جمعہ کی دو اذانیں: کیا یہ عمل صحیح ہے؟ سنت نبوی ﷺ اور صحابہ کا طرز عمل
سوال:
ہماری پوری زندگی میں ہم نے جمعہ کے دن دو اذانیں ہوتے دیکھی ہیں، ایک اذان خطبہ جمعہ سے قبل اور دوسری اذان خطبے سے فوراً پہلے دی جاتی ہے۔ ہم خود بھی اسی پر عمل پیرا ہیں۔ کیا یہ عمل درست ہے؟ اگر یہ عمل سنت نبوی ﷺ سے ثابت نہ ہو بلکہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے عمل سے ثابت ہو تو پھر اس پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺ، خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، اور خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مبارک ادوار میں جمعہ کے لیے صرف ایک ہی اذان دی جاتی تھی۔ جیسا کہ صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں واضح تصریح موجود ہے:
(بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الاذان یوم الجمعۃ)
لہٰذا، جمعہ کے لیے ایک اذان دینا سنت نبوی ﷺ، سنت خلفائے راشدین اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہے۔
مولانا عبیداللہ صاحب عفیف کے مضمون پر وضاحت
مولانا عبیداللہ صاحب عفیف نے جریدہ "الاعتصام” میں ’’جمعہ کی پہلی اذان کا شرعی حکم‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر فرمایا۔ اس مضمون کی چاروں اقساط کو بغور مطالعہ کیا گیا، جو کہ ہر لحاظ سے بہترین اور محققانہ انداز میں لکھی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا صاحب کو اس پر جزائے خیر عطا فرمائے اور مزید ایسے تحقیقی مضامین تحریر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا
اس ملاقات میں ایک خاص نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، جو کہ "خدشہ نمبر ۲” سے متعلق ہے۔ مولانا صاحب نے اس کے جواب میں لکھا:
"ہمارے نزدیک اس عبارت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ امام بخاری، امام ابوداود اور امام نسائی رحمہم اللہ تعالیٰ کے عہد میں اذانِ عثمانی کو قبول عام ہو گیا تھا، چنانچہ صاحب المنہل العذب المورود…” (الاعتصام)
یہ بیان اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب "فثبت الامر علی ذلک” کے الفاظ امام بخاری، امام ابوداود یا امام نسائی رحمہم اللہ کے ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ان ائمہ میں سے کسی نے بھی نہیں کہے۔ حدیث کے سیاق و سباق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان الفاظ کے قائل خود حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (راوی حدیث) ہیں۔
اختتامیہ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب