امام کا مقتدیوں کے آگے سے گزرنا اور سترہ کی شرعی حد
ماخوذ: احکام و مسائل، سترہ کا بیان، جلد 1، صفحہ 123

امام کا مسبوقین کے آگے سے گزرنا اور سترے کا حکم

سوال :

ایسی صورتحال میں جب کچھ مقتدی نماز مکمل کر چکے ہوتے ہیں اور کچھ (مسبوقین) اپنی باقی رکعتیں مکمل کر رہے ہوتے ہیں، تو جو لوگ نماز پوری کر چکے ہوتے ہیں وہ آگے صفوں میں بیٹھے ہوتے ہیں تاکہ پیچھے والے جب نماز مکمل کریں تو وہ گزر سکیں۔ لیکن امام صاحب ان آگے بیٹھے ہوئے نمازیوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:

◈ کیا امام صاحب کا اس طرح گزرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟
◈ کیا آگے بیٹھے ہوئے نمازی پیچھے والوں کے لیے سترہ شمار ہوتے ہیں؟
◈ اور ایک عام شخص نمازی کے آگے سے کتنی دوری پر گزر سکتا ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کا نمازیوں کے آگے سے گزرنا:

◈ امام اگر دائیں یا بائیں طرف بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے گزرتا ہے، تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔
◈ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو افراد پہلی صف میں نماز مکمل کر کے بیٹھے ہوئے ہیں، وہ مسبوق نمازیوں کے لیے سترہ بن جاتے ہیں۔
◈ اس لیے امام کا ان کے سامنے سے گزرنا درست ہے۔

امام کا سترہ ہونا:

◈ یہ بات درست ہے کہ امام تمام مقتدیوں کے لیے سترہ ہوتا ہے۔
◈ لیکن یہ حیثیت نماز کے سلام پھیرنے تک محدود ہوتی ہے۔
◈ جب امام سلام پھیر دیتا ہے، تو اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، اور امام ہونا بھی ختم ہو جاتا ہے۔
◈ بعد ازاں، امام اور مقتدی کا تعلق عمومی معنوں میں رہ جاتا ہے، شرعی اقتداء کے معنی میں نہیں۔

نمازی کے آگے سے گزرنے کی حد:

◈ آپ کے سوال کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ "آدمی نمازی کے آگے سے کتنی جگہ چھوڑ کر گزر سکتا ہے؟”

جواب:

کتنی بھی جگہ چھوڑ کر نمازی کے آگے سے گزرنا جائز نہیں۔
◈ سترے کے بارے میں وارد تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ سترہ رکھنا ضروری ہے۔
◈ اگر کوئی مخصوص حد مقرر ہوتی، تو سترہ رکھنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔
◈ "پتھر پھینکنے کے فاصلے” والی روایت ضعیف ہے، اور یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1