اسلام سے قبل قیدیوں کے ساتھ سلوک
تاریخ کے اوراق میں یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلام سے قبل قیدیوں کے ساتھ بے حد ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ قیدیوں کو اندھے کنوؤں میں ڈال کر اوپر پتھر رکھ دیے جاتے تھے۔ الطاف حسین حالی نے ان مظالم کی منظرکشی یوں کی ہے:
- قیدیوں کے ہاتھ پیر توڑ کر ان پر کتے چھوڑ دیے جاتے۔
- ان کے جسموں سے بوٹیاں نوچ کر گرم سلاخوں سے مارا جاتا۔
- خار دار کوڑوں سے پیٹا جاتا یا اونٹوں اور گھوڑوں سے روندوا دیا جاتا۔
- مقتولین کے اعضاء کاٹ دیے جاتے اور ان کے کلیجے چبانا معمول تھا۔
جنگ کے اسلامی اصول اور مقصد کا تعین
رسولِ اکرم ﷺ نے جنگ کے نظریے میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ جنگ کو محض خون ریزی کے دائرے سے نکال کر ایک اعلیٰ اخلاقی اور مدنی مقصد سے جوڑا۔
قبل از اسلام جنگ کا مقصد انتقام اور وحشیانہ خونریزی ہوتا تھا، لیکن آپ ﷺ نے "جہاد فی سبیل اللہ” کی اصطلاح متعارف کرائی، جس کا مطلب ہے کہ جنگ صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اس کے اصولوں کے تحت کی جائے۔
غزوات میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک
غزوہ بدر
غزوہ بدر میں مسلمانوں نے قریش کے ظلم و ستم سہنے کے بعد قیدیوں کو گرفتار کیا۔ یہ قیدی وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر تیرہ سال تک مظالم ڈھائے اور انہیں مکہ سے نکال دیا۔
قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک:
نبی اکرم ﷺ نے قیدیوں کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرکے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تلقین کی۔ انصار نے ان قیدیوں کی دیکھ بھال کی، خود کھجوریں کھائیں اور انہیں روٹی کھلائی۔
طبری میں ابو عزیز کا قول ہے کہ انصار قیدیوں کو خود سے بہتر کھانے دیتے تھے۔
مشورہ اور فیصلہ:
قیدیوں کے بارے میں مشورے کے دوران حضرت عمرؓ نے انہیں قتل کرنے، جبکہ حضرت ابوبکرؓ نے فدیہ لے کر چھوڑنے کی تجویز دی۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو ترجیح دی۔
- صاحب ثروت قیدیوں سے مال لیا گیا۔
- صاحب علم قیدیوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری دی گئی۔
- غریب قیدیوں کو بغیر کسی شرط کے آزاد کردیا گیا۔
فتح مکہ
فتح مکہ انسانیت کی تاریخ کا ایک بے مثال دن تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب مکہ کے ظالموں کو انتقام کا خوف لاحق تھا، لیکن نبی اکرم ﷺ نے تمام دشمنوں کو معاف کردیا اور اعلان کیا:
"جاؤ، تم سب آزاد ہو۔”
یہ اعلان دنیا کے سامنے عفو و درگزر اور انسانیت کی سب سے بڑی مثال پیش کرتا ہے۔
موجودہ دور کے جنگی اصول اور اسلامی غزوات کا تقابل
جدید جنگوں کی بربریت
- پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں تقریباً 4 کروڑ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔
- 11 ستمبر 2001 کے بعد افغانستان اور عراق میں لاکھوں بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا۔
- "ابوغریب جیل” میں انسانیت سوز مظالم نے حیوانیت کی انتہا کر دی۔
اسلامی غزوات کی انسانی اقدار
- عہدِ نبوی کے تمام غزوات میں قیدیوں کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔
- تاریخ کے مطابق تمام غزوات میں کل 6564 قیدی اور 759 افراد قتل ہوئے، جبکہ 6348 قیدیوں کو بغیر کسی شرط کے آزاد کردیا گیا۔
- غلامی کو ختم کرنے کے لیے اسلام نے تدریجی طریقے اپنائے اور غلاموں کی آزادی پر بے شمار اجر و فضائل کا وعدہ کیا۔
اسلامی اصولوں کی عظمت
اسلامی جنگوں نے انسانی اقدار کو ایک نئی زندگی دی اور ان اصولوں نے انسانی معاشرے کو روشنی عطا کی۔
سیرتِ محمدی ﷺ کی روشنی میں موجودہ دور کی متعصب اقوام کو یہ پیغام ملتا ہے کہ امن، مساوات اور انسانیت کی اصل روح اسلام کے اصولوں میں پنہاں ہے۔