مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے – حدیث، قرآن، اور راوی کی تحقیق
سوالات:
➊ کیا بخاری شریف کی حدیث "مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے” خبرِ واحد (یعنی صرف ایک راوی سے مروی روایت) ہے؟ اور کیا خبرِ واحد عقائد کے معاملے میں قابلِ حجت نہیں ہوتی؟
➋ کیا حدیث خَفْقَ النِّعَالِ (جوتوں کی آواز سننے کی حدیث) قرآن کی ان آیات کے خلاف ہے:
- ﴿لاَ یَسْمَعُوْا دُعَآئَکُمْ﴾
- ﴿اِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾
- ﴿وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ﴾
اور کیا ان آیات کی بنا پر یہ حدیث منسوخ سمجھی جائے گی؟
➌ حدیث خَفْقَ النِّعَالِ کے راوی عبدالاعلیٰ کی بابت وضاحت کریں۔ خاص طور پر ابن ماجہ میں وارد روایت کہ آیت رجم اور آیت رضاعِ کبیر بکری کھا گئی، اس راوی اور اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) کیا یہ حدیث خبر واحد ہے، اور کیا خبر واحد عقیدہ میں حجت ہے؟
- جی ہاں، یہ حدیث خبرِ واحد ہے۔
- البتہ اصولِ حدیث اور اصولِ عقیدہ کے مطابق، خبرِ واحد اگر درجہ ثبوت تک پہنچ جائے، تو وہ عقائد کے باب میں بھی حجت بن سکتی ہے۔
- مذکورہ حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے اور صحیح روایت ہے، لہٰذا اس پر عقیدہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
(2) کیا یہ حدیث قرآن کی ان آیات کے خلاف ہے؟
مذکورہ حدیث کا متن ہے کہ مردہ انسان اپنے دفن کرنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
اب قرآن مجید کی جن آیات کو حدیث کے خلاف سمجھا جا رہا ہے، ان کی وضاحت درج ذیل ہے:
- ﴿لاَ یَسْمَعُوْا دُعَآئَکُمْ﴾ (فاطر: 14): وہ تمہاری پکار نہیں سنتے۔
- ﴿اِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ (الروم: 52): بیشک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
- ﴿وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ﴾ (فاطر: 22): اور تم قبر والوں کو نہیں سنا سکتے۔
ان تمام آیات میں عام حالات کی بات کی گئی ہے کہ مردے لوگوں کی باتیں، پکار، دعوت یا نصیحت نہیں سن سکتے۔
جبکہ حدیث میں مخصوص حالت بیان کی گئی ہے:
- دفن کے بعد انسان جب واپس لوٹتے ہیں تو مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
اس لیے:
- حدیث اور آیات میں کوئی تعارض نہیں۔
- قرآن میں میت کے "خَفْقَ النِّعَالِ” (جوتوں کی آواز) کو سننے کی نفی نہیں کی گئی۔
- یاد رکھیں، نسخ اسی وقت ہوتا ہے جب تعارض ہو، اور یہاں کوئی تعارض یا مخالفت نہیں پائی جاتی، اس لیے نسخ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(3) عبدالاعلیٰ نامی راوی اور ابن ماجہ والی روایت کی تحقیق
- حدیث خَفْقَ النِّعَالِ صحیح بخاری میں موجود ہے، کِتَابُ الْجَنَائِزِ، بَابُ الْمَیِّتِ یَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ کے تحت اس کی ایک سند میں عبدالاعلیٰ نامی راوی موجود ہے۔
- تاہم، بخاری شریف میں اس حدیث کی ایک اور سند بھی ہے جس میں عبدالاعلیٰ شامل نہیں۔
- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث عبدالاعلیٰ پر منحصر نہیں بلکہ دیگر ثقہ راویوں سے بھی مروی ہے، جو حدیث کی صحت پر دلیل ہے۔
جہاں تک ابن ماجہ کی روایت کا تعلق ہے:
- ابن ماجہ میں ایک روایت ہے کہ: "آیت رجم اور آیت رضاع کبیر کو بکری کھا گئی”
- اس روایت میں عبدالاعلیٰ راوی شامل ہے۔
- اس مخصوص روایت پر محدثین نے کلام کیا ہے، اور اس کی سند کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
مگر یہ بات ذہن نشین رہے:
- عبدالاعلیٰ کا کسی ضعیف روایت میں ہونا، کسی دوسری روایت کی صحت کو باطل نہیں کرتا، جب کہ وہ روایت دیگر ثقہ اسناد سے بھی مروی ہو، جیسا کہ بخاری کی حدیث خَفْقَ النِّعَالِ میں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب