امام کے بلند آواز سے آمین کہنے سے متعلق فقہاء کے اقوال
یہ اقتباس محمد مُظفر الشیرازی (مدیر جامعہ امام بخاری، سیالکوٹ) کی کتاب نماز میں اُونچی آواز سے آمین کہنا سے ماخوذ ہے جس کے مترجم حافظ عبدالرزاق اظہر ہیں۔

اس مسئلہ میں فقہاء کے اقوال درج ذیل ہیں:

احناف کا مذہب:

اس مسئلہ میں احناف کا مذہب یہ ہے کہ امام آہستہ آواز سے آمین کہے گا اور امام حسن الشیبانی کی روایت میں جس کو وہ امام ابوحنیفہ سے بیان کرتے ہیں:
لا يقولها مطلقا أى سرا ولا جهرا
”امام مطلق طور پر آمین نہیں کہے گا نہ بلند آواز میں اور نہ ہی آہستہ آواز میں۔ “
الترمذی، تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/113-114) اور زین الدین اعلیٰ البحر الرائق شرح كنز الدقائق (1/331)؛ ابن الهمام الحنفي شرح فتح القدير على الهداية (1/295) اور دیکھیے: ابن عابدین حاشیہ رد المختار على الدر المختار (1/475-476، 496) اور دیکھیے: المرغینانی الهداية شرح بداية المبتدى مع شرح فتح القدير (1/294-495) اور دیکھیے: اکمل الدین البابرتي، شرح العناية على الهداية مع فتح القدير (1/295-296)
احناف کے دلائل درج ذیل ہیں:
1- انھوں نے وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی روایت سے دلیل لی ہے:
أنه قال: آمين وخفض بها صوته
”ہم نے آمین کہا اور آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو پست رکھا۔ “
مسند أحمد (4/316)
2 – اور عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ کے قول کے ساتھ بھی انھوں نے دلیل لی ہے:
أربع يخفيهن الإمام التعوذ، والتسمية والتأمين والتحميد
”چار چیزیں ایسی ہیں جن کو امام پست آواز سے کہے گا: تعوذ، بسم اللہ، آمین اور الحمد لله۔ “
مصنف ابن ابی شیبہ (1/410-411) كتاب الصلوة، باب من كان لا يجهر بسم الله الرحمن الرحيم

احناف کے دلائل کا مناقشہ درج ذیل ہے:

احناف کی پہلی دلیل جس سے وہ امام کے بلند آواز سے آمین کہنے کی معدومیت پر دلیل پکڑتے ہیں وہ وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی روایت ہے:
أنه قال: آمين وخفض بها صوته
”احناف کا اس روایت سے دلیل پکڑنا درست نہیں ہے۔ “
اور اس روایت پر کلام مبحث اول کی پہلی فصل میں گزر چکا ہے اس کی طرف رجوع کریں، یہاں پر اس کو دوبارہ پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اور احناف کا عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ کے قول کے ساتھ استدلال بھی ان کے دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ حقیقت میں ابراہیم نخعی کا قول ہے جس کو ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا ہے جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔
اور اگر یہ عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ کا قول ثابت ہو جائے اور اس کی سند بھی ان تک صحیح ہو، پھر بھی اس کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جا سکتی کیونکہ یہ صحیح حدیث نبوی کے صریح مخالف آ رہا ہے اور وہ حدیث وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی ہے جو سفیان ثوری کی روایت کے ساتھ ہے وہ مسلمہ بن کھیل سے بیان کرتے ہیں وہ حجر بن العنبس سے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ قال آمين ومد بها صوته
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا اور آمین کہی اور آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو کھینچا۔ “
وفي رواية لأبي داود قال: آمين ورفع بها صوته
”اور ابو داود کی روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا اور آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا۔ “
اس حدیث کی تخریج مبحث اول کی پہلی فصل میں گزر چکی ہے، وہاں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اور ابو داود کی ایک دوسری روایت ہے، اس کے الفاظ یوں ہیں:
أنه صلى خلف النبى صلى الله عليه وسلم فجهر بآمين
”کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہا۔ “
اور احناف نے اپنے مذہب کی تائید کے لیے اس کی جو علت پیش کی ہے، وہ یہ ہے کہ آمین ایک دعا ہے اور دعا کی بنیاد ہی یہ ہے کہ وہ مخفی ہوتی ہے۔ اور ان کی اس علت کا جواب دیتے ہوئے مبارک پوری فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں ان بعض لوگوں کے استدلال کی مضبوطی پہلی شکل کی بنیاد پر وہ اس طرح کہ آمین ایک دعا ہے اور اس کو مخفی رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالٰی کے اس فرمان کے مطابق:
﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً﴾
(7-الأعراف:55)
”پکارو اپنے رب کو عاجزی سے اور آہستگی سے۔ “
تو اس لحاظ سے آمین کو بھی مخفی کہنا چاہیے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے اگر کلیہ صغریٰ اور کلیہ کبریٰ کی صحت ثابت ہو جائے تو نتیجہ بھی درست ہو جائے گا۔ لیکن کلیہ صغریٰ کی صحت میں نظر ہے کہ: ہم نہیں تسلیم کرتے کہ آمین دعا ہے بلکہ ہم تو یوں کہتے ہیں کہ آمین دعا کے لیے ایسے ہی ہے جیسے خط کے لیے مہر ہوتی ہے جیسا کہ امام ابو داود نے ابی زہیر النمیری کی حدیث سے بیان کیا ہے کہ:
إن آمين مثل الطابع على الصحيفة
بے شک آمین خط پر مہر کی طرح ہے۔
پھر انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا:
إن ختم بآمين فقد أوجب
”کہ اگر دعا آمین کے ساتھ ختم ہوتی ہے تو اس کی قبولیت واجب ہو جاتی ہے۔ “
سنن ابی داود كتاب الصلاة، باب التأمين وراء الإمام (1/577) رقم الحديث: 938
اور اگر ہم تسلیم کر لیں کہ آمین دعا ہے تو پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ اصلاً مستقل طور پر دعا نہیں ہے بلکہ یہ کہ جو توابع چیزیں ہیں ان میں سے ہے اسی لیے اکیلے آمین کے ساتھ دعا نہیں کی جاتی بلکہ پہلے دعا کی جاتی ہے اس کے بعد آمین کہا جاتا ہے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ آمین کو جہراً کہنا یا مخفی کہنا دعا کی اصلیت کے تابع ہے اگر دعا جہری ہے تو آمین بھی جہری ہوگی اور اگر دعا مخفی ہے تو آمین بھی مخفی کہیں گے اور اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ آمین اصل دعا ہے پھر ہم کلیہ کبریٰ کو تسلیم نہیں کرتے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ بے شک:
وَاهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
(سورة الفاتحة: 6 ، 7)
”دعا ہے اور اس کو جہری نمازوں میں جہراً ہی پڑھا جاتا ہے اور اسی طرح اور بھی بہت زیادہ دعائیں ہیں اس سے آمین کو جہراً کہنا ثابت ہو گیا۔ “
اور احناف کا یہ ایسا استدلال ہے جس کی طرف مائل نہیں ہوا جائے گا۔
المباركفورى، تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذى: (211/1)

مالکیہ کا مذہب:

یہاں پر مالکیہ کے مذہب میں دو روایتیں ہیں:

پہلی روایت:

ابن القاسم امام مالک سے روایت کرتے ہیں:
إن الإمام لا يقول آمين إنما يقول ذلك من خلفه دونه
”امام آمین نہیں کہے گا، بلکہ صرف پیچھے کھڑے ہونے والے آمین کہیں گے امام کے علاوہ۔ “
یہ قول ابن القاسم اور امام مالک کے جو مصری تلامذہ ہیں ان کا ہے۔

دوسری روایت:

یہ امام مالک سے مدینہ والوں کی روایت ہے:
ان میں عبدالملک بن ماجشون، مطرف بن عبداللہ، ابو مصعب الزہری، عبداللہ بن نافع ان تمام لوگوں کا قول یہ ہے:
کہ امام اور جو اس کے پیچھے ہیں وہ آمین کہیں گے اور بعض مدینہ والوں کا قول یہ بھی ہے کہ آمین جہراً نہیں کہا جائے گا۔
للسالک إلى موطا ، مالک (108/2) ابن رشد بداية للمجتهد (176/1) ؛ محمد بن ابراهيم المالکی، تنویر المقاله (3712)
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
پہلی روایت والوں نے سمی کی روایت سے استدلال لیا جس کو وہ ابو صالح سے بیان کرتے ہیں اور وہ ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قال الإمام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ فقولوا: آمين
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو۔“
متفق علیہ اس کی تخریج (ص: 24 پر ) گزر چکی ہے۔
اور سمی کی حدیث جیسی حدیث ابو موسیٰ اشعری رضي اللہ عنہ سے بھی آتی ہے۔
صحیح مسلم كتاب الصلاة، باب التشهد في الصلاة (4/119-120)
استدلال کی وجہ درج ذیل ہے:
پہلی روایت والوں نے کہا اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ امام وَلَا الضَّالِّينَ کی قراءت پر اقتصار کرے گا اس سے زیادہ الفاظ نہیں کہے گا اور مقتدی آمین کہے گا۔
اور دوسری روایت والوں نے حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ اور وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی روایت سے استدلال لیا ہے ان دونوں روایتوں کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہونے کی وجہ ہے۔
اس حدیث کی تخریج (ص: 24 پر ) گزر چکی ہے۔
پہلی روایت والوں نے اپنے موقف کی جو علت پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ دعا میں طریقہ کار جو ہوگا وہ یہ ہے کہ سامع آمین کہتا ہے دعا کرنے والا آمین نہیں کہتا اور سورۂ فاتحہ کا آخر دعا ہے اس لیے امام آمین نہیں کہے گا، کیونکہ وہ تو دعا کرنے والا ہے۔
الزرقاني، شرح الزرقاني على المؤطا (259/1) ابن رشد، بداية المجتهد (176/1)
ان کے دلائل کا مناقشہ وجوائز درج ذیل ہے:
اصحاب مالک کا کہنا یہ ہے کہ امام آمین نہیں کہے گا انھوں نے سمی مولی ابی بکر کی حدیث کے ظاہر سے استدلال لیا ہے۔
”اس کے بارے میں حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بات صحابہ کرام رضي اللہ عنہم میں سے کسی بھی صحابی سے قطعاً ثابت نہیں ہے اور نہ ہی تابعین میں سے کسی سے ثابت ہے اور نہ ہی اس سے منع کی اصلاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود ہے۔ “
ہاں! بعض تقلید میں مبتلا لوگوں نے کہا کہ سمی مولی ابی بکر اور سہیل بن ابی صالح دونوں ابی صالح سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قال القارئ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ فقال من خلفه آمين فوافق قوله قول أهل السماء غفر له ما تقدم من ذنبه
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قاری غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو جو اس کے پیچھے ہیں وہ آمین کہیں اور اگر اس کا آمین کہنا آسمان کے فرشتوں کے موافق ہو گیا تو اس کے پچھلے سارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔ “
یہ الفاظ سہیل کی روایت کے ہیں۔
اور سمی کی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قال الإمام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ فقولوا آمين
جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو۔
اس کی تخریج (ص: 24 پر) گزر چکی ہے۔
تو وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں امام کے آمین کہنے کا ذکر نہیں ہے۔
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلی روایت والوں نے جو اپنے موقف کی علت پیش کی ہے وہ مردود ہے کیونکہ صحیح حدیث موجود ہے جس کو سنن اربعہ اور دیگر لوگوں نے روایت کیا ہے۔
اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ موجود ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ فقال: آمين ومد صوته
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی قراءت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا اور اپنی آواز کو لمبا کیا۔
اور بعض روایات میں رَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ اپنی آواز کو بلند کیا کے الفاظ بھی موجود ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا تو آپ نے جہراً آمین کہا۔
اس کی تخریج (ص: 31 پر) گزر چکی ہے۔
بلکہ جب سامع کے لیے آمین کہنا مستحب ہے تو پھر دعا کرنے والے کے لیے تو بالاولیٰ مستحب ہے اور انھوں نے اپنے مذہب کے لیے دلیل لیتے ہوئے یہ بھی کہا: جس طرح لغت میں آمین کا نام دعا رکھا جاتا ہے اسی طرح دعا کا نام بھی آمین رکھا جا سکتا ہے۔ تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے دلیل پکڑی ہے:
قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا
﴿سورة يونس: 89﴾
”تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ہے۔ “
یہ الفاظ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے لیے فرمائے گئے ہیں۔
مفسرین کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہہ رہے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں: قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا ۔
حافظ ابو عمر ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو کچھ بھی انھوں نے اس حوالہ سے کہا ہے اس میں کسی طرح کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی لغت میں کوئی ایسی چیز ہے جس میں دعا کا نام آمین رکھا گیا ہو۔
ابن عبدالبر، التمهيد (7/12)
اگر ان کا دعویٰ درست ثابت ہو جائے اور ان کی تاویل کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ آمین کا نام دعا رکھ دیا جائے لیکن دعا کو آمین کہا جائے یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا:
قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا
﴿سورة يونس: 89﴾
کہ تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ہے یہ نہیں کہا گیا کہ تم دونوں کی آمین کو قبول کر لیا گیا ہے۔
جس شخص نے دعا کو آمین کہا وہ غافل آدمی ہے اس کے پاس بصیرت نام کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا کے بارے میں نہیں ہے۔ اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دعا تو ان دونوں کے لیے ہے اور اس کا فائدہ بھی ان دونوں کی طرف لوٹنے والا ہے ان کے دشمنوں سے انتقام کے حوالہ سے، اسی وجہ سے کہا گیا ہے قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا ” دَعْوَتَا كُمَا“ نہیں کہا گیا۔
اور اگر آمین دعا ہوتی تو پھر یہ ہونا چاہیے تھا: قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتَاكُمَا اور آمین کہنے والے کا نام داعی رکھنا بھی جائز ہے، کیونکہ آمین کا معنی یہ ہے کہ اے اللہ ہم سے ہماری اس دعا کو قبول فرما لے۔ ان دلائل کی بنیاد پر جو ہم پہلے پیش کر چکے ہیں یہ ناجائز ہے کہ ہم دعا کا نام آمین رکھ دیں، واللہ اعلم۔

شافعیہ کا مذہب:

شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام بلند آواز سے آمین کہے گا۔
الشافعي، الأم (1/95)؛ النووي المجموع شرح المهذب (3/327-334)؛ والنووي روضة الطالبين (1/247)؛ محمد الخطيب، مغني المحتاج إلى الفاظ المنهاج، جزء (1/161)؛ محمد الزهري السراج الوهاج على متن المنهاج، ص: 44
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
شافعیوں نے حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال لیا ہے:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا أمن الإمام فآمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو بے شک جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی اس کے پچھلے سارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔
اس کی تخریج (ص: 31 پر) گزر چکی ہے۔
اور اسی طرح وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی روایت سے بھی انھوں نے استدلال لیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
سمعت النبى صلى الله عليه وسلم قرأ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ فقال: آمين مد بها صوته
میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جب آپ پر آئے تو آپ نے لمبی آواز سے آمین کہا۔
اس کی تخریج (ص: 31 پر) گزر چکی ہے۔
وفي رواية أبى داود: رفع بها صوته
اور ابو داود کی روایت کے الفاظ ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہا۔
سنن ابی داود كتاب الصلاة، باب التأمين (1/574) رقم الحديث: 932
اور انھوں نے ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی استدلال لیا، ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع صوته فقال: آمين
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کی قراءت سے فارغ ہوتے تو آپ بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے۔
سنن الدار قطني جن باب التأمين فى الصلاة، باب فاتحة الكتاب والجهر بها (335/1) اور انھوں نے کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔
اور انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضي اللہ عنہ کے اس اثر سے بھی دلیل پکڑی ہے اور وہ یہ ہے:
قال عطاء آمين دعاء أمن ابن الزبير ومن وراءه حتى إن للمسجد لجة
عطاء فرماتے ہیں: آمین دعا ہے، ابن زبیر رضي اللہ عنہ اور ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں نے آمین اس قدر بلند آواز سے کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔
صحيح بخاری مع الفتح (262/2) تعليقا؛ ومصنف عبدالرزاق (96/2) انھوں نے اس کو موصول بیان کیا ہے۔
ان کے دلائل کا مناقشہ درج ذیل ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی حدیث إذا أمن الإمام فآمنوا اس روایت سے شافعیہ نے استدلال لیا ہے اور اس روایت کی صحت پر اتفاق ہے۔
اور وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی روایت جس میں یہ الفاظ ہیں: فقال: آمين مد بها صوته بلا شک وشبہ یہ روایت بھی صحیح ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی روایت إذا فرغ من قراءة أم القرآن اس روایت کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: هذا إسناد حسن یہ سند حسن درجے کی ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: هذا حديث صحيح یہ حدیث صحیح ہے۔
مستدرك حاكم، كتاب الصلوة، باب إذا فرغ من أم القرآن رفع صوته فقال آمين (1/223)
اور ابن زبیر رضي اللہ عنہ کا یہ اثر اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں معلق تخریج کیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا معلق روایت کرنا جب صیغہ جزم کے ساتھ ہو، جیسا کہ یہ اثر بیان کیا ہے تو ایسی صورت میں وہ معلق روایت ان کے نزدیک بھی اور دیگر لوگوں کے نزدیک بھی صحیح ہوتی ہے اور امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں موصول بیان کیا ہے۔

حنابلہ کا مذہب:

حنابلہ کا مذہب یہ ہے کہ امام جہری نمازوں میں آمین جہراً کہے گا۔
ابن قدامة المغني (1/353)؛ أبو إسحاق المؤرخ الحنبلي المبدع في شرح المقنع (1/339-340)؛ مصطفى الرحيباني مطالب أولي النهى في شرح نهاية المنتهى (1/431)؛ أحمد البعلي الروض الندي شرح كافي البتدي، ص: 76؛ ابن قدامة المقنع في فقه أحمد بن حنبل (1/139-140)
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی اس روایت سے استدلال لیا ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا أمن الإمام فآمنوا
بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔
اس کی تخریج (ص: 24 پر) گزر چکی ہے۔
انھوں نے بھی وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی روایت سے استدلال لیا ہے:
فقال: آمين مد بها صوته
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا اور اپنی آواز کو بلند کیا۔
اس کی تخریج (ص: 64 پر) گزر چکی ہے۔
اور انھوں نے ابن زبیر رضي اللہ عنہ کے اثر سے بھی استدلال پکڑا ہے:
قال عطاء: آمين دعاء أمن ابن الزبير ومن وراءه حتى إن للمسجد لجة
عطاء فرماتے ہیں: آمین دعا ہے، ابن زبیر رضي اللہ عنہ اور ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں نے آمین اس قدر بلند آواز سے کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔
اور انھوں نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا.
ورفع بها صوته
اور اپنی آواز کو بلند کیا تھا۔
اس کی تخریج (ص: 31 پر) گزر چکی ہے۔
اور اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے آمین کہنے کے ساتھ ہی مقتدی کو بھی آمین کہنے کا حکم صادر فرمایا ہے اور اگر آمین جہرا نہ ہوتی تو اس کو امام کی آمین کے ساتھ معلق نہ کیا جاتا، جس طرح مخفی کہنے کی حالت میں معلق نہیں ہے۔ اور جو دلائل انھوں نے نقل کیے ہیں وہ تو سورۂ فاتحہ کے آخر کے ساتھ ہی باطل ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ دعا ہے اور اس کو جہراً کہا جائے گا اور تشہد کی دعا بھی اس کے تابع ہے وہاں سراً اس کی تابع داری ہوگی اور یہاں آمین قراۃ کے تابع ہے، لہذا جہر میں ہی پیروی ہوگی ۔
ابن قدامة المغني (1/253)
دلائل کا مناقشہ درج ذیل ہے:
وہ ادلہ وبراہین جن سے انھوں نے استدلال لیا ہے وہ ساری صحیح ہیں جیسا کہ شافعیہ کے مذہب میں گزر چکا ہے۔

امام کے جہراً آمین کہنے کے مسئلہ میں راجح موقف:

میں کہتا ہوں: اس مسئلہ میں راجح موقف یہی ہے کہ امام جہری نمازوں میں آمین جہراً ہی کہے گا ان دلائل کی بنیاد پر جو ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں:

اولاً:

حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی حدیث کی بنیاد پر:
إذا أمن الإمام فآمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہا کرو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی اس کے پہلے سارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔
اس کی تخریج (ص: 24 پر) گزر چکی ہے۔
اگر امام آمین جہراً نہ کہے تو مقتدی کا امام کے ساتھ آمین کہنا ممکن نہیں اور نہ ہی آمین کہنے میں اس کے ساتھ موافقت ممکن ہو سکتی ہے۔

ثانیاً:

حضرت وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی حدیث کی بنیاد پر:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال: وَلَا الضَّالِّينَ قال: آمين رفع بها صوته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وَلَا الضَّالِّينَ کہتے تو آپ بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے۔
اس کی تخریج (ص: 31 پر) گزر چکی ہے۔
وفي رواية: فجهر بآمين
اور ایک روایت کے الفاظ ہیں: آپ آمین جہراً کہا کرتے تھے۔
وفي لفظ: وطول بها
اور ایک کے الفاظ ہیں: آپ آمین کو لمبا کرتے تھے۔
یہ روایت امام کے جہراً آمین کہنے کے حق میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی روایت سے بھی زیادہ صراحت والی اور واضح روایت ہے اور یہ حدیث بغیر کسی شک وشبہ کے صحیح ہے۔
اور شعبہ رحمہ اللہ کی روایت جس میں یہ الفاظ ہیں: وخفض بها صوته کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آواز کو پست رکھا۔
اس پر فصل اول کی مبحث اول میں کلام گزر چکا ہے اور اس روایت کے ساتھ حجت اور دلیل قائم نہیں ہوتی۔

ثالثاً:

حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ کی اس حدیث کی بنیاد پر:
كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع صوته وقال: آمين
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ام القرآن کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے آمین کہا کرتے تھے۔
اس کی تخریج (ص: 84 پر) گزر چکی ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: إسناده حسن اس کی سند حسن ہے اور یہ روایت اس اختلافی مسئلہ کے حل میں نص کی حیثیت رکھتی ہے۔
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے متعدد ترجیحات نقل کی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یقیناً ابو الولید الطیالسی آپ کو کافی ہیں۔ امام شعبہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ متن کے لحاظ سے ثوری رحمہ اللہ کے موافق ہے۔
ابن القيم إعلام الموقعين (2/286)
اور انھوں نے فرمایا کہ اگرچہ یہ دونوں روایتیں ایک دوسرے کے مد مقابل آ جائیں تو جو بلند آواز سے آمین کہنے والی روایت ہے وہ کچھ زیادتی اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے اور وہ قبولیت کی زیادہ حق دار ہے۔
اور امام ترمذی رحمہ اللہ وائل بن حجر رضي اللہ عنہ کی روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ایسے ہی کہتے ہیں چند ایک کے علاوہ اہل علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والوں سے، ان سب لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آدمی آمین مخفی آواز سے نہیں بلکہ بلند آواز سے کہے گا اور وہ اثر جس کو امام عبدالرزاق نے ابن جریج سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں میں نے عطاء سے کہا: آمین کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا تھا:
لا أدعها أبدا
”میں اس کو کبھی بھی نہیں چھوڑتا۔ “
الإمام الترمذي الجامع (2/28)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1