نماز ظہر کی سنن راتبہ یا مؤکدہ سنتیں: نماز ظہر کی سنن راتبہ یا مؤکدہ سنتوں کی تعداد کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کی احادیث ثابت ہیں۔ بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ ان کی کل تعداد صرف چار ہے، دو فرضوں سے پہلے اور دو بعد میں، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها
جامع الاصول 17/7، نیل الاوطار 14/3/2
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو اور ظہر کے بعد دو سنتیں پڑھیں
بعض دیگر احادیث سے ان کی تعداد چھ معلوم ہوتی ہے، چار پہلے اور دو بعد میں، جیسا کہ مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی مروی حدیث میں ہے: چار ظہر سے پہلے اور دو بعد میں۔
نیل الاوطار 16/3/2، مختصر مسلم ص 102
اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسلم شریف میں مروی ہے:
وكان يصلي فى بيتي قبل الظهر أربعا ثم يخرج فيصلي بالناس ثم يدخل فيصلي ركعتين
مشکاة 322/1، تحقیق الالبانی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار سنتیں پڑھا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعتیں پڑھتے
ظہر سے پہلے کی چار اور دو سنتوں والی تمام احادیث ہی صحیح اور قوی ہیں اور ان کے مابین کوئی تعارض بھی نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: بہتر یہ ہے کہ ان روایات کو اس چیز پر محمول کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے کبھی چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو۔ ان دو طرح کی احادیث کو اس چیز پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں دو رکعتیں پڑھ لیتے اور گھر میں پڑھتے تو چار پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جیسے دیکھا ویسا بیان کر دیا۔ جبکہ ابوجعفر طبری فرماتے ہیں کہ ظہر سے پہلے اکثر اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار سنتیں پڑھتے تھے اور قلیل اوقات میں (کبھی کبھی) دو پر ہی اکتفا کر لیتے تھے۔
نیل الاوطار 15/3/2، تحفہ الاحوذی 496/2
ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد، مستدرک حاکم اور شرح السنہ بغوی میں ارشاد نبوی ہے:
من حافظ على أربع ركعات قبل الظهر وأربع بعدها حرمه الله على النار
جامع الاصول 18/7، نیل الاوطار 16/3/2، شرح السنہ 464/3 و قال محققوه هو حدیث صحیح مجموع طرقه وصححه الالبانی فی المشکاة 368/1
جو شخص چار ظہر سے پہلے اور چار بعد میں ہمیشہ پڑھے گا، اللہ اسے آگ پر حرام کر دے گا
اس حدیث سے ظہر کے بعد بھی چار رکعتوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ الغرض وقت اور گنجائش جیسی ہو ویسے ہی کیا جا سکتا ہے، دونوں طرف صحیح احادیث موجود ہیں۔
ظہر کی پہلی چار سنتوں کو ایک سلام سے پڑھنے کے بارے میں ابوداؤد، ابن ماجہ اور شمائل ترمذی میں ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چار سنتوں کے مابین سلام نہیں پھیرتے تھے، یعنی چاروں رکعتوں کو ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ اس حدیث کو خود امام ابوداؤد نے ہی ضعیف قرار دیا ہے۔
شرح السنہ 465/3
یہی حدیث موطا امام محمد میں بھی ایک دوسری سند سے مروی ہے، مگر وہ بھی ضعیف ہے۔ کبار محدثین میں سے امام ابوداؤد، ابن خزیمہ، امام نسائی، ابن معین، امام احمد اور ابوزرعہ نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ان سنتوں کو دو سلاموں سے دو دو رکعتیں کر کے پڑھنے کے بارے میں سنن اربعہ، صحیح ابن خزیمہ، ابن حبان اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
صلوة الليل والنهار مثنى مثنى
شرح السنہ 469/3، تحفہ الاحوذی 297/2
رات اور دن کی (نفلی) نماز دو دو رکعتیں کر کے ہے
یہ حدیث تو بخاری و مسلم میں بھی ہے، مگر وہاں دن کا ذکر نہیں، بلکہ صرف رات کی نماز کا ہے۔ البتہ بخاری (201/2) میں بیہقی بن سعید انصاری تابعی سے تعلیقی روایت ہے:
ما أدركت فقهاء أهل المدينة إلا يسلمون فى كل ركعتين من سنن النهار
بحوالہ تحقیق شرح السنہ 469/3
میں نے اپنے علاقے (مدینہ منورہ) کے فقہاء کو دیکھا ہے کہ وہ سب دن میں ہر دو رکعتوں (سنن و نوافل) کے بعد سلام پھیرتے تھے
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں سنن کی اس روایت میں دن کے اضافے پر کلام کیا اور امام نسائی و ابن معین نے بھی کلام کیا ہے۔ چونکہ دونوں طرح کی احادیث متکلم فیہ ہیں، لہذا علامہ عبدالرحمن نے تحفہ الاحوذی 498/2 میں لکھا ہے کہ کوئی ایک سلام سے چاروں رکعتوں کو اکٹھی پڑھ لے یا دو سلاموں سے دو دو کر کے پڑھ لے، دونوں طرح ہی جائز ہے۔ ظہر کی پہلی سنتیں بھی اگر فرضوں سے پہلے نہ پڑھی جاسکیں تو انہیں فرضوں کے بعد پڑھ لیں، کیونکہ ترمذی وابن ماجہ میں جید سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
وإن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا لم يصل أربعا قبل الظهر صلاهن بعده
نیل الاوطار 26/3/2، تحفہ الاحوذی 499/2
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھ پاتے تو انہیں بعد میں پڑھ لیتے تھے
ابن ماجہ میں ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فاتته الأربع قبل الظهر صلاهن بعد الركعتين بعد الظهر
نیل الاوطار 26/3/2، تحفہ الاحوذی 499/2
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر سے پہلے والی چار رکعتیں رہ جاتیں تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد والی دو سنتوں کے بعد پڑھ لیتے تھے
اگر کبھی ظہر کے بعد والی دو سنتیں قضاء ہو جائیں اور عصر کا وقت ہو جائے تو وہ عصر کے بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں، جیسا کہ بخاری و مسلم وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مروی ہے۔
انظر النیل 27/3/2
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہمیشہ پڑھتے رہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، جیسا کہ مسلم و نسائی میں ہے:
ثم داوم وكان إذا صلى صلاة داوم عليها
النیل 28/3/2
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسلسل پڑھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی کام کرتے تو اس پر ہمیشگی فرماتے۔
نماز عصر کے ساتھ کوئی مؤکدہ سنت نماز نہیں، البتہ غیر مؤکدہ سنتیں ہیں جن کا تذکرہ آگے آنے والا ہے۔