سوال : ایک شخص نے رمضان 1395 ھ میں دو روز صوم نہیں رکھا، رمضان 1396 ھ آ پہنچا، اس نے ان کی قضا نہیں کی۔ اسی طرح رمضان 1396ھ میں تین دن صوم چھوڑا۔ محرم 1397 ھ میں مسلسل ان پانچوں دنوں کی قضا کی۔ کیا اس پر کفارہ ادا کرنا ہے ؟
جواب : اگر آپ کا مذکورہ بالا افطار کسی عذر کی بنا پر تھا تو آپ کے ذمہ قضا کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:184]
’’ تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے “۔
اور اگر آپ کا افطار بغیر کسی عذر کے تھا تو آپ پر قضا کے ساتھ توبہ کرنا ہے۔ اس لئے کہ رمضان میں بغیر عذر کے افطار کرنا جائز نہیں ہے۔ رمضان 1396ھ میں جو تین دن صوم آپ نے چھوڑا تھا اس کی وجہ سے آپ پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لیکن رمضان 1395ھ میں جو دو دن آپ نے چھوڑا تھا اگر اسے آپ نے بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان 1396ھ تک مؤخر کیا ہے تو آپ پر قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ اور کھانے کی مقدار ہر مسکین کو اپنے شہر کی عام غذا میں سے آدھ صاع ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ آپ کا افطار کرنا جماع کی وجہ سے نہ ہو۔ اور اگر جماع کی وجہ سے ہو تو قضا کے ساتھ چھوڑے ہوئے ہر دن کے بدلہ درج ذیل کفارہ بھی ادا کرنا ضروری ہے :
ایک مومن غلام آزاد کرنا، اگر یہ نہ ملے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ اور توفیق دینے والاتو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “
جواب : اگر آپ کا مذکورہ بالا افطار کسی عذر کی بنا پر تھا تو آپ کے ذمہ قضا کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:184]
’’ تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے “۔
اور اگر آپ کا افطار بغیر کسی عذر کے تھا تو آپ پر قضا کے ساتھ توبہ کرنا ہے۔ اس لئے کہ رمضان میں بغیر عذر کے افطار کرنا جائز نہیں ہے۔ رمضان 1396ھ میں جو تین دن صوم آپ نے چھوڑا تھا اس کی وجہ سے آپ پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لیکن رمضان 1395ھ میں جو دو دن آپ نے چھوڑا تھا اگر اسے آپ نے بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان 1396ھ تک مؤخر کیا ہے تو آپ پر قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ اور کھانے کی مقدار ہر مسکین کو اپنے شہر کی عام غذا میں سے آدھ صاع ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ آپ کا افطار کرنا جماع کی وجہ سے نہ ہو۔ اور اگر جماع کی وجہ سے ہو تو قضا کے ساتھ چھوڑے ہوئے ہر دن کے بدلہ درج ذیل کفارہ بھی ادا کرنا ضروری ہے :
ایک مومن غلام آزاد کرنا، اگر یہ نہ ملے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ اور توفیق دینے والاتو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “
سوال : جو شخص رمضان کا کوئی صوم کسی عذر کی بنا پر چھوڑ دے اور دوسرے رمضان کی آمد تک اس کی قضا نہ کرے اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر کوئی شخص چھوٹے ہوئے صوم کی قضا کو عذر جیسے بیماری وغیرہ کی بنا پر مؤخر کر دے تو قدرت پانے کے وقت اس پر صرف قضا ہے۔ لیکن اگر بغیر کسی عذر کے قضا میں تاخیر کرے تو اس کا یہ عمل غلط ہے اور اس پر قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہے۔سوال : ایک شخص نے رمضان 92 ھ میں ایک دن صوم نہیں رکھا اور رمضان 93ھ کے آنے تک اس دن کی قضا نہیں کی، اس کا کیاحکم ہے ؟
جواب : جب انسان رمضان کے ایک دن یا کئی دنوں کے صوم کی قضا میں غفلت و لاپروائی برتے اور دوسرے رمضان کے آنے تک اس کی قضا نہ کرے، تو اسے فوت شدہ صوم یا صیام کی قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو آدھ صاع (سوا کلو تقریباً) گیہوں یا اس جیسی کوئی دوسری چیز جو عام طور پر اس کے ملک میں کھائی جاتی ہے کھلانا چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ قضا کو مؤخر کرنے کا کوئی معقول عذر نہ ہو، اور اگر کسی عذر جیسے بیماری یا ایسی کمزوری جس کی بنا پر قضاء صوم پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے قضا میں تاخیر کرے تو کھانا کھلانا ضروری نہیں ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“
جواب : اگر کوئی شخص چھوٹے ہوئے صوم کی قضا کو عذر جیسے بیماری وغیرہ کی بنا پر مؤخر کر دے تو قدرت پانے کے وقت اس پر صرف قضا ہے۔ لیکن اگر بغیر کسی عذر کے قضا میں تاخیر کرے تو اس کا یہ عمل غلط ہے اور اس پر قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہے۔سوال : ایک شخص نے رمضان 92 ھ میں ایک دن صوم نہیں رکھا اور رمضان 93ھ کے آنے تک اس دن کی قضا نہیں کی، اس کا کیاحکم ہے ؟
جواب : جب انسان رمضان کے ایک دن یا کئی دنوں کے صوم کی قضا میں غفلت و لاپروائی برتے اور دوسرے رمضان کے آنے تک اس کی قضا نہ کرے، تو اسے فوت شدہ صوم یا صیام کی قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو آدھ صاع (سوا کلو تقریباً) گیہوں یا اس جیسی کوئی دوسری چیز جو عام طور پر اس کے ملک میں کھائی جاتی ہے کھلانا چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ قضا کو مؤخر کرنے کا کوئی معقول عذر نہ ہو، اور اگر کسی عذر جیسے بیماری یا ایسی کمزوری جس کی بنا پر قضاء صوم پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے قضا میں تاخیر کرے تو کھانا کھلانا ضروری نہیں ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“