خاندانی منصوبہ بندی

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ نکاح کے بعد چھوارے کی شاعری تقسیم کرنا سوال : ہمارے ہاں رسم ہے کہ نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کیے جاتے ہیں کیا یہ سنت طریقہ ہے؟ جواب : اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کے تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا ہے زندگی کے معاملات میں ایک اہم معاملہ نکاح کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا صحابہ اور صحابیات کے نکاح پڑھائے لیکن کسی بھی صحیح حدیث سے ہمیں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے کسی نکاح میں نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کیے ہوں اور یہ تو ایک ہندوانہ رسم ہے۔ تاہم مسلمانوں میں اس فعل کا رواج چند ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر ہے۔ ان کا مختصر تجزیہ درج ذیل ہے :…

Continue Reading

دوران حج و عمرہ حائضہ کا حکم

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : اگر کوئی دوران حج و عمرہ حائضہ ہو جائے تو طواف اور دیگر کام کر سکتی ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جواب : حائضہ عورت حج اور عمرہ کا احرام باندھ لے اور حج کے سارے کام کرتی جائے، صرف بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور نہ نمازیں ہی ادا کرے پھر جب حیض سے پاک ہو جائے تو خانہ کعبہ کا طواف کرے کیونکہ طواف کے لئے طہارت شرط ہے۔ اگر طہارت نہ ہو تو طواف نہیں ہوتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : خرجنا مع النبى صلى الله عليه وسلم لا نذكر إلا الحج، فلما جئنا سرف طمثت، فدخل على النبى صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال : ما يبكيك ؟ قلت : لوددت والله اني لم احج العام، قال…

Continue Reading

مسلسل بول کی مریضہ کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : ایک عورت نو ماہ سے حاملہ ہے، اور وہ مسلسل بول کے مرض سے دوچار ہے۔ اس وجہ سے وہ آخری ماہ نماز پڑھنے سے رک گئی۔ کیا یہ ترک نماز ہے ؟ اور اسے کیا کرنا چاہیے ؟ جواب : مذکورہ بالا عورت اور اس جیسی دیگر عورتوں کے لئے اس بیماری کی وجہ سے نماز ادا نہ کرنا جائز نہیں ہے۔ انہیں حسب حال نماز ادا کرتے رہنا چاہئیے۔ مستحاضہ عورتوں کی طرح ہر نماز کے وقت وضو کریں اور روئی وغیرہ کے استعمال سے امکانی حد تک (پیشاب کے قطروں) سے بچاؤ اختیار کریں اور وقت پر نماز ادا کریں، اس نماز کے وقت ہی انہیں نوافل ادا کرنے کی بھی اجازت ہے۔ نیز انہیں مستحاضہ عورت کی طرح ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اور…

Continue Reading

کیا حائضہ عورت قرآن پڑھ سکتی ہے

قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ کیا حائضہ عورت قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں ؟ جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم کی اس مسئلے میں مختلف آراء ہیں۔ امام بخاری، امام ابن جریر طبری، امام ابن منذر، امام مالک، امام شافعی اور امام ابراہیم نخعی، ان سب کے نزدیک حائضہ عورت کے قرآن کی تلاوت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ راحج بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں کوئی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں جس میں حیض والی عورت کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حائضہ ہوتی تھیں۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت ان کے لیے حرام ہوتی تو اللہ کے رسول انھیں قرآن مجید کی تلاوت سے روک دیتے جس طرح کہ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے روک دیا تھا اور جب حیض کی کثرت کے باوجود صحابی رسول نے یا امہات المومنین میں سے کسی نے امام الانبیاء سے اس کی ممانعت نقل نہیں کی تو معلوم ہوا کہ جائز ہے۔ اب اس چیز کا علم ہونے کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت بالکل منقول نہیں اس کو حرام کہنا درست نہیں۔

Continue Reading

حائضہ عورت کا مسجد میں جانا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا حائضہ عورت مسجد میں جا سکتی ہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب : حائضہ عورت کے مسجد میں جانے کے بارے میں کافی اختلافات ہیں لیکن زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ حائضہ اور جنبی مسجد میں سے باہر مجبوری گزر سکتے ہیں۔ انہیں وہاں ٹھہرنا نہیں چاہیے، قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا جا سکتا ہے :
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ [4-النساء:43]
” نشے کی حالت میں نماز ( اور نماز کی جگہ) کے قریب نہ جاؤ حتیٰ کہ ( تمھارا نشہ اتر جائے اور ) تمہیں معلوم ہو جائے جو تم کہہ رہے ہو، نیز جنبی بھی (مسجد کے قریب نہ جائے ) گر راہ عبور کرنے یا گزرنے کے لیے۔ “
نوٹ : جس جگہ واقعتاً نماز ادا کی جا رہی ہے، وہ جگہ تو مسجد ہے لیکن اگر چھت پر نماز ادا نہیں کی جاتی تو وہ مسجد کے حکم میں نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ کون سی جگہ مسجد قرار دی گئی ہے ؟ اگر چھت پر جماعت نہیں ہوتی تو کوئی حرج نہیں وہاں حائضہ اور جنبی جا سکتے ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان المسجد لا يحل لجنب و لا خائض
[ابن ماجه، كتاب الطهارة وسننها : باب فى ما جاء فى أجتناب الحائض المسجد 645 ]
” مسجد میں حائضہ اور جنبی کا داخل ہونا حلال نہیں۔ “
(more…)

Continue Reading

رمضان سے متعلق چند اہم مسائل (6)

71۔ پاگل شخص پر صوم واجب نہیں ہے :
——————

سوال : میری بیٹی تیس سال کی ہو چکی ہے اور اس کے پاس کئی بچے ہیں اور وہ چودہ سال سے عقلی فتور میں مبتلا ہے۔ اور اس سے پہلے کچھ مدت تک اسے یہ بیماری لاحق رہتی اور کچھ مدت تک ختم ہو جاتی تھی۔ لیکن اس بار اسے یہ بیما ری خلاف عادت لاحق ہے کیوں کہ اس وقت تقریباً تین مہینے سے وہ اس میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے وہ ٹھیک سے نہ وضو کر سکتی ہے اور نہ صلاۃ ادا کر پاتی ہے۔ الا یہ کہ کوئی آدمی اسے یہ رہنمائی کرتا رہے کہ وہ کس طرح وضو کرے اور کتنی رکعت پڑھے۔ اس وقت ماہِ رمضان کی آمد پر اس نے صرف ایک دن صوم رکھا، وہ بھی ٹھیک سے نہیں رکھ سکی۔ باقی دنوں میں کوئی صوم نہیں رکھا۔ براہ کرم آپ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھ پر کیا لازم ہے اور اس پر کیا واجب ہے ؟ یہ خیال رہے کہ میں ہی اس کا سرپرست ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔
جواب : اگر واقعی اس کا حال وہی ہے جو آپ نے ذکر کیا ہے تو اس پر صوم و صلاۃ کچھ بھی واجب نہیں ہے۔ جب تک اس کی یہ حالت برقرار رہے، نہ ادا کے اعتبار سے اور نہ قضا کے اعتبار سے۔ اور بحیثیت ولی ہونے کے آپ پر بھی اس کی نگرانی کے علاوہ کچھ واجب نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے :
كلكم راع وكلكم مسؤل عن رعيته . . . . . الحديث
’’ تم میں سے ہر شخص نگراں اور ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے با رے میں پوچھاجائے گا “۔
افاقہ ہونے کی صورت میں اس پر صرف افاقہ کی مدت کی صلوات واجب ہوں گی، اسی طرح ماہِ رمضان میں ایک دن یا کئی دن افاقہ ہونے کی صورت میں اس پر صرف افاقہ کے ایام کے صیام واجب ہیں۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

 

72۔ مریض شخص کے لئے صوم نہ رکھنا مشروع ہے
——————

سوال : میں اپنی عمر کے سولہویں سال میں ہوں۔ اور تقریباً پانچ سال سے مسلسل ایک اسپتال میں زیر علاج ہوں۔ گزشتہ رمضان میں، میں نے صوم رکھا تھا، ڈاکٹر نے میری گردن کی رگ میں کیمیاوی دوا دینے کا حکم دیا۔ دوا بہت سخت تھی، معدے اور پورے جسم پر اثر انداز ہوئی، جس دن میں نے یہ دوا لی اس میں مجھے بہت سخت بھوک لگی۔ صبح صادق سے بمشکل سات گھنٹے گزرے ہوں گے۔ عصر کے آنے تک میں بہت زیادہ تکلیف میں مبتلا ہو گیا اور قریب تھا کہ میں مر جاؤں۔ پھر بھی اذان مغرب تک میں نے صوم نہیں توڑا۔ اس سال بھی رمضان میں ڈاکٹر مجھے وہ دوا دینے کا حکم دے گا۔ تو کیا میں اس دن صوم توڑ دوں یا نہیں ؟ اور اگر میں صوم نہ توڑوں تو کیا مجھ پر اس دن کی قضا ضروری ہے ؟ اور کیا گردن کی رگ سے خون نکالنا، اسی طرح اس سے دوا لینا مفطر صوم ہے یا نہیں ؟
(more…)

Continue Reading

عورت کا غسل جنابت میں بالوں کو تر کرنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا عورت غسل جنابت میں اپنے سر کے بال تر کرے یا تر نہ بھی کرے تو غسل ہو جائے گا ؟ اس مسئلے کو احادیث کی روشنی میں اس طرح واضح کریں کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اور ساتھ غسل کا نبوی طریقہ بھی بیان کر دیں جس میں کمی بیشی کی گنجائش نہ رہے۔
جواب : ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں :
قلت : يا رسول الله إني امراة اشد ضفر راسي افانقضه لغسل الجنابة ؟ قال : لا إنما يكفيك ان تحثين على راسك ثلاث حثيات من ماء، ثم تفيضين على سائر جسدك الماء فتطهرين او قال : ” فإذا انت قد تطهرت [ترمذي، كتاب الطهارة : باب هل تنقض المرأة شعرها عند الغسل 105، صحيح مسلم كتاب الحيض باب حكم ضفائر المغتسلة 330/58، ابوداؤد، كتاب الطهارة : باب فى المرأة تنقض شعرها عند الغسل 251 ]
میں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! میں ایسی عورت ہوں جو مینڈھیاں مضبوطی سے باندھ لیتی ہوں کیا میں غسل جنابت کے لئے انہیں کھولوں ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”نہیں تجھے اتنا ہی کافی ہے کہ تو اپنے سر پر تین چلو پانی بہائے پھر اپنے سارے بدن پر پانی ڈالے اور پاکیزگی حاصل کرے۔ “ یا فرمایا : ” تب تو نے اچھی طرح طہارت حاصل کر لی۔ “
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو اس بات کی رخصت ہے کہ وہ اپنی مینڈھیاں حیض اور جنابت کے لیے کھولے، اصل مقصد پانی کو بالوں کی جڑوں تک پہنچانا ہے کیونکہ جنابت کے غسل میں فرض ہے کہ تمام بال بھیگ جائیں اگر کچھ بال خشک رہ جائیں تو غسل نہیں ہو گا۔ [ملاحظه هو حاشيه مشكوة از مولانا اسماعيل سلفي 343/1 ]
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے : افانقضه للحيضة والجنابة ”کیا میں اپنی مینڈھیاں حیض اور جنابت کے لئے کھولوں“ اس سے معلوم ہوا کہ حیض کا غسل ہو یا جنابت کا، مقصود پانی کا بالوں کی جڑوں تک پہنچانا ہے، عورت کو مینڈھیاں نہ کھولنے کی رخصت دی گئی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث میں ہے :
ثم تصب على راسها فتدلكه دلكا شديدا حتي تبلغ شؤون راسها [ مرعاة 136/2، ابن ماجه، كتاب الطهارة وسننها : باب فى الحائض كيف تغتسل 642، طيالسي 60/1، حميدي 167، ابوداؤد 314 تا 316، مسلم 61 / 332، ابن خزيمة 248، ابن حبان 1199، المنتقي لابن 117 ]
”پھر اپنے سر پر پانی بہائے اور اسے اچھی طرح ملے یہاں تک کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔ “
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ حیض یا جنابت کے غسل میں عورت کو شرعاً رخصت ہے کہ وہ اپنے سر کے بال نہ کھولے البتہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچائے بال تر کرنے ضروری ہیں، اب رہا غسل کا نبوی طریقہ تو اس کے لیے احادیث درج ذیل ہیں :
عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم، ان النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا اغتسل من الجنابة بدا فغسل يديه، ثم يتوضا كما يتوضا للصلاة، ثم يدخل اصابعه فى الماء فيخلل بها اصول شعره، ثم يصب على راسه ثلاث غرف بيديه، ثم يفيض الماء على جلده كله . [بخاري، كتاب الغسل : باب الوضوء قبل الغسل 248، مسلم، كتاب الحيض 321، ابوداؤد، كتاب الطهارة : باب الغسل من الجنابة 242، ترمذى، ابواب الطهارة : باب ما جاء فى الغسل من الجنابة 104، ابوعوانة 298/1-299، ابن خزيمة 242، نسائي كتاب الطهارة : باب ذكر وضوء الجنب قبل الغسل 247]
”نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب نبی صلى اللہ علیہ وسلم جنابت کا غسل کرتے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر نماز کی طرح وضو کرتے پھر اپنی انگلیاں پانی میں داخل کرتے اور ان سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو پانی اپنے سر پر ڈالتے، پھر اپنی ساری جلد پر پانی بہاد ہے۔ “ (more…)

Continue Reading

رہ جانے والے روزوں کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : میں ایام ماہواری کی وجہ سے رمضان المبارک کے فوت ہونے والے روزوں کی قضاء نہیں دیتی رہی، اب ان کا شمار بھی مشکل ہے، اس بارے میں مجھے کیا کرنا چاہئیے ؟ جواب : میری اسلامی بہن! تحری (دو چیزوں میں اولیٰ کی تلاش) کیجئیے اور غالب ظن کے مطابق روزے رکھ لیجئیے، اللہ تعالیٰ سے مدد اور توثیق کی طالب رہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا [2-البقرة:286] ”اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ “ لہٰذا کوشش اور تحری سے کام لیجئیے اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے غالب ظن کے مطابق روزے رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں۔ والله ولي التوفيق  

Continue Reading

حیض و جنابت کے بعد عورت کے غسل کی کیفئت

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : کیا مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق ہے؟ اور کیا عورت پر غسل کے لئے اپنے سر کے بال کھولنا ضروری ہیں؟ یا حدیث نبوی کی بناء پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے؟ نیز غسل جنابت اور غسل حیض میں کیا فرق ہے؟
جواب : مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور کسی پر بھی غسل کے لئے بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بالوں پر تین لپ پانی ڈال کر باقی جسم کو دھو لینا کافی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
إني امرأة أشد ضفر رأسى أفانقضه للحيض والجنابة؟ قال:لأ، انما يكفيك أن تحثى على رأسك ثلاث حثيات، ثم تفيضي عليك الماء فتطهري [صحيح مسلم]
”میں سخت گندھے ہوئے بالوں والی عورت ہوں، کیا انہیں غسل جنابت کے لئے کھولا کروں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تیرے لئے یہی کافی ہو گا کہ سر پر پانی انڈیل کر غسل جنابت کر لے۔“
اگر عورت یا مرد کے جسم پر مہندی وغیرہ لگی ہو اور اس کی وجہ سے پانی جسم تک نہ پہنچ سکتا ہو تو اس کا ازالہ ضروری ہے۔ جہاں تک عورت کے غسل جنابت کا تعلق ہے تو اس صورت میں اس کے لئے بالوں کا کھولنا مختلف فیہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ عورت پر بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ سیدہ ام سلمی رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
إني امرأة أشد ضفر رأسى أفانقضه للحيض والجنابة؟ قال:لأ، انما يكفيك أن تحثى على رأسك ثلاث حثيات، ثم تفيضي عليك الماء فتطهري [صحيح مسلم] (more…)

Continue Reading

عورت کے جسم سے نکلنے والی رطوبت پاک یا ناپاک؟

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : میں نے ایک عالم سے سنا کہ عورت کے جسم سے نکلنے والی رطوبت پاک ہے۔ میں نے جب سے یہ فتوی سنا نماز ادا کرنے کے لئے متاثرہ شلوار نہیں اتارتی تھی۔ عرصہ دراز کے بعد ایک دوسرے عالم سے سنا کہ ایسی رطوبت پلید ہے۔ اس بارے میں درست بات کون سی ہے؟ جواب : قبل یا دبر (آگے یا پیچھے والے حصے ) سے نکلنے والا پانی وغیرہ ناقض وضو ہے۔ وہ کپڑے یا بدن کو لگ جائے تو اسے دھونا ضروری ہے۔ اگر یہ دائمی امر ہو تو اس کا حکم استحاضہ اور سلس البول والا ہے۔ یعنی عورت کو استنجاء کرنے کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کرنا ہوگا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت سے فرمایا تھا۔ توضئي لوقتِ…

Continue Reading

حیض کی حالت میں عمرے کا احرام باندھنا

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : ایک خاتون دریافت کرتی ہے کہ وہ حیض میں مبتلا تھی۔ اس کے اہل خانہ نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اگر وہ گھر والوں کے ساتھ نہ جاتی تو گھر پر اکیلی رہ جاتی۔ لہٰذا وہ ان کے ساتھ عمرے کے لئے روانہ ہو گئی اور عمرے کے تمام مناسک، بشمولی طواف و سعی اس طرح ادا کئے گویا کہ اس پر مانع عمرہ کوئی عذر نہیں تھا، اور اس نے یہ سب کچھ عدم واقفیت اور شرمساری کی بناء پر کیا۔ کہ اسے اپنی اس حالت کے متعلق اپنے سرپرست (باپ وغیرہ) کو بتانا پڑتا۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ وہ ایک ان پڑھ عورت ہے، لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ دریں حالات اب اسے کیا کرنا چاہئیے ؟ جواب : اگر اس نے اہل خانہ…

Continue Reading

ادائیگی حج کے لئے مانع حیض گولیوں کا استعمال

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی سوال : کیا دوران حج حیض روکنے یا اسے مؤخر کرنے کے لئے عورت مانع حیض گولیاں استعمال کر سکتی ہے ؟ جواب : دوران حج ایام ماہواری کے ڈر سے ایک عورت مانع حیض گولیاں استعمال کر سکتی ہے۔ مگر عورت کی صحت و سلامتی کے پیش نظر ایسا کرنے سے پہلے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے اور اسی طرح اگر کوئی عورت رمضان المبارک کے روزے لوگوں کے ساتھ رکھنے کے لئے ایسا کرنا چاہے تو بھی یہ جائز ہے۔  

Continue Reading

عورت عمرہ ادا کرنے سے پہلے حیض والی ہو گئی

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : حج تمتع کرنے والی عورت نے احرام باندھا اور بیت اللہ پہچنے سے پہلے حائضہ ہو گئی۔ اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہیئے؟ کیا وہ عمرہ کرنے سے پہلے حج کر سکتی ہے ؟ جواب : ایسی عورت عمرے کے احرام میں رہے، اگر نو ذی الحجہ سے پہلے پاک ہو جائے اور اس کے لئے عمرہ مکمل کرنا ممکن ہو تو اسے پورا کرے، پھر حج کا احرام باندھ کر باقی ماندہ مناسک، حج پورے کرنے کے لئے عرفات چلی جائے اور اگر وہ یوم عرفہ سے پہلے پاک نہ ہو تو یہ کہتے ہوئے احرام عمرہ کے ساتھ حج کا احرام باندھ سے لے۔ اللهم إنى أحرمت بحج مع عمرتى ”اللہ جی ! میں عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھتی ہوں۔ “ (یعنی حج کے بعد عمرہ ضرور کرونگی) اس…

Continue Reading

حائضہ اور تلاوت قرآن

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: ‘‘نبی کریمﷺ میری گود میں ٹیک لگا کر (سر رکھ کر) قرآن کی تلاوت کرتے، حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔

(صحیح بخاری: ۲۹۷، صحیح مسلم: ۳۰۱)

اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:

‘‘اس سے اشارہ ملتا ہے کہ حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتی، کیونکہ اگر اس کا بذات خود قرآن پڑھنا جائز ہوتا تو اس کی گود میں قرآت کی ممانعت کا وہم نہ ہوتا کہ اس پر مستقل نص کی ضرورت محسوس ہوتی۔ (فتح الباری: ٤۰۲/۱)

یعنی اگر حائضہ خود قرآن پڑھ سکتی ہوتی تو یہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کی گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے، کیونکہ پھر تو وہ بالاولیٰ ثابت ہوجاتا۔ کسی صحابی یا تابعی سے حائضہ کےلیے تلاوت قرآن کی اجازت ثابت نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے۔ (more…)

Continue Reading

End of content

No more pages to load

Close Menu

نئی تحریریں ای میل پر حاصل کریں، ہفتے میں صرف ایک ای میل بھیجی جائے گی۔

واٹس اپ پر چیٹ کریں
1
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ

ہمارا فیس بک پیج ضرور فالو کریں

https://www.facebook.com/pukar01

ویب سائٹ پر کسی بھی طرح کی خرابی نظر آنے کی صورت میں سکرین شاٹ ہمیں واٹساپ کریں یا وائس میسج پر مطلع کریں۔ نیز آپ اپنی تجاویز اور فیڈبیک بھی ہمیں واٹس اپ کر سکتے ہیں۔

جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا كَثِيْرًا وَجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء