سوال
قتل مرتد کا حکم ان لوگوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد اسلام سے مطمئن نہیں ہیں؟ کیا انہیں اسلام چھوڑنے پر سزائے موت دینا زیادتی نہیں؟
جواب: اصولی اور عملی پہلو
اس سوال کا جواب دو طرح سے دیا جا سکتا ہے: اصولی اور عملی۔
اصولی جواب:
ہر دین اپنے ماننے والوں کی اولاد کو خود بخود اپنے پیروکاروں میں شمار کرتا ہے۔ یہ تصور کہ کسی شخص کو بالغ ہونے کے بعد مذہب کا انتخاب کرنے کی آزادی دی جائے، عملاً ناممکن اور غیر معقول ہے۔ اگر کسی دین یا ریاست میں پیدا ہونے والے افراد کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد اس دین یا ریاست کی پیروی کریں یا نہ کریں، تو اس سے کوئی بھی اجتماعی نظام مستحکم نہیں رہ سکتا۔
کسی بھی نظام کی بقا اور استحکام کا انحصار اس کی مستقل آبادی پر ہوتا ہے، جو اس کے اصولوں کو نسل در نسل منتقل کرتی ہے۔ اگر ہر نسل کو دین یا ریاست کی وفاداری میں شک کی گنجائش دی جائے تو پورا نظام انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ لہذا، یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی اولاد پیدائشی طور پر مسلمان سمجھی جائے اور انہیں اسلام کے قوانین کا پابند کیا جائے۔
عملی جواب:
عملاً جو اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے، وہ حقیقت میں نہیں ہوتا۔ ہر مستحکم نظام اپنی نئی نسل کو اپنی روایات، تہذیب اور اصول منتقل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اسلامی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد، اسلامی تعلیم و تربیت کی بدولت نئی نسلیں اسلام پر راضی اور اس کے وفادار ہوتی ہیں۔ صرف چند افراد ہی انحراف کی راہ اختیار کرتے ہیں اور ان کے لیے اصولوں میں نرمی نہیں کی جا سکتی۔
اگر کوئی شخص اجتماعی دین سے انحراف کرنا چاہے تو اسے دو راستے دئیے جا سکتے ہیں:
- وہ ریاست کی حدود سے باہر جا کر اپنے انحراف کا اظہار کرے۔
- یا پھر وہ اپنے انحراف میں اتنا پختہ ہو کہ اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو، کیونکہ نظام کی تبدیلی بغیر قربانی کے ممکن نہیں۔
خلاصہ:
جو لوگ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں، وہ اسلامی قوانین کے پابند ہوں گے اور اگر وہ اسلام سے انحراف کریں گے تو قتل مرتد کا حکم ان پر لاگو ہوگا، جیسا کہ تمام فقہائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے۔
صاحب تحریر کی رائے:
اس معاملے میں کچھ پیچیدگی ہے کہ موجودہ دور میں کئی نسلیں اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم رہی ہیں۔ اگر مستقبل میں اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے اور ارتداد کا قانون نافذ کیا جاتا ہے، تو اس سے معاشرے میں منافقت کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایک سال کی مہلت دی جائے، جس دوران جو لوگ اسلام سے عملاً منحرف ہو چکے ہیں، وہ اپنا غیر مسلم ہونا ظاہر کر کے نظام سے نکل جائیں۔ اس کے بعد اسلام سے انحراف کرنے والوں کو ارتداد کی سزا دی جائے گی۔