قبر کے عذاب کے منکرین کے شبہات اور ان کا جواب
سوال کا خلاصہ:
کچھ لوگ عذابِ قبر کا انکار کرتے ہیں اور جب ان کے سامنے صحیح احادیث پیش کی جاتی ہیں تو وہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان احادیث سے (نعوذ باللہ) قرآنِ پاک پر افتراء لازم آتا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اگر عذابِ قبر کوئی حقیقت رکھتا ہے، تو پھر سورۃ یٰسین کی یہ آیت کیسے سمجھی جائے:
﴿قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا﴾
ان کے مطابق "مرقد” ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں سکون اور آرام ہو، جبکہ قبر میں عذاب ہو رہا ہو تو اسے "مرقد” کیسے کہا جا سکتا ہے؟
اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ روح کوئی مادی چیز نہیں بلکہ صرف اللہ کا "امر” ہے، اس کی کوئی ہیئت، شکل یا وجود نہیں۔
مزید یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ صحیح بخاری میں ایک حدیث موجود ہے جس میں (نعوذ باللہ) بیان ہوا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام مرتد ہو گئے تھے، اور اس حدیث کے قائلین کے مطابق ان صحابہ سے مراد کبار صحابہ ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک جو حدیث قرآن سے متصادم ہو وہ رد کر دی جاتی ہے، اور اسی اصول کے تحت وہ عذابِ قبر کا بھی انکار کرتے ہیں۔
جواب
عذاب قبر اور آیتِ مبارکہ: ﴿مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا﴾
◈ قرآنِ مجید کی آیت ﴿مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا﴾ سے نہ عذابِ قبر کی نفی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل ملتی ہے۔
◈ "مرقد” کی تشریح کہ وہ صرف آرام کی جگہ ہوتی ہے، یہ بات لغوی، شرعی یا حدیثی کسی بھی حوالے سے ثابت نہیں۔
◈ مرقد کا مطلب قبر ہے، اور حشر کے میدان کے سامنے قبر کو انسان کی نسبت سے ایک وقتی آرام گاہ کہا گیا ہے، جس سے عذابِ قبر کی نفی نہیں ہوتی۔
عذاب قبر کی احادیث اور قرآن
◈ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر احادیث کی معتبر کتب میں عذابِ قبر اور ثوابِ قبر سے متعلق کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔
◈ ان احادیث کا قرآنِ مجید سے کوئی تصادم نہیں ہے، نہ ہی یہ احادیث قرآن پر افتراء کے مترادف ہیں۔
◈ ان احادیث کو مستند اور قابلِ قبول سمجھنا چاہیے، کیونکہ ان سے قرآن کی کسی بات کی مخالفت نہیں ہوتی۔
روح کا مفہوم
◈ قرآن مجید میں ہے:
﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾
◈ یعنی "روح میرے رب کے امر میں سے ہے۔”
◈ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ "روح صرف اللہ کا امر ہے اور اس کی کوئی شکل یا وجود نہیں”؛ یہ بات بے بنیاد ہے کیونکہ آیت میں "مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ” فرمایا گیا ہے، نہ کہ "إِنَّمَا الرُّوْحُ أَمْرُ رَبِّیْ”۔
◈ "مِنْ” اور "إِنَّمَا” کے استعمال میں فرق ہے، اور یہ فرق معنی میں بھی اہم ہے۔ لہٰذا انکار کی بنیاد غلط تعبیرات پر ہے۔
صحابہ کے بارے میں حدیث کا اعتراض
◈ آپ نے جو سوال کیا ہے کہ: "کیا بخاری شریف میں کوئی حدیث ہے جس میں (نعوذ باللہ) صحابہ کرام کی ارتداد کی بات کی گئی ہو؟”
◈ ایسی کوئی حدیث میرے علم میں نہیں جس میں واضح طور پر کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی بابت ایسا بیان ہو۔
◈ یہ بات کہ "جو حدیث قرآن سے ٹکرائے وہ غلط ہے”، قرآنِ مجید کی کون سی آیت میں موجود ہے؟ ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔
◈ اور جیسا کہ واضح ہو چکا، عذابِ قبر سے متعلق احادیث قرآن کے خلاف نہیں ہیں، کیونکہ قرآن میں اس کی کوئی نفی موجود نہیں۔
نتیجہ
◈ عذاب قبر کا تصور قرآن و سنت دونوں میں موجود ہے اور اس کا انکار محض غلط فہمیوں اور ناقص تعبیرات پر مبنی ہے۔
◈ قرآن مجید میں کہیں بھی عذابِ قبر کی صراحتاً یا ضمنی طور پر نفی نہیں کی گئی۔
◈ مرقد کا مطلب صرف "آرام” کی جگہ لینا غیر مستند تعبیر ہے۔
◈ روح کے بارے میں قرآنی آیت کو غلط طریقے سے پیش کر کے عقائد کی بنیاد رکھنا درست نہیں۔
◈ کبار صحابہ کے بارے میں ارتداد کی حدیث کا حوالہ دینا علمی خیانت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایسی کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب