نماز ترک کرنے والا کافر ہے؟ نماز جنازہ کا شرعی حکم
ماخوذ: احکام و مسائل – جنازے کے مسائل، جلد 1، صفحہ 258

سوال کا مفہوم

آپ نے دو احادیث پیش کیں:

حدیث 1:

«إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلٰوۃِ»
(صحیح مسلم، باب بيان اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلوة)

ترجمہ: ’’بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے۔‘‘

حدیث 2:

«اَلْعَهْدُ الَّذِیْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلٰوةُ فَمَنْ تَرَکَهَا فَقَدْ کَفَرَ»
(جامع ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلوة)

ترجمہ: ’’یقیناً ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، پس جس نے اسے ترک کیا تو بے شک اس نے کفر کیا۔‘‘

ان احادیث کا مطلب کیا ہے؟

آپ نے سوال کیا ہے کہ:

◈ کیا ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایک نماز یا کچھ نمازیں چھوڑ دے، وہ کافر ہو جائے گا؟
◈ یا مراد یہ ہے کہ جو نماز کا انکار کرے، وہی کافر ہو گا؟
◈ نیز، کیا بے نمازی کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات بالکل واضح ہے کہ:

➊ نماز کا انکار کرنے والا (منکرِ نماز):

◈ ایسا شخص جو نماز کو فرض ماننے سے انکار کرتا ہے، یعنی وہ کہتا ہے کہ نماز فرض نہیں ہے، تو وہ شخص بالاجماع کافر ہے۔
◈ اس کا انکار شریعت کے ایک قطعی اور معلوم بالضرورہ حکم کا انکار ہے، اور یہ اسلام سے خروج کے مترادف ہے۔

➋ نماز چھوڑنے والا (تارکِ نماز):

◈ وہ شخص جو نماز کو فرض تو مانتا ہے لیکن سستی، غفلت یا دنیاوی مشاغل کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا، اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے:

❀ بعض علماء کا کہنا ہے کہ وہ کافر ہے، ان احادیث کی روشنی میں۔
❀ بعض دوسرے علماء کہتے ہیں کہ وہ فاسق ہے، مگر دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ نماز کے فرض ہونے کا انکار نہ کرے۔

➌ بے نمازی کی نمازِ جنازہ:

◈ حدیث و سنت کی روشنی میں یہ بات ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے کسی بے نمازی کی نمازِ جنازہ پڑھی ہو۔
◈ لہٰذا، ان روایات کے پیشِ نظر اور صحابہ کرامؓ کے طرز عمل کی روشنی میں، بے نمازی کی نمازِ جنازہ پڑھنا ثابت نہیں۔

نتیجہ

◈ نماز چھوڑنے والا اگر انکار کرے، تو وہ کافر ہے۔
◈ اگر وہ سستی یا غفلت کی وجہ سے نماز چھوڑے، تب بھی بہت خطرناک حالت میں ہے، اور بعض اہلِ علم کے مطابق کفر کی حد تک جا سکتا ہے۔
◈ اور ایسے شخص کی نمازِ جنازہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1