سوال
نورستان میں کچھ عرصہ قبل تک لڑکیوں کو مہر کے متعلق علم نہیں تھا کہ یہ ان کا شرعی حق ہے، جو انہیں ملنا چاہیے۔ اب ان کو یہ شعور حاصل ہو گیا ہے کہ مہر ان کا حق ہے اور انہیں ملنا چاہیے۔ اس کے بعد کچھ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ لڑکی کا مہر اس کا والد لے سکتا ہے۔ ان کی دلیل درج ذیل احادیث کو بنایا گیا:
دلائل
حدیث 1:
«عن عائشة رضی اﷲ عنها قَالَتْ قَالَ رَسُوْل اﷲﷺ إِنَّ اَطْيَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَاِنَّ اَوْلاَدَکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ»
رواه الخمسة – مشكوة – كتاب البيوع باب الكسب وطلب الحلال – الفصل الثانى
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے پاکیزہ چیز وہ ہے جو تم اپنی کمائی سے کھاؤ، اور بے شک تمہاری اولاد تمہاری کمائی میں سے ہے۔”
حدیث 2:
«وَفِیْ لَفْظٍ وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ اَطْيَبِ کَسْبِه فَکُلُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ هَنِيْئًا»
رواه احمد ص41 ج6
"اور ایک روایت میں ہے کہ آدمی کی اولاد اس کی پاک کمائی میں سے ہے، تو تم ان کے مالوں سے خوشی سے کھاؤ۔”
حدیث 3:
«وَحَدِيْثُ جَابِرٍ رضي الله عنه اَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِيْکَ»
رواه ابن ماجه و ابوداؤد مشكوة – كتاب النكاح باب النفقات وحق المملوك الفصل الثانى
"اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: ‘تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے۔'”
ان احادیث کی بنیاد پر یہ کہا جا رہا ہے کہ لڑکی کے مہر پر اس کے والد کا حق ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان احادیث پر غور کرتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ قرآن کی وہ آیات بھی مدنظر رکھنی چاہییں جو وراثت کے متعلق ہیں۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ:
◈ والدین کو اولاد کے مال میں حصہ ملتا ہے،
◈ اور اولاد کو والدین کے مال میں حصہ ملتا ہے،
◈ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اولاد اپنے مال کی خود مالک ہے۔
یہ تصور کرنا کہ والدین اولاد کے مال کے مکمل مالک ہیں، درست نہیں۔ اگر یہ تصور درست مان لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ:
◈ باپ اپنی اولاد کے مال کا وارث نہیں بن سکتا، کیونکہ وہ تو پہلے ہی اس مال کا مالک قرار پا چکا،
◈ اولاد کی وفات کے بعد اس کے دیگر شرعی وارث، مثلاً اس کی بیوی، شوہر یا بچے وارث نہ بنیں،
◈ جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ شریعت نے سب کو ان کا حصہ دیا ہے۔
اگر والد کو اولاد کے مال کا مالک فرض کر لیا جائے تو اولاد کے مال کی حیثیت والد کے لیے وہی ہوگی جو ایک غلام کے مال کی حیثیت اس کے آقا کے لیے ہوتی ہے۔
جبکہ دین کی بنیادی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ والد اور اولاد کے درمیان مال کی ملکیت کا تعلق اس طرح نہیں ہے، جیسا کہ مالک اور غلام کے درمیان ہوتا ہے۔
قرآن مجید کی آیت
آیت:
﴿وَءَاتُواْ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحۡلَةٗۚ فَإِن طِبۡنَ لَكُمۡ عَن شَيۡءٖ مِّنۡهُ نَفۡسٗا فَكُلُوهُ هَنِيٓٔٗا مَّرِيٓٔٗا﴾
[النساء: 4]
"اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دو، اور اگر وہ اپنی رضا سے اس میں سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے خوشی سے کھا لو۔”
اس آیت کی ایک تفسیر کے مطابق خطاب اولیاء (سرپرستوں) سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ:
◈ عورت کے ولی کو اس کے مہر پر کوئی اختیار نہیں،
◈ وہ عورت کی رضا کے بغیر مہر نہیں کھا سکتا۔
شرعی نتیجہ
تمام دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ:
◈ اولیاء کو یہ چاہیے کہ وہ اپنی زیر ولایت عورتوں کا مہر ان کی رضا کے بغیر نہ لیں،
◈ اور خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اولیاء کے ساتھ حسن سلوک کریں اور اگر ضرورت ہو تو رضامندی سے انہیں کچھ دے دیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب