سوال
دن رات کی نفلی عبادات میں کیا کوئی شخص جتنے چاہے نوافل پڑھ سکتا ہے، یا صرف وہی تعداد نوافل پڑھنے چاہئیں جو رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے؟ کیا اس سے زیادہ نوافل پڑھنا جائز نہیں؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم ﷺ کی سنت سے جو نفلی عبادات کی تعداد ثابت ہے، اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس مقررہ تعداد سے تجاوز کرنا مناسب نہیں۔ اس بارے میں صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ کی فصل اول میں حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیثوں کا مطالعہ ضرور کریں۔
حدیث مبارکہ
«عَنْ اَنَسٍ قَالَ جائَ ثَلٰثَةٌ رَهْطٍ اِلٰی اَزْوَاجِ النَّبِیِّﷺيَسْأَلُوْنَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِیِّ ﷺفَلَمَّا أُخْبِرُوْا بِهَا کَاَنَّهُمْ تَقَالُّوْهَا فَقَالُوْا اَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ وَقَدْ غَفَرَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه وَمَا تَأَخَّرَ فَقَالَ اَحَدُهُمْ اَمَّا اَنَا فَاُصَلِّیْ اللَّيْلَ اَبَدًا وَقَالَ الْآخَرُ اَنَا اَصُوْمُ النَّهَآرَ اَبَدًا وَلاَ اُفْطِرُ وَقَالَ الآخَرُ اَنَآ اَعْتَزِلُ النِّسَائَ فَلاَ اَتَزَوَّجُ اَبَدًا فَجَائَ النَّبِیُّ اِلَيْهِمْ فَقَالَ اَنْتُمُ الَّذِيْنَ قُلْتُمْ کَذَا کَذَا اَمَّا وَاﷲِ اِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰهِ وَاَتْقَاکُمْ لَه لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَيْسَ مِنِّیْ»
(متفق عليه، مشكوة المصابيح، جلد 1، صفحہ 27)
ترجمہ حدیث
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تین آدمی نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس آئے اور نبی ﷺ کی عبادات کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔ جب انہیں نبی ﷺ کی عبادات کے متعلق بتایا گیا تو انہوں نے ان عبادات کو کم سمجھا۔ ان کا کہنا تھا: "ہم نبی ﷺ سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں، حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیے ہیں؟”
- ان میں سے ایک شخص نے کہا: "میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔”
- دوسرے نے کہا: "میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا۔”
- تیسرے نے کہا: "میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔”
پھر نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
"کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی ایسی باتیں کہی ہیں؟ سنو! اللہ کی قسم، میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ تقویٰ رکھنے والا ہوں۔ مگر میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے منہ موڑا، وہ مجھ سے نہیں ہے۔”
خلاصہ کلام
یہ حدیث مبارکہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عبادات میں افراط و تفریط کی بجائے سنت نبوی ﷺ کی پیروی ہی اصل نجات کا راستہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی جو عبادات میں مبالغہ کرنا چاہتے تھے اور آپ ﷺ نے اپنی سنت کے مطابق متوازن عبادات کو اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب