کیا بھینس کی قربانی جائز ہے؟

تحریر: عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ پہلی فصل: بهيمة الأنعام (قربانی کا جانور) کا معنی و مفہوم قربانی کے سلسلہ میں کتاب و سنت میں جہاں بہت سے احکام و مسائل کی رہنمائی امت کو دی گئی ہے وہیں بدیہی طور پر قربانی کے جانوروں کے اقسام و انواع - یعنی کن جانوروں کی قربانی کی جا سکتی ہے ان کی بھی نشاندہی اور وضاحت کی گئی ہے ۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے جن جانوروں کی قربانی مشروع فرمائی ہے انہیں بهمة الانعام کانام دیا ہے ۔ جیسا کہ متعدد آیات میں ارشاد ہے: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ [الحج: 34] ”اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چو پائے جانوروں پر اللہ…

Continue Reading

قربانی کے جانوروں سے متعلق احکامات

مصنف : عبدالمنان عندالحنان سلفی رحمہ اللہ کن جانوروں کی قربانی مشروع ہے ؟ علماء و فقہاء کے صحیح قول کے مطابق قربانی صرف ان جانوروں کی مشروع ہے جن «بهيمة الأنعام» کا اطلاق ہوتا ہے، اور با تفاق علماء، فقہاء اور مفسرین نے لکھا ہے۔ وہ چار قسم کے جانور ہیں، ان کی صراحت قرآن کریم میں بھی آئی ہوئی ہے : ➊ اونٹ ➋ گائے ➌ بکری ➍ بھیڑ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا : «وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ» [22-الحج:34] ”اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چو پائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔“ اور سورۃ الأنعام میں اللہ تعالیٰ نے انعام کی تفصیلات کے ضمن میں بھی انہیں چاروں چوپایہ جانوروں کا…

Continue Reading

عشره ذی الحجہ کے فضائل و احکام

مصنف : عبدالمنان عندالحنان سلفی رحمہ اللہ عشره ذی الحجہ کے فضائل : سال کے بارہ مہینوں میں جن ایام کو فضیلت و برتری حاصل ہے ان میں ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام بھی ہیں، جو امہات العبادات کے اجتماع کی وجہ سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ کتاب و سنت دونوں میں ان کے فضائل سے متعلق متعدد نصوص وارد ہیں۔ جمہور مفسرین نے ارشاد ربانی : «وَالْفَجْرِ ‎٭‏ وَلَيَالٍ عَشْرٍ ‎٭‏ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ» [89-الفجر:1 تا 3] میں «ليالي عشر» (دس راتوں) سے ذی الحجه کا عشرہ اول مراد لیا ہے، اس قول کی بنیاد پر اللہ رب العالمین کا شبہائے ذی الحجہ کی قسم کھانا ہی ان کی اہمیت کے لئے کافی ہے۔ احادیث پاک میں بالصراحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت صحيح سندوں سے ثابت ہے، چنانچه صحيح بخاری میں مندرجہ…

Continue Reading

عورت بوقت ضرورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : جب قربانی کا وقت ہو جائے اور گھر پر کوئی آدمی موجود نہ ہو تو اس صورت میں کیا عورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے ؟ جواب : ہاں اگر جانور ذبح کرنے کی دیگر شرائط پوری ہو رہی ہوں تو بوقت ضرورت عورت قربانی وغیرہ کا جانور ذبح کر سکتی ہے۔ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس زندہ یا فوت شدہ آدمی کا نام لینا مسنون ہے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہو۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو سکے تو نیت کر لینا ہی کافی ہے۔ اگر ذبح کرنے والا غلطی سے اصل شخص کی بجائے کسی اور کا نام لے لے تو بھی کوئی نقصان نہ ہو گا، اس لئے کہ اللہ رب العزت نیتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ والله الموفق  

Continue Reading

عشرہ ذی الحجہ میں سر دھونا اور کنگھی کرنا

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : کیا عشرہ ذی الحجہ میں بالوں کو کنگھی کرنا جائز ہے ؟ جواب : ہاں احتیاط سے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اگر کوئی بال گر گیا تو ضرر رساں نہیں ہو گا۔ اور قربانی کا ثواب بھی کم نہ ہو گا۔ اسی طرح اگر قربانی دینے والا عمداً بال یا ناخن اتروا لے تو اس بناء پر وہ قربانی کرنا نہ چھوڑے، اسے قربانی کا اجر مکمل صورت میں ملے گا۔ ان شاء الله العزيز  

Continue Reading

قربانی کرنے والے کے لیے کنگھی کرنا

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : اگر عورت قربانی کرنا چاہے تو کیا وہ سر میں کنگھی نہ کرے دریں حالت اگر وہ دس دن تک ایسا نہ کرے تو اسے شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جواب : سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إذا دخلت العشر وفأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره ولا من بشره شيئا [رواه النسائى فى كتاب الضحايا باب 1، والدارمي فى كتاب الأضاحي، باب 1 وفي رواية] ”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی دینا چاہے تو وہ اپنے بالوں اور جسم سے کچھ نہ اکھاڑے کاٹے۔ “ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت مروی سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عن…

Continue Reading

بڑی عمر میں عقیقہ نصوص شرعیہ اور فہم سلف کی روشنی میں

تحریر: حافظ ابویحییٰ نورپوری

’’ ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی رکھا جاتا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کے سر کو مونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔“ [مسند الإمام أحمد : 22,18,17,12,8,7/5، سنن أبى داؤد : 2838، سنن الترمذي: 1522، سنن النسائي: 4225، سنن ابن ماجه : 3165، المنتقي لابن الجارود: 910، و سندهٔ صحيح]

دیگر شرعی مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف دلائل کو دیکھنے کے بعد اہل علم کا تھوڑا سا اختلاف ہوا۔ وہ اس طرح کہ اسلاف امت میں سے بعض اہل علم نے کچھ روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتویں دن کے ساتھ ساتھ چودھویں اور اکیسویں دن بھی عقیقے کی مشروعیت کا فتویٰ دیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ چودھویں یا اکیسویں دن والی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہو سکیں۔ لہٰذا صرف ساتویں دن عقیقے کی مشروعیت والا قول ہی راجح ہے۔

یہ اختلاف تو تھا محض ساتویں کے ساتھ ساتھ چودھویں اور اکیسویں دن کو ملانے کا، رہا ساتویں دن سے پہلے یا اکیسویں دن کے بعد عقیقہ کرنا تو یہ اسلاف امت، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے قطعاً ثابت نہیں۔ ہمارے علم کے مطابق خیرالقرون، بلکہ اس کے بعد بھی پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک کوئی اہل علم چودھویں اور اکیسویں دن کے علاوہ ساتویں دن سے پہلے یا بعد عقیقے کا قائل و فاعل نہیں تھا۔

پانچویں صدی ہجری میں ظاہری نظریے کے حامل بعض اہل علم نے عقیقے کی احادیث کے ظاہری الفاظ سے اس کی فرضیت کا حکم کشید کیا اور پھر اسی بنا پر فتویٰ دیا کہ عقیقہ چونکہ فرض ہے، لہٰذا بچہ ساتویں دن تک زندہ رہے یا نہ رہے، عقیقہ کرنا ہی پڑے گا، البتہ ساتویں دن سے پہلے عقیقہ نہیں کیا جا سکتا، اگر ساتویں دن بچے کا عقیقہ نہیں کیا گیا تو زندگی میں جب بھی ممکن ہو، عقیقہ کیا جائے۔ علامہ ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ (368-463 ھ) کا یہی فتویٰ تھا۔ [المحلي بالآثار: 234/6]

اسلاف امت کی تعلیمات کے خلاف یہ ایک شاذ قول تھا۔ جب یہ فتویٰ دیا گیا تو اسی دور کے محدث الاندلس، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) نے سخت الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
وأجاز بعض من شذ أن يعن الكبير عن نفسه .
’’ بعض شاذ لوگوں نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ بالغ شخص اپنا عقیقہ خود کر لے۔“ [الاستذكار : 318/5]

بعض جید اور قابل قدر اہل علم کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ بڑی عمر کا شخص بھی عقیقہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے اس فتوے کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ اس قول کا کوئی بھی مخالف نہیں، بلکہ ابن القیم وغیرہ اس کے مؤیدین میں سے ہیں۔“ [ماهنامه ضرب حق، شماره 11، صں 42]

ان کی اطلاع کے لیے مؤدبانہ عرض ہے کہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تو ابن حزم رحمہ اللہ سے تین صدی بعد آئے ہیں۔ ان کی طرف سے ابن حزم رحمہ اللہ کی موافقت کوئی فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ ان سے تین صدیاں پہلے ابن حزم رحمہ اللہ کے ہم عصر، ہم علاقہ اور ان سے سات سال بعد دنیا سے کوچ کرنے والے عالم، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس فتوے کو ایک شاذ قول قرار دے کر رد کر دیا تھا اور حدیثی دلائل (جن کو ہم بعد میں ذکر بھی کریں گے) دیتے ہوئے فرمایا تھا :
وذلك كله سواء دليل على أن العقيقة عن الغلام، لا عن الكبير.
’’ ان سب احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ بچے ہی کا ہو گا، بڑے کا نہیں۔“ [الاستذكار : 318/5] (more…)

Continue Reading

عقیقہ صرف ساتویں دن

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

بچے یا بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا بالاتفاق مستحب عمل ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتویں دن مشروع قرار دیا ہے جیسا کہ : 

(1) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
”يعق عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة“ قالت : عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن والحسين شاتين، ذبحھما يوم السابع .
’’لڑکے کی طرف سے دو برابر کی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو دو بکریاں ساتویں دن بطور عقیقہ ذبح کیں۔‘‘ 
(العيال لابن ابي الدنيا: 43، والسياق له، مسند البزار: 1239، مسند ابي يعلي:4521، السنن الكبري للبيھقي :303/9، 304، وسنده صحيح) 

(2) سیدہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
كل غلام مرتھن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع ويحلق رأسه ويسمي . 
’’ہر بچہ اپنے عقیقےکے عوض گروی رکھا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کے سر کو مونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔‘‘ (مسند الامام احمد: 7/5،8، 12، 17، 18، 22، سنن ابي داود :2838، سنن الترمذي:1522، سنن النسائي :4225، سنن ابن ماجه:3165، وسنده صحيح) 

(more…)

Continue Reading

اشعار کرنا سنت ہے

تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

ہدی (منیٰ میں قربانی) کےلیے اونٹ کو داہنی جانب جو زخم لگایا جاتا تھا، اسے ‘‘ اشعار’’ کہتے ہیں۔ یہ نبی اکرمﷺ کی سنت مبارکہ ہے، جیسا کہ:

۱۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:

[arabic-font]

صلّی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم بذی الحلیفۃ، ثمّ دعا بناقتہ، فأشعرھا فی صفحۃ سنامھا الأیمن، وسلت الدّم، وقلّدھا نعلین، ثمّ رکب راحتلہ، فلمّا استوت بہ علی البیداء أھلّ بالحجّ۔

[/arabic-font]

‘‘ رسول اللہﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ مقام پر ادا کی، پھر اپنی اونٹنی منگوائی، اس کی کوہان کی دائیں جانب اشعار کیا اور خون کو آس پاس لگا دیا اور اس کے گلے میں دو جوتے لٹکا دئیے، پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ جب وہ سواری آپﷺ کو لے کر بیداء پر چڑھ گئی تو آپﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔’’

(صحیح مسلم: ۱۲۴۳)

امام ترمذیؒ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

[arabic-font]

والعمل علی ھذا عند أھل العلم من أصحاب النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم و غیرھم، یرون الإشعار، وھو قول الثّوریّ والشّافعیّ و أحمد وإسحاق۔

[/arabic-font]

‘‘ اسی پر نبی اکرمﷺ کے صحابہ اور دوسرے اہل علم کا عمل ہے، وہ اشعار کو جائز سمجھتے ہیں۔ امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔’’

(سنن الترمذی، تحت حدیث: ۹۰۶)

۲۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: (more…)

Continue Reading

حدیث کلّ أیّام التّشریق ضعیف ہے

سوال : حدیث كلّ أيّام التّشريق ذبح بلحاظِ سند کیسی ہے ؟ جواب : یہ حدیث جمیع سندوں کے ساتھ ” ضعیف “ ہے۔ اس کو ابونصر التمار عبدالملک بن عبد العزیز القشیری نے سید بن عبد العزیز عن سلیمان بن موسیٰ عن عبد الرحمٰن بن أبی حسین عن جبیر بن مطعم کی سند سے مرفوع روایت کیا ہے : ➊ وفي كل ايام التشر يق ذبع ”ایام تشریق ( 13، 12، 11 ذوالحجہ) کا ہر دن قر بانی کا دن ہے۔ “ [ مسند البزار كشف الاستار : 1126، الكامل لابن عدي : 269/3، نسخه اخري : 1118/3، واللفظ له، السنن الكبري للبيهقي : 296-295/9، المحلي لابن حزم : 272/7 ] اس کو امام ابنِ حبان( 3854) نے ” صحیح “ کہا ہے۔ تبصرہ : یہ سند انقطاع کی وجہ سے ” ضعیف“ ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ الله لکھتے ہیں :…

Continue Reading

عشرۂ ذی الحجہ اور ہم

تحریر:حافظ ندیم ظہیر انسان کی زندگی میں بخشش و مغفرت کے کتنے ہی مواقع آتے ہیں جن کی وہ قدر نہیں کرتا اور پھر آہستہ آہستہ ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی قدر کھو دیتا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :           ﴿وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۹﴾﴾           اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں ان کی اپنی جانیں بھلوادیں یہی لوگ نافرمان ہیں۔ (الحشر:۱۹) یعنی اپنی نجات کی فکر سے غافل ہوگئے اور اس بنا پر گناہوں میں پڑے رہے اور عذابِ آخرت سے بچنے کے لئے نیک اعمال کی راہ اختیار نہیں کی ۔ (اشرف الحواشی ص ۶۵۴)           ماہِ رمضان (جو سارا مہینہ ہی رحمت و مغفرت کا ہے ) کو گزرے ابھی زیادہ مدت نہیں ہوئی…

Continue Reading

End of content

No more pages to load

Close Menu

نئی تحریریں ای میل پر حاصل کریں، ہفتے میں صرف ایک ای میل بھیجی جائے گی۔

واٹس اپ پر چیٹ کریں
1
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ

ہمارا فیس بک پیج ضرور فالو کریں

https://www.facebook.com/pukar01

ویب سائٹ پر کسی بھی طرح کی خرابی نظر آنے کی صورت میں سکرین شاٹ ہمیں واٹساپ کریں یا وائس میسج پر مطلع کریں۔ نیز آپ اپنی تجاویز اور فیڈبیک بھی ہمیں واٹس اپ کر سکتے ہیں۔

جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا كَثِيْرًا وَجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء