سوال
اگر ایک شخص حنفی مسلک کے مطابق، یعنی ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیتا ہے (جو کہ بدعت طریقہ ہے)، تو کیا اس عورت سے اہل حدیث شخص نکاح کر سکتا ہے؟ جبکہ اہل حدیث کے نزدیک ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں صرف ایک طلاق شمار ہوتی ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے ماشاء اللہ صحیح بات بیان کی کہ:
❀ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں شرعی طور پر صرف ایک طلاق شمار ہوتی ہیں۔
❀ ایسی صورت میں شوہر کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ عدت کے دوران وہ رجوع کر لے، نکاح کی ضرورت کے بغیر۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾
’’اور خاوند ان کو لوٹا لینے کے زیادہ حقدار ہیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہوں۔‘‘
(سورۃ البقرة: 228)
عدت کے بعد نکاح کی اجازت
❀ اگر عدت مکمل ہو جائے اور رجوع نہ کیا گیا ہو، تو ایسی صورت میں عورت اور مرد دونوں کی رضامندی کے ساتھ نیا نکاح کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ﴾
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ باہمی رضامندی سے نکاح کرنا چاہیں۔‘‘
(سورۃ البقرة: 232)
مسئلہ کی وضاحت
❀ سوال میں جو صورت پیش کی گئی ہے، اس میں اگر ایک حنفی شخص اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہے، تو اہل حدیث مسلک کے مطابق یہ ایک طلاق شمار ہو گی۔
❀ اگر عدت کے دوران عورت اپنے پہلے شوہر کے ساتھ رہنے پر راضی ہو جائے، تو وہ رجوع کر سکتے ہیں اور ان کا رشتہ باقی رہے گا۔
❀ اگر عدت ختم ہو چکی ہو اور عورت اپنے پہلے شوہر سے نکاح نہ کرنا چاہے، تو ایسی صورت میں کسی اہل حدیث شخص سے نیا نکاح جائز ہے، بشرطیکہ دونوں کی رضامندی ہو۔
اہم اصول
❀ شریعت اسلامیہ، چاہے وہ اہل حدیث ہوں یا حنفی یا کسی بھی فقہی مسلک کے ماننے والے، سب کے لیے ایک ہی ہے۔
❀ شریعت میں دو، چار یا پانچ الگ الگ نظام نہیں ہیں۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب