الحمد للّٰہ اور سلام ہو ان بندوں پر جنہیں اللہ نے منتخب کیا! یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ مصائب و مشکلات سے بھرپور ہے۔ مسلمانوں نے کئی اہم مواقع پر غم کا سامنا کیا، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات، پھر سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا عثمان بن عفان، اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم کی شہادتیں۔ ابھی یہ غم کم نہ ہوئے تھے کہ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو نواسۂ رسول، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے، جنت کے نوجوانوں کے سردار، اور گلستانِ رسالت کے پھول، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا سانحہ پیش آیا۔مصائب و مشکلات کے وقت غمگین ہونا اور آنسو بہانا ایک فطری عمل ہے۔ تاہم بے صبری، چیخ و پکار، ماتم، اور سینہ کوبی شریعت میں متفقہ طور پر حرام اور ممنوع قرار دی گئی ہیں۔ ایسے مواقع پر صبر و استقلال کا مظاہرہ کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"(اے نبی!) آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)، یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مغفرت و رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔” (البقرۃ: 2/155-157)
بے صبری اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، اور اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، جیسا کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو رخساروں کو پیٹے، گریبانوں کو پھاڑے، اور جاہلیت کی پکار پکارے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔”(صحیح بخاری: 1294، صحیح مسلم: 103)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے وقت چیخنے چلانے والی، سر منڈانے والی، اور گریبان چاک کرنے والی عورت سے بری ہیں۔”(صحیح بخاری: 1296، صحیح مسلم: 104)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت میں چار کام جاہلیت والے ہیں، جنہیں بعض لوگ نہیں چھوڑیں گے: نسب میں فخر، نسب میں طعن و عیب، ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا، اور نوحہ کرنا۔ نوحہ کرنے والی عورت اگر توبہ نہ کرے اور اسی حالت میں مر جائے، تو قیامت کے دن اسے گندھک کی قمیص اور خارش کی چادر پہنائی جائے گی۔”(صحیح مسلم: 934)
محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی ایک مخصوص فرقہ مختلف بدعات اور غیر شرعی اعمال میں ملوث ہو جاتا ہے، جیسے ماتم کرنا، سینہ کوبی، نوحہ اور بین کرنا، مرثیہ خوانی کی مجالس منعقد کرنا، تعزیہ نکالنا (حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کی شبیہ)، تعزیہ کو امام باڑہ یا تعزیہ خانہ سے لے جانا، تعزیہ کی زیارت کرنا، اس کے ساتھ عرضیاں باندھنا، اسے چومنا اور اس کے سامنے رکوع و سجدہ کرنا، اس پر منت مانگنا، بچوں کو اس کے ساتھ بطور قیدی باندھنا، اور اس کی آرائش کرنا وغیرہ۔
اسی طرح، وہ علمِ عباس نکالنا، آگ پر ماتم کرنا، زنجیروں اور تلواروں سے خود کو زخمی کرنا، چہرہ پیٹنا، گریبان چاک کرنا، ننگے پاؤں چلنا، بیڑیاں پہننا، کالا لباس پہننا، ذوالجناح (حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی شبیہ) نکالنا، اور بچوں کو اس کے نیچے سے گزارنا جیسے اعمال کرتے ہیں۔ چھ محرم کو علی اصغر کا جھولا، سات محرم کو قاسم بن حسن کی مہندی نکالتے ہیں، اور تعزیہ و ذوالجناح کو سجدہ کرتے ہیں جسے تعظیمی سجدہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی نیاز بھی پیش کرتے ہیں۔
بعض علاقوں میں جلوس کے ساتھ ڈھول اور دیگر آلاتِ موسیقی کا استعمال، مرد و زن کا اختلاط، شامِ غریباں کا انعقاد، بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں بیان کرنا، قرآن و حدیث کی مخالفت، اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بغض کا اظہار اور ان پر زبان درازی کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے مقام کا انکار، بعض اہل بیت کی شان میں غلو، بعض کی شان میں کمی، قرآن و حدیث کی باطل تاویلات، اہل سنت والجماعت کی توہین اور ان پر الزام تراشی، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات بھی اس میں شامل ہیں۔
یقیناً، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ہیں:
"کیا جس کے لیے اس کے برے عمل کو خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہے، (آپ اسے بچا سکتے ہیں؟)، اللہ تعالیٰ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔”(فاطر: 35/8)
اسی طرح فرمایا:
"(اے نبی!) کہہ دیجیے کیا ہم تمہیں اعمال کے اعتبار سے گھاٹا پانے والوں کی خبر نہ دیں؟ (یہ) وہ لوگ ہیں جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ختم ہو گئی، اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔”(الکہف: 18/103-104)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیطان نے لوگوں میں دو طرح کی بدعات کا آغاز کیا۔ ایک بدعت یہ ہے کہ دس محرم کو غم و نوحہ کا دن قرار دیا گیا، جس میں لوگ اپنے جسم پیٹتے ہیں، چیخ و پکار کرتے ہیں، روتے ہیں، پیاس برداشت کرتے ہیں، مرثیہ خوانی کرتے ہیں، اور اس طرح کے دیگر کام انجام دیتے ہیں۔ یہ عمل سلف صالحین کو گالیاں دینے، ان پر لعنت کرنے، اور بے گناہ لوگوں کو گناہگاروں کے ساتھ شامل کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے، حتیٰ کہ یہ لوگ اولین مسلمان شخصیات پر بھی سبّ و شتم کرتے ہیں۔ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کئی قصے بیان کیے جاتے ہیں، جن میں زیادہ تر جھوٹے ہیں۔ اس عمل کو شروع کرنے والے کا مقصد درحقیقت فتنہ و فساد کا دروازہ کھولنا اور امت میں اختلاف و فرقہ پرستی کو بڑھانا تھا۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ عمل نہ فرض ہے اور نہ مستحب، بلکہ پرانے مصائب پر ماتم اور نوحہ کرنا ان بڑے گناہوں میں سے ہے، جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔” (منہاج السنہ لابن تیمیہ: 2/322-323)
جس طرح یہودی سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور عیسائی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے محبت کے دعویدار ہیں، لیکن ان کی تعلیمات سے مکمل انحراف کرتے ہیں، اسی طرح یہ لوگ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان کی تعلیمات اور طرز زندگی سے دور ہیں۔ ان کی کتابیں اہل بیت کے فضائل اور مناقب سے خالی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت جو حقیقتاً اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں، وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اہل بیت کا مقام و مرتبہ بلا غلو و افراط قبول کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں اہل بیت کے فضائل سے بھری پڑی ہیں، اس کے باوجود کچھ لوگ اہل سنت سے بغض اور دشمنی رکھتے ہیں۔ کیوں؟ جب اہل سنت ان کے ماتم کو رد کرتے ہیں تو بطور اعتراض یہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے سینے پر اور میرے گھر میں ہوئی، میں نے اس میں کسی پر ظلم نہیں کیا۔ میری ناسمجھی اور کم عمری کا نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ میری گود میں تھے، پھر میں نے آپ کا سر مبارک ایک سرہانے پر رکھا اور عورتوں کے ساتھ سینہ اور چہرہ پیٹنے لگی۔” (مسند احمد: 6/274، سند: حسن)
یہ عورتیں لاعلمی کی بنا پر اس حرام عمل کا ارتکاب کر بیٹھیں، جن میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ اسی لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کو اپنی ناسمجھی اور کم عمری کا نتیجہ قرار دیا۔ ویسے بھی صحابہ کرام کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا:
"اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔”(التوبہ: 9/100، المجادلہ: 58/22، البینۃ: 98/8)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم سے درگزر کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ مؤمنوں پر بڑا فضل والا ہے۔”(آل عمران: 3/152)