زکوٰۃ کا حکم: قسطوں کی رقم، قرض اور کاروباری آمدنی
ماخوذ: احکام و مسائل، زکٰوۃ کے مسائل، جلد 1، صفحہ 270

سوال کا پس منظر

سائل ایک ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ اس نے جو گاڑیاں فروخت کی ہیں ان کی مجموعی مالیت تقریباً چالیس لاکھ روپے بنتی ہے۔ اس رقم میں سے دس لاکھ روپے قرض کی مد میں ادا کرنے ہیں، جبکہ تیس لاکھ روپے باقی بچتے ہیں۔ سائل یہ جاننا چاہتا ہے کہ:

  • زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہوگا؟
  • اگر یہ رقم قسطوں کی صورت میں واپس ملتی ہے تو:
    • کیا سال کے دوران موصول ہونے والی قسطوں پر زکوٰۃ دینا ہوگی؟
    • کیا قرض کی رقم کو منہا کرکے باقی پر زکوٰۃ دینی ہوگی؟
    • یا قرض کی رقم پر بھی زکوٰۃ دینی ہوگی؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں بیان کی گئی صورت حال کی روشنی میں درج ذیل احکام بیان کیے جا رہے ہیں:

موجودہ رقم اور واجب الادا رقم کی زکوٰۃ

  • جو رقم آپ کے پاس فی الحال موجود ہے، اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
  • جو رقم لوگوں سے وصول کرنی ہے، چاہے وہ:
    • آپ نے کسی کو قرض دیا ہو، یا
    • کسی کو چیز فروخت کی ہو اور اس کی قیمت ابھی باقی ہو،

    تو ایسی رقم بھی زکوٰۃ کے حکم میں شامل ہے۔

  • اس کے علاوہ آپ کے پاس جو بھی سونا یا چاندی موجود ہے، ان پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔

واجب الادا قرض اور زکوٰۃ

  • جو رقم آپ نے کسی سے قرض لی ہوئی ہے، اس پر آپ کے ذمے زکوٰۃ نہیں ہے۔
  • قرض دینے والے کی حیثیت سے اگر آپ نے کسی کو قرض دیا ہے، تو:
    • زکوٰۃ آپ کے ذمے ہوگی، نہ کہ اس شخص کے جس نے آپ سے قرض لیا ہے۔

قسطوں کی بیع اور شرعی حکم

بعض لوگ کاروبار میں ایسی بیع کرتے ہیں جس میں:

  • نقد قیمت کم رکھی جاتی ہے،
  • اور ادھار قیمت زیادہ ہوتی ہے۔

یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»
رواه ابوداؤد كتاب البيوع-باب فى من باع بيعتين فى بيعة
"جو ایک بیع میں دو سودے کرتا ہے، تو اس کے لیے دونوں میں سے کم قیمت والا ہے یا وہ سود ہے۔”

قسطوں پر بیع میں عموماً یہی معاملہ ہوتا ہے کہ قیمت نقد کے مقابلے میں زیادہ رکھی جاتی ہے، جو کہ ربا (سود) کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔

نتیجہ

  • آپ کو اپنی موجودہ دستیاب رقم،
  • وصول طلب رقم (چاہے وہ فروخت کی قیمت ہو یا قرض دیا گیا مال)،
  • اور سونا و چاندی — ان سب پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
  • جو رقم آپ نے کسی سے قرض کے طور پر لی ہے، اس پر زکوٰۃ نہیں، کیونکہ وہ آپ کی ملکیت نہیں ہے۔
  • اگر آپ نے کسی کو قرض دیا ہے یا فروخت کی قیمت قسطوں میں وصول ہونی ہے، تو وہ رقم زکوٰۃ کے قابل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1