سوال
سوال: وہ کون سی چیزیں ہیں جن سے استنجاء کرنا جائز نہیں؟
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ممنوع اشیاء جن سے استنجاء کرنا جائز نہیں:
◈ ہڈی
◈ لید (جانوروں کا گوبر)
◈ گوبر
◈ کوئلہ
◈ کھانے کی چیزیں
احادیث کی روشنی میں:
عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لید اور ہڈی سے استنجاء مت کرو کیونکہ یہ تمہارے جنات بھائیوں کی خوراک ہے”
ترمذي (1\11)، نسائي (1\16)، المشكاة (1\42)
ابو ہریرہؓ کی روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میں تمہارے لیے بچے کے باپ کی طرح ہوں، جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرو اور نہ پیٹھ۔ (استنجاء کے لیے) تین پتھروں کا استعمال کرو، لید اور ہڈی سے منع فرمایا، نیز داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے سے بھی منع فرمایا۔”
ابن ماجہ (1\114)، دارمي (1\138)، مشكوة (1\42)
رویفع بن ثابتؓ کی روایت:
آپ ﷺ نے فرمایا:
"جس نے جانوروں کی لید و گوبر سے استنجاء کیا تو محمد ﷺ اس سے بیزار ہیں”
ابوداؤد (1\6)، مشكوة (1\43)
امام ابوداؤد اور ابن مسعودؓ کی روایت:
جنات کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی:
"اپنی امت کو لید، ہڈی اور کوئلے سے استنجاء سے منع فرمائیں، اللہ نے ان چیزوں میں ہماری خوراک رکھی ہے۔”
رسول اللہ ﷺ نے ان سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیا۔
کپڑا اور قیمتی اشیاء
کپڑا چونکہ محترم چیز ہے، اس سے استنجاء کرنا مال کا ضیاع ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اضاعتِ مال سے منع فرمایا ہے۔
اگر جنات کی خوراک سے استنجاء حرام ہے تو انسانوں کے کھانے کی اشیاء سے بدرجہ اولیٰ حرام ہوگا۔
ٹشو پیپر اور کاغذ
◈ ٹشو پیپر چونکہ اسی مقصد کے لیے تیار کیے جاتے ہیں، اس لیے ان سے استنجاء جائز ہے۔
◈ نفع بخش کاغذات جیسے وہ جن پر قرآن، سنت یا علومِ نافعہ لکھے گئے ہوں، ان سے استنجاء جائز نہیں کیونکہ:
➊ یہ اضاعتِ مال ہے۔
➋ ان کے ساتھ استنجاء کرنا سوء ادب ہے۔
◈ علماء کا رویہ: شمس الأئمہؒ تو لکھائی سے خالی ورق کا بھی احترام کیا کرتے تھے۔
استنجاء کے طریقے
◈ پتھر یا ڈھیلے سے بھی استنجاء کیا جا سکتا ہے
◈ پانی سے بھی استنجاء جائز ہے
◈ صرف پانی سے استنجاء واجب نہیں
بعض لوگوں کا غلط فہم:
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف پانی سے استنجاء کرنا ہی صحیح ہے، جبکہ:
◈ پتھروں سے استنجاء کرنا سنت سے ثابت ہے۔
◈ محض پانی کا استعمال قرآن و سنت سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
استنجاء میں دونوں کا استعمال: پتھر اور پانی
اختلافِ رائے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ دونوں کا جمع کرنا غلو ہے۔
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ یا تو صرف پتھروں یا صرف پانی سے استنجاء کرتے تھے۔
آیت اور حدیث کا ذکر:
بعض لوگ حدیث لاتے ہیں کہ اہلِ قُباء پتھر اور پانی دونوں سے استنجاء کرتے تھے، اس پر نازل ہوا:
{فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ }
[التوبة: 108]
اس حدیث پر جرح:
امام نوویؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے اس کو ضعیف قرار دیا۔
امام ابن کثیرؒ نے بھی
(تفسیر سورۃ توبہ: 2؍390)
میں اسے ضعیف کہا۔
اصل حدیث کا بیان:
ابوداؤد میں ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ اہلِ قُباء کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:
"وہ پانی سے استنجاء کرتے تھے”
عربوں کی عادت:
عرب صرف پتھروں پر اکتفا کرتے تھے۔
قُباء کے لوگ پانی سے استنجاء کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح فرمائی۔
علی بن ابی طالبؓ کی حدیث:
امام بیہقی
(106۔1)
میں ایک روایت ہے:
علیؓ نے فرمایا:
"ان (اہل قُباء) کا پاخانہ مینگنی کی مانند ہوتا، گوبر جیسا نہیں ہوتا۔ تم پتھروں کے بعد پانی استعمال کرو۔”
اس روایت پر تحقیق:
یہ روایت موقوف اور غیر صحیح ہے۔
عبدالملک بن عمر اور علیؓ کے درمیان انقطاع ہے۔
مدلس ہے، سماعت کی تصریح نہیں۔
بیہقیؒ نے
"باب الجمع في الاستنجاء بين المسح بالأحجار والغسل بالماء”
میں اس کا ذکر کیا۔
صحیح دلائل اور علماء کا موقف:
امام ابوداؤد
(رقم 45)
میں ابو ہریرہؓ کی روایت:
رسول اللہ ﷺ قضاء حاجت کے لیے جاتے تو وہ پانی لاتے، آپ استنجاء کرتے، پھر زمین پر ہاتھ رگڑتے اور دوسرا پانی لا کر وضو فرماتے۔
صحیحن میں انسؓ کی روایت:
میں اور ایک دوسرا لڑکا پانی کا برتن اور نیزہ لے کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جاتے، آپ پانی سے استنجاء فرماتے۔
استدلال:
یہ واضح کرتا ہے کہ نبی ﷺ نے قضاء حاجت کے بعد پانی سے استنجاء کیا، ممکن ہے پہلے پتھروں سے صفائی کی ہو۔
نبی ﷺ کا کثیر الحیاء ہونا ثابت ہے، اس لیے امکان ہے کہ پانی لانے والے حضرات قضائے حاجت کی جگہ کے اندر نہیں گئے۔
نتیجہ:
پتھر اور پانی دونوں کا استعمال ممکن ہے، مگر اس پر جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں اکثر ضعیف ہیں۔
جو احادیث موجود ہیں، ان سے صرف پانی سے استنجاء کرنا ثابت ہوتا ہے، پتھروں کے استعمال کا ذکر اکثر میں نہیں ہوتا۔
اس لیے پتھر اور پانی دونوں کے استعمال پر احتیاط سے رائے قائم کرنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب