جو قرآن کریم کو بشر کا کلام کہے، اس کا کیا حکم ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

جو قرآن کریم کو بشر کا کلام کہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:

قرآن اللہ تعالیٰ کا حقیقی کلام ہے، اسے کلام معنوی کہنا واضح الحاد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو صوت و حروف سے کلام کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا کلام سنا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سنا اور جبریل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا۔ اس کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کے ہیں ۔ اس پر اہل سنت والجماعت کا اجماع واتفاق ہے۔
❀ علامہ سجز می رحمہ اللہ (444ھ) فرماتے ہیں:
االإجماع منعقد بين العقلاء على كون الكلام حرفا وصوتا.
” علوم عقلیہ کے ماہرین کا اجماع ہے کہ کلام حروف اور صوت ( آواز ) پر مشتمل ہوتا ہے۔“
(رسالة السجزي، ص 118)
قرآن بھی اللہ کا کلام ہے، لہذا لا محالہ اللہ تعالیٰ نے اسے صوت وحروف سے کلام کیا ہے، ورنہ اسے کلام نہیں کہا جاسکتا۔
یہ کہنا کہ قرآن کریم بشر کا کلام ہے یا اس کے الفاظ بشر کے تکلم کیسے ہوئے ہیں یا یہ فرشتے کے الفاظ ہیں، واضح کفر ہے۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں:
إطلاق القول بأن القرآن كلام جبريل أو محمد أو غيرهما من المخلوقين كفر لم يقله أحد من أئمة المسلمين؛ بل عظم الله الإنكار على من يقول: إنه قول البشر فمن قال : إن القرآن قول البشر فقد كفر وكذلك من قال : إنه قول ملك .
”یہ کہنا کہ قرآن کریم جبریل علیہ السلام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا مخلوق میں سے کسی اور کا کلام ہے، یہ کفر ہے، ائمہ مسلمین میں سے کوئی یہ بات نہیں کہتا، بلکہ اللہ تعالیٰ قرآن کو بشر کا قول کہنے والوں پرسختی سے رد کیا ہے۔ لہذا جس نے یہ کہا کہ قرآن بشر کا کلام ہے، وہ کافر ہو گیا، اسی طرح وہ بھی کافر ہو جائے گا، جس نے یہ کہا کہ قرآن فرشتے کا کلام ہے۔“
(مجموع الفتاوى : 556/12)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1