بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش خدمت ہے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے دلائل صحیح اور صریح احادیث اور اصحاب رسول سے آثار …یعنی مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں، اور کچھ شبہات اور ان کا ازالہ اور چند ضعیف مرفوع اور موقوف حدیثوں کی تحقیق جن میں ترک فاتحہ خلف الامام کا ذکر ہے۔
مرفوع صحیح روایتیں
1= قال انس بن مالك أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ صلّى بأصحابِه فلمّا قضى صلاتَه أقبَل عليهم بوجهِه فقال: (أتقرَؤونَ في صلاتِكم خَلْفَ الإمامِ والإمامُ يقرَأُ)؟ فسكَتوا قالها ثلاثَ مرّاتٍ فقال قائلٌ أو قائِلونَ: إنّا لَنفعَلُ قال: (فلا تفعَلوا ولْيقرَأْ أحَدُكم بفاتحةِ الكتابِ في نفسِه)
الراوي: أنس بن مالك • ابن حبان، صحيح ابن حبان (١٨٥٢) وأبو يعلى (٢٨٠٥)، والطبراني في ((المعجم الأوسط)) (٢٦٨٠) جميعهم بلفظه.
ترجمہ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھایا نماز پوری کرنے کے بعد اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا کیا تم امام کے پیچھے قرات کرتے ہو جب امام قرات کرتا ہے تین مرتبہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ دہرائے پھر ایک کہنے والے یا سب کہنے والوں نے کہا ہم قرات کرتے ہیں اپ نے فرمایا اس طرح نہ کرو صرف تم سورۃ الفاتحہ کو اپنے دل کے اندر پڑھ لو۔
حكم الحديث
صحيحہ ابن حبان (١٨٤٤) • أخرجه في صحيحه•
صححه ابو الحسن مبشر رحمه الله في كتاب احكام مسائل
تشریح
اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امر کے صیغے کے ساتھ سورۃ الفاتحہ امام کے پیچھے پڑھنے کا حکم دیا ہے
امر کا صیغہ فرضیت پر دلالت کرتی ہے
2= وَحَدَّثَنَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ» ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ. فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ: «اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ»؛
ترجمہ :
سفیان بن عیینہ نے علاء بن عبد الرحمن سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں حضرت ابو ہریرہ سے، انہوں نے نبیﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں ام القریٰ کی قراءت نہ کی تو ناقص ہے۔‘‘ تین مرتبہ فرمایا، یعنی پوری ہی نہیں۔ ابو ہریرہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا: اس کو اپنے دل میں پڑھ لو،
صحیح مسلم حدیث نمبر 878
تشریح
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اقرابہا فی نفسک کا معنی لکھتے ہیں: فمعناہ اقراہا سرا بحیث تسمع نفسک
ترجمہ
اقرا بها في نفسك
اس کا معنی ہے اس کو اہستہ پڑھنا اس حالت میں کہ صرف اپ خود سن سکیں
شرح مسلم، جلد1، ص: 17
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والمراد بقولہ اقرابہا فی نفسک ان یتلفظ بہا سرا دون الجہر بہا ولایجوز حملہ علی ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا
ترجمہ
اس قول ( اقرابہا فی نفسک ) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اواز کے علاوہ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔
( کتاب القرات، ص: 17 )
3 =حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: إِنِّي أَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ وَرَاءَ إِمَامِكُمْ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِي وَاللَّهِ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ،
ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر پڑھی، آپ پر قرأت دشوار ہوگئی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا: مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: تم ایسا نہ کیا کرو سوائے سورة فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- عبادہ ؓ کی حدیث حسن ہے،
مسند احمد رقم الحديث 22750
معجم الصغير الطبرانی رقم الحدیث 266
حكم الحديث
قال شعيب الأرنؤط هذا حديث
صحيح و اسناد حسن
4 =حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:152] قَالَ: «لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ»
ترجمہ
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
صحيح البخاري رقم الحديث756
تشريح
علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وفی الحدیث ( ای حدیث عبادۃ ) دلیل علی ان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الامام والمنفرد والماموم فی الصلوٰت کلہا۔
ترجمہ
علامہ کرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد3، ص: 63)
امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں: ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔
ترجمہ
یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔
( مرعاۃ، ج1، ص: 619)
قال قسطلاني رحمه الله قراءة الفاتحه في كل ركعهٍ منفرداً او اماماً أَوْ مأموماً سواء ٌ أسَرَّ الامامُ او جهرَ
ترجمہ
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر رکعت میں فاتحہ ضروری ہے نمازی خواہ منفرد ہو امام ہو یا مقتدی ہو اور خواہ امام قرات سری کرے یا جہری
ارشاد الساري شرح صحيح البخاري 2/455
5=عن ابی قلابۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعل احدکم یقرا خلف الامام والامام یقرافقال رجل انالنفعل ذلک قال فلا تفعلوا ولکن لیقرا احدکم بفاتحۃ الکتاب۔
ترجمہ
ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شایدجب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے
البيهقي، معرفة السنن والآثار (٣٧٩٤)
6= عن عباده رضي الله عنه
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هَل تقرؤون القُرآنَ إذا كُنتُم مَعي في الصَّلاةِ؟» قال: قُلنا: نَعَم يا رَسولَ اللهِ، قال: «فلا تَفعَلوا إلّا بأُمِّ القُرآنِ»
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا تم قران پڑھتے ہو جب میرے ساتھ نماز میں ہوتے ہو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ہم پڑھتے ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو مگر ام الکتاب کے علاوہ
البيهقي، القراءة خلف الإمام (١٢٩) • [صحيح]
7 = قال عبد الله بن عمر رضي الله عنه صلينا مع رسولِ اللهِ فلما انصرف قال لنا هل تقرؤونَ القرآنَ معيَ قلنا نعم قال فلا تفعلوا إلا بأمِّ القرآنِ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا ہم سے کہا کہ تم میرے پیچھے قران پڑھتے ہو کیا ہم نے کہا جی ہاں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح نہ کیا کرو مگر ام القران کے علاوہ
((زوئد مسند البزار)) (٣٧٧)، وابن حبان في المجروحين (٣/ ٣٤)، والطبراني في ((المعجم الكبير)) (١٣/ ٦٢٢) (١٤٥٤٤)، والبيهقي في ((القراءة خلف الإمام)) (٤٠٦)، واللفظ لهم
8 = عن عَمْرو بن شعيب قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أَتَقرَؤونَ خَلْفي؟”، قالوا: نَعمْ يا رَسولَ اللهِ، إنّا لَنَهُذُّه هَذًّا، قالَ: "فلا تَفعَلوا إلّا بأُمِّ القُرْآنِ
ترجمہ
سیدنا عمر بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا تم میرے پیچھے قرات کرتے ہو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول جی ہاں ہم ٹھہر ٹھہر کے قرات کرتے ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح نہ کیا کرو مگر صرف ام القران کے علاوہ
البيهقي، الخلافيات للبيهقي (١٨١٦)
حكم الحديث صحيح
9 = قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلَّكم تقرؤونَ والإمامُ يقرَأُ؟ قالوا: إنّا لنفعلُ. قالَ: فلا تفعَلوا إلّا أن يقرأَ أحدُكم بفاتحةِ الكتابِ
ترجمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کہ شاید تم امام کے پیچھے قرات کرتے ہو جب امام قرات کر رہا ہوتا ہے صحابہ نے کہا ہم اس طرح کرتے ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح نہ کیا کرو الا یہ کہ صرف تم میں اس سے ہر ایک سورۃ الفاتحہ فاتحہ پڑھ لو
الألباني، أصل صفة الصلاة (١/٣٢٩) • إسناده صحيح • أخرجه أحمد (٢٠٦٠٠)
حكم الحديث
صححه الباني رحمه الله
10= وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الأَزْدِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ حُمَیْدٍ أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ الأَنْصَارِیِّ
قَالَ نَافِعٌ: أَبْطَأَ عُبَادَۃُ عَنْ صَلاَۃِ الصُّبْحِ ، فَأَقَامَ أَبُو نُعَیْمٍ الْمُؤَذِّنُ الصَّلاَۃَ ، فَصَلَّی أَبُو نُعَیْمٍ بِالنَّاسِ ، فَأَقْبَلَ عُبَادَۃُ وَأَنَا مَعَہُ حَتَّی صَفَفْنَا خَلْفَ أَبِی نُعَیْمٍ ، وَأَبُو نُعَیْمٍ یَجْہَرُ بِالْقِرَائَ ۃِ ، فَجَعَلَ عُبَادَۃُ یَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ لِعُبَادَۃَ: سَمِعْتُکَ تَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَأَبُو نُعَیْمٍ یَجْہَرُ۔ قَالَ: أَجَلْ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِی یُجْہَرُ فِیہَا بِالْقِرَائَ ۃِ ، فَالْتَبَسَتْ عَلَیْہِ الْقِرَائَ ۃُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ فَقَالَ: ((ہَلْ تَقْرَئُ ونَ إِذَا جَہَرْتُ بِالْقِرَائَ ۃِ؟))۔ فَقَالَ بَعْضُنَا: إِنَّا نَصْنَعُ ذَلِکَ۔ قَالَ: ((فَلاَ ، وَأَنَا أَقُولُ مَا لِی أُنَازِعُ الْقُرْآنَ ، فَلاَ تَقْرَئُ وا بِشَیْئٍ مِنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَہَرْتُ إِلاَّ بِأُمِّ الْقُرْآنِ))۔
ترجمہ:
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبادۃ بن صامت ؓ کو صبح کی نماز سے تاخیر ہوگئی تو ابو نعیم موذن (جس نے سب سے پہلے بیت المقدس میں اذان دی) نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اتنے میں عبادہ ؓ بھی تشریف لائے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ہم نے ابو نعیم کے پیچھے صف میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ ابو نعیم بلند آواز سے قراءت کر رہے تھے۔ عبادہ ؓ نے سورة فاتحہ (آہستہ آواز میں) پڑھنی شروع کردی۔ جب وہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عبادہ ؓ سے کہا: میں نے آپ کو سورة فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا ہے حالانکہ ابونعیم بلند آواز سے قراءت کر رہے تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں! رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جہری نماز پڑھائی تو آپ پر قرات مشکل ہوگئی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو رخ انور ہماری طرف کر کے گویا ہوئے: جب میں بلند آواز سے قرات کرتا ہوں تو شاید تم بھی قرات کرتے ہو؟ ہم میں سے بعض نے کہا: ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، میں تبھی تو سوچ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن پڑھنا مجھ پر مشکل ہو رہا ہے۔ لہٰذا جب میں بلند آواز سے قرات کروں تو سورة فاتحہ کے علاوہ قرآن سے کچھ نہ پڑھا کرو۔
سنن الكبرى للبيهقي رقم الحديث ٢٩١٧
حكم الحديث
صححه بيهقى رحمه الله
امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے متعلق بے شمار مرفوع صحیح حدیثیں ہیں ہم انہی پر انحصار کرتے ہیں
موقوف روایتیں
ان شاءاللہ ہم صرف صحیح اور سریح روایت پیش کریں گے
1= قال يزيد بن شريك التيمي سألت عمرَ عن القراءةِ خلفَ الإمامِ فأمرني أن أقرأَ قال قلتُ وإن كنْتَ أنْتَ قال وإن كنتُ أنا قلتُ وإن جهرتَ قال وإن جهرتُ
ترجمہ
يزيد بن شريك التيمي رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا امام کے پیچھے قرات کے متعلق انہوں نے مجھے حکم دیا قرات کرنے کا میں کہا اگر اپ نماز پڑھا رہے ہوں انہوں نے کہا اگرچہ میں نماز پڑھا رہا ہوں میں نے کہا اگر اپ جہری قرات کریں انہوں نے کہا اگرچہ میں امام جہری قرات کروں
الحاكم، المستدرك على الصحيحين (٧٩٣) • ]صحيح
سنن الدارقطني (١/٦٥٩) • إسناده صحيح • وابن أبي شيبة (٣٧٤٨)
2= قال عَبايةُ-رَجُلًا مِن بَني تَميمٍ: سَمِعْتُ عُمَرَ بنَ الخَطّابِ -رَضِيَ اللهُ عنه- يقولُ: لا صَلاةَ إلّا بفاتِحةِ الكِتابِ، ومعَها، قالَ: قُلْتُ: أَرَأيْتَ إذا كُنْتُ خَلْفَ الإمامِ؟ قالَ: اقْرَأْ في نَفْسِك.
ترجمہ
عبایہ کہتے ہیں میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے نماز نہیں ہے مگر سورۃ فاتحہ کے ساتھ میں نے کہا اے امیر المومنین کیا خیال ہے اگر میں امام کے پیچھے ہوں انہوں نے کہا پھر اہستہ اواز میں پڑھ لے
البيهقي، الخلافيات للبيهقي (١٨٣١) • [صحيح]
3= قال حماد رحمه الله أن عليًّا كانَ يأمُرُ بالقراءَةِ خلْفَ الإمامِ
ترجمہ
حماد رحمہ اللہ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قرات کرنے کا حکم دیا کرتے تھے
البيهقي، السنن الكبرى للبيهقي (٢/١٦٨)
4= قال السيوطي رحمه الله
قال عبارة رضي الله عنه مَن صلّى خلفَ الإمامِ فَلْيَقْرَأْ بفاتحةِ الكتابِ.
ترجمہ
السیوطی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے وہ سورۃ الفاتحہ پڑھے
الهيثمي، مجمع الزوائد (٢/١١٤) • رجاله موثقون•
الجامع الصغير (٨٧٩٦) أخرجه الطبراني في ((الشاميين)) (٢٩١)
حكم الحديث
قال السيوطي هذا الحديث حسن
5= قال الفراء بن حرب قال ابنِ عَبّاسٍ: اقْرَأْ خَلْفَ الإمامِ بفاتِحةِ الكِتابِ
ترجمہ
فروا بن حرب رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہا امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھو
للبيهقي (١٩٧٤) • إسناد صحيح
حکم الحدیث ،صحیح
6 = قال عبدالله بن أبي الهذيل سألتُ أُبَيِّ بنِ كعبٍ: أقرأُ خلف الإمامِ؟ قال: نعم
ترجمہ
عبداللہ بن ھزیل کہتے ہیں میں نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کیا میں امام کے پیچھے قرات کر سکتا ہوں؟انہوں نے کہا جی ہاں
أخرجه البخاري في ((الأدب المفرد)) (٢٣)، وابن المنذر في ((الأوسط)) (١٣٢٦)، والدارقطني (١٢١٢)
7= قال أبو نضرة سألتُ أبا سعيدٍ الخدريَّ عن القراءةِ خلفَ الإمامِ فقال بِفاتحةِ الكتابِ
ترجمہ
ابو نضرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں میں نے ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے ایک قرات کرنے کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا سورہ فاتحہ پڑھ لیا کرو
المباركفوري، تحفة الأحوذي (٢/٩٧) • إسناده حسن •
8= قال مجاهد: سَمِعتُ عَبدَ اللهِ بنَ عُمَرَ، وابنَ عُتبةَ «يَقرَآنِ خَلفَ الإمامِ»
ترجمہ
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو امام کے پیچھے قرات کرتے ہوئے سنا
البيهقي، القراءة خلف الإمام (٤٠٨)
9= قال الأزهر: سُئِل ابنُ عُمَرَ عنِ القِراءةِ خَلفَ الإمامِ، فقال: «إنِّي لأستَحي مِن رَبِّ هذه البِنيةِ أن أُصَلِّيَ صَلاةً لا أقرَأُ فيها بأُمِّ القُرآنِ»
ترجمہ
ازھر رحمہ اللہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ امام کے پیچھے قرات کرنے کے متعلق انہوں نے کہا مجھے اپنے رب سے حیا اتا ہے کہ میں نماز ادا کروں اس میں سورۃ الفاتحہ نہ پڑھوں
* البيهقي، القراءة خلف الإمام (١٨٠
10= قال أبو شيبة المهري سأل رجلٌ معاذَ بنَ جبلٍ عن القراءةِ خلفَ الإمامِ،. فقال: إذا قرأ فاقرأ بفاتحةِ الكتابِ وقل هو وإذا لم تسمعْ فاقرأ في نفسِك ، ولا تُؤْذِ من عن يمينِك وشمالِك.
معاز بن جبل رضی اللہ عنہ سے سوال کیا امام کے پیچھے قرات کے متعلق انہوں نے کہاجب امام قرات کر رہا ہو صرف سورۃ الفاتحہ پڑھ لو اور اہستہ اہستہ اواز سے پڑھو اپنے دائیں بائیں لوگوں کو تکلیف نہ دو
المهذب فى اختصار السنن 2/614
11 =۔ (ج) علقمہ کہتے ہیں:
ہمیں عبداللہ بن زیاد اسدی کے واسطے سے روایت بیان کی گئی ہے کہ میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ کھڑے ہو کر امام کے پیچھے نماز ادا کی تو میں نے سنا کہ وہ ظہر و عصر میں (امام کے پیچھے ہی) قراءت کرتے تھے۔
اخرجه ابن ابى شيبة رقم الحديث 3780
سنن الكبرى للبيهقي رقم الحديث 2900
حكم الحديث صحيح
12= وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الأَزْدِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ حُمَیْدٍ أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ الأَنْصَارِیِّ
قَالَ نَافِعٌ: أَبْطَأَ عُبَادَۃُ عَنْ صَلاَۃِ الصُّبْحِ ، فَأَقَامَ أَبُو نُعَیْمٍ الْمُؤَذِّنُ الصَّلاَۃَ ، فَصَلَّی أَبُو نُعَیْمٍ بِالنَّاسِ ، فَأَقْبَلَ عُبَادَۃُ وَأَنَا مَعَہُ حَتَّی صَفَفْنَا خَلْفَ أَبِی نُعَیْمٍ ، وَأَبُو نُعَیْمٍ یَجْہَرُ بِالْقِرَائَ ۃِ ، فَجَعَلَ عُبَادَۃُ یَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ لِعُبَادَۃَ: سَمِعْتُکَ تَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَأَبُو نُعَیْمٍ یَجْہَرُ
ترجمہ:
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبادۃ بن صامت ؓ کو صبح کی نماز سے تاخیر ہوگئی تو ابو نعیم موذن (جس نے سب سے پہلے بیت المقدس میں اذان دی) نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اتنے میں عبادہ ؓ بھی تشریف لائے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ہم نے ابو نعیم کے پیچھے نیت باندھ لی۔ ابو نعیم بلند آواز سے قراءت کر رہے تھے۔ عبادہ ؓ نے سورة فاتحہ (آہستہ آواز میں) پڑھنی شروع کردی۔ جب وہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عبادہ ؓ سے کہا: میں نے آپ کو سورة فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا ہے حالانکہ ابونعیم بلند آواز سے قراءت کر رہے تھے۔
سنن الكبرى للبيهقي رقم الحديث ٢٩١٧
حكم الحديث صحيح
((ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے قرات کرنے کا بیان))
13 = قال عبد الله بن ابي رافع عن عليٍّ أنه كان يأمرُ أن يقرأ في الظهرِ والعصرِ في الركعتينِ الأوليينِ بفاتحةِ الكتابِ وسورةٍ وفي الأخريينِ بفاتحةِ الكتابِ خلفَ الإمامٍ
ترجمہ
عبداللہ بن ابی رافع بیان کرتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حکم دیا کرتے تھے کہ ظہر اور عصر کے پہلے دونوں رکوع میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورت اخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحہ پڑھو
سنن الدارقطني (١/٦٦٨) • إسناده صحيح عن شعبة•
الألباني، إرواء الغليل (٢/٢٨٣) • صحيح • أخرجه البيهقي (٢٩٧٣) بلفظه، وابن أبي شيبة (٣٧٦٥
حكم الحديث
صححه الباني رحمه الله
14= قال عمر بن سليم كانَ عبدُ اللهِ بنُ مغفلٍ المُزَنِيُّ صاحبُ رسولِ اللهِ ﷺ يُعَلِّمُنا أن نقرأَ خلفَ الإمامِ في الظهرِ والعصرِ في الركعتينِ الأُولَيَيْنِ بفاتِحَةِ الكتابِ وسورةٍ، وفي الأُخرَيَيْنِ بفاتحةِ الكتابِ
عمر بن سلیم رحمہ اللہ کہتے ہیں عبداللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ ہمیں سکھاتے تھے ہم امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی نماز میں پہلے دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھیں اور دوسری دو رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھ
* البيهقي، السنن الكبرى للبيهقي (٢/١٧١) •
حكم الحديث صحيح
15= قال العيزار بن حريث عنِ ابنِ عبّاسٍ قالَ: اقرَأ خلفَ الإمامِ بفاتِحةِ الكتابِ في الظُّهرِ والعَصرِ
ترجمہ
عیزار بن حریث کہتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھ لیا کرو
نخب الافكار (٤/١١) • طريقه صحيح • أخرجه الطحاوي في ((شرح معاني الآثار)) (١٢١٩
حكم الحديث صحيح
16= قال مجاهد بن جبر المكي سمعتُ عبدَ الله بنَ عمرِو بنِ العاص ِيقرأُ خلفَ الإمامِ في صلاةِ الظهرِ من سورة مريمَ
ترجمہ
مجاہد بن جبر المکی کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ سے سنا وہ امام کے پیچھے ظہر کی نماز میں سورۃ مریم پڑھ رہے تھے
السنن الكبرى للبيهقي (٢/١٦٩) • إسناده صحيح • أخرجه ابن أبي شيبة في ((مصنفه)) (٣٧٤٩) والطحاوي في ((شرح معاني الآثار)) (١٣٠٤) وابن المنذر في ((الأوسط)) (١٣١٤) بلفظه
حکم الحدیث صحیح
کچھ شبہات اور ان کا ازالہ
شبہ
اللہ تبارک و تعالی نے اپنے قران مجید میں فرمایا ہے
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا
ترجمہ
اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو
اس ایت میں حکم دیا گیا ہے کہ جب قران مجید پڑھا جائے تو خاموشی سے اس کو سنو اور جب امام قرات کر رہا ہو تو اس کے پیچھے بھی خاموشی سے سننا چاہیے
ازالہ
1= اس ایت سے نماز میں قرات مراد نہیں ہے
حضرت حکیم الامہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ، میرے نزدیک
واذا قرئ القران فاستمعوا
جب قران مجید پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو ،،تبلیغ پر محمول ہے اس جگہ نماز میں قرات مراد نہیں،سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے،
الكلام الحسن، ملفوظات تھانوی 2/212
تھانوی صاحب کی توضیح سے معلوم ہوا کہ یہ ایت کریمہ تبلیغ پر محمول ہے یعنی قران حکیم جب تبلیغ کی غرض سے پڑھا جائے تو توجہ اور دھیان سے سنا جائے تاکہ اس کے سمجھنے میں اسانی ہو
اگر یہ ایت نماز کے متعلق ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز میں باتیں نہ کیا کرتے مکہ میں
اور یہ ایت مکہ میں نازل ہوئی ہے
واذا قرا القران فاستمعوا
یہ ایت سورۃ الاعراف میں ہے اور سورۃ الاعراف مکی ہے
نماز میں کلام سے مدینہ میں منع کیا گیا ہے
دلیل
حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا عيسى هو ابن يونس، عن إسماعيل، عن الحارث بن شبيل، عن ابي عمرو الشيباني , قال: قال لي زيد بن ارقم:” إن كنا لنتكلم في الصلاة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم يكلم احدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت: حافظوا على الصلوات سورة البقرة آية 238، فامرنا بالسكوت”.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نماز پڑھنے میں باتیں کر لیا کرتے تھے۔ کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کر دیتا۔ پھر آیت «حافظوا على الصلوات الخ» اتری اور ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم ہوا۔
[صحيح البخاري/كتاب العمل في الصلاة/حدیث: 1200]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز گفتگو کرنے کی ممانعت مدینہ طیبہ میں ہوئی کیونکہ حضرت زید بن ارقم ؓ انصاری ہیں اور وہ مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تھے۔
اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے وہ بھی مدنی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی مدینہ منورہ ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور سلام عرض کیا تھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔
ان سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”نماز میں اللہ کا ذکر ہونا چاہیے، اس لیے اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔
“ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔
(فتح الباري: 97/3) (2)
مولانا سرفراز صفدر حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نماز میں کلام مدینہ میں منسوخ ہوا ہے
کتاب احسن الکلام 1/194 طحاوی 1/304
واذا قرئ القران فاستمعوا
یہ ایت مکے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز میں کلام کیا کرتے تھے اور سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے نماز میں کلام کرنا مدینہ میں اکر منسوخ ہوا جب سورۃ البقره. قوموا لله قانتين
کی ایت نازل ہوئی. جب سورۃ اعراف کی یہ ایت وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا کریمہ نے نماز میں کلام اور سلام نہیں روکا تو سورۃ الفاتحہ پڑھنے سے کیسے روکتی ہے
2=۔۔ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا
اس ایت میں عمومی قرات کا ذکر ہے قران کا اطلاق ایک سو چودہ سوتوں پر ہو تا ہے
اور اس عموم کی تخصیص صحیح مرفوع اور موقوف حدیثوں سے ہوتی ہے
((جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ))
اور جب خاص سورۃ الفاتحہ کی متعلق صحیح احادیث موجود ہیں تو یہ اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہے
یعنی امام کے پیچھے قرات الفاتحہ کی جائے
احكام مسائل ابو الحسن مبشر رحمه الله 1/273
شبہ
کیا کوئی مرفوع صحیح میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ؟
ازالہ
1=. کس صحیح مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا
جن حدیثوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے سے منع کیا گیا وہ تمام ضعیف ہیں
مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں
اَلَّذِى يَظْهَرُ بالنَّظْرِ الدَّقَيْقِ وَيَقْبَلُهُ اصحابُ التَّحْقِيْقِ هوَ أَنَّ الْاَحَادِيْثَ الَّتِيِ اِسْتَدَّل بها اَصْحَابُنا لَيْسَ فِيْها حَديثٌ يَدُلُّ عَلَي النَّهْيِ عَنْ قراءةِ الفاتحةِ خَلْفَ الْاِمامِ خصوصاً
ترجمہ
جو بات بنظر دقیق ظاہر ہوتی ہے اور جسے اصحاب تحقیق نے قبول کیا ہے ،وہ یہ کہ جن روایات سے ہمارے اصحابِ نے استدلال کیا ہے ان میں ایک حدیث بھی ایسی نہیں جو خاص طور پر امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے سے منع پر دلالت کرتی ہو
((کتاب امام الکلام ص225))
(( ذكره ابو الحسن رحمه الله فى كتاب احكام مسائل1/278))
اور مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں
ِانَّهُ لمْ يُرْوَ فى حديثٍ مرفوعٍ صحيحٍ النَّهْىُ عن قراءةِ الفاتحهِ خَلْفَ الْامامِ وكُلُّ ما ذَكَرُوْهُ مرفوعاً فيهِ اِمَّا لَا اَصْلَ لهُ وامَّا لَا يَصِحُّ ،،
كتاب (التعليق الممجد)ص101)
(( ذكره ابو الحسن رحمه الله فى كتاب احكام مسائل 1/278))
ترجمہ
کسی مرفوع صحیح حدیث میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی ممانعت وارد نہیں ہوئی ،اس بارے میں علماء نے جو بھی مرفوع روایت ذکر کی ہے وہ یا تو بے اصل ہے یا صحیح نہیں ہے
2= چند ضعیف حدیثیں جن کو مرفوع بیان کیا گیا ہے انکی تحقیق ،
1= قال عبد الله بن عمر أنَّ رَسولَ اللهِ -ﷺ- نَهى عن القِراءةِ خَلْفَ الإمامِ.
الخلافيات للبيهقي (١٨٨٥) • [أنا أتعجب من مسلم يستحل أن يضع على إمامه مثل هذا الكذب الصراح ولسنا نعرف مُحمَّد بن الحسين الهمذاني، ولا مُحمَّد بن عَبْد الرَّحْمنِ، ولا القاسم بن عَبْد الواحد، ولا بكر بن حمزة، من هذه الرواية الموضوعة]
ترجمہ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے پیچھے قرات کرنے سے منع کیا
تحقیق
اس روایت میں چار راوی مجہول ہیں
محمد بن حسن الھمدانی
محمد بن عبدالرحمن
قاسم بن عبدالواحد
بکرا بن حمزہ
اس روایت کو محدثین نے موضوعات میں شمار کیا ہے،
2= قال علی ابن ابی طالب سأل رجلٌ النبيَّ ﷺ أقرأُ خلفَ الإمامِ أم أُنصتُ؟ قال لا بل أَنصِتْ
ابن حبان، المجروحين (٢/٢٧٢) • [فيه] محمد بن سالم يقلب الأسانيد ويروي عن الثقات ما ليس من أحاديثهم ضعفه ابن معين • أخرجه ابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (٦/١٥٥) واللفظ له، والبيهقي في ((القراءة خلف الإمام)) (٤١٢) مطولاً
ترجمہ
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا امام کے پیچھے قرات کی جائے یا خاموش رہا جائے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاموش رہو
تحقیق
اس روایت میں محمد بن سالم راوی ضعیف ہیں
یہ سندوں کو اپنی طرف سے گھڑ کر بناتا تھا
محدثین نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں ضعیف روایتوں میں درج کی ہے
قال جابر بن عبد الله رضي الله عنه قال رسولُ اللهِ ﷺ من صلّى خلف الإمامِ فإنَّ قراءتَهُ لهُ قراءةٌ
سنن الدارقطني (١/٦٧١) • [فيه] أبو الوليد مجهول • أخرجه أحمد (٣/ ٣٣٩)، والدارقطني (١/ ٣٢٣
ترجمہ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے امام کے پیچھے نماز ادا کی امام کا قرات اس کا قرات ہے
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت میں ابو ولید مجہول راوی ہیں اس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے
شبہ
جو روایتیں علی رضی اللہ عنہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں کیا یہ روایتیں صحیح ہیں؟
ازالہ
1= جو روایت علی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے امام کے پیچھے قرات کرنے سے منع کیا ہے وہ روایتیں ضعیف ہیں کیونکہ علی رضی اللہ عنہ سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی خلف الامام قرات کرنا ثابت ہے
جن کو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں
وہ روایتیں صحیح اور صریح ہیں
2=۔ چند ضعیف موقوف روایتیں جن کو سیدنا علی المرتضیٰ اور عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحاب رسول کی طرف منسوب کیا جاتا ہے انکی تحقیق
1= «أنَّ ابنَ مَسعودٍ رَضِيَ اللهُ عنه كان لا يَقرَأُ خَلفَ الإمامِ إلّا أن يَكونَ الإمامُ لا يَقرَأُ».
الراوي: علقمة • البيهقي، القراءة خلف الإمام (٣٧١) • [فيه: أبي حمزة الأعور الكوفي غير محتج به عند أهل العلم بالحديث
ترجمہ
بے شک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قرات نہیں کرتے تھے الا یہ کہ امام خاموشی سے ہو
تحقیق
اس روایت میں أبى حمزة الاعور الكوفى ضعیف ہیں
محدثین نے ان کی روایتوں کو قبول نہیں کیا
2=۔ عن ابن مسعود أنه سُئل عن القِراءةِ خَلفَ الإمامِ؟ قال: أنصِت، فإنَّ في الصَّلاة شُغلًا ويَكفيك الإمام
الراوي: – • الألباني، السلسلة الضعيفة (٢/ ٤٢٠)•
ترجمہ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قرات کرنے کے متعلق سوال کیا گیا ہے انہوں نے کہا خاموش رہو جو امام قرات کرتا ہے وہ تمہیں کافی ہو جائے گا
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے
امام البانی رحمہ اللہ نے اپنے کتاب سلسلہ ضعیفہ میں ذکر کیا ہے یہ وہ کتاب ہے جس میں ضعیف روایتیں ہیں
3= عن عليٍّ قال ليس على الفِطرَةِ مَن قرَأ خَلفَ الإمامِ
الراوي: [عبد الله بن أبي ليلى] • ابن القيسراني، ذخيرة الحفاظ (٤/٢٠٢٦) • [فيه] محمد بن أبي ليلى ضعيف • أخرجه عبد الرزاق (٢٨٠١)، وابن أبي شيبة (٣٨٠٢)، وابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (١٥١١٥) البخاري، الضعفاء الكبير (٢/٣١٧) • لا يصح •
ترجمہ
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس نے امام کے پیچھے قرات کی وہ فطرت پر نہیں ہے
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے اس کی ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ
محمد بن ابی لیلی ضعیف راوی ہیں
محدثین نے اس روایت کو ضعیف روایتوں میں شامل کی ہے امام بخاری نے اس روایت کو ضعفاء الکبیر میں لکھا ہے یہ وہ کتاب ہے جس میں ضعیف روایتیں ہیں
4= عن عليٍّ: من قرأَ خلفَ الإمامِ فقد أخطأَ الفطرةَ
الراوي: [عبدالله بن أبي ليلى] • البخاري، الدراية تخريج أحاديث الهداية (١/١٦٥) • ضعيف
ترجمہ
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس نے امام کے پیچھے قرات کی اس نے غلطی کی ہے فطرت پر
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے
ضعیف ہونے کی وجہ اس میں ایک راوی ہیں عبداللہ بن ابی لیلی یہ راوی ضعیف ہیں
5= قال جابر بن عبد الله من صلّى خلفَ الإمامِ كانتْ قراءتُهُ له قراءَةٌ
[فيه الحسن بن عمارة وهو متروك الحديث] • أخرجه ابن ماجه (٨٥٠)، وأحمد (١٤٦٤٣) بنحوه، والطبراني في ((المعجم الأوسط)) (٧٩٠٣) باختلاف يسير
ترجمہ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس نے امام کے پیچھے نماز ادا کی امام کا قرات مقتدی کی قرات ہوگی
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے
ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک راوی حسن بن عمارۃ ضعیف ہے
متروک الحدیث ہیں
حافظ ابن حجر اور دارقطنی وغیرہ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے
6= قال زيد بن ثابت رضي الله عنه من قرأَ خلفَ الإمامِ فلا صلاةَ لَهُ
* ابن الجوزي، العلل المتناهية (١/٤٢٩) • [فيه أحمد بن علي بن سلمان] قال ابن حبان: لا ينبغي أن يشتغل بحديثه ولا أصل لهذا الحديث • أخرجه ابن حبان في ((المجروحين))
ترجمہ
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس نے امام کے پیچھے قرات کی اس کا نماز نہیں ہے
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے اس میں احمد بن علی بن سلیمان ضعیف راوی ہیں
اور امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سلسلہ ضعیفہ میں ذکر کیا ہے ((993))
ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں اس حدیث میں مشغول ہونا فضول ہے کیونکہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے
7=۔ قال علقمة عنِ ابنِ مسعودٍ، قالَ: لَيتَ الَّذي يقرأُ خلفَ الإمامِ مُلِئَ فوهُ ترابًا
نخب الافكار (٤/١١٣) • [فيه] خديج بن معاوية فيه مقال • أخرجه الطحاوي في ((شرح مشكل الآثار)) (١٣١٠) واللفظ له
ترجمہ
علقمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا جو امام کے پیچھے قرات کرتے ہیں ان کے منہ میں مٹی بھر دی جائے
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت میں ایک راوی ہیں خدیج بن معاویہ اس پر محدثین نے کلام کیا ہے کہ یہ ضعیف ہے
8=۔ قال ابن عبد البر رحمه الله
عن سعدِ بنِ أبي وَقّاصٍ أَنَّهُ قال: وَدِدتُ أنَّ الَّذي يقرأُ خلفَ الإمامِ في فيهِ حَجَرٌ
الألباني، إرواء الغليل (٢/٢٨١) • [فيه] مجهول لا يعرف
الاستذكار (١/٥١٤) • منقطع لا يصح ولا نقله ثقة
ترجمہ
ابن عبدالبر رحمہ اللہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جو امام کے پیچھے قرات کرتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ ان کے منہ میں پتھر ڈال دی جائیں
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے وجہ اس روایت میں انقطاع ہے
منقطع روایت ضعیف کے اقساموں میں سے ایک قسم ہے
اس روایت کو ثقہ راویوں سے روایت نہیں کی گئی ہے اس میں کچھ راوی مجہول بھی ہیں
9= قال انس بن مالك رضي الله عنه مَنْ قرأَ خلفَ الإِمامِ مُلِئَ فُوهُ نارًا
الراوي: • ابن القيسراني، تذكرة الحفاظ (٣٤٥) • [فيه] مأمون بن أحمد الهروي دجال من الدجاجلة يروي الموضوعات • أخرجه ابن حبان في ((المجروحين)) (٢/٣٠٢)
ترجمہ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جو امام کے پیچھے قرات کرتے ہیں ان کے منہ میں اگ بھر دی جائے
تحقیق
یہ روایت ضعیف ہے اس میں
مامون بن احمد الھروری کذاب راوی ہیں جو موضوع روایتیں بیان کیا کرتا ہے