عید کے 5 دن اور ان میں جائز تفریح کی شرعی حدود

نمازِ عیدین

عید کے ایام کی حقیقت اور ان کا پس منظر

سیّدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو آپ نے دیکھا کہ لوگ سال میں دو مخصوص دن کھیل کود اور خوشیاں منانے میں مشغول ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا:

’’یہ دو دن کیسے ہیں؟‘‘

انہوں نے جواب دیا:

’’ہم زمانۂ جاہلیت سے ان دنوں میں کھیلتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں: وہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ہیں۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: صلاۃ العیدین: ۴۳۱۱م.)

ایامِ تشریق کی اہمیت

سیدنا نبیشہ الہذلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ایام تشریق (یعنی: 11، 12، اور 13 ذوالحجہ) کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔‘‘
(مسلم: الصیام، باب: تحریم صوم أیام التشریق: ۱۴۱۱.)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عید الاضحیٰ اور ایامِ تشریق میں کھانے پینے کی فراوانی اور مباح تفریح و کھیل میں کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ ان دنوں کو خوشی سے منانا مشروع ہے۔

عید کے موقع پر تفریح کی حدود

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ بچیاں دف بجا کر جنگِ بعاث (جو کہ زمانۂ کفر میں اوس اور خزرج کے درمیان ہوئی تھی) کا قصہ اشعار کی صورت میں گا رہی تھیں۔

سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اے ابوبکر! انہیں کچھ نہ کہو، بے شک آج عید کا دن ہے۔ بلاشبہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔‘‘
(بخاری، العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام، ۲۵۹، مسلم، صلاۃ العیدین ۲۹۸.)

جائز تفریح کی شرعی حدود

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:

◈ اگر پڑھنے والی کم عمر بچیاں ہوں،

◈ آلاتِ موسیقی میں صرف دف (یا اس سے کمتر کوئی آلہ) استعمال ہو،

◈ اشعار خلافِ شریعت نہ ہوں،

◈ اور موقع عید کا ہو،

تو ایسے اشعار پڑھنے یا سننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن مفاد پرست گویوں نے اس حدیثِ مبارکہ کا ناجائز فائدہ اٹھایا:

◈ بچیوں سے مراد ہر عمر کی پیشہ ور گلوکارائیں مراد لے لی گئیں،

◈ صرف دف سے تمام آلاتِ موسیقی کو جائز سمجھ لیا گیا،

◈ اچھے اشعار سے گانوں کو جائز قرار دے دیا گیا،

◈ اور عید کے دن کو روح کی غذائیت کا عنوان دے دیا گیا۔

یہ سب کچھ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ خالق و مالک ہے، اور اس نے اپنے بندوں کے لیے جو جائز حدود مقرر کی ہیں وہی معتبر ہیں۔ ان حدود سے تجاوز حرام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1