کیا گیارہ رکعات سے زائد نفل نماز پڑھنا جائز ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 226

سوال

صحیح بخاری میں رسول اللہ ﷺ سے رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ رات کی نماز کی نفی وارد ہے۔ تو کیا تہجد یا تراویح کے علاوہ مزید نفل نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، جیسا کہ عام طور پر لوگ نوافل پڑھتے ہیں؟ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری میں وارد حدیث سے جس میں رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد رات کی نماز کا ذکر نہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ "صلاۃ اللیل” کی وہ رکعات جو نبی کریم ﷺ مستقل معمول کے طور پر ادا فرماتے تھے، ان کی تعداد گیارہ تھی۔

لیکن یہ نفی صرف ان مخصوص رکعات کی ہے جو باقاعدہ قیام اللیل یا تہجد کے طور پر ادا کی جاتی تھیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گیارہ رکعات سے زیادہ نماز پڑھنا مطلقاً ناجائز یا منع ہے۔

درحقیقت، نبی اکرم ﷺ کی رات کی نماز کے حوالے سے:

افتتاحی دو رکعات (تہجد سے پہلے کی ہلکی رکعات)

وتر کے بعد کی دو رکعات (جو بعض روایات میں آتی ہیں)

یہ چار رکعات ایسی ہیں جو دیگر صحیح احادیث سے بھی ثابت ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ گیارہ سے زائد رکعات کی نفی ان اضافی رکعات کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ تہجد کی اصل تعداد کے ضمن میں ہے۔

مزید یہ کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جو بیان ہے، جس میں گیارہ رکعات کا ذکر ہے، وہ بھی اسی مفہوم کو واضح کرتا ہے کہ نبی ﷺ کا معمول گیارہ رکعات پر تھا، اور یہی معمول رمضان اور غیر رمضان دونوں میں یکساں تھا۔

آپ اگر "مشکوٰۃ کا باب صلاۃ اللیل” اور "صحیح مسلم” کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی، إن شاء الله سبحانه وتعالى۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1