سوال
وتر کی نماز میں رکوع سے پہلے قنوت کے بارے میں آپ نے یہ تحریر فرمایا کہ:
"رکوع سے پہلے قنوت دعا کے انداز میں نیز کسی اور انداز میں ہاتھ اٹھائے بغیر پڑھی جائے گی، پھر اللہ اکبر کہے بغیر پڑھی جائے گی۔”
اب وضاحت طلب بات یہ ہے کہ:
❀ "دعا کے انداز میں” سے آپ کی کیا مراد ہے؟
❀ "ہاتھ نہ اٹھانے” سے کیا مراد ہے؟
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہم نماز کے علاوہ عام طور پر دعا کے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں، اسی طرح ہاتھ اٹھا کر دعا پڑھی جائے گی؟
یا پھر ایسے کہ جیسے تلاوت کرتے وقت ہاتھ بندھے ہوتے ہیں، اسی حالت میں قنوت شروع کر دی جائے گی؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس فقیر الی اللہ الغنی نے جو عبارت لکھی تھی:
"رکوع سے پہلے قنوت دعا کے انداز میں نیز کسی اور انداز میں ہاتھ اٹھائے بغیر پڑھی جائے گی، پھر اللہ اکبر کہے بغیر پڑھی جائے گی۔ بس سورت یا آیات کی قراءت ختم ہوتے ہی تکبیر کہے بغیر اور ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء قنوت پڑھنی شروع کر دے۔”
یہ عبارت اپنے مفہوم و مدلول میں واضح بلکہ بالکل صاف ہے۔ اس کے باوجود آپ نے وضاحت طلب کی، جسے ہم خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے مکتوب میں سوال اٹھایا کہ:
"دعا کے انداز میں” سے کیا مراد ہے؟
"ہاتھ نہ اٹھانے” کا کیا مطلب ہے؟
تو اس کا جواب درج ذیل ہے:
❀ "دعا کے انداز میں” سے مراد ہے وہ انداز ہاتھ اٹھانے کا جو عام طور پر دعاء کے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔
❀ اور "ہاتھ نہ اٹھانے” سے مراد ہے کہ ہاتھ بالکل نہ اٹھائے جائیں۔
یعنی:
❀ نماز میں قنوت پڑھتے وقت وہ انداز اختیار نہیں کیا جائے گا جو ہم عام دعا کرتے وقت اختیار کرتے ہیں (یعنی ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا)۔
❀ بلکہ قنوت پڑھتے وقت ہاتھ بندھے ہی رہیں گے جیسے قراءت کے دوران بندھے ہوتے ہیں، اور اسی حالت میں قنوت کی دعا شروع کر دی جائے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب