنسیں گے تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے کہ اب ان منکروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پالیا‘‘۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے حکم المرتد صفحہ (۱۰۵) پر اور شیخ حمد بن عتیق نے مجموعۃ التوحید میں اور کافی علماء نے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے کسی بھی جزء کا مذاق اڑانے والوں کی دو اقسام بیان کی ہیں۔
(اول)
واضح طور پر مذاق اڑایا جائے۔ جیسا کہ یہ قول ہے ’’یہ قرآن پڑھنے والے بڑے پیٹو بزدل اور جھوٹے ہیں‘‘ ان لوگوں کے متعلق ہی آیت ممانعت نازل ہوئی تھی۔
(ثانی)
مذاق اڑایا تو جائے مگر غیر واضح طور پر بہم انداز میں جیسے کہ آنکھ کے اشاروں کنایوں کے ساتھ یا تلاوت قرآن کا زبان نکال کر ہونٹ پھیلا کر‘ مذاق اڑایا جائے۔ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا جائے یا اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے پر مذاق اڑایا جائے۔
الغرض قرآن وحدیث کا مذاق اڑانے والوں کی مخالفت کرنا۔ ان کی مجلسوں کو ترک کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ مسلمان بھی انہی میں شامل ہو جائیں۔
❀ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے۔
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمُ ايَتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَاً بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمُ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذَا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللهَ جَامِعُ الْمُنفِقِينَ وَالْكَفِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا. (النساء: ١٤٠)
’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب بھی کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجلس میں ان کے ساتھ مت بیٹھو جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ) تم بھی اُس وقت انہی جیسے ہو گے یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے‘‘۔
جو شخص سنے کہ کسی مجلس میں اللہ کی آیات کا انکار کیا جارہا ہے اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور وہ اس مجلس میں راضی خوشی بیٹھا ر ہے۔ تو وہ اس کفر میں انہی مذاق آڑانے والوں جیسا ہے۔
❀ جیسا کہ فرمان الہٰی ہے۔
أحْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَاهَدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الجَحِيمِ. (الصَّقْت: ۳۷)
’’(اے فرشتو!) ظالموں اور ان کے ہم راہیوں کو جمع کرو (اور جہنم رسید کرو)‘
یعنی جو لوگ ظلم کرنے والے اور ان کے ہم مثل اور ہم نظیر ہوں۔

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا سا تواں کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
والدليل قول الله:
((السحر، ومنه الصرف والعطف، فمن فعله أو رضى به ؛ كفر))
’’جادو چاہے وہ جدائی نفرت پیدا کرنے کے لئے کیا جائے یا محبت پیدا کرنے کے لئے جو کوئی ایسا کرے یا ایسا کرنے پر راضی ہو تو وہ شخص کا فر ہے‘‘
وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرُ
❀ اس بات کی دلیل یہ آیت ہے:
’’ ( ہاروت ماروت ) کسی کو ( جادو) نہیں سکھاتے تھے حتیٰ کہ اسے کہتے ہم آزمائش کے لئے آئے ہیں تم کفر نہ کرو‘‘۔
(البقرۃ: ۱۰۲)
تشریح:
’’سحر‘‘ کا لغوی معنیٰ ہے۔ کسی چیز کے ماخذ کا باریک اور مخفی ہونا ، اہل عرب کسی چیز کے بہت زیادہ مخفی ہونے کے متعلق کہتے تھے۔ اخفى من السحر جیسے کہ مسلم بن ولید کا یہ شعر ہے۔
’’ تم نے اپنی نظروں کو علامات محبت بنادیا ہے یہ نظر کے اشارے تو جادو سے زیادہ منفی ہیں ان نظروں میں نرمی نظر آئے تو وصل کی علامت ہوتی ہے اور آنکھیں غضب آلود ہو جائیں تو ہجر کی نشانی ہوتی ہے‘‘۔

سحر کی شرعی تعریف کیا ہے؟

ہر وہ مالا ، یادم جھاڑے جس سے جادو کرنے والا شیطان کی مدد حاصل کر کے مسحور کو نقصان پہنچائے امام شنقیطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’جادو کی کوئی جامع مانع تعریف نہیں ہے۔ کیونکہ جادو کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ اور ان کے درمیان ایک قدر مشترک نہیں ملتی جس کی بنا پر اسکی جامع ومانع تعریف کی جاسکے ۔ اسی لئے علماء کرام نے سحر کی مختلف تعریفیں لکھی ہیں۔
سحر کی دو اقسام بنتی ہیں ۔
(اضواء البیان: ٤٤٤/٤)

سحر صرف:

کوئی شخص اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے جادو کے ذریعہ کسی کی محبت کو بغض میں بدل دے ۔ جیسے کسی کی بیوی کی محبت کو بغض میں تبدیل کردے۔

سحر عطف:

یہ بھی پہلی قسم ہی کی طرح ایک جادوئی فعل ہے‘ لیکن اس میں آدمی کی خواہشات کے برعکس ، شیطانی غیر جائز طریقے استعمال کر کے آدمی
میں محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جو سحر صرف سے مختلف ہو، جادو کرنا تمام انبیاء کی شریعتوں میں حرام ہے، جادو کے متعلق شریعت میں بہت سے مسائل مذکور ہیں ۔ چونکہ جادو گری اس وقت بہت زیادہ پھیل چکی ہے اس لئے ہم اس کے متعلق تفصیل سے علماء کے اقوال ذکر کر رہے ہیں۔

(پہلا مسئلہ) کیا جادو حقیقت ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جادو کی حقیقت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اور جادو سے پناہ مانگنے کا بھی حکم دیا ہے۔ جیسے کہ ارشاد ہے۔
وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ (فلق: ٤)
’’اور گرہ لگا کر (ان میں ) پھونکنے والیوں کے شر سے بھی (پناہ مانگتا ہوں)‘‘ ۔
مذکورہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ اس سے پناہ مانگنے کا حکم نہیں دیتا۔
❀ ایک اور مقام پر فرمایا۔
وَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ (البقرة : ۱۰۲)
’’پھر لوگ ان دونوں ( ہاروت ماروت) سے (جادو) کا علم سیکھتے جس سے خاوند بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘۔
آیت اس بات پر دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے کہ جس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالی جاتی ہے۔
جادو کی حقیقت پر درج ذیل حدیث بھی دلالت کرتی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خیال فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیا ہے جبکہ حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام نہیں کیا ہوتا۔ کچھ دن یہی حالت رہی ایک دن آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس دو فرشتے آئے تھے ایک میرے پاؤں اور دوسرا میرے سر کے پاس بیٹھ گیا ایک فرشتے نے پوچھا۔ اس آدمی کو کیا ہوا ہے دوسرے فرشتے نے جواب دیا۔ آپ پر جادو کیا گیا ہے سوال کیا گیا کس نے جادو کیا ہے فرشتے نے کہا لبید بن الاعصم یہودی نے کنگھی اور بالوں میں جادو کیا ہے جو زوران نامی خشک کنویں میں موجود ہے‘‘ ۔
(رواہ البخاری و مسلم واحمد)
(یہ حدیث مختصر ہے مکمل حدیث میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں سے جادو والی کنگھی منگوائی اور اس پرسورۃ فلق اور سورۃ والناس کی تلاوت کی جس سے جادو کا اثر زائل ہو گیا )
یہ ہی اہل سنت اور جمہور مسلمانوں کا مسلک ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے ۔ جبکہ کتاب وسنت سے دوری اختیار کرنے والے معتزلہ فرقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔
يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (طه: ٦٦)
’’ان کے جادو سے موسیٰ کے خیال میں آئیں کہ وہ دوڑ رہی ہیں‘‘
انکے جادو کے باعث موسیٰ علیہ السلام کو خیال ہوا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ (ان کی دلیل اس سے یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا۔ کہ وہ حقیقت میں دوڑ رہی تھیں۔ یہ لوگ لکھتے ہیں جادو ایک وہم اور دھو کے پرمبنی خیال ہوتا ہے اس کی کوئی حقیقت ماہیت نہیں ہوتی اس کو شعبدہ بازی بھی کہتے ہیں اس بات کی تردید کرتے ہوئے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’یہ نظریہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ہمارے اسلاف کے اقوال اور نظریے کے خلاف ہے۔ جادو کی حقیقت ہونے پر فقہاء، محدثین مفسرین، اور ارباب القوب اہل تصوف کا اتفاق رہا ہے۔ عوام بھی جادو کے موثر ہونے محبت بغض و نفرت اور شادی بیاہ کے معاملات میں جادو کے اثر انداز ہونے پر یقین رکھتے ہیں‘‘
(بدائع الفوائد: ۲/ ۲۲۷)
امام قرطبی رحمہ اللہ معتزلہ کے قول کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ۔ ’’جادو کو ایک وہم سمجھنا صحیح نہیں ہے عقلی طور پر بھی جادو کو حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث کے دلائل بھی یہی کہتے ہیں۔
❀ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جادو کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد کیا ہے۔
يُعْلَمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعْلَمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرُ وَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ (البقرة : ۱۰۲)
’’( شیطان ) لوگوں کو جادو سکھایا کرتے اور بابل (شہر) میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھاوہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو آزمائش ہیں تم کفر نہ کرو پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند، بیوی میں جدائی ڈال دیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے کیونکہ تعلیم کسی حقیقی چیز کی دی جاتی ہے۔ وہم و گمان کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد کیا۔
وَجَاء وَ بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (الاعراف: ١١٦)
’’وہ جادو گر بہت بڑا جادو لے آئے ۔‘‘
سورۃ فلق کے متعلق تمام مفسرین اتفاق کرتے ہیں کہ یہ جادو کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
جب یہ جاد ولبیدبن الأعصم یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فلق کی تلاوت کی تو جادو کا اثر ختم ہو گیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ (ان الله شفانی) اللہ نے مجھے شفا عطا فرمائی ہے۔ شفا کسی بیماری اور علت کے ختم ہونے پر ملتی ہے۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے۔ یہ دلائل، آیات الہیٰ احادیث اور اجماع امت سے ملے ہیں۔ لہذا‘ معتزلہ اگر اس سے انکار کریں تو کچھ فرق نہیں ہوتا۔

(دوسرا مسئلہ) جادوگر کے متعلق کیا حکم ہے؟

علماء کرام نے جادوگر کے متعلق اختلاف کیا ہے کہ جادو گر کافر ہے یا نہیں مصنف امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے جادوگر کو کافر کہا ہے کیونکہ (سورۃ البقرۃ :۱۰۲) میں اللہ تعالیٰ نے جادو کو کفر قرار دیا ہے یہی مذہب امام احمد بن حنبلؒ، امام مالک رحمہ اللہ، ابوحنیفہؒ اور جمہور علماء کا ہے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جادو سیکھنے والے کو کہا جائے کہ اپنے جادو کی صفات بیان کرو اگر اس میں کوئی کفریہ صفت شامل ہو گئی تو یہ کفر ہوگا جیسے اہل بابل ستاروں کی قربت حاصل کرنے کے لئے جادو کرتے تھے اور ہر کفریہ کام کے لئے تیار رہتے تھے اگر جادوگر جادو کو جائز سمجھے تو کافر ہو گا۔ کیونکہ اس نے اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال سمجھا۔ امام شنقیطی رحمہ اللہ نے تفصیلی تحقیق بیان کی ہے آپ رقمطراز ہیں ۔ اگر جادو میں غیر اللہ کی تعظیم ہورہی ہو ۔ جیسے ستاروں، جنات وغیرہ کی تعظیم کی جائے تو اس جادو کو بلا اختلاف کفر کہا جائے گا۔ سورۃ البقرۃ میں جو ہاروت ماروت کا جادو مذکور ہے وہ اسی قبیل سے تھا۔ اس کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلَكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُ والعَلَمُونَ النَّا صَالِحَرَ (البقرة: ۱۰۲)
’’ سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا جولوگوں کو جادو سکھاتے تھے‘‘
اسی طرح فرمایا۔
وَمَا يُعَلَّمَن مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِسَةٌ فَلا تَكْفُرُ (البقرة: ١٠٢)
’’وہ دونوں ( ہاروت و ماروت اس وقت تک کسی کو نہیں سکھاتے تھے جب تک کہ یہ تنبیہ نہ کردیں کہ ہم ایک آزمائش ہیں تم (اسے سکھا کر ) کفرمت کرو‘‘
اسی طرح ارشاد فرمایا۔
وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ (البقرة: ١٠٢)
اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا البتہ وہ ( بہت ہی) بری ہے۔‘‘
اسی طرح ارشاد فرمایا۔
وَلَا يُفْلِحُ الشجرُ حَيْثُ أَنى. (طه:٦٩)
’’جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا‘‘
اور اگر جادو میں کوئی کفریہ بات تو نہ ہو لیکن بعض اشیاء جیسے تیل وغیرہ کے ذریعے جادو کیا جائے اگر چہ یہ بھی انتہائی سخت حرام ہے لیکن اس سے کفر واقع نہیں ہوتا۔
(اضواء البيان: ٤٥٦/٤)
صحیح قول کے مطابق جادو گر کیسا بھی جادو کرے اس کو ہر حال میں قتل کرنا چاہیے کیونکہ جادوگر زمین میں فساد پھیلا رہا ہے خاوند بیوی کے درمیان تفریق کر رہا ہے جادوگر کا زندہ رہنا ایک بڑا خطرہ ہے اس سے معاشرے میں قتل وغارت گری اور فتنہ و فساد پھیل سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی جادوگر کو قتل کرنے میں کوئی اختلاف نہ کرتے تھے۔

( تیسرا مسئلہ ) جادوگر‘ اور جادو گرنی کوقتل کرنے کا حکم

علماء کرام نے جادو گر کے قتل کے حکم میں اختلاف کیا ہے مشہور اقوال دو طرح کے ہیں۔
➊ جادو گر کو قتل کیا جائے امام مالک‘ امام احمد رحمہما اللہ کی یہی رائے ہے۔ اور یہی جمہور کا مذ ہب ہے۔
➋ جب تک جادو گر کفر تک نہ پہنچے اس کو قتل نہ کیا جائے امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے۔

قول اول کو ترجیح دینے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں۔

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
((حَدُّ السَّاحِر ضَرَبه با السَّيْف)) ( ترمذی حاکم دارقطنی ابن عدی و غیرهم)
’’جادوگر کی سزا اس کو تلوار سے قتل کرنا ہے‘‘۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ مذکورہ حدیث سند مرفوع نہیں اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم المکی ہے جو کہ ضعیف راوی ہے۔ جبکہ یہ قول جندب رضی اللہ عنہ سے موقوف صحیح ہے۔ شارح کتاب فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔ اور یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’لیس ہشئی‘‘ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے ضعیف پر اتفاق ہے۔
◈ سیدنا بجالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمارے پاس سید نا عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیا، یہ خط آپ کی شہادت سے ایک برس قبل آیا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ ((اقتلوا کل ساحر وفرقوا بين كل ذي محرم من المجوس‘ والهوهم عن الزمزمه )) ’’جادو گر کو قتل کر دیا جائے ۔ آتش پرست مجوسیوں نے اگر محرم افراد کی آپس میں شادی کی ہے تو انہیں جدا جدا کر دیا جائے اور ان مجوسیوں کو زمزم کے پانی سے دور رکھا جائے بجالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے حکم ملنے پر تین جادو گروں کو قتل کیا‘‘
(الحديث مخرج في ’’البخارى‘‘ ولكن في بعض النسخ ليس فيه :”اقتلوا كل ساحر“ ابوداؤد)
◈ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا پر جس لونڈی نے جادو کیا تھا۔ تو آپ رضی اللہ عنہا نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
(وهذا الاثر رواه مالك في‘ ((السمو طا)) وسنده منقطع ، ورواه عبدالله بن الامام احمد في ((المسائل)) والبهيقي عنها بسند صحيح ، وصحح شيخ الاسلام محمد بن الوهاب في ((كتاب التوحيد))
جادو گر کے قتل کرنے کے حکم میں سید نا عمرو جندب وسیدہ حفصہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((اقتدو باللذين من بعدى ابى بكر و عمر)) (احمد ، ترمذی)
’’میرے بعد تم ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہا) کی پیروی کرنا‘‘
ایک اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
((ان الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه )) (ترمذی)
’’اللہ تعالیٰ نے عمر (رضی اللہ عنہ) کے دل و زبان پر حق جاری کر دیا ہے‘‘۔

قول ثانی کو ترجیح دینے والوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔

❀ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
((لا يحل دم امرئ مسلم الا باحدى ثلاث ، الثيب الزاني ، والنفس با النفس والتارك لدينه المفارق للجماعة)) (بخاري ومسلم)
’’کسی مسلمان کا خون کرنا جائز نہیں ہے سوائے تین وجوہات کے شادی شدہ زانی ہو۔ جان کے بدلے جان کو قتل کیا جاسکتا ہے اور مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر مرتد ہونے والے کو قتل کیا جا سکتا ہے‘‘۔
مذکورہ حدیث سے استدلال کافی وجوہات کی بناپر محل نظر ہے۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو گر لبید بن الاعصم یہودی کو قتل نہیں کیا تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت اس یہودی کو قتل کرنے سے جنگ کا فتنہ کھڑا ہوسکتا تھا۔ جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ خاص ہے ذمی کے ساتھ بہر کیف کوئی ذمی کافر ہو یا کوئی مسلمان دونوں کو جادو گر ہونے کی وجہ سے قتل کرنا چاہیے۔

(چوتھا مسئلہ ) جادو کو ختم کرنے کا طریقہ

امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’ مسحور یعنی جس شخص پر جادو کیا گیا ہو۔ اس سے جادو ختم کرنے کے دو طریقے ہیں۔
◈ جادو کو توڑنے کے لئے جواباً جادو کیا جائے:
یہ شیطانی عمل ہے۔ اور اسی پر حسن بصری رحمہ اللہ کے اس قول کو مجمول کیا جا ئے گا۔ جادو کو جادوگر ہی ختم کرتا ہے ۔ اس عمل میں دم جھاڑ نے چھیٹر وانے والا شیطان کے پسندیدہ کام کر کے اس کا قرب حاصل کرتا ہے۔ اس سے جادو ختم کیا جاتا ہے۔
◈ جادو ختم کرنے والا دعاؤں، تعوذات جائز (یہ وہ تعوذات ہے جس کا معنی ہے کہ وہ اذکار اور دعا ئیں کہ جس میں شیٰطین سے اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے ) اور ادویات کے ذریعے یہ کام کرے یہ طریقہ جائز ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں تعلیقاً سعید بن مسیب رحمہ اللہ تابعی کا قول نقل کیا ہے
قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے سوال کیا۔ کسی شخص یا اس کی بیوی کو جادو ہو گیا ہو تو کیا وہ اس کو ختم کرنے کے لئے دم جھاڑے کر سکتا ہے۔ تو آپ نے کہا۔ کسی اصلاح کی غرض سے دم کرنا درست ہے فائدہ بخش چیز کومنع نہیں کیا جاتا۔ اس حدیث میں جس دم کی اجازت ہے اس سے مراد شرکیہ دم نہیں ہے ۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شیطانی دم جھاڑے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ شیطانی عمل ہے‘‘۔
(رواہ احمد، ابوداؤد وسنده حسن)
اس کے علاوہ جادو زائل کرنے والے کے لئے جادو گروں بد عاملوں کا بہنوں‘ نجومیوں کے پاس جانا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اس کام سے چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی ۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((من اتٰى عرافا فسأله عن شئ لم تقبل له صلوة اربعين ليلة)) (مسلم: ٢٢٣٠)
’’جو شخص کسی عامل کے پاس جا کر کسی چیز کے بارے میں سوال کرے تو اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی۔ ‘‘
اور اگر ان جادوگروں‘ کا ہنون، نجومیوں، عاملوں کے پاس جا کر ان کی باتوں کی تصدیق کرے۔ تو وہ اسلام کا انکار کرنے والا کہلائے گا۔
((عن ابي هريرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من الى عرافا أو كاهنا فصدقه فيما يقول فقد كفر بما انزل على محمد)) (مسند بزار: ٢/٤٤٣)
’’جو کسی کا ہن یا جادو گر کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو یقیناً اس نے اُس چیز کے ساتھ کفر کیا جو چیزمحمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی۔‘‘
اسی طرح کی روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی موقوفاً مروی ہے۔

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا آٹھواں کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
((مظاهرة المشركين ومعاونتهم على المسلمين ))
’’مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکین کو غالب کرنے والا اور انکی مدد کرنے والا کافر ہے‘‘
اس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔
وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمُ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (المائدة: ٥١)
’’تم میں سے جو بھی ان (مشرکوں ) سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دیکھاتا‘‘۔
تشریح:
مشرکوں سے تعاون کرنا اور مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد کرنا ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ یہ ایسا فتنہ ہے جولوگوں کی عقلوں کو اندھا بہرا بنا دیتا ہے یعنی انہیں کسی کام کا نہیں چھوڑ تا مشرکوں سے محبت کرنے والا ہر دل ان کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔ خاص طور پر موجودہ دور میں تو یہ فتنہ بہت عام ہو چکا ہے۔ چونکہ اس دور پرفتن میں علم کی قلت اور جہالت کی کثرت ہے فتنے جابجا بکھرے پڑے ہیں ۔ اور احادیث و علم نبوی عوام کے دلوں سے ملتا جارہا ہے ۔ خواہشات کا غلبہ اور استحکام ہوا جار ہا ہے اس لئے اس وقت ایسے فتنوں کے بارے میں علم رکھنا از حد ضروری ہے۔
میرے نزدیک ان فتنوں کی اہم وجہ علوم شریعت ( دینی علوم ) سے بیگانگی اور یونانی، معتزلی فلسفیانہ علوم کی طرف توجہ کرنا ہے لادین علوم کی نشر واشاعت سے برائی نیکی بن گئی ہے اور نیکی کو برا جانا جاتا ہے نسل نو کی نشو و نما بے دین علوم کے سائے میں کی جاتی ہے حق اس دور میں پہنچانا نہیں جاتا کسی صاحب حق اور سنت و شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا انسان آج لوگوں کے مابین اجنبی ہو گیا، غیر تو غیر اپنوں ہی میں اگر وہ دین ، شریعت کی بات کرتا ہے تو اسی عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے، یہ اللہ کا بندہ اس پرفتن دور میں اسے اگر ہم تلاش کرنا چاہیں تو مشکل ہی سے ملے گا۔ اسلام جس طرح اپنی ابتدا میں اجنبی تھا اس دور میں ویسا ہی اجنبی بن گیا ہے لہذا ایسے پکے سچے مسلمان جو بہت کم ملتے ہیں ان کے لئے خوشخبری ہے جنتوں کی بشارت ہے یہ لوگ عوام الناس کے بگاڑ کی اصلاح کرنے والے ہیں اسی باعث اسلام نے خاص طور پر اپنے نام لیواؤں کو مشرکوں سے دوستی کرنے اور ان کی مدد کرنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا اسلام سے ارتداد میں داخل ہو جاتا ہے۔
علامہ عبداللہ بن عبد اللطیفؒ سے ایک بار سوال کیا گیا کہ دوستی کرنے اور امداد و تعاون کرنے میں کیا فرق ہے؟ تو آپ نے فرمایا امداد کرنے سے مراد ہے مشرکوں کی حمایت کرنا اور جان، مال، اور دیگر ذرائع سے امداد کرنا یہ فعل کفر ہے صرف دوستی رکھنا ایک الگ فعل ہے اگر تمام مسلمان باہم یکجا ہو کر مشرکوں کی مدد کرنے والوں کو مٹاڈالیں اور آپس میں تعاون واتفاق کی فضا قائم کر لیں تو ان شاء اللہ آج بھی مسلمان غالب آسکتے ہیں کفار مغلوب و محکوم ہو سکتے ہیں جس طرح دور نبوی و عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں کفار مسلمانوں کو جزیہ ادا کرتے تھے اس دور میں بھی ادا کرنے لگ جائیں گے۔ اور یاد رکھو کہ کافروں کی اعانت میں ہر وہ چیز شامل ہے۔ جس کی وہ اعانت چاہتے ہیں اور جس کے ذریعہ وہ مختلف اسباب وذرائع اختیار کرکے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا نواں کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
((من اعتقد أن بعض الناس يسعه الخروج عن شريعة محمد صلى الله عليه وسلم كما وسع الخضر الخروج عن شريعة موسى عليه السلام فهو كافر))
’’جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ بعض لوگوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے خارج ہو کر اس سے دوررہ کر‘ مسلمان بنا جاسکتا ہے جیسے خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے پابند نہ تھے توایسا نظر یہ عقیدہ رکھنے والا شخص کافر ہے‘‘۔
تشریح:
یہ حکم اس آیت کے تحت لگایا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ. (الانعام:١٥٣)
’’اور یہ دین میرا راستہ ہے۔ جو سیدھا ہے۔ سو اس راستے پر چلو۔ اور دوسری راہوں پر مت چلو یہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی‘‘۔
اس کے علاوہ اس حکم کی دلیل درج ذیل حدیث سے بھی ملتی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط کھینچا اس کے بعد فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے۔ پھر اس خط کے ارد گرد کئی لکیریں کھینچیں پھر فرمایا
(( هَذِهِ سُبُلٌ مُتَفَرِّقَةٌ عَلى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٍ يَدْعُو إِلَيْهِ))
’’یہ دائیں بائیں جو لکیریں ہیں یہ شیطان کے راستے ہیں شیطان ان راہوں کی دعوت دیتا ہے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ آیت بالا کی تلاوت فرمائی‘‘۔
(احمد‘ ابوداؤد الطیالسی‘ دارمی)
اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جوشخص شریعت محمدی سے بے رغبتی اختیار کرے۔ یا اپنے آپ کو شریعت سے مستغنیٰ سمجھے، وہ دراصل مسلمان ہی نہیں ہے۔ امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فصل اسلام‘‘ میں لکھا ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قرآن ہمیں اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دیتا ہے۔ اور اس اطاعت سے خروج کرنے سے روکتا ہے۔ بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے انکار دخول جہنم کی ایک بڑی وجہ ہے۔
❀ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کرے عرض کیا گیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں جانے سے کون انکاری ہوگا ؟ فرمایا۔
((مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَنِي))
’’جو شخص میری اطاعت کرے گا تو وہ جنت میں جائے گا ۔ اور جو میری نافرمانی کرے گا تو وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا‘‘۔
(صحیح البخاری)
شریعت محمدی کو چھوڑ کر دیگر دینوں‘ مذہبوں میں جانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْ. (النحل: ٨٩)
’’ہم نے اس کتاب میں جو تیری طرف نازل کی ہے ہر چیز کی وضاحت بیان کر دی ہے‘‘۔
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تو رات کے چند اوراق دیکھے تو فرمایا۔ اے عمر! کیا اب بھی ان چیزوں کے متلاشی ہو؟ پھر فرمایا۔
((لقد حلتكم بها نقية بيضاء ، ولو كان مومنى حيا ، والبعتموه ، وتركتموني لضللتم )) (نسائی)
’’اے عمر! میں تمہارے پاس ایک صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے اور تم ان کی اطاعت کرتے اور مجھے چھوڑ دیتے تو تم گمراہ ہو جاتے۔‘‘
ایک اور حدیث میں الفاظ یہ ہیں۔
اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کے پابند ہوتے۔ ان الفاظ کو سن کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
((رضيت بالله رباً ، وبالاسلام دينا وبمحمد نبيا))
’’میں اللہ کو رب ، اسلام کو دین اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نبی ماننے پر راضی ہو گیا‘‘۔
اس حدیث کے علاوہ دیگر دلائل بہت سے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلام سے منہ موڑ کر مسلمان نہیں رہا جا سکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے ، ایمان رکھنے والے تھے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف اور صرف دین اسلام ہی کی عزت و توقیر احترام اور اتباع کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کسی مذہب کے قریب تک نہ جاتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنے نبی کی صحبت کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کے دلوں کو دیکھا ان میں سب سے زیادہ بہترین دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ، دین اور رسالت کے لئے منتخب فرمایا پھر تمام بندوں کے دلوں کو دیکھا اور ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دل تمام بندوں سے بہترین پایا انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاون و صحبت کے لئے منتخب فرمایا۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے مسلمان جسے اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہے اور جس چیز کو برا جانیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے ۔
(مسنداحمد مسند بزار بسند حسن)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض کی ہے۔ اس فرض کو ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کی دو اقسام ہیں۔

امت محبیبہ :

یعنی وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اور نور قرآن کی اتباع کی۔

امت متکبرہ :

یعنی وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۔ اور اطاعت سے انکار کیا ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ ’’ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شریعت کو تھامنے اور اس کی پابندی کرنا ان لوگوں پر لازم ہے جن میں معرفت اور حال کی صفت نہیں ہے۔ لہذا جن لوگوں کے پاس علم و معرفت ہے انہیں نبوی شریعت کی پابندی کرنا ضروری نہیں۔ بلکہ اسے چاہئے کہ وہ حقائق کونیہ قدریہ کے ساتھ ساتھ چلتا رہے یا اپنے وجدان ذوق اور کشف کے مطابق عمل کرتا رہے۔ کتاب وسنت کے ساتھ چمٹے رہنا لازمی نہیں ان میں سے کچھ ایسے ہیں۔ جو عمل ترک کر کے عملاً محروم و معذور بن کر رہتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہیں ۔ کہ انہوں نے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر فاسق بنا قبول کر لیا ہے۔ کچھ اللہ پر ایمان ترک کر کے مرتد منافق یا کھلے کا فربن چکے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ موسیٰ علیہ السلام و حضر کے قصوں سے اپنے لئے دلائل پکڑتے ہیں۔
(فتاوی: ٤١٨/١١)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس موضوع پر مزید رقمطراز ہیں ۔’’ لوگ موسیٰ علیہ السلام و خضر کے واقعے سے دو طرح سے دلیل لیتے ہیں۔‘‘

◈کہ خضر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کو جاننے والے تھے اس ارادے کو حقیقت کو نیہ کہتے ہیں اس لئے موسیٰ علیہ السلام کے حکم ونہی کی اطاعت ان سے ساقط ہو گئی تھی یہ بات کہنا ایک بہت بڑی جہالت ہے بلکہ کفر اور گمراہی کی انتہا ہے۔ جس پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہنا جو شخص اللہ کو رب مانے اور تقدیر پر ایمان لائے اس کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امرونہی کی پابندی ضروری نہیں اس بات سے اللہ تعالیٰ کے تمام رسولوں اور ان کی کتابوں کا انکار لازم آتا ہے جو کہ کفر ہے۔

◈بعض جہلا یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ ان کے لئے شریعت محمدی سے خروج جائز ہے جیسا کہ خضر موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے پابند نہ تھے وہ کہتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ کے بعض ولیوں کو کشف کے ذریعے ایسے علوم حاصل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شریعت کی اتباع سے کلی یا جزوی طور پر مستغنی ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہت سے لوگ مطابقایا بعض وجوہات سے ولی کو نبی پر فضیلت بھی دیتے ہیں۔ (نعوذ باللہ ) اور ان کی دلیل یہی قصہ خضر ہوتا ہے۔

◈مذکورہ بالا تمام فاسد خیالات نظریات بہت بڑی جہالت و گمراہی پر مبنی ہیں بلکہ کفر و نفاق سے لبریز ہیں۔ دین اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ رسول عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات کے لئے رسول بن کر آئے ہیں عرب و عجم بادشاہ وعوام علماء اور زہاد غرض ہر شخص کے لئے تا قیامت رسول بن کر آئے ہیں جن وانس میں سے کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع سے خروج کرے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے روگردانی کرے بلکہ اگر سابقہ انبیاء بھی زندہ ہو جائیں تو وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کریں گے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ کہ عیسی علیہ السلام جب قرب قیامت آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے تو اس وقت شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پیروکار ہوں گے۔

جب سابقہ انبیاء اور عیسی علیہ السلام پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض ہے تو عام لوگوں پر کیوں نہیں ہے ؟؟ اس کے علاوہ اسلام کا لازمی تقاضا بھی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد اب شریعت موسوی و عیسوی علیہما السلام کی اتباع بھی جائز نہیں ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے شریعت سے خروج جائز ہے؟؟
شیخ الاسلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال فاسد کو باطل کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں بتا دیا جائے کہ موسیٰ علیہ السلام خضر کی طرف رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے اسی طرح اللہ تعالی نے خضر پر بھی فرض نہیں کیا تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کریں بلکہ بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق خضر نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ” مجھے اللہ نے ایسا علم عطا فرمایا جو آپ کو نہیں ملا اور آپ کو جو علم و نبوت ملی ہے وہ مجھے نہیں ملی ۔ موسیٰ علیہ السلام خاص طور پر صرف بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((كان النبي يبعث الى قومه خاصة ، وبعثت إلى الناس عامة))
تمام انبیاء خاص طور پر اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے جاتے تھے۔ اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں“
(بخاری و مسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں تمام افراد شامل ہیں ۔ کوئی شخص قصہ خضر سے استدلال کرتے ہوئے شریعت سے مستعفی نہیں ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو یا کسی اور کو شریعت سے مستنی سمجھے گا وہ بالا تفاق کافر ہوگا۔ دراصل خضر بھی شریعت موسیٰ سے خارج نہ ہوئے تھے۔ بلکہ جن اسباب کی بنا پر یہ واقعہ پیش آیا جب وہ اسباب خضر نے موسیٰ علیہ السلام کو بتائے تو موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان کی موافقت کی جس سے ان کا آپس میں کوئی اختلاف نہ تھا اگر خضر شریعت موسوی کے مخالف ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام اس سے اتفاق نہ کرتے ۔ اس مسئلے کی وضاحت کے بعد یہ دعوی کرنا جائز نہیں جیسا کہ غالی صوفیاء کا نظریہ ہے کہ وہ شریعت محمدیہ کے پابند نہیں ہیں یہ لوگ قرآن کی ایسی آیات سے غلط استدلال کرتے ہیں۔
جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ .
(حجر : ٩٩)
’’اپنے رب کی عبادت کرو حتی کہ یقین آجائے۔‘‘
یہ صوفیاء یقین سے مراد علم و معرفت لیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں کشف و معرفت سے علم حاصل ہو گیا ہے لہذا اب شریعت کی پابندی ضروری نہیں ہے۔ ایسی بات کہنا کفر و نفاق ہے ۔ ( تمام مفسرین کے نزدیک یقین سے مراد اختتام زندگی یعنی موت ہے۔ موت آجانے تک عبادت کرتے رہو اس آیت سے مراد یہ ہے نہ کہ وہ جو صوفیاء نے کہا ہے ۔ ( مترجم )
❀ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے۔
’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو کسی شخص کی رائے کی وجہ سے سرکشی کرتے ہوئے رد کرنا کفر نہیں تو کیا ہے ۔ ؟ تم بھی اپنے اقوال و اعمال کو دیکھو۔ ایسا نہ ہو کہ تم بھی نقصان وگھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ۔‘‘
قارئین کرام ! جب قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم رد کرنا سرکشی و انکار کرنا کفر کہلائے گا تو شریعت سے بالکل نکل جانا کیا کہلائے گا ؟؟؟

اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے والا دسواں کام

❀ مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
((الاعراض عن دين الله تعالى لا يتعلمه ، ولا يعمل به ))
’’اللہ تعالیٰ کے دین سے بے پرواہی کرنے والا جونہ اس کو سیکھتا ہے نہ اس پر عمل کرتا ہے تو وہ شخص کافر ہے‘‘۔
تشریح :
اس حکم کی دلیل یہ آیت ہے۔
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَاؕ-اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ (السجدة: ٢٢)
’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیات کا وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے منہ پھیر لیا۔ ہم بھی مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔‘‘
پیچھے مذکور دین اسلام سے اعراض اور روگردانی کرنے سے مراد ہے کہ دین اسلام کی بنیادی و عقیدہ کی تعلیم سے بھی لاعلم رہنا جن بنیادی عقائد تعلیم سے آدمی مسلمان بنتا ہے۔ ان سے مراد تفصیلی علم نہیں ہے۔ کیونکہ تفصیلی علم تو صرف علماء و طلباء دین کو حاصل ہوتا ہے۔
علامہ عبداللطیف بن عبد الرحمٰن رحمہ اللہ سے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا ’’ جب ایمان کی اصل بنیاد موجود ہو تو لوگوں میں ایمان کی کمی بیشی اور اس کے درجات میں تفاوت (اتار چڑھاو ) ہوسکتا ہے۔ لیکن جب ایمان کی بنیاد ہی نہ ہو وہ تو حید ہی نہ ہو جس کے ذریعے انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ انسان کلی طور پر دین اسلام سے منہ پھیرے اعراض کرے (نہ دین کو سمجھے، نہ پڑھے نہ اسکو اہمیت دے بلکہ مطلقاً اسلام کی بنیاد سے ہی غافل رہے ) تو اسی چیز کو کفر کہتے ہیں۔
❀ فرمان الہٰی ہے۔
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ (الاعراف: ۱۷۹)
اور بے شک ہم نے جہنم کے لئے بہت جن اور انسان پیدا کئے ہیں۔
❀ فرمان الہٰی ہے۔
وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى (طٰہٰ: ١٢٤)
’’اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی میں تنگی رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھا ئیں گئے۔‘‘
اس کلام کے متعلق علامہ سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ شیخ عبداللطیف رحمہ اللہ کے کلام سے واضح ہو گیا کہ اعراض کرنے سے مراد فرائض و مستحبات کو ترک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کے بنیادی عقائد و تعلیمات سے روگردانی مراد ہے۔ جن عقائد کے ذریعے کوئی اسلام میں داخل ہوتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ کفر اور اعراض سے مراد وہ کفر ہے جس میں کوئی شخص اپنے دل اور کانوں سے رسول اللہ ﷺ کے اقوال سے اعراض کرے۔ رسول اللہ ﷺ کی نہ ہی تصدیق کرے اور نہ ہی تکذیب کرے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہی دوستی رکھے اور نہ ہی دشمنی رکھے۔ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کتاب و سنت لائے ہیں۔ ان کی طرف مائل نہ ہو ۔
(مدارج السالکین)
اعراض کے معنی کے وضاحت کے بعد آپ کے سامنے ہمارے زمانے اور پچھلے زمانے کے قبروں کے پجاریوں کا حکم واضح ہو گیا ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں۔ جنہوں نے کبھی اسلام کے بنیادی عقائد پر غور ہی نہیں کیا۔ ایمان باللہ اور عقیدہ توحید کو سیکھا اور جانا ہی نہیں۔ کلمہ پڑھنے والے کلمہ کی حقیقی مفہوم سے نا آشنا ہیں کیونکہ انہوں نے کلمہ کے تقاضوں کو نہ سمجھا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی بلکہ ان کے دل و دماغ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ لوگ نہ کسی وعظ کے وعظ کی اور نہ ہی کسی ناصح کی نصیحت کی پرواہ کرتے ہیں۔
❀ فرمان الہٰی ہے۔
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَمَّاۤ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ۔ (الاحقاف:۳)
’’ اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں‘ منہ موڑ لیتے ہیں‘‘۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ موڑنے والوں کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ یہ جاہل ہیں۔ لہذا کافرنہیں ہیں۔؟ جاہل کو جب اس کی غلطی بتائی جاتی ہے تو وہ حق بات کو مان لیتا ہے اور اپنی غلطی سے رجوع کرتا ہے لیکن یہ بتوں اور غیر اللہ کی عبادت پر ڈٹیں ہوئے ہیں۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر کان ہی نہیں دھرتے۔ اور تو اور جوشخص ان کے باطل ہونے پر تنقید کرے اس کو ایذائیں پہنچاتے ہیں۔ اسے لوگوں کے لئے جہالت کو بطور عذر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَاؕ-اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ (السجدة: ٢٢)
’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر یادلائی گئیں ۔ پھر بھی اس نے منہ پھیر لیا۔ یقیناً ہم بھی گناہ گاروں سے انتقام لینے والے ہیں‘‘۔
مصنف رحمہ اللہ دس نواقض اسلام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں اسلام کے خلاف ان دس میں سے کسی بھی عمل کا ارتکاب کرنے والا سنجیدہ ہو یا مذاق کر رہا ہو یا کسی خوف کی بنا پر اسلام کے خلاف عمل پیرا ہو ان تینوں حالتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اگر کوئی شخص مجبور ہوتو یہ قابل معافی ہے مجبوری کی بنا پر خلاف اسلام عمل کرنے کی دلیل یہ آیت ہے۔
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰـكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (النحل : ١٠٦)
’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے۔ علاوہ اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔ مگر جو کھلے دل سے کفر کرے تو ان پر اللہ کا غضب ہے۔ اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔
مجبوری کا اظہار قول و عمل دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اس آیت میں اس بات کی اجازت ہے۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ آخر میں فرماتے ہیں۔
كلها من اعظم ما يكون خطراً واكثر ما يكون وقوعًا .
’’یعنی مذکورہ بالا دس نواقض اسلام سب کے سب بڑے ہلاکت انگیز ہیں اور بہت ہی زیادہ لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔‘‘
ہم اس شرح کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے تمام شبہات واعتراضات کو دور کرنے والے کلام کے ساتھ ختم کر رہے ہیں یہ جو آپ نے اپنی کتاب ’’ کشف الشبات‘‘ میں بیان فرمایا ہے لکھتے ہیں۔
اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ توحید کا اقرار دل زبان اور عمل ہر چیز سے ہونا چاہیے ان تینوں میں سے کسی ایک چیز سے انکار کرنے کی وجہ سے کوئی شخص مسلمان نہیں بن سکتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص تو حید کا علم تو رکھتا ہو مگر اس کا عمل توحید پر مبنی نہ ہو تو وہ سرکش کا فر ہو گا۔ جیسا کہ ابلیس اور فرعون ہوئے بہت سے لوگ یہاں غلطی کرتے ہیں کہتے ہیں ہاں یہ حق ہے ہم اس بات کو مانتے ہیں۔ مگر ہم اس حق پر عمل نہیں کر سکتے ہمارے شہر یا ملک والوں کے نزدیک یہ عمل کرنا اچھا نہیں ہے ۔ انہیں یہ خبر نہیں کہ کفر کے اکثر لیڈ رحق کو جانتے ہیں۔ مگر ان کے پاس بھی حق کو چھوڑنے کے لئے ایسے ہی بہانے ہوتے ہیں۔
❀ جیسا کہ فرمان الہٰی ہے۔
اشْتَرَوُا بِايَتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا
(التوبة: ٩)
’’انہوں نے اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت میں بیچ دیا ہے۔‘‘
’’اس طرح کوئی شخص تو حید کا ظاہری عمل تو کرے مگر اس توحید کا دل سے اعتقاد نہ رکھتا ہو۔ تو وہ منافق ہوگا ایسا شخص کفار سے بھی برا ہے۔‘‘
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ.
(النساء: ١٤٨)
’’ بے شک منافقین جہنم کے نچلے گڑھے میں رہنے والے ہیں۔‘‘
اس مسئلے کی وضاحت اس وقت سامنے آتی ہے۔ جب تم لوگوں کی زبانوں پر غور وفکر کرو گے تم دیکھو گے کہ لوگ حق کو مان کر بھی عمل نہیں کرتے ان کو دنیاوی نقصان دنیاوی قدر ومنزلت اور لوگوں کی تنقید کا ڈر ہوتا ہے اس طرح بہت سے ظاہری عمل کرنے والے دلی طور پر منافق ملتے ہیں (اب تو ہمارے زمانے میں اس سے بھی لوگ آگے جاچکے ہیں کہ خود تو حید پر عمل نہیں کرتے البتہ موحدین سے آمادہ پریکار رہتے ہیں مشرک حکام کے ہاں ان کی شکایتیں کرتے ہیں تا کہ یہ موحدین ان لوگوں کے دنیاوی مفادات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں اس کے باوجود یہ لوگ ایمان کا دعوی کرتے ہیں اور موحدین کے اس عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہے کہ یہ لوگ اللہ کے دین کے دشمنوں سے عداوت رکھتے ہیں اور اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں موحد دین پر اس طرح کے اعتراضات کرنے والے یا ان کی شکایتیں کرنے والے نفاق کے بھی مرتکب ہیں اور توحید کے معاملے میں انتہائی تفریط کا شکار ہیں ) لیکن عزیزان گرامی ! آپ کو چاہیے کہ قرآن کی دو آیات پر غور و فکر کریں۔ پہلی آیت میں ارشاد الہی ہے۔
◈لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ. (التوبة : ٦٥)
’’عذر پیش نہ کرو تم ایمان لانے کے بعد کا فر ہو گئے ہو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اہل روم کے خلاف جہاد کیا تو اس موقع پر بعض منافقوں نے ازراہ طنز و مزاح کلمہ کفرادا کیا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی دیکھئے صرف مذاقاً کفر کرنے سے بھی کفر ہوتا ہے تو دنیاوی لالچ طمع اور حرص دولت و جاہ کی وجہ سے کفر کرنا کیسا کفر اور کتنا نقصان ہوگا ؟؟ .
دوسری آیت میں اللہ کا فرمان ہے۔
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيْمَانِةٍ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنَّ بِالْإِيْمَانِ وَلَكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ O ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الحيوةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ (النحل: ١٠٦-١٠٧)
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے علاوہ اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔ مگر جو کوئی کھلے دل سے کفر کرے تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا اس آیت میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا کوئی عذر اللہ تعالی نے قبول نہیں فرمایا۔ یہ کفر دنیاوی لالچ اور حرص مال کے لیے ہو یا اپنے اہل وعیال گھر بار اور وطن کی محبت کی بنا پر ہو اللہ کی نظر میں برابر ہے۔ سنجیدگی سے کفر کیا جائے یا از راہ مذاق کفر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس آیت میں مجبوراً کفر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ہے۔ مجبوری کی دو اقسام ہیں۔
اول:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجبوری سے در گزر کیا ہے۔ انسان جن چیزوں سے مجبور ہوتا ہے زبان یاعمل سے دل کے معاملات پر کسی کا اختیار نہیں چلتا لہذا دل سے تو ایمان پر راضی رہنا چاہیے۔
ثانی:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفر کرنے کی وجہ دین اسلام سے نفرت و بغض یا کفر سے محبت نہیں ہے۔ بلکہ صرف دنیا کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ سب مکر وہ افعال کیے جاتے ہیں۔ دنیا کو دین پر ترجیح دی جاتی ہے۔
(واللہ اعلم)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!