سوال
کیا تعویذ کرنے والا آدمی، جھوٹ بولنے والا آدمی، یا جادو کرنے والا آدمی ان میں سے کوئی بھی امامت کروا سکتا ہے یا نہیں؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تعویذ کا حکم:
◈ تعویذ (چاہے وہ قرآنی و حدیثی ہو یا غیر قرآنی و غیر حدیثی) رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔
◈ یعنی تعویذ کا عمل بذاتِ خود سنت یا شریعت سے دلیل نہیں رکھتا۔
کفریہ و شرکیہ تعویذات کرنے والے کی امامت:
◈ جو شخص کفریہ یا شرکیہ تعویذات کرتا ہے، وہ امامت کے قابل نہیں۔
◈ کیونکہ کفر اور شرک اپنی اصل میں ناقابلِ معافی اعمال ہیں اور ان کا ارتکاب کرنے والا اسلام کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔
جادو کرنے والے کی امامت:
◈ جادو کرنے والا بھی امامت کے لائق نہیں ہے، کیونکہ جادو قرآن کریم کی رو سے کفر ہے۔
◈ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیَاطِیْنُ﴾ (البقرۃ: 102)
"اور انہوں نے پیروی کی جو پڑھا شیطانوں نے”
◈ اس آیتِ کریمہ میں واضح طور پر جادو کو کفر قرار دیا گیا ہے، لہٰذا ایسا شخص جو جادو کرے، وہ امامت نہیں کروا سکتا۔
جھوٹ بولنے والے کی امامت:
◈ جو شخص کبھی کبھار جھوٹ بولتا ہے، وہ کبھی کبھار جماعت کی امامت کروا سکتا ہے۔
◈ ایسا شخص مستقل امام نہیں بن سکتا، کیونکہ امامت کے لیے تقویٰ، صداقت اور دیانت ضروری صفات میں شامل ہیں۔
خلاصہ:
◈ کفریہ یا شرکیہ تعویذات کرنے والا → امامت کا اہل نہیں۔
◈ جادوگر → امامت کا اہل نہیں۔
◈ کبھی کبھار جھوٹ بولنے والا → عارضی طور پر جماعت کی امامت کروا سکتا ہے، لیکن مستقل امام نہیں بن سکتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(یہی میری رائے ہے، اور صحیح علم اللہ کے پاس ہے)