سوال: کیا گھر والوں کو نماز کے لیے جگانا نیکی ہے یا اذان ہی کافی ہے؟
جواب : گھر والوں کو نماز کے لیے جگانا نیکی ہے، یہ نیکی وتقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون میں سے ہے، بلکہ بسا اوقات گھر والوں کو جگانا واجب ہے، کیونکہ یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی قبیل سے ہے۔
✿ فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪﴾ (المائدة : 2)
نیکی اور تقویٰ کے امور پر ایک دوسرے کی معاونت کیا کریں، گناہ اور ظلم کے کام پر کسی کا ہاتھ نہ بٹایا کریں۔
✿ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحم الله رجلا قام من الليل، فصلى، وأيقظ امرأته، فصلت، فإن أبت، نضح فى وجهها الماء، ورحم الله امرأة قامت من الليل، فصلت، وأيقظت زوجها، فصلى، فإن أبى، نضحت فى وجهه الماء.
”اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے ، جو رات کو بیدار ہوا اور تحجد پڑھی، اپنی بیوی کو جگایا، اس نے بھی نماز پڑھی۔ اگر بیوی نے انکار کیا، تو اس کے چہرے پر پانی ڈالا ۔ اللہ اس خاتون پر بھی رحم فرمائے ، جو رات کو اٹھی اور تہجد ادا کی ، شوہر کو جگایا، اس نے انکار کیا، تو چہرے پر پانی ڈالا ۔ “ (مسند الإمام أحمد : 436,251/2 ، سنن أبي داود : 1450، سنن النسائي : 1611 ، سنن ابن ماجه : 1336، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1148) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ علیہم (2567) نے صحیح کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ (309/1) نے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
✿ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (خلاصة الأحكام : 587/1؛ رياض الصالحين : 1183)
جب نماز تہجد کے لیے جگانا نیکی اور رحمت الہی کا باعث ہے، تو دیگر فرض نمازوں کے لیے جگانا بالاولی نیکی ہے۔