اعتکاف کے بعض مسائل کا بیان
تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (۲۳ شوال ۱۴۲۶؁ھ)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔چند مسائل میں راہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔ بہت بہت مہربانی!

سوال

حسب ذیل روایات (احادیث) کی تخریج و تحقیق درکار ہے:

(الف) عن عائشۃ رضي اللہ عنھا قالت:
”السنۃ علی المعتکف أن لا یعود مریضاً ولا یشھد جنازۃ……..ولا اعتکاف إلا في مسجد جامع”
(ابو داود: ح ۲۴۷۳)

نیز یہ بھی بتا دیں کہ کیا ”غیر جامع مسجد” میں اعتکاف جائز نہیں؟

(ب) عن ابن عباس رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ:
"ومن اعتکف یوماً ابتغاء وجہ اللہ تعالیٰ جعل اللہ بینۃ وبین النار ثلاثۃ خنادق أبعد ممابین الخافقین”
(طبرانی اوسط بیہقی الترغیب ۱۵۰/۲)

(ج) عن أبی ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:
”إذاتخذا لفئ دولاً والأمانۃ مغنماً والزکاۃ مغرماً…… وآیات تتابع کنظام بال قطع سلکہ فتتابع”
(الترمذی ابواب الفتن ، باب ماجاء فی علامۃ حلول المسخ و الخسف ح ۲۲۱۱)

نیز فرمائیں کہ اس طویل حدیث "وظھرت الأصوات فی المساجد” سے کیا مراد ہے؟

الجواب

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الأمین أما بعد:

اعتکاف کے بعض مسائل

(الف): یہ روایت سنن ابی داؤد (۲۴۷۳) و سنن الدارقطني (۲۰۱/۲ ح ۲۳۳۹،۲۳۳۸) والسنن الکبریٰ للبیہقی (۳۲۱،۳۲۰/۴) میں الزہري عن عروۃ بن الزبیر (وسعید بن المسیب) عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سند سے مروی ہے۔ شیخ البانیؒ لکھتے ہیں کہ:
”وإسنادہ صحیح” اور اس کی سند صحیح ہے
(ارواء الغلیل ۱۳۹/۴ ح ۹۶۶)

عرض ہے کہ اس روایت کے مرکزی راوی امام محمد بن مسلم الزہریؒ ثقہ بالاجماع ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی تھے، دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیقی
(۳/۱۰۲ ، المرتبۃ الثالثۃ)

طحاوی نے کہا:
”إنما دلس بہ”أي الزھري
(شرح معاني الآثار ۵۵/۱ باب مس الفرج)

حافظ العلائی اور برہان الحلبی کہتے ہیں کہ:
”وقد قبل الأئمۃ قولہ:عن”
(جامع التحصیل ص ۱۰۹ و التبیین لأسماء المدلسین ص ۵۰ رقم:۶۴)

خلاصہ التحقیق: یہ روایت بلحاظ اصول حدیث و بلحاظ سند ضعیف ہے لہذا مردود ہے۔

تنبیہ: زہری کی یہ روایت مختصراً موقوفاً مؤطا امام مالک (۳۱۲/۱ ح ۷۰۱) میں موجود ہے۔ اس میں بھی زہری مدلس ہے لیکن مؤطا والی روایت میں زہری کے سماع کی تصریح التمھید لابن عبدالبر (۳۱۹/۸) میں موجود ہے۔

➊ عروہ بن الزبیر نے فرمایا:
”لا اعتکاف إلا بصوم”
(مصنف ابن ابی شیبہ ۸۷/۳ ح ۹۶۲۶ وسندہ صحیح)

➋ سعید بن جبیر نے کہا:
(ابن ابی شیبہ ۸۸/۳ ح ۹۶۳۲ و سندہ صحیح)

راجح اور قوی پر عمل

زہری فرماتے ہیں کہ: اعتکاف اسی مسجد میں کرنا چاہئے جہاں نماز باجماعت ہوتی ہے۔
(ابن ابی شیبہ ۹۱/۳ ح ۹۶۷۳ و سندہ صحیح)

جبکہ عمومِ قرآن
﴿وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ﴾
سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے چاہے وہ مسجد جامع ہو یا غیر جامع۔
واللہ أعلم

(ب)

سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب یہ روایت المعجم الاوسط للطبرانی
(۱۶۰/۸ ح ۷۳۲۲) میں بشر بن سلم البجلی عن عبدالعزیز بن ابی رواد عن عطاء عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے۔

خلاصہ التحقیق: یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔

(ج)

یہ روایت سنن الترمذی (۲۲۱۱) میں رمیح الجذامي عن أبی ھریرۃؓ کی سند سے مروی ہے ۔ لہذا یہ سند ضعیف ہے۔

زلزلہ اور لوگوں کے گناہ

لوگوں کے گناہ: جب زنا کاری کو مباح سمجھنے لگتے ہیں، شراب پینا دن رات کا مشغلہ بنا لیتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے ایک شخص نے زلزلہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :
فإذا استحلوا الزنا وشربوا الخمور بعد ھذا وضربوا المعازف غار اللہ في سمائہ فقال للأرض تزلزلي بھم فإن تابوا و نزعوا وإلاھدمھا علیھم
(مستدرک حاکم : ۸۵۷۵ صحیح علی شرط مسلم)

خلاصہ التحقیق: یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔

آخر میں عرض

آخر میں عرض ہے کہ ترمذی والی ضعیف روایت میں
"وظھرت الأصوات فی المساجد”
کا مطلب یہی ہے کہ لوگ مسجدوں میں اونچی آوازوں میں دنیاوی باتیں کریں گے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے