اجتہاد اور قضا کے متعلق دو احادیث کے درمیان موافقت
سوال: مندرجہ ذیل دو احادیث میں ہم کس طرح موافقت پیدا کر سکتے ہیں:
(1) ”قاضی تین ہیں: ایک جنت میں داخل ہوگا اور دو آگ میں۔ جو جنت میں جائے گا وہ ایسا آدمی ہوگا جس نے حق پہچان لیا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا اور ایک وہ آدمی جس نے حق پہچان لیا اور ظلم کیا تو وہ آگ میں ہوگا اور ایک وہ آدمی جس نے جہالت کی بنا پر لوگوں کا فیصلہ کیا تو وہ بھی آگ میں داخل ہو گا“۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3573]
(2) ”جس نے اجتہاد کیا اگر وہ راہ صواب ((درست راہ) پا گیا تو اس کو دوہرا اجر ملے گا اور اگر غلطی کر گیا تو اس کو ایک اجر ملے گا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 7352 صحيح مسلم 1716/15]
جواب: الحمد للہ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ان کا معنی بالکل واضح ہے۔ پہلی حدیث اس شخص کے متعلق ہے جو شرعی علم کے بغیر، جہالت کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے۔ اس کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے کیونکہ وہ بلا علم اللہ تعالیٰ کے خلاف جھوٹ گھڑتا ہے۔ اسی طرح جو حق پہچانتا ہے، لیکن صرف خواہش پرستی کے لیے کسی انسان کی محبت کی خاطر اور رشوت وغیرہ کی وجہ سے فیصلے میں ظلم کرتا ہے تو یہ دونوں جہنم میں جائیں گے کیونکہ پہلا علم کے بغیر فیصلہ کرتا ہے اور وہ جاہل ہے، لہٰذا وہ فیصلہ کرنے کا اہل نہیں، لیکن جو دوسرا ہے وہ قصدا ظلم و جور کرتا ہے لہٰذا وہ بھی جہنم میں جائے گا۔ ان میں جو پہلا تھا اس نے حق پہچانا، اس کے مطابق فیصلہ کیا، لہٰذا وہ جنت میں جائے گا۔
اور جو اجتہاد کے متعلق حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”’’جب فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرے، پھر اجتہاد (حق تک پہنچنے کی پوری کوشش) کرے اور درست فیصلے تک پہنچ جائے تو اس کو دوہرا آجر ملے گا، اور جب فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر غلط فیصلہ کرے تو اس کو ایک اجر ملے گا۔“
یہ اس عالم کے متعلق ہے جو شرعی احکام جانتا ہے جاہل نہیں، لیکن بعض امور اور اشیا اس پر مخفی اور مشتبہ ہو سکتی ہیں، پھر وہ پوری کوشش کرتا ہے، اور حق تلاش کرتا ہے، قرآن و سنت کے شرعی دلائل میں نظر فکر دوڑاتا ہے اور شرعی حکم کی تحقیق و جستجو کرتا ہے لیکن درست بات تک نہیں پہنچ پاتا، اس کو اجتہاد کا اجر ملتا ہے، لیکن وہ درست فیصلے کے اجر سے محروم ہو جا تا ہے اور اس کی غلطی معاف ہوتی ہے، کیونکہ وہ عالم ہے اور قضا سے خوب واقف ہے، لیکن کچھ مسائل میں اجتہاد اور کوشش بسیار کے باوجود غلطی کر جاتا ہے، جبکہ اس کی نیت نیک ہوتی ہے، لہٰذا اس کو اجتہاد کا اجر ملتا ہے اور صواب و درستی کا اجر نہیں ملتا۔
دوسرا اجتہاد کرتا ہے، حق تلاش کرتا ہے، شرعی دلائل پر بھر پور توجہ دیتا ہے اس کا ارادہ برا نہیں ہوتا بلکہ وہ مجتہد اور طالب حق ہوتا ہے، پھر اس کو حق اور درست فیصلے کی توفیق مل جاتی ہے، وہ اس کی راہ پالیتا ہے، اور حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، اس کو دو اجر ملتے ہیں، ایک درست فیصلے تک پہنچنے کا اور دوسرا اجتہاد اور محنت کا، الحمد للہ معلوم ہوا کہ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 212/23]