بار بار پیشاب آنے کی حالت میں نماز اور امامت کا حکم
سوال کا پس منظر:
ایک شخص کے متعلق دریافت کیا گیا ہے جو پہلے صحت مند تھا، لیکن اب کچھ دنوں سے بار بار پیشاب آنے کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ وہ وضوء بڑے اطمینان سے کرتا ہے، مکمل صفائی کا اہتمام کرتا ہے، مگر جب سجدے میں جاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چند قطرے پیشاب کے خارج ہو گئے ہوں۔ باوجود مکمل صفائی اور کوشش کے، نماز کے دوران یہ پریشانی اسے لاحق ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
◈ ایسی حالت میں کیا اس کی نماز درست ہے؟
◈ کیا وہ شخص امامت بھی کرا سکتا ہے؟
◈ اس کا شریعت کی روشنی میں مفصل حل کیا ہے؟
جواب: قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی وضاحت
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
جس شخص کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے، اس کی حالت دو صورتوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے:
1. اگر یہ حالت کبھی کبھار پیش آتی ہو:
◈ اگر پیشاب کے قطرے صرف بعض اوقات آتے ہوں اور مسلسل نہ ہوں تو اس صورت میں:
➊ جب قطرہ نکلے، وضوء ٹوٹ جائے گا۔
➋ نماز سے پہلے نیا وضوء کرنا لازمی ہوگا۔
➌ اس کے بغیر نماز پڑھنا درست نہیں۔
2. اگر یہ حالت مسلسل اور دائمی ہو:
◈ اگر قطرے بار بار آتے رہتے ہیں اور وقفہ اتنا کم ہو کہ وضوء اور نماز کا وقت مکمل طور پر پاکیزگی میں نہ گزر سکے، تو یہ "معذور” کی حالت کہلائے گی۔
اس صورت میں:
➊ ہر نماز کے وقت نیا وضوء کرے۔
➋ اسی وضوء سے فرض اور نفل نمازیں ادا کر سکتا ہے۔
➌ وضوء ٹوٹنے کا اثر نئی نماز کے وقت تک نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ مخصوص وقت ختم نہ ہو جائے۔
حوالہ: استحاضہ والی عورت کی مثال
ایسی صورت میں شریعت نے استحاضہ (یعنی غیر حیض خون جاری رہنے) والی عورت کا حکم بیان کیا ہے، جیسا کہ احادیث میں موجود ہے کہ:
❀ "وہ عورت ہر نماز کے لیے وضوء کرے، اور نماز ادا کرے۔”
اسی قیاس پر، پیشاب کے قطرے بار بار آنے والا مرد بھی ہر نماز کے وقت نیا وضوء کرے، یہی اس کی طہارت سمجھی جائے گی۔
امامت کا حکم:
◈ ایسا شخص امامت کرا سکتا ہے۔
◈ کیونکہ جب وہ ہر نماز کے لیے وضوء کرتا ہے، تو وہ شریعت کے مطابق پاکیزہ شمار ہوتا ہے۔
◈ شریعت نے ایسی حالت والے کو نماز سے روکا نہیں، بلکہ وضوء کے ذریعے عبادت کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
نتیجہ:
➊ اگر یہ کیفیت وقتی ہو، تو قطرہ نکلنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اور نماز سے پہلے دوبارہ وضوء ضروری ہوتا ہے۔
➋ اگر یہ کیفیت مسلسل ہو، تو وہ شخص ہر نماز کے وقت نیا وضوء کرے اور نماز ادا کرے۔
➌ اس حالت میں نماز درست ہے اور وہ شخص امامت بھی کرا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب