قبر کی زیارت کے لیے سفر کا حکم اور حدیث «لا تُشَدُّ الرِّحَالُ»
ماخوذ : احکام و مسائل – جنازے کے مسائل، جلد 1، صفحہ 267

سوال

جناب حافظ صاحب، آپ نے جو حدیث زیارتِ قبور کے بارے میں نقل کی ہے، وہ ہمارے لیے باعثِ احترام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، یہ بات میں نے پڑھ لی۔ میں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’الوسیلہ‘‘ بھی مطالعہ کی، جس میں رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سامنے آئی، جس میں یہ الفاظ تھے کہ تین مقامات کی زیارت کے لیے سفر کی نیت کی جاتی ہے: بیت المقدس، بیت اللہ، اور مسجد نبوی۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز کی زیارت کے لیے سفر کرنا کیسے درست ہوگا؟ اگر کسی قبر کی زیارت کے لیے سفر کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ بھی ایک نیت کے ساتھ سفر ہوگا۔ برائے مہربانی اس بات کو وضاحت سے سمجھا دیجیے، مہربانی ہوگی۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو حدیث امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’الوسیلہ‘‘ میں پڑھی، وہ حدیث اس بندہ نے بھی اپنے مکتوب میں نقل کی ہے۔ آپ مکتوب میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں:

’’اس اجازت میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ محض زیارتِ قبور کی خاطر شَدُّ الرِّحَال نہ ہو اور عورت بکثرت زیارت نہ کرے کیونکہ حدیث میں ہے:
«لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلٰی ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ» الخ

یہاں شَدُّ الرِّحَال سے مراد سفر کرنا ہے۔ چنانچہ میری تحریر کا مطلب یہ ہے:

’’مگر شرط یہ ہے کہ محض زیارتِ قبور کی خاطر سفر نہ ہو‘‘ الخ

یعنی:

◈ زیارتِ قبور کی اجازت مرد و عورت دونوں کو ہے۔
◈ مگر شرط یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے۔
◈ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلٰی ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ»
(سفر صرف تین مساجد کی زیارت کے لیے کیا جائے: مسجد الحرام، مسجد نبوی، اور مسجد اقصیٰ)

لہٰذا جو بات آپ نے پوچھی، اس کا خلاصہ یہی ہے کہ قبر کی زیارت جائز ہے، مگر اس کے لیے مخصوص نیت کے ساتھ سفر کرنا شرعی طور پر درست نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1